دروازے پر لگی برقی گھنٹی لگاتار بج رہی تھی۔ گھنٹی بجانے والی، گھنٹی کی آواز کو ناکافی جانتے ہوئے ہر بار بٹن پر انگلی کے دباؤ کے ساتھ ’’باجی‘‘ کی صدا بھی بلند کرتی۔
میں نے بڑبڑاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی کتاب میز پر پٹخی۔ بیلوں اور گملوں میں لگے پودوں سے سرسبز برامدے میں رکھے تخت پر گاؤ تکیے کے سہارے نیم دراز چائے پیتی ماں سے کہا ’’آنٹی لوسی تو آنکھ کھلتے ہی ہمارے گھر کی راہ لیتی ہے‘‘۔ ابھی صبح کی سپیدی میں گئی رات کی ہلکی سی سیاہی گھُلی ہوئی تھی۔ میں نے سلسلہ کلام تو جاری رکھا لیکن اٹھنے کی زحمت نہ کی۔ ’’اب جب تک گھر والے ڈھونڈتے نہیں آئیں گے یہ جانے کا کام نہیں لے گی‘‘۔
’’نہ میری شہزادی! ایسے نہ بول ستائی ہوئی عورت ہے دو گھڑی بیٹھ جاتی ہے تیرا کیا بگڑتا ہے‘‘۔ ماں رسان سے بولی۔
میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’امی جی قیمتی وقت برباد کرتی ہے‘‘۔
’’اچھا! بندوں سے زیادہ وقت قیمتی ہو گیا!‘‘۔ ماں نے جواب دیا۔
ہم ماں بیٹی کی گفتگو کے دوران مجال ہے کہ بیل کی مسلسل ٹن ٹن اور باجی باجی کی مِن مِن میں ذرا بھی تعطل آیا ہو۔
’’جاؤ میری رانی بیٹی دروازہ کھول دو‘‘ ماں ہر بار مجھے مخاطب کرتے ہوئے اک نیا خطاب عطا کر رہی تھی۔ ہم ماں بیٹی اس معمول کے عادی تھے۔ ابو زمیندار تھے۔ کوئی مہینہ بعد ہی گاڑی میں لدی سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ آتے۔ ایک دو دن بعد ہی واپسی کی راہ لیتے۔
منہ اندھیرے ہی ہمارے دن کا آغاز ہو جاتا تھا۔ گھر کے سامنے وسیع گراونڈ تھا۔ جیسے شام کو کھلاڑی لڑکے آباد کرتے تھے۔ اسی گراؤنڈ میں ماں کے ساتھ صبح کی سیر ہوتی تھی۔ پھر ماں گھر سے باہر لگی کیاریوں میں موتیے چمبیلی کی کلیاں ایک ٹوکری میں چن کر تخت پر رکھتی۔
میں چائے کے دو کپ اور کتاب سنبھالے امی کے ساتھ تخت ہر آ کر بیٹھ جاتی۔ یہ ہمارا ٹی ٹائم یعنی گپ شپ کا وقت تھا۔ اس میں آنٹی لوسی کی مداخلتِ بیجا کو برداشت کرنا بڑے حوصلے کا کام تھا۔ اس پہ طرّہ ان کی داستانِ امیر حمزہ کی طولانی ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی۔
آنٹی لوسی کا اصل نام پروین تھا۔ میں نے جانے کس ترنگ میں انھیں آنٹی لوسی کا نام دے دیا تھا۔ اور نام ان پہ ایسے چسپاں ہوا کہ ماں اس نام کو ناپسند کرتے ہوئے بھی اکثر اسی نام سے پکارتی۔
آنٹی لوسی اس بات کی پرواہ نہ کرتی تھی۔ انھیں چاہے جس نام سے پکارو۔ آنٹی لوسی کو گھر میں نظر بند رکھا جاتا تھا۔ سحری کی گہری نیند سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی نہ کسی طرح ہر دوسرے روز ہمارے گھر پہنچ ہی جاتی۔
’’ملکہ عالیہ!‘‘۔ امی نے اب کی باری ذرا تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’آپ دروازے تک تشریف لے جائیں گی؟۔‘‘ میں بے ساختہ ہنس پڑی۔ ’’اچھا ماں آپ کہتی ہیں تو تشریف لے جاتے ہیں‘‘۔
’’بیٹا! اکیلی عورت ہے۔ جی گھبراتا ہے تو ہمارے گھر آ جاتی ہے‘‘۔ ماں نے سمجھایا۔
’’واہ جی اکیلی عورت۔۔۔‘‘میں بولتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھتی گئی۔ ’’بیٹی ہے۔ بیٹا ہے، خیر سے ایک عدد شوہر بھی ہے۔ پھر بھی اکیلی ہے‘‘۔
جیسے ہی دروازے کھولا سرو قامت، بھرے جسم، گوری رنگت، گھنگھریالے بالوں اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ آنٹی لوسی تیزی کے ساتھ اندر کی طرف لپک آئی۔
’’دروازہ کھولنے میں اتنی دیر لگا دی۔ ابھی مُنا آ جاتا‘‘۔
آنٹی لوسی نے آنسوؤں میں ڈولتی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔
’’مجھے کہتے ہیں کہ میں پاگل ہو گئی ہوں۔ بتا بھلا پاگل ایسے ہوتے ہیں؟‘‘۔ آنٹی لوسی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ پاگل تو نہیں۔ وہ سہمی ہوئی معصوم سی بچی لگ رہی تھی۔
’’نہیں آنٹی بالکل بھی نہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
ماں کے پاس تخت پر انھیں بٹھا کر سوچنے لگی۔ اگر آنٹی لوسی دو سرخ ربن اپنے سیاہ گھنگھریالے بالوں میں باندھ لیں تو بالکل کنڈر گارٹن کی طالبہ لگیں۔
اماں نے میری طرف کڑی نظروں سے گھورا۔ ’’اگر کوئی تجھے اس طرح اپنے آپ ہی مسکراتے دیکھے تو ضرور پاگل کہے‘‘۔
’’واہ۔ جو مجھے پاگل کہیں گے وہ خود ہی پاگل ہوں گے‘‘۔ یہ کہہ کر میں آنٹی لوسی کے لیے چائے لینے کچن میں آ گئی۔ اُس کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔
’’گھر میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا، باجی!۔ میرا دل گھبراتا ہے تو آپ کے پاس آ جاتی ہوں۔ ادھر سے تو مجھے بہلا پھسلا کر لے جاتے ہیں۔ گھر جا کر بہت مارتے ہیں‘‘۔
میں چائے کی پیالی اٹھانے آئی تو کپڑا ہٹا کر بازو پر پڑے نیل دکھا رہی تھی۔ میں نے آنٹی کی گردن پر لگی خراشوں کو غور سے دیکھا۔
’’منا میرے ہاتھ پکڑ کر کمر پر باندھ دیتا ہے۔ اس کا باپ مجھے تھپڑوں سے مارتا ہے‘‘۔
میں نے چائے کی پیالی سامنے میز پر رکھی۔
آنٹی لوسی نے کہا ’’رات انھوں نے کھانا بھی نہیں دیا اور مجھے کمرے میں بند کر دیا۔ کہتے ہیں پاگل ہے گھر کی باتیں باہر کرتی ہے۔ دیکھو نا باجی اس طرح تو میں نے سچی سچی پاگل ہو جانا‘‘۔
ماں نے مجھے دیکھ کر آہستہ سے کہا۔ ’’جار سے جا کر بسکٹ بھی نکال لے آ‘‘۔
ابھی چائے میں بسکٹ بھگو بھگو کھا ہی رہی تھی کہ منا آ گیا۔ مُنّا اب اتنا بھی مُنّا نہیں تھا عثمان نام تھا۔ دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ صائمہ اس کی چھوٹی بہن ساتویں میں پڑھتی ہے۔
مُنّا منت سماجت کر کے آنٹی لوسی کو واپس اپنے گھر لے گیا۔ اماں نے تاسف سے کیا۔ ادھر سے تو پیار محبت سے لے جاتے ہیں۔ گھر جا کر باپ بیٹا مارتے دھمکاتے ہیں۔
میں افسردہ دلی کے ساتھ بولی۔ ’’مجھے تو بیٹی پر حیرانی ہے کہ وہ بھی ماں کا ساتھ نہیں دیتی‘‘۔ ماں زہر خند لیے بولیں۔ ’’ساری قدریں محبتیں دولت ڈائن کھا گئی۔ پچھل پائی گلیوں میں پھرتی ہے۔ لوگ دیوانہ وار اس کے پیچھے اپنوں کا گلا کاٹتے ہیں‘‘۔ ’’ماں! بس کریں ایسی اندوہناک منظر کشی!‘‘۔
میری ماں آزردہ سی ہو کر بولیں۔
’’میری بچی تو کیا جانے دنیا کیسی باولی ہوئی پھرتی ہے۔ میں تو تمہیں ایسے دوپٹے میں چھپائے ہوئے جیسے مرغی چوزوں کو پروں میں سمیٹے بیٹھی ہے‘‘۔
مرغی کی مثال پر میری بے اختیار کھی کھی ہنسنے پر ماں مجسم دعا سی ہو گئی۔ زیر لب بولی۔ ’’وہ وقت کبھی نہ آئے جو تیری ہنسی چرائے‘‘۔
میرا کالج جانے کا ٹائم تھا۔ ماں نے ناشتہ بنا کر دیا۔ میں نے بڑے بڑے گھونٹ لیتے ہوئے چائے کا کپ اتاولی میں ختم کیا۔ ناشتہ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ماں کہتی ہی رہ گئی، تھوڑا ساکھا لے۔ لیکن میں بس کی پاں پاں سنتے ہی باہر کی طرف بھا گی۔ ماں نے پیچھے سے پکارا۔ دوپٹہ تو سر پر لے لو۔ ماں کی آواز سنی ان سنی کرتے ہوئے بس میں بیٹھتے ہی شرارت سے نعرہ بلند کیا چلو استاد جی۔
لڑکیوں کے قہقہوں میں ماں کی آواز گم ہو گئی۔
آنٹی لوسی کے گھر اور ہمارے گھر کے بیچ ایک دیوار سانجھی تھی۔ صحن میں کھڑے ہو کر بو لو تو آسانی سے ایک گھر سے دوسرے گھر میں آواز سنی جاتی تھی۔
شام کا وقت تھا۔ ان کے گھر سے گھٹی گھٹی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ماں بے چین سی ہو کر صحن میں ٹہلنے لگی۔
’’اب کیا کروں!۔ ان کے گھر جا کر انھیں مار پیٹ سے روکتی ہوں تو کہیں منا بد تمیزی نہ کرے۔ جو اپنی ماں کا نہیں وہ میرا کیا لحاظ کرے گا‘‘۔
ماں خود کلامی کرتے ہوئے بولی۔
’’سارے محلے والے جمع ہو کر ان کے گھر جائیں‘‘۔ آخر سب اس غیر انسانی سلوک کو روکتے کیوں نہیں؟۔‘‘
’’کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں شاید۔ آخر چیخیں کیسے برداشت کرتے ہیں؟‘‘۔
میں غصے میں برآمدے اور صحن میں چکر لگاتے ہوئے ہر سامنے پڑی چیز کو ٹھوکریں لگانے لگی۔
ماں نے بے بسی سے مجھے دیکھا۔ ’’محلے والوں کا تو پتہ نہیں میں ایک دو بار جب گئی تو مجھے تو کورا سا جواب دیا کہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے آپ اپنے کام سے کام رکھیں‘‘۔
میں غصے سے بھنا کر بولی۔ ’’گھر چھوڑ کر چلی جائے‘‘۔ ماں بولیں۔ ’’کہاں جائے! پروین کا باپ اپنی زندگی میں اپنا مکان زمین اپنے بیٹوں کا نام کر گیا تھا۔ پہلے بھائی عید شبرات پر کپڑوں کا جوڑا دے جاتے تھے۔ جب سے پروین کی ماں مری ہے کبھی جوڑا کپڑوں کا بھی میکے سے نہ آیا‘‘۔
میں ماں کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔ ’’اونہہ جوڑا کپڑوں کا نہ مناسب تعلیم نہ ہنر۔ ظالم زمانہ نہیں، ماں باپ ہوئے جو ہاتھ پاؤں باند ھ کر باکسنگ رنگ میں پھینک دیتے ہیں۔ اب چاہے ٹھڈے کھاؤ یا مکے، قصور وار نصیب ہوتا ہے‘‘۔
ماں دکھی سی بولتی چلی گئی۔ ’’جوان ہوتے بیٹا اور بیٹی کہتے ہیں اس کی وجہ سے ہمارے دوست مذاق کرتے ہیں۔ شوہر نامراد کہتا ہے۔ دوائیوں کا خرچہ الگ۔ ہاتھ کانپتے ہیں۔ روٹی پکا کر نہیں دے سکتی۔ میرے کس کام کی‘‘۔
’’پروین بیچاری تو اپنے گھر میں ہی فالتو ہو گی‘‘۔
’’ماں‘‘ میں نے احتجاج کیا۔ ’’فالتو ہو گئی۔ کیا مطلب؟ انسان ہے کوئی چیز تھوڑی ہے کہ استعمال کے قابل نہ رہی تو اٹھا کر پھینک دو‘‘۔
ماں نے سوچتی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میری بھولی بیٹی! تو کیا جانے چیزوں کی قدر انسان سے زیادہ ہے‘‘۔
اسی اثنا میں چیخوں کی آوازیں آنا بھی بند ہو گئیں۔
میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ کمرے میں جا کر ٹی وی ریموٹ اٹھایا۔ صوفے پر دراز ہو کر ٹانگیں میز پر رکھ لیں۔
کئی روز گزر گئے آنٹی لوسی نے گھر کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔ شام کو ماں جی کڑا کر کے اُن کے گھر چلی گئیں۔ بار بار دروازہ کھٹکھٹانے اور گھنٹیاں بجانے کے بعد بیٹی نے دروازہ کھولا‘‘۔ صائمہ دروازہ کے بیج ہی کھڑی رہی جیسے راہ روک رکھا ہو۔ اس کی شکاریوں میں گھری ہرنی سی ہراساں آنکھیں سوالیہ نظروں میں ماں کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ کر سختی سے بند کر رکھے تھے۔
ماں ’’بیٹی پروین کتنے دنوں سے نظر نہیں آئی۔ حال پوچھنے چلی آئی۔‘‘
صائمہ نے جیسے سر گوشی کی ہو۔ خالہ امی کو دماغ کے ڈاکٹر کو دکھایا ہے۔ اب گولیاں کھا کر ہر وقت سوئی رہتی ہے۔ جیسے ہی آنکھ کھلتی ہے باہر کی طرف بھاگتی ہے۔ اس لیے ابو بھائی نے اُسے رسی سے چار پائی پر باندھ دیا ہے۔
ماں نے بہت منت کی کہ ایک نظر دیکھنے تو دو لیکن صائمہ نہ مانی۔
ماں نے گھر آ کر بتایا۔ ’’بس یہی کہتی رہی کہ ابو بھائی ماریں گے‘‘۔
’’توبہ ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ ’’ابو بھائی تو ایسے باقاعدگی سے مارتے ہیں جیسے یہ ایکسرسائز بھی ڈاکٹر نے بتائی ہو‘‘۔
ماں نے مجھے ترحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جھلیے تو کاہے کو اتنا غصہ کرتی ہے ایک دن یہ غصہ بھی ہار مان لے گا۔ بے بسی ہی رہ جاتی ہے‘‘۔
کچھ دنوں بعد آنٹی لوسی گھر سے غائب ہو گئی۔
جانے کیسے اپنے بندھے ہاتھ پاؤں چھڑوائے۔ اپنی بے بسی کو اس نے رسی کے ساتھ چار پائی پر پھینکا اور خود چھو منتر۔
فرار تو آنٹی لوسی ہوئی تھی۔ لگتا تھا کہ پنکھ مجھے لگ گئے ہیں۔ اس دن میں نے اپنا تپتا ہوا غصہ اٹھا کر فریج میں رکھ دیا۔ سارا دن ماں کو اوٹ پٹانگ باتیں سنا کر ہنسانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن ماں کی آنکھوں میں تو جیسے پریشانی منجمد سی ہو کر رہ گئی۔
رات گئے دروازہ بجا تو دیکھا آنٹی لوسی ننگے پاؤں پھٹے دوپٹے میں ڈری سہمی کھڑی تھی۔ ماں نے جلدی سے اُسے اندر بلا لیا۔ میں نے کھانا گرم کیا۔ سامنے لا کر رکھ دیا۔ آنٹی لوسی بنا کوئی لفظ بولے کھانا کھانے لگی۔ نوالہ اٹھائے ہاتھ رعشہ زرہ تھے۔ شاید دوائیوں کا اثر تھا۔
’’میرے گھر والوں کو خبر نہ کرنا‘‘۔ نوالے منہ میں ٹھونستے ہوئے بولی۔ ’’عثمان کے ابو کہتے تھے اب گھر سے قدم باہر نکالا تو کرنٹ لگا کر ماردوں گا‘‘۔
بولتے ہوئے اچھو لگ گیا۔ میں نے آنٹی لوسی کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھمایا۔ ماں اس کے کندھوں کے درمیان ہلکی ہلکی تھپکیاں لگانے لگ گئی۔
ماں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے بہت روکا لیکن لیکن انھوں نے عثمان کو کال ملا دی۔
عثمان تمتماتا ہوا آیا۔ آنٹی لوسی کو بازو سے پکڑ کر لے گیا۔ ماں آہستہ آہستہ کہتی رہی۔ ’’بیٹا آرام سے، نرمی سے ماں ہے تیری‘‘۔
’’اس ماں نے ساری دنیا کے سامنے ہمارا تماشا بنا دیا ہے‘‘۔
عثمان دانت کچکچا کر بولا۔ پندرہ سال کا نو عمر مُنّا بپھرا ہوا بن مانس لگ رہا تھا۔
ماں آہستگی سے بولی۔ ’’بیٹا! تجھے دنیا عزیز ہے کہ ماں؟۔ اپنی ماں کا خیال کر‘‘۔
عثمان سنی ان سنی کرتا ہوا آنٹی لوسی کو گھسیٹتا لے گیا۔
ماں اور میں خاموشی سے کوئی بات کیے بغیر اپنے اپنے بستر پر لیٹ گئیں۔
کوئی کتا ساری رات ہی بھونکتا رہا۔ ایک پل آنکھ نہ لگی۔
سویرے صبح کی سیر موقوف ہوئی۔ دن چڑھے ہم ماں بیٹی چائے پی رہی تھیں۔ میری گود میں کتاب کھلی تھی۔ آج گفتگو میں روانی نہ تھی۔ نہ میرے قہقہے تھے۔ نہ ماں کے چہرے پر میٹھی مسکان۔
میں نے چائے کی پرچ پیالی ایک طرف کی۔ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی کہ محلے کی مسجد سے اعلان ہوا۔
’’زوجہ اختر علی والدہ محمد عثمان قضائے الٰہی سے انتقال کر گئی ہیں۔ جنازہ دس بجے ہو گا۔ شامل ہو کر ثواب دارین حاصل کریں‘‘۔
میرے بالوں میں ماں کی انگلیاں وہیں تھم سی گئیں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...