یہ آپ کیا کہ رہے ہیں زاویار۔۔۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔
اچھا تو ٹھیک ہے پھر جس سے تمھارا بھائی کہ رہا ہے اسی سے چپ چاپ شادی کر لو۔۔
زاویار۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو اسکے علاوہ ہے کوئی اور آپشن تمہارے پاس۔۔۔۔
دیکھوں ہم بعد میں منا لیں گے نہ انہیں تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔۔ بھائی ہے وہ تمہارا معاف کر دے گا تمہیں۔۔۔
لیکن زاویار۔۔۔
لیکن ویکن کو چھوڑو تم میری ہو اور میں تمہیں ہر گز کسی اور کا ہونے نہیں دوں گا سمجھیں۔۔۔
چلو اب ٹینشن چھوڑو اور سمائل کر کے دکھاؤ۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔
وہ آپ کو کیسے نظر آئے گی؟؟؟؟
وہ میں کل جب تم سے ملوں گا تب دیکھوں گا۔۔۔
جی نہیں ہم کوئی نہیں مل رہے کل۔۔۔
باصفا یہ غلط بات ہے۔۔ میں جب بھی ملنے کا کہتا ہوں تم یوں ہی کرتی ہو۔۔ اب میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا ہم کل مل رہے ہیں اینڈ دیٹس فائینل۔
سنو تمہیں سلوہ(چھوٹی بہن) سے ملنے کا بہت شوق ہے نہ تو کل میں تمہیں اس سے ملواؤں گا۔۔۔
سچی؟؟؟؟
جی ہاں بالکل۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر کل میں تمہیں کالج سے پک کر لوں گا۔۔۔
ایکوئلی زوئی کل بہت امپورٹنٹ لیکچر ہے جو میں مس نہیں کر سکتی۔۔۔
باصفا میں کوئی بھی بہانہ نہیں سنوں گا۔۔۔
زاویار آپ جانتے تو شکریہ۔۔ اگزییمز ہونے والے ہیں۔۔۔
I said no excuse…
اچھا پھر ایسا کرتے ہیں میں 12-12:30 تک فارغ ہو کر وہیں آ جاؤں گی۔۔۔
میڈم ہم ہوٹل میں نہیں میرے فلیٹ میں مل رہے ہیں۔۔۔
فلیٹ میں کیوں۔۔
اووہ کم آن باصفا اب میں سلوہ کو کہاں ہوٹلوں میں لے کر آؤں گا۔۔۔
لیکن زاویار میں فلیٹ میں کیسے۔۔۔۔
باصفا سلوہ ہو گی نہ یار ہمارے ساتھ۔۔۔
زاویار کو اب غصہ آ رہا تھا باصفا پہ۔۔۔ کسی بات میں آ ہی نہیں رہی تھی وہ۔۔۔
ٹھیک ہے اگر تمہیں مجھ پہ یقین نہیں ہے تو مت آؤ۔۔۔ اوکے باۓ۔۔
ارے زاویار۔۔۔ سنیں تو۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔
بس تم رہنے دو۔۔۔ میں سمجھ گیا ہوں تمہارا جو بھی مطلب تھا۔۔۔
تم نے ایسا سوچ کر مجھے میری ہی نظروں سے گرا دیا ہے۔۔۔
زاویار پلیز ناراض تو مت ہوں ۔۔۔۔ میں آ جاؤں گی نہ آپ مجھے ایڈریس بتا دیں۔۔۔
نہیں رہنے دو اب تم۔۔
زوئی آئم سوری پلیز معاف کر دیں نہ۔۔۔
تم جانتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اسی لی آزماتی ہو تم مجھے۔۔۔
جی بالکل۔۔۔۔۔ اور مجھے آپ پہ اور اپکی محبت پہ پورا بروسہ ہے۔۔۔
چلو اب میں رکھتا ہوں اپنا خیال رکھنا۔۔ اللہ حافظ۔۔
اللہ حافظ۔۔
زاویار اپنی کامیابی پہ سرشار سا مسکرا دیا۔۔۔آخر اتنی محنت کے بعد وہ آج ہاتھ آ ہی گئی تھی۔۔۔
آج وہ بہت ایکسائیٹڈ بھی تھی اور نروس بھی۔زاویار کے حوالے سے آج وہ پہلی دفعہ کسی سے ملنے والی تھی۔ جانے وہ سلوہ کو پسند آتی بھی ہے کہ نہیں۔ انہیں سوچوں میں وہ کالج پہنچی۔۔
چند ضروری لیکچرز اٹینڈ کرکے وہ لا؛ج سے نکل آئی۔ پہلے اس نے سوچا زاویار کو میسج کر کے بتا دے کہ وہ آ رہی ہے مگر پھر سوچا ایسے ہی جا کر اسے سرپرائیز کرتی ہے۔۔۔ اتنے میں زاویار کی کال آنے لگی۔ باصفا نے مسکراتے ہوئے فون سائیلنٹ پہ کیا اور بیگ میں رکھ دیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ مقررہ جگہ پہ پہنچ گئی۔۔۔
یہاں آ کر اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔ کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ دل چاہ رہا تھا واپس چلی جائے۔۔ مگر پھر خود کو تسلی دی۔۔ زاویار کی بہن بھی تو گی نہ اور میں کونسا اس سے پہلی دفعہ مل رہی ہوں۔۔۔
خود کو تسلی دیتی اس نے اندر کی جانب قدم بڑھائے۔ مگر دل تھا کہ بے قابو ہو رہا تھا۔ اک عجیب سا احساس تھا جسے وہ اس وقت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔
کوئی اندر بہت اندر آگے جانے سے روک رہا تھا مگر وہ دل کی سب آوازیں دباتی آگے بڑھتی گئی۔
اپارٹمنت کے سامنے جا کر اس نے بیل کیلیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا ملا۔ وہ ابھی آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ اسے اندر سے کسی کی آواز آئی۔۔۔
یار زوئی کب آئے گی وہ تتلی اب مزید انتظار نہیں ہو رہا۔۔۔ آ جائے گی یار ابھی تو 12 نہیں بجے، جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں کچھ اور سہی۔۔۔
ہاں بھئی پہلی باری تیری جو ہے اسی لیے ایسا کہ رہا ہے ہمیں تو ابھی بہت انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔ ارسل ٹھنڈی آہ بھرتے بولا۔۔۔ اؤے ڈرامے باز بس کر روز تو تُو رنگ بھرنگی تتلیوں کے ساتھ ہوتا ہے ندیدے تیرا دل نہیں بھرنا کبھی۔۔۔
ارے یار ہم بہت کھلے دل کے بندے ہیں ہمارا دل نہیں بھرنا کبھی۔۔
ارسل کی بات پہ ایک جاندار قہقہ گونجہ۔۔۔
کیا ہوا فون نہیں اُٹھا رہی کیا؟؟؟؟ آئے گی بھی یا ہم بس اسکی راہ ہی تکتے رہیں گے۔۔۔
آ جائے گی یار کلاس میں ہو گی اس لئے فون نہیں اٹینڈ کر رہی۔۔۔
پریشان تو زاویار بھی ہو رہا تھا اگر باصفا نہ آئی تو اسکی کیا عزت رہ جائے گی سب میں۔۔مگر بظاہر وہ ریلیکس رہا۔۔۔
باصفا کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے اسے جیسے سب آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔۔۔
کچھ ٹوٹا تھا بہت زوردار آواز تھی جو صرف باصفا کو ہی سنائی دے رہی تھی۔۔۔
بھلا دل ٹوٹنے کی،مان ٹوٹنے کی آواز کسی دوسرے کو کبھی سنائی دی ہے۔۔۔
یہ تو جس تن پہ بیتتی ہے ویہ جانتا ہے۔۔۔
وہاں اندر وہ نفس کے پجاری کسی کی عزت کا جنازہ نکالنے کو تیار بیھٹے تھے۔۔۔ اور باہر کھڑی اپنی عزت بچنے پہ اس رب کی شکر گزار تھی۔۔۔
اندر بے صبری تھی تو باہر شکر ہی شکر تھا۔ اس پاک ذات کا جس نے اُسے ان درندوں کی حوس کا نشانہ بننے سے بچا لیا تھا۔۔۔ آج اگر وہ اُنکے ہاتھ لگ جاتی تو۔۔۔۔۔یہ سوچ کر اسکی روح تک کانپ گئی تھی۔۔۔۔
اج اسکی محبت کا تاج محل ٹوٹ کر چکنا چرر ہو گیا تھا۔۔۔
اک اور حوا کی محبت کا انجام حوس پہ ہی ختم ہوا تھا۔۔۔۔
“تیرے اردگرد تھے گھومتے میری زندگی کے معاملے۔۔۔
تجھے ڈھونڈ لینے کے شوق میں ،میں نے اپنا آپ گنوا دیا۔۔۔”
باصفا سے اب مزید وہاں رکنا دو بھر ہو گےا۔ وہ گھر کیسے پہنچی یہ بس وہ ہی جانتی تھی۔ اتنا بڑا دھوکا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زاویار ایسا ہو سکتا ہے۔
پانی سر سے گزرنے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے۔
وہ تو اس عمر میں تھی جہاں ماں باپ خاص کر ماں کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے سر پر تو کسی کا بھی
ہاتھ نہ تھا۔ جس سے وہ بہک گئی۔ اسکا قدم بہت بری طرح پھسل گیا۔۔۔
اور وہ بڑی زور سے منہ کے بل گری تھی۔۔۔۔
نیوز میں آئے دن ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں جن پہ اب تو ہم غور بھی نہیں کرتے۔۔۔ مگر جب خود پہ بیتتی ہے تب پتا چلتا
تھا۔۔۔ باصفا نے بھی ایسے بہت سی خبریں اگنور کیں تھیں مگر آج اسے ان کے درد کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔
یہ شاید اسکی ماں کی دعاؤں کا ہی اثر تھا جو آج وہ دنرندوں سے بچ گئی تھی۔۔۔
مگر غلطی تو اس سے ہوئی تھی۔ اپنا دامن تو وہ اپنے ہاتھوں ہی داغدار کر چکی تھی۔
گھر آ کر سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ تھا شکرانے کے نوافل۔۔۔ گھر اتے ساتھ ہی اس نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔۔۔
اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی تھی۔۔۔ اور ایک نا محرم شخص سے رابطہ میں رہی تھی۔۔۔ اگر وہ اپنے رب کی نافرمانی نہ کرتی تو آج اسکے ساتھ یہ سب نہ ہوتا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
12 سے اب تو 4 بج گئے تھے باصفا نہ تو آئی تھی اور نہ ہی فون اُٹھا رہی تھی۔۔زاویار کے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ وہ سب سن چکی ہے۔۔۔
غصہ سے اسکا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ اب جبکہ اسکو اسکی محنت کا پھل ملنے والا تھا تو وہ غائب تھی۔
سب کے سامنے جو سبکی ہوئی وہ الگ۔۔۔
مجھے لگتا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے وہ نہیں آنے والی۔۔۔۔ کیا یار زاویار اتنا انتظار بھی کروایا اور کچھ حاصل بھی نہ ہوا۔۔۔
وہ سب وہاں سے چلے گئے۔۔۔
وہ زاویار مصطفی جس کے سامنے لڑکیاں بچھ بچھ جایا کرتی تھیں آج ایک دوکوڑی کی کڑکی نے اسکی بےعزتی کروا دی تھی۔ جن دوستوں کے سامنے اسکی گردن تنی رہتی تھی آج باصفا کی وجہ سے جھک گئی تھی۔ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا مسلسل باصفا کا نمبر ملا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
باصفا اپنے آنسو صاف کرتی جائے نماز سے اٹھی اور بیگ سے اپنا موبائل فون نکالا۔۔۔۔
زاویار کی ڈھیروں مسڈ کالز تھیں۔۔۔ فون ایک دفعی پھر آنے لگا۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
کہاں ہو تم میں کب سے انتظار کر رہا ہوں۔ اور فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو میرا۔۔۔۔ زاویار غصے کو قابو میں کرتا بظاہر نارمل لہجے میں بولا۔۔۔
میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی زاویار آپ انتے گرے ہوئے انسان ہیں۔۔ بلکہ آپ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا دیا آپ نے مجھے۔۔۔ آپ نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ۔۔ بولیں ۔۔۔
یہ۔۔۔۔ یہ تم کیا کہ رہی ہو باصفا۔۔ میں نے کونسا دھوکا دیا ہے تمہیں۔۔۔
بس کریں زاویار مصطفیٰ اب یہ شرافت کا چولہ اتار پھینکیں۔۔۔ میں آپکی اور آپکے ان گھٹیا دوستوں کی ساری باتیں سن چکی ہوں۔۔۔
تم، ۔۔۔۔ تم آئی تھی یہاں؟؟؟؟
ہاں آئی تھی مگر شکر ہے اس پاک پروردگار کا جس نے مجھے آپ جیسے شیطانوں کے شر سے محفوظ رکھا۔۔۔
کسی کے گھر کی عزت سے کھیلنے سے پہلے کبھی اپنی عزت کے بارے میں سوچا۔۔۔ تمہاری بھی بہن ہے زاویار مصطفیٰ کل کوئی اسکے ساتھ۔۔۔۔۔
شت اپ جسٹ شٹ اپ۔۔۔ خبر دار جو میری بہن کا نام بھی لیا تو۔۔۔
کیوں اب کیا ہوا زاویار مصطفیٰ اپنی بہن پہ بات آئی تو کیسے تڑپے ہو۔۔ میں بھی کسی بہن ہوں زاویار مصطفیٰ۔۔۔۔ کسی کی عزت ہوں۔۔۔
ہونہہ بڑی دیکھی ہیں تم جیسی عزت و غیرت کا ڈنڈورا پیٹنے والی۔۔۔ اچھے جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو۔۔۔ لڑکون سے باتیں کرتے۔۔۔ ان کے ساتھ ہوٹلنگ کرتے کہاں جاتی ہے یہ تمہاری نا نہاد غیرت؟؟؟؟اب بڑی غیرت جاگ رہی ہے۔۔۔۔
ہونہہ عزت مائی فوٹ۔۔۔
مت بھولو زاویار مصطفیٰ ہمیں ورغلانے والے بھی تم شیطان ہی ہوتے ہو۔۔۔
او بی بی اپنے جذبات تو تم سے سنبھالے جا نہیں رہے ہوتے بعد میں بلیم دوسروں کو کرتی ہو۔۔۔
خیر اب اگر تم میری اصلیت جان ہی گئی ہو تو کل شرافت سے آ جانا۔۔۔ورنہ دیکھنا یہ شیطان تمہارے سر سے آسمان کیسے چھینتا ہے ۔۔۔
میں ہر گز نہیں آؤں گی۔۔۔ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔۔۔
باصفا مجھے انڈر ایسٹیمیٹ مت کرو تمہاری وجہ سے آج میری جو انسلٹ ہوئی ہے اسکا خمیازہ تو تمہیں بھگتنا ہی پڑے گا۔۔۔
تم کمینے گھٹیا انسان۔۔۔ مہ ۔۔۔ میں ہر گز نہیں آؤں گی ۔۔۔۔اب باصفا کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔۔۔ وہ بہت بری طرح پھنسی تھی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔ زاویار کا مقروہ قہقہ گونجا۔۔۔
باصفا جسے زاویار کی ہنسی بہت اچھی لگتی تھی اس وقت زہر لگی۔۔۔
تو سویٹ ہارٹ میں تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔ بائے
لباس تن سے اُتار دینا،
کسی کو بانہوں کے ہار دینا،
پِھر اس کے جذبوں کو مار دینا،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
گناہ کرنے کا سوچ لینا،
حَسِین پریاں دبوچ لینا،
پِھر اسکی آنکھیں ہی نوچ لینا،
اگر یہی محبت ہے جانا؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
کسی کو لفظوں کے جال دینا،
کسی کو جذبوں کی ڈھال دینا،
پِھر اسکی عزت اُچھل دینا،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
نگری میں چلتے جانا ،
حَسِین کلیاں مَسلتے جانا ،
اور اپنی فطرت پہ مسکرانا ،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . . .
سجا رہا ہے ہر اک دیوانہ ،
خیال حسن جمال جانا ،
خیال کیا ہیں ہوس کا تنا ،
اگر یہی محبت ہے جانا ؟
تو معاف کرنا مجھے نہیں ہے . . . .
باصفا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اسے اب اندازہ ہو رہا تھا وہ بہت غلط کر بیٹھی ہے۔ مگر اب وہ اس سے مل کر غلطی پہ غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ مگر اس کے نہ جانے سے بھی معاملہ اب ٹلنے والا نہیں تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی زاویار چپ کر کے بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ اسکے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اب اسکی عزت کسی حال میں محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ اور وہ کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
اب واحد سہارا خدا کی ذات ہی تھی۔۔۔
“یا اللہ مری خطا معاف کر دے مولا مجھے اس شیطان سے بچا لے میرے مالک۔۔۔”
زاویار پھر تو نے کیا سوچا اس لڑکی کو ایسے ہی چھوڑ دو گے کیا؟؟؟؟
ارسل جو باصفا کے لیے بے قرار ہو رہا تھا زاویار سے پوچھ رہا تھا۔۔
اس دن کے بعد آج سب لنچ کرنے اکھٹے ہوئے تھے۔۔۔
ارے کیا کہ رہے ہو ارسل بھلا شیر نے بھی کبھی شکار کو چھوڑا ہے۔۔۔۔ عاصم بولا۔۔ وہ سب زاویار کو اکسا رہے تھے ۔۔ تاکہ انکا کام بھی بن جائے۔۔
پھر کب اٹھا رہے ہو اسکو۔۔ دیکھو ہمیں بھولنا مت۔۔۔عمر ایک دبا کر بولا۔۔ فکر مت کرو جلد ہی گرینڈ پارٹی کریں گے۔۔۔ زاویار بولا۔۔
زاویار کا باصفا کو کالج سے اٹھوانے کا ارادہ تھا۔۔۔۔ اور یہ اسکے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔۔
وہ اب باصفا کو ایسے ہی جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔ اسکا ارادہ پرسوں ہی اسے اٹھوانے کا تھا۔۔۔ اوراس کام کیلیے اس کے دوست ہی کافی تھے۔
باصفا کا اب گھر سے نکلنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہتا تھا مگر جانا اسکی مجبوری تھی۔۔۔ وہ اپنے نہ جانے کا بھائی کو کیا جواز دیتی۔ اس کے اگزیمز ہونے والے تھے ان دنوں اسکا جانا بھی ضروری تھا۔۔۔ اب تو ہر ہر آہت پہ اسکا دل پتے کی مانند کانپ جاتا تھا کچھ بہت غلط ہونے کا احساس کنڈلی مارے دل میں بیٹھا تھا
زاویار کو اپنے پلین پہ عمل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔۔ اس نے ہائر اسٹڈیز کیلیے امیریکہ کی یونیورسٹی میں اپلائے کیا ہوا تھا۔۔ جہاں سے اسکو میل آ گئی تھی اور اسے جلد ہی ڈاکومنٹس سبمٹ کروا کر وہاں جانا تھا۔۔۔ مگر جانے سے پہلے وہ باصفا کے سر سے واقعی آسمان چھین لے گیا تھا۔۔۔ اس نے اپنا کہا پورا کر کے دکھایا تھا۔
آج زاویار کی فلائٹٹ تھی اور وہ جانے سے پہلے اپنا بدلہ چکا کر ہی گیا تھا۔۔۔ مرد کی انا پہ جب چوٹ لگتی ہے تو وہ بلبلا اٹھتا ہے اور پھر کس کا کتنا نقصان ہوتا ہے اس سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ اپنے آفس میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ انہیں ایک انویلپ ملا۔۔۔ انویلپ پہ بیجھنے والے کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔۔۔
انہوں انویلپ کھولا تو اندر سے تصویریں نکلیں۔۔۔ جیسے جیسے وہ تصویریں دیکھتے جا رہے تھے۔ انکا چہرا غصے سے لال ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ آندھی طوفان کی طرح گھر پہنچے۔۔
آج پھر اتوار کا دن تھا۔۔۔
اس اتوار کے دن نے ناجانے باصفا کو اور کیا کیا کچھ دکھانا تھا۔۔۔
باصفا۔۔۔۔ باصفا۔۔۔۔
حمزہ گھر آتے ہی غصے سے چیخے نہیں بلکہ دھاڈے تھے۔۔۔باصفا کا دل اتنی زور سے دھڑکا مانو ابھی پسلیاں توڑ کے باہر آ جائے گا۔۔۔ یقیناً بہت کچھ غلط ہو گیا تھا۔۔۔ وہ مرے قدموں سے نیچے آئی۔۔۔۔
جہ۔۔۔ جی۔۔۔ جی۔۔۔ بھائی ۔۔۔آپ نے۔۔۔۔ بلایا۔۔۔۔
خشک ہونٹوں کو تر کرتی بمشکل بولی۔۔۔
حمزہ بھوکے شیر کی طرح آگے بڑھے اور اس کے منہ پہ تھپڑوں کی برسات کر دی۔۔ بے غیرت، بے حیا تجھے ذرا شرم نہ آئی یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔
ارے تجھ جیسی بے غیرتوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا چاہیے۔۔۔ مما، بابا یہ دن دیکھانے کیلیے تجھے میرے پاس چھوڑ کر گئے تھے۔۔ ارے اچھا ہوتا اس دن ان کے ساتھ تو بھی مر جاتی۔۔۔۔
تو نے تو کہیں ہمیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔۔۔ اتنے سالوں کی عزت خاق میں ملا دی۔۔۔
ارے حمزہ ہوا کیا ہے۔۔۔ آخر کچھ مجھے بھی تو بتائیں۔۔ حرم بولی۔۔۔
کیا بتاؤں یہ دیکھو۔۔۔ حمزہ نے وہ تصویریں حرم کو دکھائیں۔۔۔
وہ باصفا اور زاویار کی سیلفیز تھیں۔۔۔ جو انہوں نے مختلف جگہوں پہ لیں تھیں۔۔۔ سیلفی ہونے وجہ سے وہ بے حد قریب تھے۔۔۔ اس وقت تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا یہ تصوریں جو وہ اتنے شوق سے بنوا رہی ہے وہ ہی تصویریں اسکی زندگی برباد کر دیں گی۔۔۔
ہائے اللہ۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔اتنی بے غیرتی۔۔۔۔ دیکھا حمزہ اسی لیے میں کہتی تھی جلد از جلد جان چھڑواؤ اس سے۔۔۔ ارے مجھے تو پہلے ہی شک تھا یہ لڑکی کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائے گی۔۔۔ہائے۔۔۔حمزہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے۔۔۔ حرم بھی سینہ کوہی کرتی حمزہ کے غصے کو مزید بڑھا رہی تھی۔۔۔۔
اور وہ روتی بلکتی اپنی عزت کا جنازہ اٹھتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
نہ کر سکے ھم سوداگروں سے دل کا سودا۔۔۔۔
لوگ ہمیں لوٹ گئے وفا کا دلاسہ دے کر۔۔۔
حرم اس سے کہو نکل جائے یہاں سے میں اب اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔
اس نے ہمارے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی ہے اس کے بعد یہ یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔
یہ یہاں رہی تو جانے اسکی وجہ سے اور کیا کیا کچھ دیکھنا پڑے گا۔۔۔
وہ جو تب سے خاموش بیٹھی تھی جیسے ہوش میں آئی۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ بھائی آپ کیا کہ رہے ہیں۔۔۔ بھائی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔ پلیز بھائی۔۔۔
اے لڑکی ڈرامے بازی بند کر اور چل سامان اٹھا اپنا اور نکل یہاں سے۔۔۔ حرم اس موقع کو کیسے ہاتھ سے جانے دیتی۔۔۔۔
بھابی میں کہاں جاؤں گی۔۔۔ بھابی معاف کر دیں مجھے پلیز بھابی۔۔۔ آپ۔۔ آپ جو کہیں گی میں کروں گی۔۔۔۔ بھائی مجھے یہاں سے مت نکالیں۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑے دونوں سے التجا کر رہی تھی۔۔۔
یہ سب تو ہماری عزت مٹی میں ملانے سے پہلے سوچنا تھا نہ۔۔۔ تب تو تجھے بھائی کی عزت کا خیال نہ آیا۔ اب یہ ٹسوے بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔۔۔ جا اسی کے پاس ہی جس کے ساتھ منہ کالا کیا ہے۔
اور پھر اسکی لاکھ منتوں پر بھی بھابی نے اسکا سامان اسکے منہ پہ مار کے اسے نکال باہر کیا۔۔۔
سر سے چھت کے چھین جانے سے کیسا لگتا ہے یہ کوئی اس وقت تپتی دھوپ میں کھڑی باصفا رحمان سے پوچھے۔۔۔۔
مگر آخر وہ گلا کرتی بھی تو کس سے کہ سب اسکے اپنے کا نتیجہ تھا جو اسے اکیلی کو بھگتنا تھا۔۔۔۔
کیونکہ ہر گناہ کی سزا تو حوا کو ہی اکیلے ہی بھگتی پڑتی ہے۔۔۔
دامن تو عورت کا داغدار ہوتا ہے۔۔ اور مرد برابر کا قصور وار ہونے کے باوجود پاک صاف ہی رہتا ہے۔۔۔