آئینور اور سیما خالہ کچن کے کام سمیٹ کر باتیں کرتی ہوئی باہر نکل رہی تھیں، جب غفار گھر میں داخل ہوا۔ آئینور نے اسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپا لیا۔
” مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔”
وہ آئینور کے پاس آ کر نظریں جھکائے گویا ہوا۔ اس کی بات پر آئینور نے چہرہ موڑ کر سیما خالہ کو دیکھا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
” جی !! بولیں کیا بات ہے؟ ”
آئینور بھی نظریں جھکائے پوچھنے لگی۔
” میں۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔” وہ اپنی بات کے لیے مناسب الفاظ سوچنے لگا۔
” دیکھیں غفار بھائی !! آپ کو جو بھی بولنا ہے بلا جھجھک بولیں۔ میں سن رہی ہوں۔”
آئینور کی بات سے غفار کو تھوڑی ڈھارس ملی۔
” آج آپ نے جس بچے کو دیکھا تھا۔ وہ میرا ہی بیٹا ہے۔ مگر وہ لڑکی میری بیوی نہیں، مطلب کہ۔۔۔ آج سے چار سال پہلے ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ شادی بھی کرنے والے تھے۔ لیکن آئمہ کو میرا کردم دادا کے لیے کام کرنا پسند نہیں تھا۔ اس لیے آئمہ نے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ میں یہ سب چھوڑ دوں اور۔۔۔”
” اور آپ نے نہیں چھوڑا، اس لیے وہ آپ کو چھوڑ کر چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ ماں بننے والی ہے، یہ بات بھی آپ سے چھپائی۔ یہ ہی کہنا چاہتے ہیں نا؟ ”
عادت سے مجبور آئینور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
” جی !! ”
غفار دھیرے سے بولا۔ نظریں ہنوز جھکی تھیں۔
” تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ ”
وہ اس کے خاموش ہونے پر پوچھ بیٹھی۔
” میں اب آئمہ اور اپنے بچے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔”
” تو؟ ”
” تو یہ کہ !! آئمہ آج بھی یہ ہی چاہتی ہے میں یہ سب چھوڑ دوں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں آپ کردم دادا سے میری سفارش کریں تاکہ وہ مجھے اس گناہ کی زندگی کو چھوڑنے کی اجازت دے دیں۔”
” آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟ وہ میری بات مان جائیں گے؟ ”
” کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کی بات سے انکار نہیں کرینگے۔”
غفار کی بات پر آئینور نے سر اُٹھا کر اس کے جھکے سر کو دیکھا، پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
” ہر انسان کو اپنے حصّے کی لڑائی خود ہی لڑنی پڑتی ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تو کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ کی جگہ کھڑے نہیں ہوسکتے۔
آپ کو اپنے حق کے لیے خود آواز اُٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ میں آپ کی سفارش تو کر سکتی ہوں۔ مگر اپنے لفظوں میں وہ درد وہ تکلیف نہیں لاسکتی، جو آپ کے اندر ہے۔ ایک انسان اپنی وکالت بہتر طریقے سے کرسکتا ہے بجائے دوسرے کے۔ اس لیے میں یہ ہی کہوں گی، آپ خود کردم سے بات کریں۔”
اس کی بات پر غفار کا چہرہ بجھ سا گیا تو وہ مزید بولی۔
” ہاں !! آپ کے بات کرنے کے بعد میں کوشش کروں گی۔ کردم کو قائل کرنے کی۔”
آئینور کہہ کر خاموش ہوگی۔ اب وہ غفار کے بولنے کی منتظر تھی، جو سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔
” کیا ہو رہا ہے؟ ”
غفار کے بولنے سے پہلے ہی کردم کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ دونوں نے بیک وقت چہرہ اُٹھا کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ جہاں سے کردم اُترتا ان ہی کی طرف آ رہا تھا۔
” غفار بھائی آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔”
آئینور فوراً بولی۔ اس کی بات پر کردم نے غفار کی جانب دیکھا، جو اب بھی سر جھکائے کھڑا تھا۔
” کیا ہوا غفار؟ ایسی کیا بات ہے جو تم مجھ سے کرنے کے بجائے نور سے کر رہے ہو؟ ”
کردم اس کے جھکے سر کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔ غفار خاموش رہا۔
” آپ لوگ بات کریں میں چلتی ہوں۔”
آئینور انہیں اکیلے میں بات کرنے کا موقع دیتی فوراً سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے جاتے ہی کردم غفار کی طرف متوجہ ہوا۔
” آخر کیا بات ہے؟ کچھ بولو گے بھی؟ ”
” دادا وہ۔۔۔” اور پھر غفار نے ساری بات کہہ سُنا ڈالی۔ اس سب کے دوران کردم خاموش کھڑا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ غفار بول کر خاموش ہوا اور ایک نظر کردم کی طرف دیکھا جو بے تاثر چہرہ لیے کھڑا تھا۔ غفار مزید بولا۔
” آپ چاہیں تو مجھے جان سے مار دیں مگر میں اب مزید کسی کی جان نہیں لے سکتا۔”
غفار نے کہہ کر کمر میں لگی پستول نکال کر اس کے سامنے کردی۔ کردم نے ہاتھ بڑھا کر پستول کو اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اگلے ہی لمحے کردم کا ہاتھ اُٹھا مگر۔۔۔ وہ اس کا کندھا تھپک کر مسکراتے ہوئے بولا۔
” جاؤ !! جی لو اپنی زندگی۔”
کردم کی بات پر یکدم غفار کی آنکھیں نم ہوئیں۔
” شکریہ دادا !! ”
مارے تشکر کے وہ بس اتنا ہی بولا۔
” ارے کوئی نہیں یار !! تم نے آج تک میرے لیے بہت کچھ کیا، اب میری باری ہے۔ جاؤ مگر ہاں۔۔۔ یہاں سے دور چلے جانا۔ ہو سکے تو شہر ہی چھوڑ دینا۔”
” جی دادا !! میں ایسا ہی کروں گا اور آپ کا احسان بھی کبھی نہیں بھولوں گا۔”
کردم مسکرا دیا۔ غفار نم آنکھوں سے اس کے گلے لگ گیا۔
” بس کرو !! کیا لڑکیوں کی طرح آنسو بہا رہے ہو۔ اب جاؤ آئمہ انتظار کر رہی ہوگی۔”
کردم کی بات پر مسکراتا وہ ایک پھر اس کے گلے مل کر وہاں سے چلا گیا۔ اوپر کھڑی آئینور مسکراتے لبوں سے یہ منظر دیکھتی خواب گاہ کے اندر قدم بڑھا گئی۔
۔*****************۔
وہ خواب گاہ میں داخل ہوا تو سامنے ہی آئینور بیڈ پر کتابیں لیے بیٹھی تھی۔ کردم بھی آ کر بیڈ کی دوسری سائڈ پر لیٹ گیا۔ اس کے لیٹتے ہی آئینور نے کتابیں اُٹھا کر سائڈ پر رکھیں اور لائٹ بند کرتی خود بھی لیٹ گئی۔
کمرے میں اندھیرے کے ساتھ ساتھ خاموشی نے بھی جگہ لی ہوئی تھی جسے کردم کی آواز نے توڑا تھا۔
” نور !! ”
اُس نے دھیرے سے پکارا۔
” جی !! ”
آنکھیں بند کیے ہی وہ بولی۔
” ایسا کیوں ہے؟ ایک عورت کے حصول کیلئے مرد سب کچھ کرنے اور چھوڑ نے کے لیے تیار ہو جاتا ہے؟ میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔ یہاں تک کہ تم سے محبت کے بعد بھی نہیں۔”
وہ اس کی طرف کروٹ لے کر پوچھنے لگا۔
” عورت کے لیے نہیں انسان کے لیے۔”
آئینور سیدھی لیٹی آنکھیں بند کیے ہی بولی۔
” یہ اللّٰه کی طرف سے ہوتا ہے۔ جب اللّٰه نے اپنے بندے کو آزمانا ہوتا ہے یا سیدھی راہ پر لانا ہوتا ہے تو اکثر لوگوں کی زندگی میں کسی ایسے شخص کو بھیج دیتا ہے۔ جس کے حصول کیلئے وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ اس شخص کے زریعے اُسے آزمایا جاتا ہے یا راہِ راست پر لایا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے سوائے انسان کے۔”
” اچھا مجھے تو نہیں لگتا۔ بلکہ انسان کو خریدنا زیادہ آسان ہے۔”
کردم جو خاموشی سے اس کے چہرے کا طواف کر رہا تھا۔ اس کی بات پر فوراً بولا۔ آئینور کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ در آئی۔
” ہاں !! بہت آسانی سے خریدا جاسکتا ہے۔ مگر صرف انسانی جسم کو اُس کے جزبات کو نہیں۔ کسی کے جزبات کو حاصل کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ محبت قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ جس کو آپ سے محبت نہیں ہے۔ آپ اُس کے لیے اپنی جان بھی دے دیں، تب بھی وہ آپ سے محبت کر ہی نہیں سکتا۔ تبھی تو اللّٰه انسان کی رسی کھینچنے کیلئے ایسے شخص کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس کے حصول کیلئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہ بھی جسے کرنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔”
اس کی بات پر کردم اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ بھی اسے حاصل کر چکا تھا۔ مگر آئینور کے جزبات وہ تو اب تک ان کے درمیان نہ تھے۔
” تو اس لیے آئمہ کی محبت میں آج غفار میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔”
کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد کردم پھر گویا ہوا۔
” نہیں !! آئمہ کی محبت میں نہیں، اپنے بیٹے کی محبت میں۔۔۔ جیسے کہ میں نے ابھی کہا عورت کا حصول نہیں انسان کا حصول، پھر وہ انسان کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
اب غفار بھائی کو دیکھ لیں۔ آئمہ سے محبت تھی۔ لیکن وہ اُس کے لیے نہ بدلے یہاں تک کہ وہ اُن کی زندگی سے چلی گئی۔ مگر اولاد کی محبت نے چند لمحوں میں وہ کام کروا دیا جو آئمہ نہ کرا سکی۔ غفار بھائی کو دوسرا موقع ملا اور انہوں نے اس گناہ کی زندگی کو چھوڑ دیا۔ لیکن ہر کسی کو یہ موقع نہیں ملتا۔ اب میرے پاپا کو دیکھ لیں۔ ماما آئیں اور چلی گئیں۔ مگر وہ نہ بدلے۔”
آئینور رکی اور ایک گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا۔ کردم نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے قریب کیا۔ آئینور نے بھی بنا کسی مزاحمت کے اپنا سر اس کے شانے پر رکھ دیا۔
” غفار بھائی ایک عقل مند انسان ہیں۔ جنہوں نے یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کیونکہ قسمت ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔ ہر کسی کو دوسرا موقع نہیں ملتا۔”
” تم نے یہ سب باتیں کہاں سے سیکھ لیں؟ اتنی چھوٹی سی تو ہو تم۔”
کردم اس کے بال سہلاتے ہوئے شرات سے بولا۔ تاکہ اس کا دھیان بٹا سکے، مگر آئینور اس کی شرارت کو نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔
” ماما کے جانے کے بعد، جب میں یہ ہی سوچتی تھی۔ آخر ماما پاپا کی بے اعتنائی و بے وفائی کے باوجود اتنی محبت کیسے کرتی تھیں۔ بس ان ہی سوالوں کے جواب ڈھونڈتے معلوم ہوا کہ محبت کسی پر رحمت تو کسی پر روگ بن کر نازل ہوتی ہے۔ انسان کو وہیں سے آزمایا جاتا ہے جو اُس کے لیے سب سے عزیز ہوتا ہے۔
ماما کی محبت تو پاپا کے لیے رحمت ثابت نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنا راستہ نہیں بدلا، لیکن پاپا کی محبت ماما کے لیے آزمائش ثابت ہوئی تھی۔ جس میں وہ ہار گئیں اور حرام موت کو گلے لگا لیا۔”
آئینور چپ ہوگئی۔ کردم خاموشی سے چہرہ جھکا کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ اس کا دھیان ہٹانے کیلئے بات بدلی تھی، مگر وہ بھول گیا تھا۔ آئینور کی زندگی کے تمام باب اُس کے تلخ باب سے ہی جڑے ہیں۔
” میں جانتی ہوں کردم !! غفار بھائی کی باتوں نے آپ کو سوالوں میں گہر لیا ہے۔ تبھی آپ یہ سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن میں چاہتی ہوں آپ ان باتوں پر غور کریں۔ کیونکہ قسمت ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو ہمارا انجام ماما پاپا سے بھی بدتر ہو۔”
کردم کے شانے پر سر رکھے وہ سوچ میں غرق تھی۔ یہ طویل گفتگو نامحسوس طریقے سے اس نے صرف کردم کو سمجھانے کے لیے کی تھی۔ لیکن اس کی باتوں کا اثر کردم پہ ہونا تھا یا نہیں یہ تو وہ ہی جانتا تھا۔
” کردم !! ”
” ہمممم !! ”
آئینور نے چہرہ اوپر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ مسکرا دیا۔
” وہ آج مال سے آتے وقت میں نے راستے میں ایک پارک دیکھا تھا۔ کیا میں وہاں تھوڑی دیر کیلئے چلی جایا کروں؟ ”
کردم کی مسکراہٹ سمٹی، وہ ایکدم سنجیدہ ہوا۔
” وہ گھر سے زیادہ دور نہیں ہے، بس تھوڑی دیر کے لیے۔”
آئینور جلدی سے بولی۔ مگر کردم یوں ہی خاموش رہا، شاید اسے یہ بات ناگوار گزری تھی۔
اسے خاموش دیکھ آئینور نے اپنا چہرہ واپس جھکا لیا۔ تبھی کردم کی آواز نے اس خاموشی کو ختم کیا۔
” ٹھیک ہے !! لیکن روز روز نہیں۔ ہفتے میں صرف ایک بار اور وہ بھی رحیم کے ساتھ جانا پڑے گا۔” اس کی بات پر آئینور کا چہرہ کھل اُٹھا۔
” ٹھیک ہے !! ”
خوشی سے چُور لہجے میں کہتی اس نے آنکھیں موند لیں۔
۔*****************۔
رات بھر بارش برسنے کے باعث صبح جاکر موسم کچھ قدرے خوشگوار ہوا تھا۔ ایسے میں وہ تیز رفتار سے چلتا اس چھوٹے سے گھر کے سامنے جا رکا۔ بیل بجا کر اندر سے کسی کے آنے کا انتظار کرتا کہ فوراً ہی دروازہ کھلا۔
” کہاں رہ گئے تھے غفار؟ میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔”
” بس کچھ سامان لینے گیا تھا۔”
غفار بولتا ہوا اندر بڑھا۔ آئمہ بھی اس کے پیچھے چلتی کمرے میں آگئی جہاں ان کا بیٹا “علی” کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔
” پاپا !! ”
وہ غفار کو دیکھتے ہی اس کی گود میں لپکا۔
” میرے شیر !! ”
غفار نے اسے اُٹھا کر اس کے گال چومے۔ آئمہ ان دونوں کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔
” تم نے سامان پیک کر لیا نا؟ ” غفار اب اس کی طرف متوجہ ہوا۔
“جی کر لیا، بس اب نکلنا ہے۔”
” ٹھیک ہے۔” غفار علی کو اسے دے کر سامان کی طرف بڑھ گیا۔
” تم یہ پہن لو۔” غفار نے اس کی جانب ایک شاپر بڑھایا۔
آئمہ اسے تھام کر کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آئی تو عبایا پہنا ہوا تھا۔
“چلو اب چلتے ہیں۔” غفار اسے دیکھ کر بولا۔ اور بیگ تھامے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ آئمہ اور علی بھی اس کے ساتھ ہولیے۔ وہ جا رہے تھے ان سب سے دور۔ ایک نئی منزل ایک نئی زندگی کی خاطر۔ جہاں خوشیاں ان کے انتظار میں تھیں۔
۔*****************۔
کردم تیار ہو کر اندرونی دروازے سے باہر نکلا تو وہ تینوں اس کے انتظار میں گاڑی کے پاس ہی کھڑے نظر آئے۔ وہ چلتا ہوا ان کے پاس آ گیا۔
” رحیم تم ابھی گھر پر رک جاؤ، نور کے ساتھ جانا اُسے کچھ کام ہے۔ اُس کے بعد اڈے پر آجانا۔”
” جی دادا !! ”
وہ رحیم کو ہدایت دیتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی ” نعیم ” نے گاڑی بیرونی دروازے کی جانب بڑھا دی۔
” یہ دادا نے نعیم کو کیوں اڈے پر سے یہاں بلا لیا اور غفار کہاں ہے؟ ”
فاروق گاڑی کے نکلتے ہی ان دونوں سے مخاطب ہوا۔
” پتا نہیں !! ہوسکتا ہے دادا کے کسی کام سے گیا ہو۔”
رحیم کندھے اچکا کر بولا۔
” چلو ہم بھی چلتے ہیں، ورنہ شامت آجانی ہے۔” رحمت نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
” ہاں !! تم دونوں جاؤ میں بعد میں آتا ہوں۔” رحیم نے کہہ کر قدم اندرونی دروازے کی طرف بڑھا دیئے۔
فاروق ” ٹھیک ہے” کہتا خود بھی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔
تینوں الگ ہوئے اور اسی سمے کسی نے تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاشا کو کال لگائی۔
” ہیلو پاشا بھائی !! ”
” جی تھوڑی دیر میں گھر سے نکلیں گے۔”
“جی ٹھیک ہے۔”
دوسری جانب سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا۔ مگر پاشا کی بات سن کر اس شخص کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ در آئی۔
” اب تمہیں پتا چلے گا کردم دادا۔۔۔ اپنوں کو کھونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔”
۔******************۔