“جب تک ہم عورتیں اپنے حقوق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا بلکہ ممکن ہے کہ ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے”
معروف سماجی رہنما بختاور احمد کا عورتوں کے عالمی دن کے موقعے پہ تقریب کے شرکاء سے خطاب
اس نے یہاں تک خبر پڑھ کر تاسف سے سر ہلایا اور اخبار سائیڈ میں رکھ دیا۔
“کاش کوئی ان عورتوں کا سمجھا سکتا کہ عورت کی اصل بادشاہت تو اس کا گھر اور بچے ہوتے ہیں۔ نہ اپنا گھر سنبھلتا ہے نہ دوسروں کا بسنے دیتی ہیں”
اسے اس قسم کی مرد مار جنگجو ٹائپ عورتوں سے سخت چڑ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسمہ نے سیاہ ناگن جیسی ساحر آنکھوں پہ آئی لائنر لگایا اور پلکیں جھپکا کر ان کے مناسب حد تک قاتلانہ ہونے کا یقین سا کیا۔ آنکھوں کی ہی طرح سیاہ گھٹاوں سے چمکیلے سلکی بالوں کو آج کلپ کی قید سے آزاد کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ ریڈ ایمبرائڈڈ ڈزائینر کرتی کے ساتھ بلیک ٹراوزرز اور بلیک اینڈ ریڈ اسٹالر جو اس نے اسٹائل سے گلے کے گرد ڈالا ہوا تھا۔ ایک نظر خود کو دوبارہ آئینے میں دیکھ کر جلدی جلدی لپ اسٹک شائنر، ہیر برش اور باڈی اسپرے ہینڈ بیگ میں ڈالا نازک سے کالی سینڈل دودھیا پاوں میں پہنی اور دوپٹے سے ذرا بڑی کالی چادر پہن کر باہر نکل آئی۔ آج وہ بڑا دل لگا کے تیار ہوئی تھی تقریبا 3 ماہ سے اسکول کی سہیلیوں کے ساتھ مل کر فئیرویل پارٹی کی تیاریاں ہورہی تھیں اور خدا خدا کر کے وہ دن آہی گیا وہ بہت پرجوش ہو رہی تھی اسکول میں آخری دن “یادگار” بنانا چاہتی تھی۔
اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی پہ ٹائم دیکھا تو احساس ہوا کہ وہ لیٹ ہورہی ہے جلدی سے باہر بھاگی تاکہ دو گھر بعد رہنے والی کلاس فیلو فائزہ کو لے اور بس جلدی سے اسکول پہنچ جائے۔
“اے بی بی یہ تم اسکول جارہی ہو کہ کا ولیمہ ہے تمہارےبھیا کا”
دادی کی آواز نے جلدی جلدی اٹھتے قدم روک دیئے۔
اس کا سر جھک گیا کچھ جواب دیئے بغیر آگے قدم بڑھا دیئے۔
“بسمہ یہ کیا بدتمیزی ہے؟ دادی کچھ کہہ رہی ہیں تم سے۔ یہ تمیز سیکھی ہے اب تک؟”
امی کی آواز میں کافی سختی تھی۔
“امی آج فئیرویل ہے آپ کو جب یہ سوٹ لا کے دکھایا تھا تب بتایا تھا نا کہ سب لڑکیاں گھر کے کپڑے پہن کے آئیں گی”
“اگر باقیوں کے اماں باوا اندھے ہوئے بیٹھے ہیں تو کیا ہم بھی ہوجائیں؟ ایک عزت ہوتی ہے تعلیمی ادارے کی شادی بیاہ کی تقریبوں کی طرح بن ٹھن کے نہیں جایا جاتا”
دادی کا غصہ مسلسل ساتویں آسمان پہ تھا۔
” پھر کیا کروں دادی کہیں تو بدل لوں مگر یونیفارم میں کوئی نہیں آئے گا سب مذاق آڑائیں گے۔”
اس نے بیچارگی سے کہا
“دیکھو! دیکھو ذراکیسے برابر سے جواب دے رہی ہے۔ ارے ہم کونسا جا رہے ہیں کہ پتا چلے کہ کتنے یونیفارم میں آئے ہیں۔ سارا وقت تو اس سرخی پوڈر میں لگا دیا اب چلی بھی جاو ہماری ناراضگی کا خیال ہوتا تو پہلے عمل کیا ہوتا۔ جاو بی بی جاو مگر یہ سن لو شریف گھرانوں کی لڑکیاں نامحرم لڑکوں کے سامنے ایسے چٹک مٹک نہیں دکھایا کرتیں۔”
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جلدی سے باہر نکل آئی پھر فائزہ کو لے کر رکشے میں بیٹھنے سے لیکر اسکول پہنچنے تک شرمندہ ہوتی رہی۔ اور سوچتی رہی دادی کا لہجہ سخت ضرور تھا مگر بات تو ٹھیک تھی۔ اسے بس دادی سے یہ شکایت تھی کہ کتنی ذرا سی بات پہ انہوں نے گھما پھرا کر کتنا بڑا الزام لگادیا کہ وہ لڑکوں کو دکھانے کے لیئے تیار ہوئی تھی۔ پھر خیال آیا کہ شاید دادی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا۔ بس دادی پرانے اور بے لوث زمانوں کی ہیں تبھی لگی لپٹی کے بغیر سیدھی بات کی۔
ویسے بھی وہ کوئی فیشن کی شوقین لڑکی تو تھی نہیں بلکہ کلاس کی بہترین طلبہ میں سے تھی اور خوبصورتی میں تو اس کی ٹکر کا شاید کوئی بھی نہیں تھا۔ گھر سے تھوڑی سختی تھی اس لیئے عام دنوں میں سادہ ہی اسکول جاتی تھی مگر پھر بھی لڑکیاں تعریف کرتے نہ تھکتیں اور رہی سہی کسر ساتھ پڑھنے والے لڑکوں کی نظروں میں موجود ستائش پوری کر دیتی۔ مگر کسی کو بھی کبھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ سب اس کی مزاج سے ڈرتے تھے اور وہ اماں ابا اور دادی کے مزاج سے ڈرتی تھی۔
دادی تو پہلے ہی مخلوط ادارے میں تعلیم پہ راضی نہیں تھیں مگر امی کے میکے میں سب انگریزی اسکولوں میں تھے اسی لیئے امی کا کہنا تھا کہ بچوں میں کوئی احساس کمتری نہ رہ جائے۔
زیادہ بحث تب شروع ہوئی جب وہ آٹھویں کا امتحان دے کر نویں میں آئی تھی۔ دادی کا روز کہنا تھا بس اب لڑکی جوان ہوگئی اب اسے کسی لڑکیوں کے اسکول میں کراو زمانہ خراب ہے۔ اسے دادی کی اس بات کی کچھ سمجھ نہیں آتی کیونکہ جب اس نے ایک بار یہ کہنے کی کوشش کی کہ وہ اسکول نہیں بدلنا چاہتی تو دادی نے ہی ڈانٹ دیا کہ بڑوں کی باتوں میں بچے نہیں بولا کرتے۔ خیر نویں جماعت کا آغاز تو عام سا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے دل میں عجیب عجیب سی امنگیں انگڑائیاں لینے لگی تھیں
نویں جماعت کا آغاز تو عام سا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے دل میں عجیب عجیب امنگیں انگڑائیاں لینے لگی تھیں۔ اپنے سے کم صورت لڑکیوں کو چپکے چپکے اپنے بوائے فرینڈز سے باتیں کرتی دیکھ کر دل جل جاتا۔ ڈائری میں علامہ اقبال کی ایمان جگاتی شاعری کہ جگہ وصی شاہ اور پروین شاکر کی جذبوں سے لبریز شاعری نے لے لی تھی۔ غالب اور فیض کبھی سمجھ نہیں آئے اور جون ایلیا کی شاعری شاعری ہی نہیں لگتی تھی عجیب سی باتوں والی۔ مطالعہ کا شوق بھی تھا مگر اب سبق آموز کہانیوں کی جگہ خواتین کے رسالوں اور رومانوی ناولز آگئے تھے جوکہ امی اور دادی سے چھپا چھپا کر پڑھنے پڑتے۔ کیونکہ شریک جرم کوئی نہیں تھا تو مدد بھی نہیں ملتی تھی۔ دونوں بہنیں بڑی تھیں اسماء اور بشرہ جن کی شادیاں میٹرک کے فورا بعد کردی گئی تھیں کیونکہ وہ بھی حسن میں یکتا اور سلیقے میں لاثانی تھیں۔ اسی لیئے آٹھویں سے ہی رشتے آنے لگے تھے۔ ایک سب سےبڑا بھائی تھا فہد اور ایک سب سے چھوٹا اسد جو اس سے بھی دو سال چھوٹا تھا۔ کہنے کو اسد سب سے چھوٹا تھا مگر رعب بڑے بھائیوں والا ہی جماتا تھا۔ ایک دفعہ غلطی سے فائزہ کے پاس سے ایک رسالہ لانے کو کہہ دیا رسالہ تو کیا لاتا جا کے بڑے بھیا کو بتا دیا۔ اور وہ جو بڑے بھیا کے آنکھیں دکھانے پہ ہی سہم جاتی تھی پہلے تو ان کی آندھی طوفان کی طرح کمرے میں آتا دیکھ کر ہی اسکا دل اچھل کے حلق میں آگیا۔
“ویسے ہی کوئی کم دماغ آسمان پہ نہیں ہیں تمہارے جو یہ لغویات پڑھ کے اور خراب کرنے ہیں۔ اس گھر میں پہلے کبھی کسی کو یہ فضول چیزیں پڑھتے دیکھا ہے تم نے؟”
اتنا سخت لہجہ تھا بڑے بھیا کا کہ کچھ دن تو اسے ڈائجسٹوں کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ مگر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ خوف کچھ کچھ کم ہو ہی گیا۔ اب سارا دھیان اس بات پہ تھا کہ رسالے پڑھ بھی لے اور کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ پھر ایک طریقہ سوجھ ہی گیا اب مہینے کا “ایک ہفتہ” مخصوص کر لیا تھا۔ الماری میں چھپا رسالہ دوپٹے میں چھپا کر باتھ روم لے جاتی اور فارغ ہونے تک ایک چھوٹی موٹی کہانی تو ختم ہو ہی جاتی۔ امی اور دادی اس خفیہ کاروائی کو “وہ والی” سمجھ کے طرح دے جاتیں۔
کبھی کبھی بہت شرمندگی ہوتی تھی مگر ان کہانیوں سے عجیب سا نشہ اور ذہنی سکون ملتا تھا۔ جب اونچا لمبا سحر انگیز آواز والا ہیرو، ہیروئین کی آنکھوں میں جھانک کر دھیمے لہجے میں اظہار عشق کرتا تو اس کی سانسیں بھی تیز ہوجاتیں۔ کوئی ایک رومانوی کہانی پڑھنے کے بعد کئی دن اسی کے سحر میں رہتی تھی۔ اسی لیئے اسے بچھڑنے والی دردناک انجاموں والی کہانیاں بالکل پسند نہیں تھیں۔ وہ سب سے پہلے کہانی کا اختتام دیکھتی تھی اگر تو ہیروئین شرم سے سرخ ہورہی ہوتی ہیرو کا ہاتھ تھامے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھ رہی ہوتی یا ہیرو کے چوڑے سینے پہ طمانیت سے سر رکھے ہوتی تبھی وہ کہانی شروع کرتی تھی۔
رات ہوتے ہی تکیہ ہیرو بن جاتا اور بسمہ ہیروئین پھر پسندیدہ کہانی کے رومینٹک حصے ری ٹیلیکاسٹ ہوتے۔ کبھی کبھی ہیرو کا سراپا چننے یا نام چننے میں ہی اتنی رات بیت جاتی کہ اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگتی۔ پھر اس کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا
میٹرک کی کلاسز شروع ہوئیں تو کلاس میں دو نیو ایڈمیشنز آئے۔ دونوں ہی لڑکے تھے اور ایکدوسرے کے بالکل الٹ ایک کو دیکھ کر تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی بہت رومانوی ناول کے شوخ سے ہیرو کو “ایز اٹ از as it is” ناول سے نکال لیا ہو۔ سلکی بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ کچھ نیلی آنکھیں، صاف کھلتا ہوا رنگ۔
دوسرا بس ٹھیک ہی تھا عام لڑکوں جیسا، سانولا سا رنگ، اچھے بچوں کی طرح چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال۔ اور ہیرو ٹائپ لڑکے کے سامنے تو اور عام سا لگ رہا تھا کیونکہ دونوں ایک ہی ڈیسک پہ ایکدوسرے سے لاتعلق سے بیٹھے تھے۔ ڈیشنگ سا لڑکا تھوڑا بے چین لگ رہا تھا اور ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مگر کوئی اور ڈیسک خالی نہیں تھی۔ بسمہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنی دیر سے انہی دونوں کی طرف دیکھے جارہی ہے۔ اتفاقا ہیرو ٹائپ لڑکے کی نظریں بھی ادھر ہی اٹھیں۔ بسمہ سے نظریں ملیں تو وہ ہلکا سا مسکرایا اس کے گال پہ بہت خفیف سا ڈمپل پڑا بسمہ کو لگا اس کا دل گڑبڑ نہ کردے اس نے فورا نظریں ہٹا لیں اور برابر والے لڑکے کی طرف دیکھا اسی وقت اس نے بھی بسمہ کو دیکھا اور نظر انداز کرکے دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا۔ بسمہ کو تھوڑا عجیب لگا لڑکے اتنی آسانی سے اسے نظر انداز نہیں کیا کرتے مگر کیا فرق پڑتا ہے اتنا عام سا تو ہے اس کی توجہ کسے چاہیئے۔
اسے وقت فائزہ نے اسے کہنی ماری
“بسمہ دیکھ کتنا زبردست لڑکا ہے” وہ سرگوشی کی کوشش کر رہی تھی جو کہ کافی بلند تھی۔
“ہوتا رہے مجھے کیا” وہ اپنے جذبات اپنی قریب ترین سہیلی سے بھی چھپا گئی۔
“اففو تم انتہائی ان رومینٹک ہو۔ مگر حیرت ہے اس نے بھی تمہیں گھاس نہیں ڈالی دیکھا ہی نہیں”
اس بات پہ بسمہ چونکی
“تم کس کی بات کر رہی ہو”
“یہی پھیکے شلجم کے برابر جو بیٹھا ہے فوجی کٹ بال اور کالی سحر انگیزآنکھیں”
“ہاہاہا یہ پاور پف گرلز کا بچھڑا ہوا بھائی تجھے زبردست لگ رہا ہے فائزہ تو اپنی نظر کسی اچھے سے ڈاکٹر سے ٹھیک سے چیک کرا لے۔”
فائزہ نے جواب دینے کے لیئے منہ کھولا مگر کلاس ٹیچر کے اندر آنے پہ سب کی توجہ ان کی طرف ہوگئی۔ کلاس ٹیچر نے اٹینڈنس لینی شروع کی مگر بسمہ کا دماغ کہیں اور ہی تھا وہ حیران تھی کہ خوبصورتی بھی لوگوں کے لیئے الگ الگ ہوتی ہے کیا؟؟؟؟
ٹیچر کے اٹینڈینس شروع کرنے تک اس کا دماغ اسی بات پہ اٹکا رہا۔
*** کیا خوبصورتی بھی دیکھنے والوں کے لیئے الگ الگ ہوسکتی ہے؟****
اپنی اٹینڈینس لگوا کر بھی وہ اپنے خیال میں ہی مگن رہی۔ وہ تب چونکی جب ٹیچر نے دونوں لڑکوں کا کلاس سے تعرف کروانا شروع کیا۔
“اسٹوڈنٹس! آج سے آپ لوگوں کے دو ساتھی اور بڑھ گئے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ سب ان کی ہر طرح مدد کریں گے اور انہیں کلاس میں اجنبیت محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
ارمغان وقار خان اور محمد اسلم فرقان
welcome to our School
( ہمارے اسکول میں آپ کوخوش آمدید)”
ارمغان وقار خان واو ۔۔۔۔۔ اس نے دل میں سوچا جیسا دیکھنے میں ہے ویسا ہی رومانوی نام ہے۔
“ارمغان بیٹا آپ کل تک ہیئر کٹنگ کرالیں اسکول میں ایسے بال آلاوڈ نہیں ہیں۔”
” ٹیچر میں ایک دن میں اتنے بال کیسے بڑھا سکتا ہوں” عام سے لڑکے کے لہجے میں اعتماد اور تھوڑی شرارت دونوں تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ ٹیچر کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ پھر شاید اسے احساس ہوا کہ ٹیچر سے مذاق مناسب نہیں تو فوراوضاحت کردی۔
“ٹیچر ارمغان وقار خان میرا نام ہے۔ اسلم فرقان ہوگا ان کا نام”
کلاس میں دبی دبی ہنسی کی آوازیں آنے لگیں اسلم بھی مسکرا دیا اور وہ دوبارہ اس کی مسکراہٹ سے دھیان ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے تھوڑا عجیب لگا۔ یعنی افسانوں اور حقیقت کی دنیا میں تھوڑا فرق ہوتا ہے؟ اسے یہ فرق پسند نہیں آیا۔ اسلم ہیرو کا نام کہاں ہوتا ہے یہ تو اردو گرامر کی مثالوں میں استعمال ہوتا ہے
اسلم آتا ہے
اسلم کتاب پڑھتا ہے
اسلم نے کتاب پڑھی تھی
اسلم کتاب پڑھے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ
اس کے سامنے گرامر کی کاپی گھوم گئی جس میں ہر ڈفینیشن کی مثال میں اسلم نام ضرور تھا۔
اف کتنا عام نام ہے اسے تو اسم معرفہ کی جگہ اسم نکرہ میں لکھنا چاہیئے۔ ٹیچر پڑھاتی رہی اور اس کا دماغ “اسلم” پہ اٹکا رہا۔
رات جیسے ہی وہ تکیہ لے کر لیٹی اسلم کا سراپا ناچاہتے ہوئے بھی ذہن میں آگیا۔ مگر جب جب تخیل میں اسلم کا نام آتا اس کے تخیل کی پرواز میں رکاوٹ محسوس ہوتی
*اسلم* نے بسمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں
*اسلم* دلکشی سے مسکرایا تو بسمہ کے دل نے بیٹ مس کی۔
اف ۔۔۔۔۔۔ وہ تکیہ پٹخ کر بیٹھ گئی
اسلم کی کیوں رکھ دیا اس کے اماں ابا نے اس کا نام۔
وہ اپنی سوچوں کو محسوس کرنا چاہتی تھی مگر “اسلم” نام آتے ہیں احساس جیسے منجمد سے ہوجاتے۔
جو عام ہے اس کا نام بھی عام سا ہونا چاہیئے جو خاص ہے اس کا نام بھی خاص ہونا چاہیے بھلا بتاو ارمغان وقار خان کہیں سے ارمغان وقار خان لگتا ہے؟ وہ اسلم فرقان لگتا ہے عام سا اسم نکرہ جیسا۔
پھر اسے کچھ خیال آیا۔ کیوں نہ وہ ہی مسئلہ خود حل کرلے صرف امیجینیشن تک کی تو بات ہے۔ تو خاص والے کا خاص نام رکھ لے اور عام والے کا عام نام۔ اسے یہ آسان لگا کہ کوئی اور نام سوچنے کی بجائے یہی نام ادھر ادھر کردے۔ یعنی اس کے خیالوں میں اسلم ارمغان ہو اور ارمغان اسلم ہو۔
ایک دم اسے ہنسی آگئی۔
“دونوں بچاروں کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کے ناموں کے ساتھ کیا اٹھا پٹخ ہورہی ہے۔ اور پتا چلے گا بھی کیوں یہ تو بس ایسے ہی وقت گزاری کے لیئے ہے۔ میں کونسا اصل میں کسی سے عشق کر رہی ہوں میں کوئی عام لڑکیوں کی طرح بدکردار ہوں جو لڑکوں سے عشق کروں گی۔”
اس نے خود کو تسلی دی اور تکیہ لے کر لیٹ گئی۔ تھوڑا بہت جو احساس جرم یا احساس گناہ تھا وہ بھی ختم سا ہوگیا۔
اب وہ اپنا پلان چیک کرنا چاہتی تھی۔
“ہیلو ہیلو ٹیسٹنگ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارمغان”
اس نے آنکھیں بند کر کے سوچوں کے پرندے اڑائے
اس نے دیکھا دور دو لڑکےپیٹھ موڑے کھڑے ہیں اس کی ارمغان کہہ کر پکارنے پہ ایک نے پلٹ کر دیکھا
اف۔۔۔۔۔ یہ والا نہیں یہ تو اصلی والا ہے کالا والا
اے مسٹر گورے والےاب تمہارا نام ارمغان ہے پلیز تم پلٹ کر دیکھنا۔
اس نے دوبارہ بہت جذبات کے ساتھ پکارا
“ارمغان”
اب کے دونوں نے پلٹ کر دیکھا اس نے زور سے آنکھیں میچیں اور سر کو دو تین دفعہ جھٹکا جیسے اصل والے کو دماغ سے جھاڑناچاہتی ہو
پھر ایک دو گہری سانسیں لیں
“بسمہ کونسنٹریٹ”
اس کا دل زرا زیادہ زور سے دھڑکنے لگا پھر دھیرے سے کہا “ارمغان”
اور پلٹ کے دیکھنے والا اسے دیکھ کر مسکرایا اور ڈمپل دیکھ کر اس کا دل چاہا زور سے یاہو کا نعرہ لگائے اس نے اپنے آپ کو شاباشی دی چلو جی تجربہ کامیاب ہوگیا۔
انہی خیالات میں اسے پتا ہی نہیں چلا کہ رات کتنی بیت گئی وہ سوچتے سوچتے سو گئی۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...