اور اب یہ کہتا ہوں،یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں ،کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی ہنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ،ہجراورہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دِل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہی حدوں تک اُبھرتی ،یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا،رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں ،میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوںیا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں ،کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اَب ہے یہی ابتدا ٔ میں تھا امجد ؔ
کریم تھا،مری کوشش میں انتہا رکھتا
( مجید امجد)
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...