12 سال بعد ……..
آنٹی مجھے بھی باہر جا کر کھیلنا ہے ۔اس ننھی سی بچی نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا یہاں سے باہر کامنظر آسانی سے نظر آتا تھا ۔
لیکن اس کے سامنے بیٹھی عورت نے اسے گُھوری سے نوازا ۔اور وہ معصوم بچی ڈر گئ۔
۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا لیکن نہایت ہی سلیقے سے بنایا گیا تھا۔ہر چیز ترتیب سے رکھی گئ تھی ۔
باہر بچے فٹ بال کھیل رہے تھے ۔ زینت گیارہ سال کی تھی لیکن اس نے کبھی بھی فٹ بال نہیں کھیلا تھا ۔ فٹ بال تو دور کی بات وہ آج تک سکول نہیں گئ تھی ۔ جبکہ وہ پڑھنا چاہتی تھی ۔ لیکن یہ عورت اسے کچھ اور ہی بنانا چاہتی تھی ۔ وہ اس کھیل کو دور سے دیکھ کر لطف اندوز ہوتی تھی ۔ وہ بھی یہ کھیل سیکھنا چاہتی تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ اسے اجازت نہیں ملے گی۔
میری پاپا سے بات کروائیں مجھے ان کے پاس کراچی جانا ہے۔
اسے معلوم تھا کہ یہ آنٹی اس کے پاپا سے ڈرتی ہیں ۔ جب بھی اس کے پاپا اس سے ملنے آتے تھے تو یہ آنٹی ان کے سامنے زینت سے پیار سے بات کرتی تھیں ۔
ضد نہیں کرو” زینت”۔۔۔ تمہارے پاپا ہی تمہیں یہاں میرے پاس چھوڑ کر گئے ہیں
اس نے اسے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا ۔
وہ چپ ہو گئ کیونکہ
وہ اس کے غصے سے واقف تھی ۔
اس معصوم سی بچی کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئ ۔ جبکہ وہ عورت مسکرا دی ۔
________________________
آج اسے سٹور روم میں بند ہوئے دو دن ہو چکے تھے ۔ لیکن اسے یہاں سے باہر نکالنے کوئی بھی نہ آیا تھا ۔ اس نے بھوک تو برداشت کر لی تھی لیکن وہ پیاس سے نڈھال ہو چکی تھی ۔
وہ سوچ رہی تھی ۔ “اس سے ایسی کونسی غلطی ہو گئ جس کی اسے اتنی بڑی سزا دی گئ ۔ وہ مایوس ھو چکی تھی ۔ آخر اس سے اس کا سب کچھ چھینا جا چکا تھا ۔ وہ خود کو کوس رہی تھی ۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس کی خوبصورتی ہی کی وجہ سے آج وہ یہاں اس حال میں تھی ۔ تھک ہار کر وہ اپنے گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی ۔ دو دن سے اس کا یہی حال تھا خود کو ملامت کرنا اور اذیت دینا ۔ چہرہ بار بار نوچنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا ۔
وہ سسکیاں لیتی لیتی تھک گئ تو اسے شدت سے پیاس لگی ۔
وہ لڑکھڑاتی ھوئی دروازے تک پہنچ تو گئ لیکن اس میں دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت نہیں تھی ۔ اس نے ہمت کر کے دروازہ بجانا شروع کر دیا ۔ مسلسل سر توڑ کوششوں کے باوجود کسی نے بھی دروازہ نہ کھولا ۔
اسکا حلق پیاس کی وجہ سے خشک ہو چکا تھا ۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ وہ “پانی”
“پانی” کہتی بے ہوش ہو گئ ۔
_______________________
بابر تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے خلاف جانے کی ۔ ایک تم ہی ہو جس پر میں آنکھیں بند کر کے بھی یقین کر سکتا ھوں ۔ لیکن آج تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کر کے میرا یقین توڑ دیا ہے ۔ جبار اپنے خاص آدمی پر پہلی بار چِلا رہا تھا۔ آخر اس سے غلطی بھی پہلی بار ہی سرزد ہوئی تھی۔
جبار نے حنا کو سٹور روم میں بند کر کے بابر کو اس کی رکھوالی کرنے کو کہا تھا ۔ جب اسے حنا کی “پانی” مانگنے کی آواز آئی تو وہ پانی لینے چلا گیا ۔ جب وہ پانی لے کر آیا تو حنا وہاں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی وہ اس کے چہرے کے زخم دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ اس نے اسے ہاتھ لگانے سے گریز کیا ۔ جبار کو پتہ چل جاتا کہ اس نے حنا کو ہاتھ لگایا ھے تو وہ اس کی گردن اُڑا دیتا۔ اس نے بھاگ کر کام کرنے والی دو لڑکیوں کو بلایا اور انہیں اسے اٹھا کر ساتھ والے کمرے میں لانے کو کہا ۔ انہوں نے مشکل سے اسے اٹھا کر بیڈ پر لے جا کر لٹا دیا۔ اس کے کہنے پر انہوں نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں پانی مانگنے لگی ۔ انہیں اس پر ترس آیا تو اسے پانی پلا دیا وہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئ ۔
کھانا کھاؤگی؟؟ ان میں سے ایک نوکرانی نے پوچھا تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ جبکہ بابر ان دونوں کا منہ دیکھتا رہ گیا ۔ آخر اس سے بھی اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئ ۔ تو اسے کھانا دینے کا کہہ کر وہ چلا گیا ۔ اتنے میں نوکرانی آئ اس نے اسے صبح کا بچا ہوا کھانا لاکر دیااور چلی گئ ۔
بابر نے خود ہی جبار کو فون کر کے اپنی ساری کارستانی کا بتا دیا ۔ اور وہ واپس آ کر اس پر بھڑک رہا تھا۔
جبکہ وہ ادب سے سر جھکائے کھڑا تھا۔
وہ غصے سے ٹیبل کو پاؤں مار کر وہاں سے حنا کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔
اس نے کمرے میں جاتے ہی اس کا چہرہ دیکھا تو حیران رہ گیا ۔
اور اسے کچھ کہے بغیر کمرے سے چل دیا ۔
جبکہ حنا حیران و پریشان اس کو جاتے ہوئے کو دیکھتی رہ گئ ۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا اب اس کے ساتھ بہت برا ہونے والا تھا۔
_____________________
آنٹی آپ کے چہرے پر یہ کیسا نشان ہے؟؟؟؟
اس ننھی سی معصوم سی بچی نے اس عورت سے پوچھا ۔
اس عورت نے اسے اپنے پاس بیٹھایا اور اسے کہنے لگی ۔
کہانی سنو گی ؟؟؟؟
زینت خوش ہو گئ ۔ کیونکہ اس کے باپ نے اسے جس کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا تھا آج اس نے پہلی بار اسے پیار سے بلایا تھا ۔
ہاں جی آنٹی سنوں گی
اسنے بڑے جوش سے کہا ۔
ہمممممم کہہ کر اس نے اپنی سانس کھینچی ۔ اور کہنے لگی ۔۔۔۔
تمہاری ہی طرح ایک خوبصورت شہزادی تھی ۔ جو اپنے پاپا سے بہت پیار کرتی تھی لیکن اس کے پاپا اسے پیار نہیں کرتے تھے ۔ تمہارے پاپا کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔
زینت نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا !
“میرے پاپا ایسے نہیں وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔”
اس عورت نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کو کہا اور سرد آہ بھر کر دوبارہ اپنی کہانی کا آغاز کیا۔
ایک دن وہ اپنی بیٹی کا گلہ چاقو سے کاٹنے لگے تھے ۔ لیکن ان کی نوکرانی نے دیکھ لیا اور اسے بچاتے بچاتے اس کے منہ پر چاقو لگ گیا لیکن پھر بھی وہ اس شہزادی کو بچا کر اس کے پاپا سے دور لے آئی ۔ اس شہزادی کے پاپا اس کو ملنے آتے رہے کیونکہ وہ اس شہزادی کو مار کر اس کا محل اور اس کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے تھے ۔
وہ بچی سہم سی گئ تھی ۔ اس کے دل میں کئ سوالات جنم لے رہے تھے ۔ جبکہ وہ عورت اپنے چہرے کے نشان کو چھو کر کہیں دور خیالوں میں گم تھی ۔ اور اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی ۔۔ ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...