رات کا نجانے کون سا پہر تها کچھ عجیب سے حساس کے تحت ایزدا کی آنکھ کهل گئی تھی وہ چند لمحوں کے لیے اندھیرے میں غیر معمولی پن کهو جتا رہا۔ ۔۔اچانک اس کے زہین میں جهماکہ ہوا اور وہ جهٹکے سے اٹھ بیٹھا فرنٹ سیٹ پر رائم موجود نہیں تهی وہ حواس باختہ سخت وحشت کے عالم میں ٹارچ اٹھائے باہر نکل آیا چاروں اور تاریکی کی دبیز چادر تنی ہوئی تھی جس میں جنگلی جانوروں کی آوازیں چهید ڈال رہی تھیں رائم۔ ۔۔۔۔ایزدا نے آہستگی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ اچھل کر پیچھے مڑی اور پانی میں زور دار چهپاکہ ہوا رائم بے بسی خود سے دور ہوتے لہروں میں ڈوبتے ابھرتےAnaconda
کو دیکھ رہی تھی ایزدا نے اس کا سارا کام بگاڑ دیا تها۔ ۔۔۔تم پاگل تو نہیں ہوگئی ہو وہ رائم کا ہاتھ کهینچتے ہوئے واپس مڑا تها۔ ۔۔۔۔۔میرا دل چاہ رہا ہے کوئی وزنی چیز اٹھا کر تمہارے سر پہ دے مارو کتنی دیر سے میں اس کے پیچھے لگی ہوئی تھی لیکن تم۔ ۔۔۔۔۔تم نے میرے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا تم سکون سے مجھے اپنا کام نہیں دے سکتے۔ ۔۔۔۔۔۔مانا کہ تم بہت بہادر ہو لیکن اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں سے موت کے منہ میں دینے کا تمہیں کوئی حق نہیں سمجھیں وہ اس کی ساری مزاحمت نظر انداز کر تا مضبوطی سے اس کا بازو دبوچے جیپ تک لے آیا تها۔ ۔
گلے پڑی نیکی شاید اس کہتے ہیں۔ ۔رائم کو اس پر شدید غصہ آرہا تها۔ ۔۔۔۔۔
سورج نے انگڑائی لے کر اپنی نوخیز چمکیلی کرنیں دھرتی پر واردی تهیں ایزدا فریش سا سیٹی پر شوخ دهن بجاتا اس کے سامان کا جائزہ لے رہا تھا۔ ۔۔
ایزد فریش سا سیٹی پر شوخ دهن بجاتا اس کے سامان کا جائزہ لے رہا تھا۔ ۔۔
آج وہ اپنے ہاتھوں سے ناشتا بنانا چاہ رہا تھا۔ ۔۔مجھے شاندار سا ناشتا تیار کرنے کے لیے تمہاری یہ چیزیں چاہئیں لے لو۔ ۔۔۔
وہ تہذیب کا مظاہرہ کرتا اس کے سامان کی طرف اشارہ کرتا اجازت طلب کر رہا تھا۔ ۔رائم نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور پھر نظروں کا زاویہ بدل کر پیڑوں پر اچھلتے کودتے بندروں کو دیکهنے لگی۔ ۔۔۔۔۔۔مشرق میں عورت کی خاموشی کو ہاں سمجھا جاتا ہے ایزد نے خود ہی جواب اخز کر کے اپنے کام کی ساری چیزیں نکال لیں_____میم آکر ناشتا کر لیں بہت کر لی آپ نے ہماری مہمان نوازی اب زرا ہمیں اپنی خدمت کا موقع دیں گی رائم نے ایک خفگی بهری نظر اس پر ڈالی اور کهانا شروع دیا۔ ۔۔۔۔اتنا سوگوار ہو نے کی ضرورت نہیں ہے بہت سست سانپ تها وہ یقیناً ابھی تک اسی ندی کے کنارے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوں گا وہ اس کا موڈ ٹھیک کر نے کے جتن کر رہا تھا۔ ۔۔بلکہ مجھے تو لگتا ہے اسے پتا نہیں چل سکا ہو گا کہ دی وائلڑ کی بہادر حسینہ اس سے شرف ملاقات حاصل کرنے آئی ہوئی ہیں ورنہ وہ یوں دم دبا کر تو ہرگز نہ بهاگتا رائم
اسے گهورتے ہوئے ہنس پڑی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے زندگی میں ایک ساتھ اتنا سنہری پن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ۔۔
کیا مطلب وہ اس کی غیر متوقع بات سن کر قدرے حیران ہو گئی تھی۔
تمہاری آنکھیں تمہاری پلکیں تمہارے بال تمہاری چہرہ اور تمہاری مسکراہٹ میں اتنا سنہری پن کیوں جهلکتا ہے رائم وہ سینے پر بازو لپیٹے حیران ہوکر اس سے پوچھ رہا تھا رائم بری طرح سٹپٹا گئی تھی____مایہ ناز فوٹوگرافر ایزدناصر کا شجرہ نسب کسی شاعر سے تو نہیں ملتا وہ بات کو مزاق میں اڑارہی تهی۔ ۔۔۔۔۔اوہو تم اس لفظ کا پیچھا نہیں چهوڑ سکتیں مایہ ناز فوٹوگرافر وہ کچھ زچ سا ہوتا اٹھ کھڑا ہوا رائم جلدی سے اس کے پیچھے بهاگ کر آئی تھی رائم تمہیں نہیں لگتا کہ تمہاری زندگی عام لوگوں سے مختلف تمہیں اس وقت ان جنگلی جانوروں کے پیچھے ہلکان ہونے کے بجائے اپنے فیملی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ۔۔۔۔۔میرے پاس فیملی کے نام پر صرف میری گرینی ہیں۔ ۔۔۔تمہارے پرنٹس۔ ۔۔۔
میری پیدائش کے صرف دو سال بعد میرے فادر کی ڈیته ہو گئی تھی اور ان کے مرنے کے صرف چه دن بعد میری ممی نے اپنے ایکس بوائے فرینڈ سے جرمنی میں شادی کرلی البتہ جانے سے پہلے گرینی کے پاس آئی تهیں کہ اگر وہ مجھے اپنے پاس رکھ لیں تو انہیں اپنی نئی زندگی شروع کرنے میں آسانی رہے گی کیونکہ ان کا بوائے فرینڈ ان کے سابقہ شوہر کی اولاد اپنے پاس رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا اپنے جوان ہو سال بیٹے کو کهو دینے کے بعد گرینی کے لیے زندہ رہنے کا میں اکلوتا جواز تهی برسوں پہلے وہ اپنا سب کچھ پاکستان چهوڑ آئی تھی ممی نے اپنا پہلا اور آخری احسان مجھے گرینی کی گود میں ڈال کر کیا تها اور میں ان کے اس احسان کے لیے حقیقتاً ممنون ہوں۔ ۔۔۔۔وہ اپنی سب محرومیاں اس شخص سے شیئر کر رہی تھی جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی
*****************
رائم کو آج ہر حالت میں کوبرا تلاش کرنا تها وہ مکمل تیاری کے ساتھ اس کی کهوج میں نکل کهڑی ہوئی۔ ۔۔۔واپسی پر تمہیں شاندار سا ڈنر تیار ملے گا ایزد نے کہا تو وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتی آگے بڑھ گئی کوبرا پهن پهیلا ئے بیٹھا تھا شاید اسے اپنے علاقے میں رائم کی آمد اچھی نہیں لگی تھی وہ آہستہ آہستہ رائم کی جانب بڑھ رہا تھا رائم بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹی تهی کیمرہ ان کیا اور ویڈیو بنانے لگی تھی اپنا کام کر کے اس نے واپسی کی راہ لی۔ ۔۔۔ایزد اپنے مخصوص انداز میں پیٹر کے تنے سے ٹیک لگائے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ رائم کو اس کی آنکھوں میں ہلکا سا دکھ ہلکورے لیتا محسوس ہوا وہ ایک دم سے بے چین ہو گئی تھی۔ ۔۔
ایزد۔ ۔۔آج میرے ممی پاپا کی اکتیس ویں ویڈیگ اینورسری ہے اور زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ میں اس اہم موقع پر ان کے ساتھ نہیں ہو ممی پاپا نے کیک کاٹتے ہوئے اور مصعب نے اینورسری ڈارلنگ ما پا گنگنا تے ہوئے مجھے کتنا مس کیا ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔بہت محبت کرتے ہو تم اپنی فیملی سے۔ ۔۔۔۔۔۔محبت تو سبھی کرتے ہیں لیکن مجھے عشق اپنے ممی پاپا اور بارہ سالہ گٹول مٹول بهائی سے۔۔اس۔ممی پاپا سے ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ میرے مقابلہ میں اسے کم اہمیت دیتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل بهی نہیں ہے اور وہ چپکے چپکے میری کاپی (نقل) کرنے کی کوشش کر تا ہے کہ میں کس طرح بیٹھتا ہوں کهڑا ہوتا ہوں وغیرہ وغیرہ رائم کو پہلی بار احساس ہورہا تھا کہ یہ شخص رشتوں کے محبتوں کے معاملے میں کتنا امیر ہے اس رات وہ دیر تک رائم کو اپنے بچپن اپنے اسکول فرینڈز اور فوٹوگرافی کے قصے سنا تا رہا۔ ۔______
ایزد اس کے منہ سے گٹھی گٹھی سی چیخ نکلی تھی۔دو انسانی ہیولے جیپ پر جهکے شیشہ بجا رہے تھے۔ ۔۔
ایزد اب کی بار وہ زور سے چلائی تھی۔ ۔ایزد ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ایک نظر رائم کے فق چہرے پر ڈالی اور دوسری۔ ۔۔اوہ۔ ۔
ایزد گہری سانس کهینچتا جیپ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور اس کے پیچھے رائم بهی اس نے عقب سے ایزد کا بازو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور خوف کے مارے اس کا چہرہ خطرناک حد تک سفید پڑ چکا تھا۔ ۔۔ایزد انہیں کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تها اور وہ چیخ چیخ کر غصے کا اظہار کر رہے تھے ان کی بهاری بهدی آوازیں ماحول میں بدنما شگاف ڈال رہی تھیں۔ ۔۔
عجیب وغریب حلیے اور لمبی تڑنگی جسامت والے سیاہ فام وحشی رائم مزید ایزد کے پیچھے چهپ گئی اس نے دماغ کو حاضر کرتے ہوئے ان کی باتیں سمجھنے کی کوشش کی ایزد انہیں اس کو اپنی بیوی بتا رہا تھا مزید یقین دلانے کے لیے اس نے بازو سے پکڑ کر رائم کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ ۔۔۔بیوی۔ ۔۔۔۔رائم کو اپنے لیے یہ لفظ سن کر بہت عجیب لگا تها وہ پهٹی پهٹی نظروں سے ایزد کو دیکھ رہی تھی وہ دونوں وحشی ایک دوسرے کو دیکهتے کچھ بڑبڑاتے وہاں سے پلٹ گئے تھے۔ ۔
تهینک گاڈ بچت ہوگی ورنہ یہ اصول پسند متحرم تو یقیناً ہمیں اپنی کسی فضول رسم کی بهینٹ چڑھا نے کے موڈ میں لگ رہے تھے۔ ۔۔۔۔ایزد ہم صبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔
امیزنگ ان وحشیوں نے تمہیں اتنی جلدی قائل کر لیا اگر مجھے پتا ہوتا تو کچھ روز پہلے ہی ایسے غنڈے ہائر کرکے یہ مشکل مرحلہ سر کرچکا ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ویسے میں تو سمجھ رہا تھا محترمہ خاصی بہادر واقع ہوئی ہیں، ۔۔وہ اب اسے چڑا رہا تھا، ۔۔۔۔یاد رہے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے جانوروں سے نہیں انسانوں سے ڈر لگتا ہے، ۔۔۔کیا مجھ سے بھی ڈر لگتا ہے تمہیں؟۔۔۔وہ اپنی طرف انگلی سے اشارہ کر کے پوچھ رہا تھا۔ ۔۔۔۔نہیں، صرف انسانوں سے-”رائم ہنسی تھی-”۔۔۔۔۔۔ایزد! ۔۔سونا مت پلیز۔ ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے-”اور ایزاد ساری رات نہیں سویا تھا۔ ۔رائم نے اسے سونے سے منع کیا تھا وہ کیسے اس کی بات ٹال دیتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔صبح وہ رائم کے بے دار ہونے سے پہلے ہلکا پھلکا ناشتا بهی تیار کرچکا تھا۔ ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...