ایک عورت کا طلاق یافتہ ہونا کسی بنجر اور لاوارث زمین کی مانند ہوتا ہے جس پر کوئی بھی شخص کبھی بھی قبضہ کرسکتا ہو۔۔۔
مرد سے عورت کی پہچان ہوتی ہے اور عورت سے مرد کی نسل کی۔۔
مگر وہ۔۔۔۔
وہ تو اپنے سابقہ شوہر کی فرمانبردار بیوی تھیں۔۔ لیکن فرمانبردار ہونا کافی کہاں ہوتا ہے۔۔
کچھ۔۔ فقط کچھ مرد اپنی بیگمات سے فرمانبرداری نہیں غلامی کے طلبگار ہوتے ہیں۔۔۔
اور اگر ایک استاد خود ہی ظلم کے آگے گھٹنے ٹیک کر غلامی کی زنجیروں کو باندھلے تو پوری قوم غلام نہ بن جائے۔۔
بس ان کے نزدیک غلامی سے بہتر علحیدگی تھی اور انہوں نے اس معاشرے کو ایک اور طلاق یافتہ عورت تحفے میں دے دی جسکی سزا ان کو آج مل رہی ہے۔۔۔
زلان نے جو بم ان کے سر پر پھوڑا تھا اس کی شدت سے وہ اپنی جگہ جم چکی تھیں۔۔
آج انہیں پہلی دفعہ طلاق یافتہ ہونے کا احساس ہوا, احساس اس شدت سے تھا کہ وہ مفلوج ہوچکی تھیں۔۔
زلان اب بھی مصیبت کے پہاڑ کی طرح ان کے سر پر نازل تھا۔۔
آپ اب شادی کی تیاریاں شروع کردیں بہت جلد میں آپکو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔۔
زلان کے جملوں نے انہیں صدمے کی کیفیت سے باہر نکال کر ایک اور زور دار جھٹکا دیا۔۔
وہ آنکھیں پھاڑ کر اسکے چہرے کا بغور جائزہ لینے لگیں۔۔
آپ نے ہم سے ہمارا جواب نہیں مانگا مسٹر۔۔۔
ازلفہ نے نفرت سے اسے دیکھا۔۔
ہاہاہاہا۔۔ اسکی ہنسی سے غرور کی بو آرہی تھی۔۔۔
زلان ملک کسی کے جواب کا منتظر نہیں ہے۔۔
وہ جو بات کہہ دے وہ پتھر کی لکیر بن جاتی ہے۔۔۔
عروج پر پہنچ کر لوگوں میں کس قدر غرور آجاتا ہے زلان اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔
تم ہوتے کون ہو ہم پر اپنا فیصلہ تھوپنے والے؟؟ زرا سی شرم و غیرت نہیں ہے تمھارے اندر جسے تم اپنی بیوی بنانے کے خواب دیکھ رہے ہو مسٹر وہ تمھاری ماں کی عمر کی عورت ہے۔۔
ازلفہ پھٹ پڑی, اسکے اندر کا لاوا ابل رہا تھا۔۔۔
ماں کی عمر کی ہے مگر ماں تو نہیں ہے نہ۔۔۔ اور زلان ملک جس چیز سے متاثر ہوجائے اسے حاصل کر کے ہی رہتا ہے۔۔۔
ویسے تو میرے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے مگر جو بات جو کشش تمھاری ماں میں ہے وہ کسی اور میں کہاں۔۔۔
وہ امسہ کے چہرے میں گم ان کے ارد گرد چکر لگارہا تھا۔۔
ان کے پڑھانے کا انداز ان کا سلیقہ ان کا حسن ان کے بات کرنے کا ڈھنگ کسی اور کا تو مجھے معلوم نہیں مگر مجھے دیوانہ کرنے کے لیے کافی ہے۔۔
بس زلان بس اب تم اپنی حد سے آگے بڑھ رہے ہو۔۔۔
امسہ نے اپنا چپ کا روزہ توڑ ہی دیا۔۔
تم جانتے ہو کہ میری عمر کیا ہے؟؟؟i am 50 years old۔۔۔
اور تم ۔۔۔
تم 25 سال کے ہو اپنی عمر دیکھو اور میری۔۔
میں نے بہت محنت سے عزت کمائ ہے میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میری زندگی کو عذاب میں مبتلا مت کرو رحم کرو مجھ پر رحم کرو۔۔۔۔
وہ بے بسی سے ہاتھ جوڑے کھڑی تھیں۔۔ آنکھیں بھی اب صبر کا دامن چھوڑ چکی تھیں۔۔
Ohh my god۔۔ مجھے یہ ایموشنل سینز پسند نہیں ہیں۔۔
میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور یہ میری زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے۔۔ وہ بے حس انسان تھا بے حد بے حس۔۔
بس کردو زلان چلے جاؤ ہمارے گھر سے ورنہ میں ابھی پولیس کو کال کروں گی۔۔ ازلفہ اسے دھمکانے لگی۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ وہ گلا پھاڑ کر ہنس رہا تھا۔۔اور آس پاس کھڑے اسکے چیلے بھی مسکرارہے تھے۔۔
پولیس کی دھمکی؟؟ پولیس تو ہمارے تلوے چاٹتی ہے میڈم۔۔
کہو تو ایک چھوٹا سا نمونہ دکھاؤں؟؟؟ وہ بھویں چڑھا کر بول رہا تھا۔۔
ارے تم کیا بتاو گی میں خود تمھیں دکھا دیتا ہوں۔۔
اسنے اپنی جیکٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور تیزی سے نمبر ملانے لگا۔۔
جبکہ وہ دونوں بت بنی تماشہ دیکھ رہی تھیں۔۔
ہاں شاہ نواز کہاں ہو؟؟
زلان نے کال یس ہوتے ہی پہلا سوال کیا چونکہ موبائل اسپیکر پر تھا اس لیے ازلفہ اور امسہ تمام گفتگو سن سکتی تھیں۔۔۔
جی صاحب بولیے کیسے یاد کیا اس نا چیز کو۔۔
انسپیکٹر کی بھاری سی آواز موبائل توڑ کر باہر آرہی تھی۔۔۔
ایک کام ہے تمھارے لیے۔۔ زلان نے کہا۔۔
جی سرکار حکم کریں ہم کس مرض کی دوا ہیں۔۔
میں تمھیں ایک گھر کا ایڈریس میسج کر رہا ہوں تمھیں کرنا یہ ہے کہ وہاں جا کر اس گھر میں موجود لڑکے کو اٹھوانا ہے اور اس پر جھوٹا قتل کیس بنانا ہے۔۔
اور باقی تمام معاملہ میں تمھیں تب بتاؤں گا جب تم گھر آؤگے, فلہال ابھی یہ کام کرو۔۔
وہ بہت اطمینان سے بول رہا تھا جسے کوئ عام سی بات ہو مگر یہ بات یہ جملے ازلفہ اور امسہ کے لیے قیامت تھے وہ ایک دوسرے کے چہرے کی طرف بار بار دیکھ رہی تھیں۔۔
جی سرکار جو حکم آپکا, یہ کام تو میں رات تک کروادوں گا بس آپ فکر نہ کریں۔۔
شاباش مجھے تم سے یہی امید تھی بس تم میرا کام کرو میں تمھاری جیب نوٹوں سے بھرتا رہوں گا۔۔
اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ ابھری۔۔۔
بس سرکار ہم تو آپ کے غلام ہیں۔۔ گفتگو کا اختتام ہوا اور زالان نے موبائل کا رخ واپس اپنی جیب کی طرف کیا۔۔۔
جہاں تک میرا خیال ہے اندازہ تو تمھیں ہو ہی گیا ہوگا کہ میں کیا کیا کرواسکتا ہوں اس لیے اب تم کوئ بیوقوفی نہیں کروگی سمجھدار لگتی ہو۔۔۔
خیر میں پھر آؤں گا۔۔۔
مجھے زرا دیر ہورہی ہے اور اس بار جب آؤں گا تو واپس اکیلا نہیں جاؤں گا تم۔۔۔۔
تم سمجھ رہی ہو نہ ازلفہ؟؟
اس کی بات پر وہ دونوں کچھ نہ بول سکیں۔۔
اور وہ لمبے لمبے ڈگ مارتا ہوا نکل گیا۔۔ ڈائننگ ہال پر ایک بار پھر وہشت زدہ ماحول طاری ہوگیا۔۔
امسہ کی حالت ایسی تھی مانو کاٹو تو لہو نہ نکلے۔۔
وہ صدمے سے نڈھال فرش پر ہی گر گئیں۔۔
عزت چاہے کسی کی بھی ہو دنیا کی ہر شئے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور جب بات ہو عورت کی عزت کا تو پھر کوئ افسانہ کوئ کہانی اس کی اہمیت کو بیان نہیں کرسکتی یہ پھولوں سی نازک ہوتی ہے جو کسی کہ ہاتھوں کی زرا سی سختی سے مرجھا جاتی ہے۔۔۔
انکی زندگی کہ وہ چند سال جو انہوں نے اپنے شوہر کہ بغیر گزارے کسی بڑی آزمائش سے کم نہ تھے مگر وہ ٹوٹی نہیں, ٹوٹی تو وہ آج تھیں اس طرح کہ ان کی ذات کی کرچیاں ہوچکی تھیں اور اب اپنی ذات کو سمینٹنا آسان کام نہ تھا وہ زلت و شرمندگی کے مقام پر پہنچنے کو تھیں۔۔
وہ جانتی تھیں کہ اب لوگ انکو کن ناموں سے پکاریں گے وہی نام جو معاشرے کے لوگ ان عورتوں کو دیتے ہیں۔۔
وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اب لوگوں کی نظروں اور طنز کے تیر ان کے گھر کی اس چار دیواری کے باہر ان کے دل کو چاک کرنے کے منتظر ہیں۔۔
مگر۔۔۔
مگر ابھی تو برباد ہونے کی شروعات تھی ابھی تو وجود کے پرخچے اڑنے تھے۔۔۔
_____________________________________
کمرے میں مکمل سکوت طاری تھا مگر کمرے کی حالت نا قابلِ بیان تھی ہر چیز اپنی جگہ سے ہٹی کسی اور جگہ پر قبضہ کیے ہوئ تھی۔۔
زلان۔۔۔۔۔۔
زلان۔۔۔ شاہ زیب ملک کی زعب دار آواز نے پورے کمرے کا سکوت توڑا۔۔۔
وہ آڑا ترچھا اپنے بیڈ پر پڑا تھا جو انکی آواز پر زرا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔
یہ کیا سن رہا ہوں میں زلان؟؟
تم شادی کررہے ہو وہ بھی ایک عورت سے۔۔
انکا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔۔۔
اوووہ۔۔ تو آپکے چمچوں نے آپکو موسم کا حال بتادیا؟؟
زلان نے ترچھی نظر شاہ زیب ملک کے ساتھ کھڑے لڑکے پر ڈالی جس سے وہ نظریں چرانے لگا۔۔
تم میری بات کا جواب دو زلان۔۔ انہوں نے اپنا سوال دہرایا۔۔
ہاں تو؟؟ کررہا ہوں میں شادی اس میں اتنا حیران ہونے والی کونسی بات ہے؟؟ وہ لاپرواہی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بولا۔۔
کیا مطلب ہے تمھارا؟؟
دیکھو زلان تم میرے اکلوتے بیٹے ہو آج تک تم نے جس چیز پر نظر ڈالی میں نے تمھارے لیے وہ قربان کردی ۔۔۔
مگر اب۔۔۔۔
اب تم ایسی چیز کی فرمائش کر رہے ہو جو میں پوری نہیں کرسکتا ہوں۔۔
وہ بمشکل اپنے غصے کو قابو کر کے آرام سے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
آپ ٹینشن کیوں لیتے ہیں ڈیڈ یہ میرا مسلئہ ہے آپکا نہیں۔۔
اسے کوئ فرق ہی نہیں پڑتا تھا وہ دونوں ہاتھ سر کے پیچھے کر کے اطمینان سے لیٹا تھا۔۔۔
وہ تمھاری ماں کی عمر کی عورت ہے۔۔ تم کیا مجھے میڈیا والوں کے لیے چٹپٹی نیوز ہیڈلائن بنانا چاہتے ہو؟؟؟
وہ آپے سے باہر ہورہے تھے آخر انکو اپنی شہرت کا جو خیال تھا۔۔
For god sake ded
۔۔ وہ چلّایا۔۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہوں گا وہ میری ماں کی عمر کی ہوگی مگر میری ماں نہیں ہے۔۔۔!!
مجھے الیکشن لڑنا ہے مگر تمھاری حرکتوں کی وجہ سے مجھے اس شہر میں ایک سیٹ بھی نہیں ملے گی جوتے ماریں گے لوگ مجھے جوتے۔۔
تماشہ بن کر رہ جاؤں گا میں۔۔۔ وہ طیش میں آگئے ان کی آواز اس وسیع و عریز بنگلے کی دیواریں توڑ کر باہر جا رہی تھی۔۔
اوووہ مائ ڈئیر ڈیڈ۔۔
آپ ٹینشن کیوں لیتے ہیں۔۔ وہ اْٹھا اور انکے قریب آیا اسکا لہجا دھیما تھا وہ خطروں سے کھیلنے کا عادی تھا ہر طوفان کو وہ جھاگ کی طرح بٹھادیا کرتا تھا مگر اس طوفان کی شدت کا اندازہ وہ خواب میں بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔
آپکی شان و شوکت اور عزت پر میں آنچ بھی نہیں آنے دونگا ڈونٹ وری۔۔۔
وہ مسکرایا اور رسمی سی تسلّی دے کر کمرے سے رخصت ہوگیا مگر اس کی ان تسلّیوں سے شاہ زیب ملک کی پریشانی کم ہونے والی کہاں تھی وہ تو جانتے تھے انکا صاحبزادہ کس قسم کی مخلوق ہے۔۔
یہ لڑکا مجھے برباد کر کے ہی دم لے گا۔۔ وہ سر پکڑ کر بول رہے تھے۔۔
اس سے پہلے یہ میڈیا والوں کو میرے پیچھے لگائے مجھے اس کے مرض کا علاج کرنا ہی ہوگا۔۔
وہ بڑبڑا رہے تھے منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ بھی اپنے بیٹے کے خلاف۔۔۔
_____________________________________
شام کا موسم دو موسموں کا میل ہوتا ہے جہاں دوپہر گرمی کی تپش دم توڑ رہی ہوتی ہے وہیں رات کی ٹھنڈ جنم لے رہی ہوتی ہے اس نے اسی موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے ٹیرس کا رْخ کیا تھا پھر دل میں یہ تمنا بھی تھی کہ آج دیدارِ محبوب کی دوسری شفٹ لگ جائے اور قسمت ازلفہ کا دیدار کروادے اسی دھن میں وہ سیٹی بجاتا ہوا اوپر آرہا تھا۔۔
آتے ہی کبوتر کی طرح گردن گھمانی شروع کردی نگاہوں نے سامنے بنگلے کی ٹیرس پر نشانہ باندھا اور دل بے چینی سے ازلفہ کو ڈھونڈنے لگا۔۔
وہ بھی اپنے ٹیرس پر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی زمین کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔۔
ناجانے زمان کے دل نے کونسی راہ پکڑی اور چند لمہوں میں ہی اسنے ازلفہ کے گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔۔
وہ تھا ہی ایسا لمہوں میں کسی بھی چیز کا ارادہ کرلیتا تھا پھر اسے پورا کرنا اپنا فرض سمجھ لیتا تھا۔۔۔
اس نے شاید ہی اپنی زندگی میں کبھی کوئ فیصلہ کسی کے مشورے سے کیا ہو ورنہ اسکی عادت تھی کہ وہ بولنے کا موقع تو سب کو دیتا تھا مگر کرتا اپنی ہی تھا جسے کوئ من موجی۔۔۔
لمہوں نے منٹوں کی مساوت طے کی اور وہ جھٹ سے ازلفہ کے پاس پہنچ گیا۔۔
ہیلو ازلفہ خالہ کیسی ہیں آپ؟؟ وہ اپنے وہی مخصوص انداز میں آکر اسکے پاس بیٹھ چکا تھا۔۔
ٹھیک ہوں۔۔ ازلفہ کے چہرے پر دکھ کے علاوہ کوئ رنگ نہیں تھا۔۔ وہ ٹیرس پر لکڑی کی کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔
کیا ہوا؟ میم امسہ نے کیا آج تمھاری دھلائ کی ہے؟؟
اسنے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔
نہیں۔۔ بس ایسے ہی کچھ پریشان ہوں۔۔ وہ نظریں چرا رہی تھی کیونکہ وہ اپنا دکھ کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اپنے دکھ کو اپنی ملکیت سمجھتی تھی۔۔
تم رو رہی ہو؟؟ زمان نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔
نہیں تو۔۔ وہ مکر گئ۔۔
تمھاری تکلیف تم سے پہلے مجھ سے ملنے آجاتی ہے اس لیے جھوٹ مت بولو بتاؤ کیوں رو رہی ہو۔۔
اس کے الفاظوں میں اتنی اپنائیت تھی کہ وہ صبر نہ کرسکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔
جب کوئ اپنا ہمارے پاس ہو تو غم لاکھ چھپانے پر بھی نہیں چھپ سکتا۔۔
ازلفہ پلیز۔۔ تم اس طرح نہیں رو۔۔ مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔
اس کے لہجے میں ہمددی تھی۔۔
تم جانتی ہو کہ ایک فوجی کو اپنے جزباتوں سے رشتہ ختم کرنا پڑتا ہے کیونکہ اسکی جان اسکا وجود صرف اسکے ملک کی ملکیت ہوتا ہے, میں مضبوط بننا چاہتا ہوں ازلفہ تاکہ آنے والے وقت میں جب اس وطن کو میری ضرورت ہو تو میں سارے رشتوں کو ایک طرف رکھ کر خوشی خوشی قربان ہو سکوں۔۔
میں ابھی سے مضبوط بننا چاہتا ہوں لیکن تمھارے آنسوں مجھے کمزور کردیں گے ازلفہ مت رو پلیز۔۔
وہ دھیمے دھیمے لہجے میں اس سے التجا کر رہا تھا مگر وہ رو رہی تھی تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔۔
ازلفہ پلیز میری اک طرفہ محبت کی خاطر آج اپنے آنسوؤں کو روک لو۔۔
وہ محبت بھرے لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔
ازلفہ بس اب اگر ایک بھی آنسوں تمھاری آنکھ سے نکلا نہ تو جان سے ماردوں گا میں تمھیں۔۔
وہ زوردار آواز کے ساتھ چینخا۔۔
جبکہ وہ اپنا غم منانا بھول کر اسے دیکھنے لگی۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔
ڈرپوک کہیں کی, سوچو اگر تم میری بیوی بن جاؤ تو کتنا برا لگے گا لوگ کہیں گے کہ ایک فوجی کی بیوی کتنی ڈرپوک ہے۔۔ وہ اسکو ہنسانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔
اب ہنس بھی لو خالہ اب تو میں تم سے اظہارِ محبت کی فرمائش بھی نہیں کر رہا۔۔۔
وہ منہ بسور کر بولا مگر ازلفہ اسکے چہرے کو نگاہوں کے حصار میں لی ہوئ تھی نہ جانے کون سے خیالات اس کے زہن میں گردش کر رہے تھے۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو بھئ؟؟ کیا کبھی اتنا ہینڈسم لڑکا نہیں دیکھا یا پھر تمھارا میرا کریلے قیمہ بنا کر کھانے کا ارادہ ہے؟؟ وہ فنکاریوں سے باز آنے والی شخصیت کب تھا۔۔
مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔۔۔۔!!
ازلفہ نے کافی دیر بار اپنا منہ کھولا اور کھولتے ہی زمان کے منہ پر تالا لگادیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...