“عثمان تم کب تک اسی طرح اداس رہوگے بیٹا” بابا اسکو لان میں اداس بیٹھا دیکھ کر بولے
” میں اداس نہیں ہوں بابا” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“اچھا واقعی تو تمہاری آنکھیں تمہاری مسکراہٹ کا ساتھ کیوں نہیں دے رہیں؟” وہ اسکی آنکھوں میں بغور دیکھتے ہوئے بولے
“کیا کروں بابا یہ غم تو میری زندگی بھر رہیگا” وہ ٹوٹے لہجہ سے بولا جو اسکے باپ کے دل پر تیر کی طرح لگا
“ایسے مت بولو بیٹا محبت سچی اور پاکیزہ ہو تو ایک دن ضرور حاصل ہوتی ہے تم بس اسکو اپنے رب سے مانگو وہ ضرور تمہاری پکار سنے گا ” وہ اسکو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولے
“کیا واقعی اللہ مجھے حیا دے دیگا” وہ معصومیت سے بولا جیسے اسکو حیا کے ملنے کا یقین نہ ہو
“ہاں ضرور تم مانگ کرتو دیکھو” وہ اسکو دعا پر اکساتے ہوئے بولے جانتے تھے کہ دعا ہر مشکل کا واحد حل ہے اور عثمان سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا اور دو رکعت صلاة الحاجات پڑھ کر دعا مانگنے لگا
اے اللہ میں جانتا ہوں میں نے آپکا بہت دل دکھایا میں بہت گناہ کرتا ہوں میرے پاس کوئی نیکی نہیں میں دنیا کا سب سے برا لڑکا ہوں میں ایک گندہ بچہ ہوں میں آپ کا کہنا نہیں مانتا نا آپ اسی لئے مجھ سے ناراض ہوگئے” دعا مانگتے ہوئے وہ بالکل بچہ بن گیا جیسے کوئی بچہ اپنے باپ سے لاڈ سے کوئی چیز مانگتا ہے اس یقین کہ ساتھ کہ اسکا باپ اسکے لاڈ پر وہ دے دیگا اسی طرح عثمان اپنے رب سے فریاد کر رہا تھا گڑ گڑا رہا تھا آنسوؤں کی لڑیاں اسکا چہرہ بھگو رہی تھیں
“لیکن آپ تو سب سے اچھے ہیں نا اللہ تعالٰی میرے پیارے اللہ آپ تو رحمن ہیں میں گناہگار ہوں آپ تو غفار ہیں نا اللہ تعالی آپ تو مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں آپ نے ہی تو مجھے بنایا اور اپنی بنائی ہوئی چیز کو کون توڑتا ہے اللہ تعالی پلیز میرے پیارے اللہ آپ کے علاوہ کوئی میرے دل کا حال نہیں جانتا آپ مجھے وہ دے دیں نا پلیز اللہ میں آپکو اب تنگ نہیں کروں گا ناں پلیز نا اللہ میاں اپنے عثمان کی دعا سن لیں میں آپ سے محبت کرتا ہوں تبھی تو آپ سے مانگ رہا ہوں آپ کبھی بھی مجھے منع نہیں کریں گے نا پلیز”عثمان ہچکیوں سے رو رو کر اپنے رب سے فریاد کر رہا تھ اور اسکی فریاد عرش الہی کو ہلا رہی تھی
____________________
“ہادیہ بیٹا کھانا کھالو” ماما اسکے کمرے میں آتے ہوئے بولیں
“مجھے نہیں کھانا” وہ کمبل میں منہ چھپاتے ہوئے بولی
“بیٹا کب تک ایسے رہو گی کھالو کچھ تو کھالو” ماما اسکی منتیں کرتے ہوئے بولیں
“ایک شرط پر کھاؤں گی” وہ ایک دم اٹھتے ہوئے بولی اور اسکی آنکھیں سوجھ رہی تھیں
“ہاں بولو میں ہر شرط ماننے کو تیار ہوں بس تم کھانا کھالو” وہ خوش ہوتے ہوئے بولیں کہ۔کسی طرح وہ کھائیگی تو سہی
“مجھے حیا لادیں” وہ انکی طرف آنسو سے بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولی اور اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ماما کا دل پسیج گیا
“بیٹا وہ آجائیگی” وہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولیں
“مجھے جھوٹی تسلی مت دیں آپ جائیں یہاں سے ماما مجھے اکیلا رہنا ہے” وہ واپس کمبل اپنے اوپر ڈالتے ہوئے بولی اور ماما لب بھینچ کر رہ گئیں
حیا آج صبح اٹھ گئی تھی اسکو آج اسکول جانا تھا ساری کوالیفیکیشن فائلس اکٹھی کر کے وہ تیار ہونے چل دی بوٹل گرین لانگ شرٹ اور سفید تنگ پاجامہ اور سفید دوپٹہ اور سر پر پونی ٹیل بنائے وہ جانے کو تیار تھی
“امی میں جارہی ہوں دعا کریگا” وہ جاتے ہوئے ماں کو گلے لگا کر اور ایمان کو جو سو رہی تھی گال پر پیار کر کے ہوٹل سے نکلی میڈم کے بتائے گئے ایڈریس پر وہ اسکول پہنچی عائشہ نامی لڑکی سے مل کر وہ بہت خوش ہوئی اس کے ذہن میں وہ ایک بڑی عمر کی خاتون ہونگی پر یہ بہت خوبصورت لڑکی تھی اسکول میں صرف لیڈیز تھیں کسی مرد کے آنے کی اجازت نہیں تھی اسلیے اور ٹیچرز بھی یہاں اطمینان محسوس کرتی تھیں
“کیسا لگا آپکو اسکول مس حیا” عائشہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
“بہت بہت اچھا” فرط جذبات سے اس سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا
“امی نے بہت تعریفیں کی تھیں تمہاری تم آج نہیں آتی تو میں خود ہی آجاتی” وہ دوستانہ رویہ لئے اس سے بات کر رہی تھی حیا کو عائشہ اچھی لگی تھی
“اچھا حالانکہ میں ان سے صرف ایک بار ملی ہوں” حیا کی حیرانی بجا تھی
“جو لوگ اچھے ہوتے ہیں نا وہ پہلی نظر میں ہی دل کو بھا جاتے ہیں” وہ اسکے لئے کافی نکالتے ہوئے بولی
“تو کلاسس آج سے لوگی یا کل سے؟” وہ اسکے طرف دیکھتے ہوئے بولی
“جیسے آپ کہیں” وہ بھی جوابا مسکرائی
“میرے خیال میں آج پورے اسکول کا اچھی طرح معائنہ کرلو اور سلیبس وغیرہ دیکھ لو پھر کل سے پڑھانا شروع کر دینا” وہ اسکو ایک مفید مشورہ دیتے ہوئے بولی
“اچھا میرا ٹائم ہوگیا میں چلتی تم اسٹاف میں بیٹھ جاؤ کافی اچھی ٹیچرز ہیں” وہ اپنا عبایا پہنتے ہوئے بولی
“آپ کہاں جارہی ہیں؟” حیا چونکتے ہوئے بولی
“میری کلاسس ہیں نا” وہ اب سر پر اسکارف باندھ رہی تھی اور حیا اسکو دیکھ رہی تھی پھر اس نے نقاب باندھا اور نقاب سے چھلکتی اسکی آنکھیں مزید حسین لگ رہی تھیں حیا بہت متاثر ہورہی تھی اسکے بعد اس نے موزے اور دستانے پہنے اور آنکھوں پر ایک اور پردہ ڈالا لندن جیسے ماڈرن کلچر میں یہ ایک لڑکی واقعی اسکو حیران کر رہی تھی وہ شاق کے عالم میں اسکو دیکھ رہی تھی
“ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟” وہ مسلسل اسکو اپنی طرف دیکھتا پاکر بولی
“نن نہیں کچھ نہیں” وہ چونکتے ہوئے مسکراتی اور حیران ہوتی کھڑی ہوگئی
“اچھا السلام علیکم” وہ اسکے ساتھ مصافحہ کرتی روم سے نکلی تو حیا اسٹاف میں آگئی لیکن اسکا ذہن عائشہ میں اٹکا ہوا تھا وہ یہ سوچ سوچ کر حیران تھی کہ لندن میں اتنا سخت پردہ کون کرسکتا ہے؟؟؟
_________________________________________
“بابا میں نے دعا مانگی تھی” وہ لاونچ میں بابا کے ساتھ بیٹھا تھا
“تو” بابا کا اسکا یہ جملہ کہنا کچھ سمجھ نہیں آیا
“تو وہ تو نہیں آئی آپ نے کہا تھا دعا سے آجائیگی” عثمان باپ کے سامنے بالکل بچہ بن گیا تھا
“آجائیگی یہ تھوڑی کہا تھا کہ کل ہی آجائیگی” بابا اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولے جو بالکل ایک ضدی بچہ کی طرح حیا مانگ رہا تھا
“کب آئیگی؟” عثمان انکی طرف دیکھتا ہوا بولا
“جب تم دعاؤں کو اور کثیر کر دوگے جب تمہاری محبت میں اللہ کی محبت راجح ہوگی تو جب تم اللہ کے ہوجاوگے تو اللہ تمہیں وہ دیگا جو تم چاہتے ہو” بابا سکو سمجھاتے ہوئے بولے
“مجھے اللہ سے محبت ہے بابا” وہ نا سمجھی میں بولا
“تو اس سے محبت کا اظہار کرو وہ خوش ہوگا تو تمہیں وہ دیگا جو تم چاہتے ہو کیونکہ وہ اپنے محبوب بندے کو اداس نہیں دیکھ سکتا اور ہم سب اسکے محبوب ہیں نا” بابا اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
“تم اور مانگو مانگتے رہو مانگے رہو جبتک تمہیں نہ ملے ۔۔۔تم اللہ کو دوست بنا لو بیٹا” بابا اسکو سمجھارہے تھے اور بابا کی باتیں اسکے دل کو لگ رہی تھیں سچ ہے غم۔میں انسان اللہ کے قریب ہوجاتا ہے
_________________________________________
“سنیں” تائی تایا کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں
“ہوں” تایا کتاب سے سر اٹھاتے ہوئے بولے
“شہریار آرہا ہے اسکی کال آئی تھی” تائی خوش ہوتے ہوئے بولیں
“چلو شکر اسکو اپنے ماں باپ کی یاد تو آئی” تایا واپس کتاب کھولتے ہوئے بولے
“اب ایسا بھی نہیں ہے میرا بیٹا دن بھر محنت کرتا ہے اسلئے بات نہیں کر پاتا” تائی بیٹے کا دفاع کرتے ہوئی بولیں
“ہونہہ” تایا سر جھٹک کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگئے جبکہ تائی شہریار کا کمرہ سیٹ کروانے چل دیں
_________________________________________
“آپی پارک چلیں نا پلیز”ایمان کب سے حیا سے ضد کر رہی تھی مگر حیا اپنے مطالعے میں مصروف تھی
“چلتے ہیں گڑیا تھوڑی دیر میں” وہ اسکی ضد سے تنگ آکر بولی
“پر ابھی چلیں مجھے ابھی جانا ہے” ایمان کی ایک ہی رٹ تھی مجبورا حیا کو اٹھنا پڑا
“چلو” وہ سلیپرز اور دوپٹہ پہن کر اسکی انگلی پکڑ کر بولی
پارک پہنچ کر ایمان بھاگتی ہوئی ایک بینچ پر گئی
“ہیلو سعد بھائی” ایمان چیختے ہوئے بولی حیا کو اب سمجھ آئی کہ وہ کیوں اتنا جلدی جلدی کہ رہی تھی
“ہیلو بے بی اتنی دیر سے آئی” سعد اسکے گالوں پر پیار کرتے ہوئے بولا
حیا کو یہ سب بہت نا گوار گزر رہا تھا لیکن وہ پبلک پلیس پر کچھ کہ نہیں سکتی تھی اور آج تو رش بھی کافی تھا تو اس نے خاموش رہنے پر عافیت جانی
“ہیلو پرنسس” سعد اب حیا سے مخاطب تھا حیا نے نا گواری سے منہ پھیر لیا
“ارے میں شریف معصوم سا پیارا سا ہینڈسم سا بندہ ہوں آپ پتہ نہیں مجھے کیا سمجھ رہی ہیں” سعد اسکی نا گواری محسوس کرتے ہوئے بولا
“کیا آپ پلیز چپ ہوسکتے ہیں؟؟” حیا درشتگی سے بولی
“اللہ نے یہ منہ مبارک چپ رہنے کو تو نہیں دیا نا” اس کی معصومیت عروج پر تھی
“کیا ہم بات کرسکتے ہیں؟” سعد سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا
“نہیں مجھے آپ سے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے” حیا اجنبیت سے بولی
“پر مجھے ہے آپی” اسکے آپی کہنے پر حیا نے چانک کر اسے دیکھا چلو شکر وہ اسکو بڑا تو سمجھا
“سعد بھائی چلیں نا” ایمان کی آواز پر وہ حیا کو غور سے دیکھتا ہوا ایمان کے پیچھے چل دیا
ایمان نے آج سعد کو تھکا دیا تھا وہ سانس لینے کو حیا کے پاس آکر بیٹھا حیا اسوقت اپنی سوچوں میں گم تھی
“کیا سوچ رہی ہیں؟” سعد اسکا دھیان کہیں اور محسوس کرتے ہوئے بولا
“آپ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟” حیا نے بے زاری سے کہا
“اور آپ مجھے اپنا دوست کیوں نہیں سمجھ لیتیں؟” سعد اسی کے لہجے میں بولا تو حیا ٹھنڈی سانس لیکر رہ گئی
“اس دنیا میں دوست نہیں ہوتے” حیا کچھ یاد کرتے ہوئے بولی
“ہوتے ہیں کچھ دوست جو آپ کیلئے جان بھی دے دیتے ہیں آپ مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتیں پر میں آپکو ضرور سمجھتا ہوں جانتی ہیں کیوں؟؟” سعد کوئی جواب نا پاکر بولا
“میں بہت چھوٹا تھا جب میری ماں مجھے چھوڑ کر کسی آدمی کے ساتھ چلی گئی میں نہیں جانتا وہ کہاں ہیں پر مجھے ان سے ذرا بھی محبت نہیں اسوقت سے مجھے عورت سے نفرت ہونے لگی میں ہر عورت کو اپنی ماں جیسا تصور کرتا تھا پھر کچھ عرصہ بعد میرا بچپن کا دوست میری جان بچاتے بچاتے سمندر میں ڈوب کر شہید ہوگیا یہ اس وقت کی بات ہے جب میں پاکستان ٹور پر اپنے دوست کے ساتھ گیا تھا اسکے بعد سے میں بہت اکیلا ہوگیا میں اپنے دوست کو یاد کر کے بہت روتا تھا اور چند دن ہاسپٹل میں بھی رہا پھر جانتی ہیں بابا نے مجھے ایک سچی کہانی سنائی ایک ایسی عظیم عورت جس نے سب کچھ اپنے بچوں اور شوہر کیلئے قربان کردیا اور بابا نے یہ بھی کہا کہ ایک دن وہ مجھے ان سے ملائیں گے بھی اس شرط پر کہ میں عورتوں کو برا سمجھنا چھوڑوں کیونکہ ہر عورت میری ماں جیسی بے حیا نہیں ہوتی بابا نے کہا کہ میں عورت کی حیا اور بے حیائی انکی آنکھوں سے پہچان سکتا ہوں اور آپ کی آنکھوں میں میں نے حیا دیکھی ایک پاکیزگی پھر میں ایمان سے ملا وہ اپنی آپی کے بارے میں بہت کچھ بتارہی تھی اور میں حیران تھا ایک عورت کیسے اتنا زیادہ کٹھن سفر کر سکتی ہے جو ایمان کی آپی نے کیا میں نے ایمان سے کہا مجھے اپنی آپی سے ملواؤ اس نے آپ کی طرف اشارہ کردیا میں آپ کے پاس آیا تو پتہ نہیں کیوں آپ میں ایسی کیا بات ہے کہ میں خود کو آپکا دوست سمجھ بیٹھا ہوں میرا دل چاہتا ہے میں آپ سے وہ سب کہوں جو ایک عرصہ سے دل میں ہے میرا دل چاہتا ہے آپ میرے ایسے نخرے اٹھائیں جیسے ایمان کے اٹھاتی ہیں کیونکہ میں ایک عورت ایک ماں ایک بہن کے پیار سے محروم ہوں ” سعد کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی حیا اسکی بات سن کر شاق میں تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی بظاہر لا ابالی سا یہ لڑکا اندر سے کتنا گہرا ہے سچ کہتے ہیں لوگ جن کے غم کی شدت کا اندازہ کرنا ہو انکی ہنسی سے کرو جو ہر بات پر ہنسی مذاق کرتے ہیں اصل میں وہ اپنا درد چھپاتے ہیں اور حیا نے کبھی بھی سعد کو سیریس نہیں دیکھا تھا
“ایسے کیا دیکھ رہی ہیں خوبصورت ہوں نا میں؟” سعد حیا کی نظریں اپنے اوپر محسوس کرتا ہوا بولا حیا اب نہ چڑی نہ مسکرائی نہ ناگواری محسوس کی بس اسکو دیکھتی رہی
“کیوں نہ تم میرے ہوٹل چل کر میری اور بہنوں اور ماں سے ملو” حیا مسکراتے ہوئے بولی
“ہائیں یہ کایا کہاں سے پلٹی؟” سعد حیران ہوتا ہوا ہنسا
“بکواس بند کرو اور چلو” حیا برہمی سے بولی
“چلیں آپی جان” وہ لاڈ سے بولا اور حیا اسکے طرز تخاطب پر مسکرادی
“ایمان کو لے آؤ پہلے سعد” حیا اٹھتے ہوئے بولی کچھ دیر وہ سب ہوٹل میں تھے زنیرہ شہیرہ اور شائستہ کو یہ لڑکا بہت اچھا لگا تھا جو پل۔پل انکو ہنسا رہا تھا شائستہ اپنے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر سرشار تھیں
_________________________________________
“عثمان” حیا نیند سے پکارتے ہوئے اٹھی
“کیا ہوا آپی” شہیرہ اسکو گھبراہٹ کے عالم میں دیکھتی ہوئی پریشان ہوئی
“عثمان شہیرہ عثمان ٹھیک نہیں ہیں مم مجھے بہت برا خواب آیا ہے” حیا کے چہرے پر پسینے تھے
“آپی خواب ہیں آپ۔چھوڑیں” شہیرہ اسکو تسلی دیتے ہوئے بولی
“نن نہیں شہیرہ میرا دل بہت بے چین ہے” حیا منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
“آپی آپ دعا کریں سب ٹھیک ہوگا” شہیرہ اپنی جمائی روکتے ہوئے بولی
اور حیا آدھی رات کو پہلی مرتبہ نماز کیلئے کھڑی ہوئی اور رب سے عثمان کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی اور اسی پل اسی پہر کراچی میں موجود عثمان حیا کو مانگ رہا تھا اور چاند دونوں کی عجیب انوکھی محبت پر مسکرا رہا تھا
_______________________________________
“آپ کہیں جا رہی ہیں؟” سعد آج صبح صبح انکے پاس پہنچ گیا تھا ناشتہ لیکر اور حیا کر تیار ہوتا دیکھ کر بولا
“ہاں اسکول جارہی ہوں” حیا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے بولی
“ارے آپ اتنی بڑی ہوکر اسکول جارہی ہیں” سعد کا قہقہہ بلند ہوا
“پاگل ہے یہ لڑکا پڑھانے جارہی ہوں” حیا اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولی
“ہائے کتنے خوش نصیب بچے ہوں گے جو آپ سے پڑھیں گے” سعد اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا
“چپ کرو تم تو” حیا مسکراتے ہوئے بولی اور جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی
“میں چھوڑ آؤں آپکو؟” سعد بھی اسکے ساتھ کھڑا ہوگیا
“چلو آجاو” حیا ماں سے مل کر باہر آگئی دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے
“آپی” سعد چلتے چلتے مخاطب ہوا
“ہوں” حیا سامنے دیکھتے ہوئے بولی
“کیا آپ مجھے بھائی سمجھتی ہیں” سعد کے لہجے میں ایک مان تھا
“ہاں بالکل” حیا اسکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر بولی
“تو پھر مجھ سے وہ سب شیئر کریں جو آپ کی آنکھیں کہتی ہیں” سعد کی بات پر وہ چونکی
“میری آنکھیں کیا کہتی ہیں” وہ سعد کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے بولی
“کہ آپ بہت کچھ سہ کر آئی ہیں آپکی آنکھوں میں تھکاوٹ دکھ اور ایک حسرت ہے” سعد اسکی سامنے آتا ہوا بولا
“ارے پاگل ہٹو مجھے دیر ہورہی ہے” حیا اسکو اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے بولی
“پہلے مجھ سے وعدہ کریں آپ شام کو مجھے سب کچھ بتائیں گی” وہ ایک انچ بھی نہیں ہلا
“ارے مجھے کچھ نہیں ہوا کیا بتاؤں” حیا ہنستے ہوئے بولی اسکی بات پر سعد نے خفگی سے اسکو دیکھا
“صاف بولیں نا کہ بھائی نہیں سمجھتیں” سعد منہ بناتے ہوئے بولا
“اچھا نا شام کو ابھی تو جانے دو” حیا اسکی معصومیت پر مسکرادی اور سعد اسکو مسکراتا ہوا اسکول چھوڑ آیا
_________________________________________
“کیا ہوا مان؟” سعد حیا کو چھوڑ کر واپس آچکا تھا شائستہ زنیرہ اور شہیرہ کچھ کام کیلئے باہر گئے جبکہ ایمان سعد کے ساتھ بیٹھی رہی لیکن افسردہ۔۔۔سوچوں میں گم
“سعد بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے” ایمان سوچتے ہوئے بولی
“ہاں بولو گڑیا” سعد ہمہ تن گوش ہوا
“میرے پاس ایک نمبر ہے مجھے اس پر کال کرنی ہے لیکن آپی کو بتائے بغیر کیونکہ آپی کرنے نہیں دیتیں کیا آپ میری ہیلپ کریں گے” ایمان بہت آس سے اسکو دیکھتے ہوئے بولی
“کسکا نمبر ہے؟” سعد نے پوچھا
“پاکستان کا ہے میرے بھائی کا” ایمان نے نمبر چٹ جو کچھ دیر پہلے اسکو اپنی اسکول ڈائری میں پڑی ملی تھی سعد کے سامنے کردی
“لیکن آپی کیوں نہیں کرنے دیتیں؟” سعد کو تعجب ہوا
“آپی نے مجھے کہا ہم یہاں گھومنے آئے ہیں لیکن کل جب آپی شام کو کافی لینے گئیں تو اپنی ڈائری یہاں چھوڑ گئیں میں نے پڑھ لی” ایمان کی آنکھیں ڈبڈبائیں
“تو؟” سعد حیران ہوا
“تو ہم یہاں گھومنے نہیں آئے سعد بھائی ہمیشہ کیلئے آئے ہیں اپنے مانی بھائی کع چھوڑ کر مجھے انکے پاس جانا ہے وہ مجھے کتنا یاد کرتے ہونگے میں نے ان سے بات کرنی ہے” ایمان اس سے لپٹ کر رونے لگ گئی سعد عجیب شش و پنج میں گھر چکا تھا
سعد ایمان کو لیکر پارک آگیا ایمان کی ضد مسلسل جاری تھی کہ اسے عثمان سے بات کرنی تھی
“گڑیا میں آپی سے پوچھ کر کرواؤں گا نا” سعد عاجز آکر بولا
“آپی کو کروانا ہوتا تو وہ منع ہی کیوں کرتیں” ایمان زور سے بولی
“تو میں تو نہیں جانتا نا انکو کیسے کرواؤں” سعد پریشان ہوتا ہوا بولا
“اوکے نہ کروائیں” ایمان اس سے ناراض ہو کر بینچ پر جاکر بیٹھ گئی کچھ دیر بعد سعد اسکے پاس گیا تو ہنوز منہ پھلا کر بیٹھی تھی
“اچھا ٹھیک میں کرواؤں گا لیکن ابھی نہیں کرواسکتا میں اپنا موبائل گھر چھوڑ کر آیا ہوں” سعد اسکے گال کھینچتے ہوئے بولا
“تو ابھی لے آئیں” ایمان اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“لڑکی کچھ رحم کرو میرا گھر اتنا دور ہے” سعد اسکے سر پر چپت لگاتے ہوئے بولا
“ٹھیک ہے لیکن کل ضرور کروائیگا اچھا” ایمان انگلی اٹھا کر وارن کرتے ہوئے بولی جسپر سعد ہنس دیا
“اچھا میری ماں” اسکے پیٹ پر گدگدی کرتے ہوئے بولا بدلے میں ایمان بھی اسکو گدگدی کرنے لگی اور دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے
_________________________________________
“ہاں تو کیسا لگا پہلی دفعہ پڑھا کر” حیا اپنی فرسٹ کلاس لیکر آئی تو عائشہ نے خوشدلی سے پوچھا
“بہت اچھا” حیا بھی جوابا مسکرائی
“اچھا بیٹھو مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے” عائشہ سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تو حیا بیٹھ گئی
“جی کہیے” حیا اسکی طرف متوجہ ہوکر بولی
“تم لوگوں کی رہائش کہاں ہے؟” عائشہ نے سوال کیا
“ابھی فی الحال تو ہوٹل میں ہے گھر ڈھونڈ رہی ہوں” حیا نارمل لہجے میں بولی
“میری نظر میں ہے ایک گھر” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی اور حیا اسکی بات پر کھل اٹھی
“واقعی کہاں ہے؟” حیا خوش ہوتے ہوئے بولی اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی ہوجائیگا
“ہمارے گھر کے دو پورشنز ہیں ایک پورشن میں میں اور ماما رہتے ہیں میرے بابا کی ڈیتھ ہوگئی ہے اور دوسرے پورشن میں ایک فیملی رہتی تھی جو اب پاکستان شفٹ ہوگئی ہے تم دیکھ لو گھر مناسب لگے تو ادھر ہی آجاو اچھا ہے میری بوریت بھی دور ہوجائیگی اور ماما کا اکیلا پن بھی” عائشہ مسکراتے ہوئے بولی حیا ہچکچا رہی تھی
“کرایہ کتنا ہے؟” حیا کا سب سے پہلا سوال یہی تھا
“کرایہ نہیں ہے بس رہنا ہے یار” عائشہ مسکرا کر بولی
“نہیں مس عائشہ میں اس طرح نہیں آونگی آپ پلیز کرایہ بتائیں” حیا قطعیت سے بولی
حیا ہمیں اپنا سمجھو میں تمہاری ایک دوست اور بہن کی طرح ہوں اور ہمیں کرایہ کی ضرورت نہیں اور یہ نہیں سمجھو کہ صرف تمہارے ساتھ کر رہی ہوں بلکہ جو بھی آتا ہے اس سے ماما یا میں کچھ نہیں لیتے دوسرا پورشن صرف رونق کیلئے بنایا ہے” عائشہ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
“مم میں ماما سے مشورہ کر کے بتاؤں گی” حیا شش و پنج میں پڑ گئی
“ہاں ٹھیک ہے چلو میں چلتی ہوں مجھے دیر ہورہی ہے” وہ عبایا نکالتے ہوئے بولی اور حیا آج پھر اسکو عبایا پہنتے مبہوت سی دیکھ رہی تھی
“آپ کونسی کلاسس لیتی ہیں؟” حیا پوچھے بنا نہیں رہ سکی
“میں عالمہ کا شورٹ کورس کر رہی ہوں” عائشہ کی بات پر حیا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
“لندن میں؟؟؟” حیا کے منہ سے بے ساختہ نکلا
“لندن ہو یا امریکہ میرے نبی کا دین اسلام تو ہر جگہ ہے نا” عائشہ نے متانت سے کہا اور حیا آج اسکو بہت بلند دیکھ رہی تھی اسکے لہجے میں دین کیلئے بے پناہ محبت تھی
“چلو میں چلتی ہوں تم شام کو گھر دیکھنے ضرور آجانا میں ایڈریس تمہارے موبائل نمبر پر سینڈ کر دیتی ہوں” عائشہ دستانے پہنتے ہوئے بولی تو حیا اثبات میں سر ہلاتی کھڑی ہوگئی
_________________________________________
“آپی” حیا اسکول۔سے نکل رہی تھی کہ سعد بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا
“تم پھر آگئے؟” حیا اسکو دیکھ کر مسکرائی
“میں نے سوچا کہ آپکا اسکول سے گھر تک کا سفر خوشگوار کر دوں اپنی موجودگی کے ساتھ” سعد فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولا
“اوہو”حیا مسکرائی
“آپی یہ عثمان صاحب کون ہیں؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سعد نے سوال کر ہی لیا جسپر حیا چونک گئی اور اسکے نام پر ہارٹ بیٹ تیز ہوگئی
“کیوں؟” حیا کو اسکا سوال کرنا سمجھ نہیں آرہا
“ایسے ہی ایمان بہت ذکر کرتی ہے تو میں نے سوچا کون شخص ہیں یہ؟” سعد اصل بات چھپاتے ہوئے بولا
“میرے باس تھے” حیا نے مختصر جواب دیا جسپر سعد حیران ہوا
“ہائے باس تھے؟؟؟ ایمان تو کہ رہی تھی کہ اسکے بھائی تھے؟” سعد حیرت سے بولا
“ہاں میرے باس تھے ایمان سے دوستی ہوگئی تھی تو اپنا بھائی سمجھ بیٹھی کافی اٹیچ ہوگئی تھی ان سے” حیا افسردہ لہجے میں بولی
“آپی ایک بات پوچھوں؟” سعد ڈرتے ڈرتے بولا
“ہوں پوچھو” حیا چلتے چلتے بولی
“کیا آپ سب سے چھپ کر ادھر آئی ہیں؟” سعد نے ڈرتے ڈرتے کہا
“تمہیں کس نے کہا؟” حیا چونکتے ہوئے بولی
“ایسے ہی پوچھ رہا ہوں آپ کو کبھی پاکستان کال کرتے ہوئے نہیں دیکھا نا” سعد مسکراتے ہوئے بولا
“تو کال ہوٹل سے باہر کیوں کروں گی ہوٹل میں کر سکتی ہوں” حیا اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی
“آپی آپ ادھر کیوں آئی ہیں؟” سعد نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا
“تمہارا دماغ کھانے اب چلو مجھے بھوک لگ رہی ہے” حیا تیز تیز قدم اٹھاتی چلنے لگی جبکہ سعد ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا
“پتہ نہیں یہ کب مجھے سب بتائیں گی” وہ سوچتا ہوا اسکے پیچھے چل دیا
_________________________________________
شام کو حیا شائستہ بیگم۔کے ساتھ عائشہ کے گھر گئی عائشہ اور اسکی ماما ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں
“شکر ہے حیا تم آگئی میں بہت خوش ہوں” عائشہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے پیار سے بولی تو حیا اسکے اس قدر پیار پر مسکرادی
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد عائشہ نے ان دونوں کو گھر دکھایا جو دونوں ماں بیٹی کو بہت پسند آیا تین بیڈروم پر مشتمل یہ گھر انکے رہنے کیلئے بہت اچھی جگہ تھی
“بس اب جلدی سے ادھر آجاو” عائشہ ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بولی
“یہ میری بیٹی بڑی بے صبری ہے اسکو تو حیا ایسے پسند آئی ہے کہ بس ہر وقت بس حیا حیا کرتی رہتی ہے” ماما عائشہ کی خوشی محسوس کرتے ہوئے بولیں جسپر دونوں مسکرادئے
“تھینک یو مس عائشہ” حیا تشکر سے بولی
“یہ مس وس بولنا چھوڑ دو مجھے پلیز” عائشہ ہنستے ہوئے بولی
“چلو میں تمہیں لان دکھاؤں” عائشہ دونوں خواتین کو چھوڑ کر حیا کو لئے لان میں آگئی
“مجھے اپنے گھر کا یہ حصہ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے مجھے قدرت کے اس ماحول میں بہت سکون ملتا ہے” عائشہ پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“تم بھی کچھ بولو” حیا کو مسلسل خاموش پاکر عائشہ بولی
“کیا بولوں؟” حیا مسکرائی
“کیا تم ایسے ہی کم گو ہو؟” عائشہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“ہاں شاید” وہ اسکو بول نہ پائی کہ اب وہ کم گو ہوگئی ہے پہلے ایسے نہیں تھی
“تمہارے فادر کی ڈیٹھ کیسے ہوئی؟” عائشہ بولی تو حیا چونک گئی
“ڈیٹھ نہیں ہوئی انکی” اسکے لہجے میں سختی آگئی
“ہائیں تو پھر کہاں ہیں وہ؟” عائشہ حیران ہوتے ہوئے بولی
“چلے گئے چھوڑ کر ہمیں” حیا بولی تو اسکے لہجے میں کانچ سی چبھن تھی
عائشہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی اسکے چہرے پر تاریکی چھاگئی تھی عائشہ نے یہ موضوع کسی اور وقت کیلئے چھوڑ دیا
“اچھا تم کل سے آجاو گی نا پھر؟” عائشہ موضوع بدلتے ہوئے بولی
“ہاں انشاء اللہ” حیا بھی مسکرائی دونوں کچھ دیر باتیں کر کے اندر چلی گئیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...