اب محلوں میں صرف عورتیں ہی عورتیں رہ گئیں۔ پہلے تو بھائی جان ہی کے دم کے لالے پڑے ہوئے تھے اور ان کے ہی سہم کے مارے خون خشک ہو گیا تھا۔ جب ان کو خدا نے اس آفت سے بچایا تو دوسری ان ہونی بلا آئی۔ بیت:
ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی
قلعے کو دیکھا تو سنسان، ایک ہو کا میدان، اوسان جاتے رہے اور کہتے تھے، خدایا اب کیا ہوگا؟ یہاں ٹھہرے بنتی نہیں اور نکلیں تو سواریاں کہاں سے لائیں؟ سارے کارخانے خالی ہو گئے۔ اسی فکر میں آدھی رات الٹ گئی۔ آخر میری اماں جان نے نرگس ماما سے کہا: “اری تو رتھ خانے میں جا تو سہی، صندل رتھ بان کو جا کر تلاش تو کر، اگر وہ ہو تو جس طرح بنے اپنے رتھ جڑوا لا”۔ نرگس دوڑی گئی۔ دیکھی تو صندل گھبرایا ہوا پھر رہا ہے۔ اس نے صندل سے رتھ جڑوا، لا حاضر کیے۔ ادھر دادی اماں کے رتھ تیار ہو کر آ گئے۔ تیسری، موتی محل نے اپنی رتھ منگا لی۔ صرف تین تو رتھیں تھیں اور دو سو عورتیں۔ الٰہی اب کیا کریں۔ کس کو چھوڑیں کس کو ساتھ لے چلیں۔ آخر ناچار جتنی سواریاں رتھوں میں سمائیں وہ تو کھچ پچ ہو کر سوار ہوئیں۔ باقی ماما، اصیلیں اور بیبیاں بھی پیادہ پا چلیں۔ بال بچوں کو گودیوں میں اٹھائے ہوئے۔ گٹھری بغچی بغل میں دبائے ہوئے۔ حیران، سرگرداں، مرد کوئی ساتھ نہیں۔ بے سرا قافلہ ہے کہ جھجر کے رستے چلا جاتا ہے اور پھر گھروں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں۔ نہ جن پر چونکی دار ہے اور نہ رکھوال۔ مگر اس وقت کیا گھر اور کس کا مال ٹال۔ اگر خیال تھا تو یہ تھا کہ آگے بڑھیے اور جلدی سے جھجر پہنچیے۔ لیکن پیادہ پا کی حالت عجب بے کسی اور بے بسی کی تھی۔ پاؤں پر چھالے، لبوں پر نالے۔ چشم گریاں، آنسو رواں۔ کسی کا پانچہ جھاڑ میں الجھا تو کسی کا دوپٹہ کھیت کی باڑ میں الجھا۔ کوئی چلتی تھی، کوئی تھکتی تھی، کوئی اٹھتی تھی، کوئی بیٹھتی تھی۔ بھلا کبھی کسی نے رستہ چلا ہو تو چلا جائے۔ اور جس حال میں کھٹکا یہ لگا ہوا کہ وہ باغی آئے۔ چوروں کا ڈر جدا۔ ہزار مشکل اور خرابی سے میل ڈیڑھ میل پاٹودی سے نکلے تھے۔ اندھیری رات، گھٹا سر پر تلی کھڑی تھی کہ بجلی جو چمکی تو سامنے سے پانچ چھ سوار کھڑے نظر آئے۔ جانا مقرر۔ یہ باغیوں کی فوج کے سوار ہیں۔ اب یہ ہم سب کو لوٹیں گے، قتل کریں گے۔ افسوس اس جنگل میں قضا آئی اور بے گور و کفن۔ یہیں طعمۂ زاغ رغن ہوئے۔ اتنے میں ان میں سے ایک سوار نے آواز دی۔ یہاں جان تھی کہ سہم گئی اور سب تو گھبرا گئے، مگر صندل رتھ بان نے آواز پہچانی اور کہا کہ “یہ تو قادر بخش سوار کی آواز ہے”۔ جب وہ قریب گیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہی ہاں کے سوار ہیں۔ جلدی سے اس نے واپس آ کر کہا تو سب کی جان میں جان آئی۔ پھر صندل نے جا کر ہماری کیفیت ان سے بیان کی اور پوچھا کہ تم کہاں جاتے ہو۔ وہ بولے ہم جھجر کو سرکار کے پاس جاتے ہیں۔ اور اب ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ جب وہ سوار ہمارے ساتھ ہوئے تو اب ہمیں کچھ تسلی ہوئی۔ آگے بڑھے اور ایک گاؤں میں پہنچے جس کا نام سنا کہ کھنڈ یولا ہے۔ اے، اس گاؤں کے زمیندار ہمارے قافلے کو دیکھ کر لٹھ کاندھوں پر دھر، گنڈاسے ہاتھوں میں لیے ہمارے لوٹنے کو آن موجود ہوئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ساتھ اتنے سوار ہیں تو جھجک گئے اور دلیری نہ کر سکے۔ خیر ان موذیوں سے بھی نجات پائی اور آگے چلے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور گاؤں نظر آیا۔ وہاں تھمے۔ سب پیاسے تھے، پانی پیا، ذرا دم لیا، پھر آگے کو روانہ ہوئے اور دوپہر چلے۔ دوپہر کے بعد سواڑی گاؤں میں پہنچے اور فقیر کے تکیے میں جا کر اترے، لیکن برا حال۔ بانکے دہاڑے تشنگی مارے، حلقوں میں کانٹے پڑ گئے تھے اور بچی بھوکی جدا بلبلا رہی تھی۔ خیر پانی تو پیا مگر روٹی کہاں سے لائیں۔ آخر دادی اماں نے کچھ روپے فقیر کو دیے کہ سائیں! ہمارے بچوں کے واسطے روٹی پکا دو۔ اے اس موئے ٹکر گدا نے جَو کے آٹے کے دس پندرہ روٹ پکا کر ہمیں لا دیے۔ جوں ہی نوالہ منہ میں ڈالا، گولی بنا حلق میں پھنسا، کوئی رویا کوئی ہنسا۔ غرض دو دو چار چار نوالے پانی کے گھونٹوں سے حلقوں میں اتارے۔ جب کھانا نگل چکے تو اب پان کی سوجھی۔ بھلا وہاں تو پیپل کے پتوں کے سوا پان کا نشان بھی نہ تھا۔ ہاں بعض شوقین ایسی بھی تھیں کہ انھوں نے سب کچھ تو وہیں چھوڑا تھا مگر پاندان ضرور لاد کر لائی تھیں۔ ان سے کسی نے پان لیا، کسی نے چھالیا۔ جس کو جو کچھ ہاتھ آیا وہ لے کر کھا لیا۔ یہاں تو یہ ہو رہا تھا۔
عورتوں کا جھجر پہنچنا
کہ اتنے میں کسی نے آن کر کہا کہ لو صاحبو! تم سب کے لیے جھجر سے سواریاں آ گئیں۔ اس خبر سے ہم سب خوش ہو گئے۔ ابا جان صبح ہوتے ہی جھجر پہنچ گئے تھے۔ ان سے تمام حال ہمارا معلوم ہوا اور فورا سواریاں روانہ کیں۔ پھر ہم سب ان سواریوں میں بیٹھ کر قریب شام جھجر پہنچ گئیں اور وہاں پہنچ کر اگرچہ سب طرح راحت پائی مگر خانہ ویرانوں کو خاطر خواہ تسلی کب آئے۔ دس بارہ روز وہاں رہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ حقیقت میں باغیوں کی اور فوج پاٹودی میں نہیں آئی اور جو خبر ہوئی تھی کسی نے جھوٹ اڑائی تھی، تو سب کی خاطر جمع ہوئی اور ابا جان نے واپس جانے کا ارادہ کیا۔ سب خوش ہوئے۔ بیت:
ہر ایک دیتا تھا آن آن کر مبارک باد
خدا نے خانہ ویراں کو پھر کیا آباد
پاٹودی کی آبادی کا حال
ابا جان جھجر سے روانہ ہو کر پاٹودی پہنچے اور ہم ان کے سب متعلقین بھی ایک دوسرے کے بعد آ گئے۔ دیکھا تو عجب طرح کا سناٹا ہے۔ اب یہ دور اوجڑ بستی سونے دیس کی مثل صادق آتی ہے۔ گھر ہے کہ بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ نہ کوٹھریوں میں اسباب ہے نہ دالانوں میں فرش۔ چیز بست کیا نام، جھاڑو دینے کو تنکا تک نظر نہیں آیا۔ چینی کے برتن ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں۔ شیشہ کے آلات چکنا چور ہوئے دھرے ہیں۔ نہ پلنگ ہے نہ چار پائی، نہ دری ہے نہ چٹائی۔ مال اسباب نقد و جنس جو جو کچھ تھا سارے گھروں سے موئے گنوار ان پر خدا کی مار، لوٹ کر لے گئے۔ آخر ان کی جانوں پر صبر کر کے نئے سرے سے پھر سامان درست کرنا شروع کیا۔ گو ہزاروں کا نقصان ہوا لیکن جس قدر اس کا رنج تھا اس سے زیادہ اپنے لٹے گھروں میں آ جانے کی خوشی ہوئی۔ اس ہماری مصیبت کو دو ڈھائی مہینے گزرے تھے۔