(Last Updated On: )
امیر حماد نے ہلکے سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔
نوشین نے جھمکے اتار کر ٹیبل پر رکھے اور سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوۓ ٹیکے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جب دستک کی مانوس سی آواز پر ماتھے کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔۔۔۔۔۔
اور دھڑکن تھم سی گئ۔۔۔۔
اس نے بے یقین نظروں سے بند دروازے کو دیکھا۔۔۔۔ “نہیں, یہ وہ نہیں ہیں۔۔۔ “
امیر حماد دیوار پر ہاتھ رکھے, سر کو ہاتھ کی پشت پر ٹکاۓ, کسی ایسے تھکے ہوۓ مسافر کی طرح کھڑے تھے, جو میلوں چلا ہو۔۔۔۔۔ اور منزل,, بے نشان ہو۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلنے پر انہوں نے دیکھا۔۔۔۔ منزل سامنے تھی۔ مگر, کیا وہ ان کی دسترس میں تھی ؟ ۔۔۔ “نہیں۔۔۔ ” انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
نوشین فیضان علی شاہ۔۔۔ وہ سامنے سر تا پاسجی سنوری کھڑی تھی۔۔۔ پیلے فراک اور چوڑی دار پاجامے میں۔۔۔ جگمگ کرتے لباس کی چمک چہرے کو خیرہ کرتی ہوئ۔۔۔۔ بالوں کا پراندہ کندھے پر ڈالے کسی مہندی کی دلہن کی طرح وہ کھڑی تھی۔ امیر حماد کی نظریں اس کے ٹیکے سے الجھ کر رہ گئیں۔۔۔
اور وہ۔۔۔ از حد حیران تھی امیر حماد کو یوں اپنے سامنے ۔۔۔ اپنے پاس دیکھ کر۔۔ اس نے ان کے حلیے کو دیکھا۔ سرخ آنکھیں, بکھرے حلیے کے ساتھ وہ اس امیر حماد سے بہت مختلف لگ رہے تھے جنہیں وہ شروع سے اس حویلی میں دیکھتی آئی تھی۔۔۔ اس نے سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس امیر حماد کے وجیہہ سراپے کو دیکھا, جو آج بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ اور ابھی کل کی ہی تو بات تھی۔ وہ,, ایسے ہی بکھرے حلیے, سرخ آ نکھوں اور آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ ان کی دہلیز پر گئ تھی۔۔ مگر انہوں نے کیا کیا تھا۔۔۔ اس کے بے حال وجود سے نظریں چراتے ہوۓ رخ موڑ لیا تھا۔۔۔ اور کیا بولے۔۔۔ ؟
“جاؤ نوشین فیضان علی شاہ۔۔۔ تمہیں خرم احسان علی شاہ کے سنگ زندگی کی تمام خوشیاں نصیب ہوں۔۔ اور کل خرم احسان علی شاہ کے ساتھ رخصت ہوتے ہوۓ تمہارے دل و دماغ میں کسی امیر حماد کا کوئ نام تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ “
وہ تکلیف کی شدت اور خوف کے غلبے سے کانپ اٹھی تھی۔۔۔ اس وقت وہ اسے سفید شلوار قمیص, کندھے پر چادر ڈالے کسی سخت دل وڈیرے کی طرح لگے۔۔۔۔
وہ انہیں کہنا چاہتی تھی۔۔۔
“امیر حماد میری زندگی سب خوشیاں خرم احسان سے نہیں آ پ سے مشروط ہیں۔۔۔ میں خرم احسان سے نہیں , آ پ سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ خرم احسان علی شاہ نہیں, آ پ میری منزل ہیں۔۔۔ میں وہ نوشین فیضان علی شاہ نہیں ہوں جو کبھی خرم احسان علی شاہ کی ہوا کرتی تھی۔۔۔ اس سے وابستہ تھی۔۔ اس کی امانت اور زندگی تھی۔۔ میں وہ نہیں ہوں جو آ ج مجھے بنایا گیا۔۔۔ بابا سائیں اور آ پ نے مل کر جو میری قسمت لکھی ہے۔۔ میں وہ زندگی نہیں جینا چاہتی۔۔۔۔۔ “
مگر وہ شخص, جسے اس نے چاہا, جس کا ہمیشہ ایک نرم اور مہربان روپ دیکھا, آ ج وہ چہرہے پر ڈھیروں سرد مہری اور رویے میں عجیب سختی لیے بالکل اجنبی بنا کھڑ ا تھا۔۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی۔۔۔ ” آ پ کی یہ دعا میرے لیے بد دعا سے بد تر ہے۔۔۔۔۔ “
مگر وہ کچھ نہیں بولی۔۔۔ خاموشی سے پلٹ گئ۔
کہ سامنے کھڑے امیر حماد اس کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ وہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ وہ انہیں بالکل نہیں جانتی تھی۔۔۔۔
مگر آ ج۔۔۔۔۔۔۔
وہ کس ٹوٹے بکھرے حلیے میں اس کی دہلیز پر آۓ تھے۔۔۔ تب جب ان کی دعا قبول ہونے جا رہی تھی۔ جب وہ خرم احسان علی شاہ کی ہونے جا رہی تھی۔۔۔ آ ج وہ خرم احسان علی شاہ کی مہندی کی دلہن بنی تھی۔ اور رات آ ہستہ آ ہستہ سرک کر کل کی طرف جا رہی تھی جب وہ خرم احسان علی شاہ کی شریک حیات بننے والی تھی۔۔۔
“امیر حماد ۔۔۔۔؟؟” اس نے حیرت و بے یقینی سے انہیں پکارا تو وہ ایکدم چونکے۔۔۔
وہ ان کو پکار رہی تھی۔۔۔ ان کا نام لے رہی تھی۔۔۔ جلتے وجود میں ٹھنڈک کی لہر سی گزر گئ۔ وہ وارفتگی سے اسے دیکھے گۓ۔۔۔۔
“امیر حماد! ۔۔ کچھ کہنا ہے۔۔۔۔ ؟”
“میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا نوشین۔۔۔ ایسے ہی سمجھ جاؤ نا۔۔۔ بنا کہے۔۔۔”وہ عجیب کرب سے بولے
نوشیںن نے سختی سے لب بھینچ لۓ۔
“مجھے خرم احسان کی قسمت میں آپ نے اور بابا سائیں نے مل کر لکھا۔۔۔” اس کا لہجہ پتھریلا تھا۔
انہوں نے نو شین کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک سخت سا تاثر تھا۔
“میں۔۔۔ امیر حماد۔۔۔ تم سے بے پناہ محبت کرتا ھوں نوشین “
ان کا مدھم سا لہجہ۔ نوشین کا دروازے پہ دھرا ہاتھ پھسل کر اسکے پہلو میں آ گرا۔۔۔ اور سانسیں تھم سی گئ۔۔۔۔۔ اس نے محسوس کیا جیسے دل کی دھڑکن بہت مدھم سی۔۔۔۔ نا محسوس سی ہو گئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندگی میں پہلی بار اظہار محبت، اقرار محبت کر رہے تھے۔۔۔ مگر کس موقعے پر۔۔۔
“اپنی محبت کو تو آپ دعاؤں کے ساتھ کسی اور کے سنگ رخصت کر چکے ھیں۔” اس کا لہجہ بھیگا تھا، آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کے گرنے لگے۔
“بابا سائیں کے فیصلے سے۔۔۔ میں روگردانی مر کر بھی نہیں کر سکتا۔۔۔ تمہیں تو پتا ہے نا کہ مجھے ان سے کتنی محبت ھے۔۔۔” ان کا لہجہ کتنا بے بس تھا۔
” مجھے ان کا فیصلہ ماننا ہی تھا۔۔۔ یہ بابا سائیں کے اکلوتے بیٹے کی زندگی کا معاملہ تھا۔۔۔ مجھے یہ سب اپنے ہی ہاتھوں کروانا تھا ہر صورت۔۔۔”
“کل تمہیں حتمی فیصلہ سناتے ہوئے میں نے سوچا تھا نو شین کہ میں خود پر ، اپنے جذبات پر ، اپنی محبت پر بے حسی کا ایک خول چڑھا لوں گا اور ساری عمر اس محبت کو اپنی کمزوری نہیں بننے دوں گا۔ مگر آج ۔۔۔ بے حسی کے اس خول میں دراڑیں پڑتی گئیں اور اب۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ آج کی رات میں کمزور بن جاؤں اور محبت طاقتور۔۔۔ صرف آج کی رات محبت میری کمزوری بن جائے۔ چلو آج جو وقت بچا ہے اسے ایک ساتھ گزارتے ہیں، کل تم خرم احسان کی ہو جانا اور میں پھر سے اپنے خول میں بند ہو جاؤں گا۔۔۔ “
اور نو شین۔۔۔ اس نے شدت کرب سے آنکھیں میچیں۔۔۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر موتیوں کی صورت بکھرنے لگے۔
“نہیں۔۔۔ آج نہ تم روؤں گی نہ میں۔۔ ویسے ہی ہنستے ہوۓ وقت گزاریں گے جیسے سائیں شاہ کے باغات اور نہر کے کنارے۔۔۔ ہنستے تھے، مسکراتے تھے، ڈھیر ساری باتیں کرتے تھے۔۔۔”امیر حماد نے ہاتھ بڑھایا۔۔۔ مگر اس کے وجود میں جنبش نہ ہوئ۔
انہوں نے ایک قدم آگے بڑھا کر اس کی گجرے سے سجی کلائی پکڑی اور سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھاۓ۔
۔۔۔۔۔۔
حویلی کی وسیع و عریض چھت پر اندھیرے کا راج تھا جسے اوائل ماہ کا چاند اپنی مدھم روشنی سے چیرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔
حویلی کے ساتھ پھیلا چھوڑا سا گاؤں اور تا حد نظر پھیلے وسیع و عریض باغات اور کھیت۔۔۔سب کے سب بابا سائیں کی ملکیت تھے۔ بہت پراسرار لگ رہے تھے۔۔اگر وہ اکیلی ہوتی تو ضرور ڈر جاتی مگر اس کے ساتھ امیر حماد تھے۔ جن کی موجودگی ہمیشہ اس کے لۓ سکون کا باعث تھی۔ تب بھی جب وہ اس حویلی میں آئ تھی۔۔ یہاں کے اجنبی باشندوں اور ماحول کو صرف امیر حماد کی وجہ سے سمجھ پائ تھی۔ اسے امیر حماد کی کہی گئ ایک بات یاد آ گئی تھی جو اسے ہمیشہ ڈھارس دیتی، ” میں اس حویلی میں تمہاری حفاظت کا ضامن ہوں، تم میری ذمہ داری ہو۔۔۔ اور یقین رکھو کہ تمھارے ساتھ اس حویلی میں کبھی کچھ برا نہیں ہو گا۔۔”
اور اس نے یقین کر لیا، وہ۔کہ رہے ہیں کہ کچھ برا نہیں ھو گا تو نہیں ہو گا۔
امیر حماد نے اس کا ہاتھ چھوڑا تو اس نے اپنی کلائی کی طرف دیکھا جس میں موجود گجر ان کی گرفت کی وجہ سے پتی پتی ہو کر بکھر چکا تھا۔۔۔”اوہ یہ کیا کیا؟” وہ پاس بنے چبوترے پر بیٹھتی ہوئ بولی۔ چھت کے اطراف میں جگہ جگہ بجھ چکے دئیے رکھے تھے، گلاب کی پتیاں بکھری تھیں اور دور اک سجا ہوا جھولا ساکن تھا وہ سب شام یہاں ہونے والی تقریب کا حال بتا رہے تھے، یہ حصہ عورتوں کیلئے سجایا گیا تھا۔
امیر حماد نے اپنے ہاتھوں میں ڈھیر ساری پیلی پتیوں کو دیکھا۔
” لڑکیوں کا ہاتھ پکڑنا نہیں آتا امیر حماد۔۔۔ یاد ہے ایک بار ایسے ہی میری چوڑیاں توڑ دی تھیں”
وہ دور خلا میں دیکھتے ہوئے بولی۔
امیر حماد نے اپنی جیب پر ہاتھ رکھا، رومال میں لپٹی چند کانچ کی ٹوٹی چوڑیاں۔
” ازالے کے طور پر جو نئ چوڑیاں لا کر دی تھیں وہ۔۔۔؟” امیر حماد کا ذہن بھی کہیں دور بھٹک رہا تھا، ماضی کے گلی کوچوں میں۔۔۔ یاد کی خوشنما تتلی اڑتی رہی۔۔۔ بے رنگ مناظر میں رنگ بھرتی رہی۔۔۔
۔۔
رات کے دس بج چکے تھے وہ کب سےخرم احسان علی شاہ کے انتظار میں تھی۔اماں سائیں اسے خرم احسان علی شاہ کو رات کا کھانا دینے کی ہدایت دے کر کب کی سو چکی تھیں۔ حویلی پر تاریکی اور سکوت چھایا تھا۔ تمام نفوس اپنے اپنے کمروں میں گہری نیند میں تھے۔۔ ویسے بھی حویلی پر رات جلد ہی اپنے پر پھیلا لیتی تھی۔ وہ نیم اندھیرے میں وسیع و عریض لاؤنج میں جو خوبصورتی سے سجے درودیوار اور سازوسامان کی وجہ سے عجیب طلسماتی سا تاثر دے رہا تھا ایک صوفے پر براجمان کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔۔۔
اس نے جمائ روکتے ہوئے وال۔کلاک کی جانب دیکھا اور پھر تشویش سے دروازے کی جانب۔۔
“اب تک تو آ جانا چاہئے تھا ۔۔۔” اسی اثنا میں دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا ۔۔۔ نوشیں نے محسوس نہیں کیا مگر اس کے قدموں میں نا معلوم سی لڑکھڑاہٹ تھی۔
“کتنی دیر کر دی خرم احسان۔۔۔ میرا نیند سے برا حال ہے” وہ کتاب رکھ کر اٹھی۔
“سوری نو شین۔۔۔ تمہیں ویٹ کرنا پڑا۔۔” وہ۔گرنے کے سے انداز سے صوفے پر بیٹھا۔۔۔
“کھانا لے آؤں۔۔۔؟”
“نہیں۔۔۔ بھوک نہیں ہے۔۔۔” خرم احسان کی بات پر وہ تلملا ہی تو اٹھی تھی۔۔۔ اور وہ آنکھیں بند کیۓ مزے سے نیم دراز تھا۔ نو شین نے کشن اٹھا کر اسے مارا۔
“اٹھو۔۔۔ میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں۔۔۔ دو گھنٹے کی میری نیند برباد کر دی۔۔۔ اور جو تمہارے لیے کریلے بنا کر رکھے ھیں وہ کون کھاۓ گا؟ “
احسان نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔
“واٹ؟ کریلے۔۔۔؟”ماتھے پر ہزار سلوٹیں تھیں۔۔۔
“تمہیں پتا ہے کہ میں نہیں کھاتا۔۔۔”
“آج کھانے ہوں گے۔۔۔ سزا کے طور پر ۔۔۔” وہ جتاتی ہوئ مسکراہٹ سے بولی۔۔۔ “مجھے اتنا ویٹ کروایا۔۔۔”
“میں نہیں کھاؤں گا۔۔۔”اس کا انداز بھی چیلنجنگ تھا۔
“میں لے کے آتی ہوں۔۔۔” وہ اٹھ کر کچن کی جانب بڑھی۔
“نوشین !۔۔۔ رکو” اس نے پکارا۔ “بیٹھ جاؤ۔۔” اس کی آواز میں کیا تھا ؟ وہ ٹھٹک کر رکی ۔۔۔ خرم احسان کے چہرے کا عجیب سا تاثر ۔۔۔”بیٹھو یہاں نوشی۔۔۔” نو شین اس کے سامنے ہی صوفے پر ٹک گئ۔ اسے خرم احسان کی آنکھیں سرخ نظر آئیں۔
“خرم تم ٹھیک ہو؟ تمہاری آنکھیں؟”
“ہاں میں ٹھیک ہوں۔۔۔ بلکل۔۔۔” احسان نے اس کی بات کاٹی۔
“تم میرے انتظار میں تھی؟ تم۔مجھ سے بہت محبت کرتی ہو نا۔۔۔ میں بھی تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔ جانتی ہو ناں۔۔۔ ہمارا ساتھ بچپن سے طے ہے۔۔۔”نوشین کا رنگ فق ہوا۔۔۔۔ ” ہاں احسان۔۔ مگر اس وقت تمہیں یہ سب باتیں۔۔۔۔۔۔”
“”ششششششش۔۔۔۔۔۔۔۔ “”
خرم احسان نے اسے ٹوک دیا۔۔۔
“میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔۔۔ مگر۔۔۔۔ تمہیں کھو دینے والا تھا۔۔۔ اس ایکسیڈنٹ میں۔۔ م۔۔۔ مجھے یاد ہے۔۔ میں نے دیکھا تھا۔۔۔ میری غلطی کی وجہ سے تم خون میں تر تھیں۔۔۔ مگر مجھے۔۔۔ مجھے ہوش آ نے پر کچھ یاد نہیں تھا سواۓ تمہارے۔۔۔۔ تم اندازہ لگا سکتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔۔”
وہ اس کے نزدیک ہوا۔۔۔ اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔
“نوشین مجھے یاد کرواؤ۔۔ مجھے بتاؤ, ہمارا ماضی کیسا تھا ؟۔۔
مجھے بہت پرانی ماضی کی باتیں نہیں یاد۔۔۔ میں سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا ہوں۔۔۔ مجھے یاد دلاؤ۔۔۔ ہم کیسے تھے۔۔ ؟؟””
نوشین کا رنگ سفید پڑ گیا۔۔۔
“خرم احسان۔۔۔ پہلے میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔ “
وہ اس کی اس درجہ قربت سے خائف تھی۔
“کیوں چھوڑوں؟۔۔۔۔ تم میری ہو۔۔۔۔ ” وہ ایکدم سے طیش میں آ یا تھا۔۔۔۔
نوشین نے جھٹکے سے چہرے کا رخ موڑا۔۔۔ عجیب سی مہک آ رہی تھی خرم کی سانسوں سے۔۔۔۔
“خرم۔۔۔۔ یو ڈرنک ؟؟”
وہ شاکڈ ہوئ ۔۔۔ “دور ہٹو۔۔۔ اور چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔ “اسے ایکدم غصہ آیا۔۔۔
“تم میری ہو نوشین۔۔۔ تم۔۔ تم مجھ سے اس لہجے میں بات کیوں کر رہی ہو۔۔۔ “وہ چیخا تھا۔۔۔ غصے سے اس کی آواز پھٹ سی گئ۔۔۔
“خرم۔۔۔ یہ بدتمیزی ہے۔۔۔ “
وہ چیخی۔۔۔
اسی لمحے کسی نے خرم احسان کو کندھے سے کھینچ کر اٹھایا تھا اور زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا تھا۔۔۔۔۔
نوشین نے سہم کر دیکھا۔۔ وہ امیر حماد تھے۔۔۔ شلوار قمیص میں ملبوس۔۔۔ کندھوں پر چادر ڈالے۔۔۔ شہزادوں کے سے نقوش اور ہلکی شیو کے ساتھ۔۔۔ نظر لگ جانے کی حد تک حسین۔۔۔۔۔
خرم ہڑبڑا کر جیسے نیند سے جاگا۔۔۔۔
“حماد بھاء۔۔۔۔ ؟”
“حویلی کی روایات کی حدود کب سے توڑنے لگے خرم احسان۔۔۔۔ ؟” امیر حماد کا لہجہ سرد تھا ۔۔۔ اور آنکھوں میں عجیب سی چبھن اور طیش تھا۔۔۔۔
وہ شرمندگی سے سر جھکا گیا۔۔۔۔
“اور یہ سرخ آنکھیں, لڑکھڑاتے قدم۔۔۔ ,,,ڈگمگاتا ایمان لیےآئندہ حویلی میں کبھی داخل نہ ہونا۔۔۔ “
انہوں نے لب بھینچے۔۔۔
“سوری بھاء۔۔۔ میں ہوش میں نہیں۔۔۔۔۔ “
“خرم احسان۔۔۔۔ “
امیر حماد نےاس کی بات کاٹی۔۔
“رات بہت ہو گئ۔۔۔ سب کو سو جانا چاہئے۔۔۔۔ “
خرم احسان خاموشی سے چلا گیا۔۔۔ جبکہ نوشین۔۔۔ وہ دیکھ سکتی تھی۔۔ غصے سے بھنچی امیر حماد کی مٹھیاں۔۔۔ اور ماتھے پر ابھرتی رگ۔۔۔۔۔انہوں نے اسے کلائ سے تھاما۔۔۔ اور وہ سہمی سی ان کے پیچھے چل دی۔۔۔ اس کے کمرے کے سامنے لا کر ہاتھ چھوڑا تو سخت گرفت کیوجہ سے نازک چوڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی چلی گئ۔ ۔ وہ امیر حماد کے چہرے کو دیکھتی گئ۔۔۔۔۔ عجیب بے خودی سے۔۔۔ وارفتگی سے۔۔۔۔۔
وہ پلٹ گۓ۔۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔۔۔!”
اس نے آہستگی سے پکارا۔۔”کچھ کہیں گے نہیں۔۔۔ ؟”
جانے وہ کیا سننا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ رکے۔۔۔ پلٹے۔۔۔ اور خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔۔۔۔
“تم۔ میری ذمہ داری ہو۔۔۔ اور اس حویلی میں تمہارے ساتھ کبھی کچھ برا نہیں ہو گا۔۔۔۔ “
مدھم اور جادوئ سا ان کا لہجہ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے مڑ گئ اور دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔۔
امیر حماد جانے کتنے لمحے بند دروازے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔ پھر ان کی نظر ان ٹوٹی چوڑیوں پر پڑی۔۔۔۔
اور آج___
وہ ان کے پاس تھیں ۔۔۔۔محفوظ تھیں ۔۔۔۔۔۔
“امیر حماد۔۔۔۔۔! “
وہ چونکے۔۔۔ وہ سامنے بیٹھی انہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
“میں یہ معمہ کبھی نہ حل کر سکی۔۔۔۔ میری وہ ٹوٹی چوڑیاں کہاں گئیں۔۔۔۔ ؟”
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی شرارت تھی۔۔۔
مگر امیر حماد مسکرا بھی نہ سکے۔۔۔۔ کہ یہ رات بہت گراں تھی ان پر۔۔۔ ڈھیر سارا درد سمیٹے ہوۓ۔۔۔۔ وہ دو قدم چل کر اس کے سامنے جا کھڑے ہوۓ اور پھر جھک کر اس ک کان کے قریب۔۔۔ مدھم۔۔۔۔ بے حد مدھم آواز میں۔۔ سرسراتی سی سرگوشی میں بولے۔۔۔۔۔
“جو مجھ سے ٹوٹی تھی, وہ چوڑیاں سستی تھی۔۔۔۔
بہت مہنگا ہے وہ دل, جو تیری محبت نے توڑ دیا۔۔۔۔ “
نوشین کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔۔ آ نکھیں لمحوں میں جل تھل ہوئیں اور وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاۓ سسک اٹھی تھی۔۔۔۔ امیر حماد عجیب تلخ سی مسکراہٹ لیے اسے دیکھتے رہے۔۔۔۔۔
پھر اس کے چہرے سے نرمی سے ہاتھ ہٹا کر اپنی مٹھی میں دبی ساری پتیاں اس کے ہاتھوں میں بکھیر دیں۔ وہ دعا کی طرح ہاتھ پھیلاۓ ان میں یک ٹک دیکھتی رہی۔۔ آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر آنکھوں سے گرتے رہے۔ امیر حماد وہیں اس کے سامنے نیچے بیٹھ گۓ اور اس کے مہندی, آ نسوؤں اور پھولوں کی پتیوں سے بھرے ہاتھوں میں دیکھتے رہے۔۔۔
“نوشین دیکھو۔۔ تمہارے ہاتھوں میں کتنی انمول اور قیمتی چیزیں ہیں آ ج۔۔۔ “
وہ خواب کی سی کیفیت میں بولے۔۔۔۔
“مجھے ان سب چیزوں میں سے کچھ نہیں چاہئے۔۔۔ ” اس نے روٹھے بچوں کی طرح ہاتھ دوپٹے سے زور زور سے رگڑے اور اٹھ کر دور جھولے پر جا بیٹھی۔۔۔۔
امیر حماد وہیں سر جھکا کر زیر لب مسکرا اٹھے اس کی اس معصوم سی حرکت پر۔۔۔۔
جانے وہ کتنے ہی پل اسی چبوترے سے ٹیک لگاۓ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔ جانے کتنے لمحے, کتنے گھنٹے, کتنے منٹ اور سیکنڈ گزرے۔۔۔۔ وہ وہیں جھولے پر بیٹھی بیٹھی کب کی نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔۔۔
امیر حماد دیکھ سکتے تھے اتنی دور سے بھی اسکے چہرے پر مٹے مٹے سے آ نسوؤں کے نقوش۔۔۔۔
وہ حسین تھی۔۔۔ بے حد حسین۔۔۔ یا شاید ان کو لگتی تھی۔ اور کتنی تکلیف میں گزرتی آ ج کی یہ رات جو وہ سامنے نہ ہوتی۔۔۔۔
ان کے لیے اتنا بہت تھا کہ وہ ان کی آنکھوں کے سامنے تھی۔۔۔ دل میں عجیب سکون سا اترتا جا رہا تھا۔ سارا درد, تڑپ کہیں ختم ہوتا جا رہا تھا
۔۔۔
مگر یہ رات۔۔۔ بہت طویل تھی یہ رات۔۔۔ ہزار راتوں جتنی طویل۔۔ صدیوں کی تھکن سمیٹے ہوۓ۔۔۔
جب اس کی آ نکھ کھلی تو اس نے خود کو اس جھولے پر آ ڑھا ترچھا بیٹھے پایا۔۔۔ کانوں میں دور سے کسی مسجد سے شاید تہجد کی اذان کی صدائیں آ رہی تھیں۔۔۔۔ سردی اور دھند کچھ اور بڑھ گئ تھی۔۔ اور وہ زرد سا چاند بھی کہیں چھپ گیا تھا۔ اس نے سامنے دیکھا۔۔۔ امیر حماد اپنی چادر بچھاۓ انہماک سے تہجد کے نوافل ادا کر رہے تھے۔
اسےان کا چہرہ ارد گرد کی ہر شے زیادہ روشن لگا۔۔ سیاہ لباس, سیاہ بال۔۔۔ ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔۔۔ وہ بنا پلک جھپکے, گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے انہیں دیکھے گئ۔۔۔
کتنا سکون اور ٹھراؤ تھا ان کے چہرے پر۔۔۔ اور کتنے انہماک سے وہ نماز کے ہر رکن کی ادائیگی کر رہے تھے۔۔۔
وہ ان کا تھوڑا سا دایاں رخ دیکھ پا رہی تھی۔
اب وہ سلام پھیر رہے تھے۔ وہ اٹھ کر آ ہستگی سے ان کے پاس۔ چھوٹی سی دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئ۔
اب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ ہوۓ تھے۔ وہ بغور انہیں دیکھے گئ۔ کتنے ہی لمحوں بعد انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور رخ موڑ کر خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔۔ پھر اپنی چادر کندھوں پر درست کرنے لگے۔۔۔
“آپ نے کیا مانگا۔۔۔ ؟”
“یہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے۔۔۔ “
انہوں نے مبہم سا جواب دیا اور اس کے پاس ہی دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیۓ ۔۔۔۔ ان کی نظروں کے حصار میں آ سمان پر مدھم سا روشن نظر آ تا صبح کا ستارہ تھا۔۔۔ وہ گردن موڑے امیر حماد کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
“آ پ نے مجھے مانگا۔۔۔ ؟ ” اس نے ان کے جواب کو ان سنا کیا۔”نہیں۔۔ ” امیر حماد کی نظریں ہنوز ستارے پر تھیں۔۔۔ وہ لب بھینچ کر رہ گئ۔۔
“میں نے تمہارے لیے ڈھیر ساری خوشیاں مانگیں۔۔ اور اسکے علاوہ مجھے کچھ اور مانگنا بھی نہیں تھا۔ اور تمہیں تو چاہ کر بھی نہیں مانگنا تھا۔۔ کہ تم سے اور بہت سی زندگیاں جڑی ہیں۔۔ جو مجھے عزیز تر ہیں۔۔ “
وہ ان کی باتیں سن کر دلبر داشتہ ہوئ تھی۔ اور غصے سے چہرہ موڑ لیا تھا۔۔۔
“آ ج سے, ابھی سے ہماری نئ زندگیوں کا آ غاز ہے۔۔۔ ہے نا نوشین ؟” انہوں نے اسکی طرف دیکھا۔۔
“زندگی نیۓ سرے سے جیتے ہیں۔۔۔ چلو پرانی زندگی۔۔ پرانی تکلیف دہ محبت اور ٹوٹ چکے خوابوں کا ہر ایک نشان اپنی زندگی سے مٹاتے ہیں۔۔ جو آگے چل کے ہماری کمزوری نہ بنیں۔۔۔ “
وہ عجیب کھوۓ سے لہجے میں بول رہے تھے۔ نوشین نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔ ان کے ہاتھ میں دبے رومال کو دیکھا۔۔
“یہ ہے میری کمزوری۔۔۔۔ آ ج کے بعد نہیں رہے گی۔۔ “
انہوں نے مٹھی کھولی۔۔ وہ پہچان گئ۔۔ یہ اسی کی چوڑیاں تھیں۔۔ امیر حماد نے بازو کی پوری قوت سے انہیں پھینک دیا۔۔ جانے وہ اندھیرے میں کہاں جا گریں۔۔۔
نوشین کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ وہ بے یقینی سے انہیں دیکھے گئ۔۔۔
“اب تمہاری کمزوری۔۔ ؟”
انہوں نے نوشین کی طرف دیکھا۔۔۔
“مم۔۔ میری ؟۔۔۔ میری کوئ کمزوری نہیں ہے۔۔ ” وہ کچھ پیچھے ہوئ۔۔۔۔
انہوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر آ ستین بازو سے اوپر کی۔۔۔ چار سے پانچ کانچ کی چوڑیاں دودھیا بازو میں دمک رہی تھیں۔۔۔
“نن۔۔ نہیں۔۔ یہ میری کمزوری نہیں۔۔ ” نوشین کا رنگ فق ہوا تھا۔۔ اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔۔
“مجھے ہاتھ دو اپنا۔۔۔ ” انہوں نے نرمی سے کہا۔
“نہیں امیر حماد۔۔۔ ” وہ دبا دبا سا چلائ تھی۔
انہوں نے ہاتھ سے چوڑیاں کھینچ کر اتاری اور پوری قوت سے پھینک دیں۔۔۔ چھن سے ٹوٹنے کی آ واز آ ئ اورپھر۔۔ خاموشی چھا گئ۔۔۔ وہ مجسمہ بنی انہیں دیکھتی رہی۔۔۔
“نہیں امیر حماد۔۔۔ ” وہ غصے سے چیخی اور پھر دیوار سے سر ٹکا کر سسک اٹھی۔۔۔
“مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔ تمہیں روتے دیکھ کر۔۔۔ “
“نہیں۔۔۔ آ پ اچھا نہیں کر رہے۔۔۔ نہ میرے ساتھ۔۔۔ نہ اپنے ساتھ۔۔۔ “
وہ جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ کر سیڑھیاں اترتی چلی گئ۔۔۔
اور امیر حماد۔۔ چھت کی منڈیر پر کھڑے اسے دور راہداریوں میں گم ہوتے دیکھتے رہے۔۔۔۔۔
______💔