فائزہ کی بات سن کر بسمہ سوچ میں پڑ گئی۔
“شادی سے انکار تو ممکن ہی نہیں تجھے پتا ہے۔ جو شادی مجھ سے پوچھے بغیر طے کی گئی ہے اس سے میں ایک مہینے پہلے انکار کیسے کرسکتی ہوں۔ مجھے اس کا اختیار ہی کب ہے؟”
“اچھا رک میں امی کو بلا کر لاتی ہوں تیرے مسئلے بھی نرالے ہیں۔”
بسمہ نے سر ہلا دیا
تھوڑی دیر میں ہی فائزہ، نفیس آنٹی کو لے کر آگئی۔ مختصر الفاظ میں فائزہ نے انہیں سب بتا بھی دیا اپنے مشورے سمیت۔
کچھ دیر آنٹی خاموش رہیں جیسے کچھ سوچ رہی ہوں۔
“بسمہ بیٹا مسئلہ اس سے زیادہ سنجیدہ ہے جتنا فائزہ سمجھ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تمہاری فیملی سمیت اسے کوئی مسئلہ سمجھے گا نہیں۔ اگر اسے غلطی سمجھیں گے تو تمہیں بھی اس میں شریک سمجھا جائے گا یا پھر سرے سے اسے کوئی برائی ہی نہیں سمجھیں گے۔ جبکہ میرے حساب سے یہ ہراسمینٹ ہے۔ سیدھا سیدھا جرم”
جرم کا نام سن کر بسمہ کے جسم میں سرد سے لہر دوڑ گئی۔ وہ جو اسے اب تک صرف اپنا گناہ سمجھ رہی تھی کہ تھوڑی بہت توبہ تلا سے معاملہ نمٹ جائے اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ باسط کا یہ عمل مجرمانہ نوعیت رکھتا ہوگا۔ اس نے اس پہلو سے سوچا ہی کب تھا وہ تو کب سے خود کو مورد الزام ٹہرا رہی تھی۔
“امی اتنی سی بات پہ بھی سزا ہوتی ہے کیا”
” فائزہ بات تو خیر اتنی سی نہیں ہے دیکھا جائے تو بڑی بات ہے۔ بسمہ کم عمر ہے مگر باسط ناتجربہ کار یا بچہ نہیں ہے کہ اسے لگا کہ منگیتر ہے تو بلا اجازت کچھ بھی کرلیا جائے۔اور باسط کی اتنی ہمت بڑھانے میں اس کے اور بسمہ کے گھر والوں دونوں کا ایک جتنا ہاتھ ہے۔ بسمہ نے اپنے عمر کے حساب سے کافی بہادری اور عقلمندی کا ثبوت دیا کہ ناصرف باسط کو وہیں روک دیا بلکہ خاموشی سے سب چھپانے کی کوشش نہیں کی۔”
“آنٹی وہ تو میں خود پریشان بہت تھی تبھی فائزہ سے بات کرنے آگئی۔ ورنہ گھر میں تو کسی کو بتانے کی میری ہمت ہی نہیں ہے۔” بسمہ نے شرمندہ سے لہجے میں کہا۔
“بسمہ بیٹا آپ نے ٹھیک کیا۔ آپ جتنا چھپاو گی باسط کو اتنا ہی موقع ملے گا آپ کی خاموشی کا غلط فائدہ اٹھانے کا۔ جیسے نامناسب میسجز بھی اس نے ہی کیئے اور انہی کی وجہ سے وہ یہ بھی سمجھا کہ آپ شادی سے پہلے بھی کسی بھی قسم کا ریلیشن رکھنے کے لیئے تیار ہونگی۔”
“مگر امی وہ صرف محبت کا اظہار بھی تو ہوسکتا ہے نا”
“فائزہ زبردستی محبت کا اظہار، محبت کا اظہار نہیں ہوتا اپنی طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے”
“آنٹی اب میں کیا کروں”
“یہ واقعی مشکل بات ہے جتنا میں تمہاری فیملی کو جانتی ہوں میرا نہیں خیال کہ اس کو بنیاد بنا کر وہ لوگ رشتہ ختم کریں گے یا کم از کم باسط سے کوئی بازپرس کریں گے۔ ساری غلطی بسمہ کی کہی جائے گی جبکہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں یہ جس حد تک درست کرسکتی تھی اس نے کیا۔”
نفیس آنٹی سے بات کر کے بسمہ کا احساس گناہ بہت حد تک کم ہوگیا تھا مگر رشتہ ختم کرنے کی بات یا پھر باسط سے پوچھ تاچھ کی بات اسے عجیب لگ رہی تھی۔ باسط سے رشتہ توڑنا تو وہ خود بھی نہیں چاہتی تھی پچھلے 10 ماہ سے یہ تعلق تھا۔ دن بھر اس سے باتیں کی تھیں۔ مستقبل کی منصوبے بنائے تھی چھوٹی چھوٹی باتیں شئیر کی تھیں۔ ایک مہینے کے بعد اس کی شادی تھی صرف ایک اس بات کو بنیاد بنا کر یہ سب کیسے ختم کیا جاسکتا تھا۔ اول تو اس کی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ کسی کو یہ بتا سکے کہ اس دن کمرے میں کیا ہوا تھا۔ اسے خود احساس گناہ نا ہوتا تو وہ کبھی فائزہ کو بھی نہیں بتاتی۔
کچھ سوچ کر آنٹی بولیں
“تم ایسا کرو ایک دفعہ اچھی طرح سوچو کہ تم خود کیا کرنا چاہتی ہو۔ کہنے کو یہ جرم ہے مگر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا فیصلہ کرنے کا حق تمہیں ہے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تم ذہین اور معاملہ فہم لڑکی ہو۔ مجھے امید ہے کہ جس حد تک تمہارے ہاتھ میں ہوا تم صحیح فیصلہ کرو گی۔ بہتر ہوگا تم ایک بار گھر میں کسی بڑے سے یا اپنی کسی بہن سے بھی مشورہ کرلو۔”
آنٹی کی بات سے لگ رہا تھا کہ انہیں بھی اندازہ ہے کہ بسمہ جتنی ہی عقلمند کیوں نا ہو گھر والوں کے آگے کچھ نہیں کرپائے گی۔
گھر آکر بسمہ کو اتنی تھکن محسوس ہونے لگی کہ وہ فورا ہی سونے لیٹ گئی۔ اور کئی گھنٹے سوتی رہی۔ جب اٹھی تو اسے اپنا آپ کافی ہلکا اور تازہ دم لگا۔ ذہن پہ کافی دن کا رکھا بوجھ کم محسوس ہورہا تھا۔اسے احساس ہوا کہ سارا تناو احساس گناہ اور شرمندگی کا تھا۔ مگر بہرحال اس حقیقت کا ادراک کرکے کہ باسط کا اقدام مجرمانہ نوعیت کا تھا وہ سنجیدگی سے اس معاملے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ نفیس آنٹی کا تجزیہ اس کے گھر والوں کے حوالے سے ٹھیک ہے یا نہیں۔ ایک طرف اس کی عزت نفس چاہتی تھی کہ اس کے گھر والے نفیس آنٹی کے خیالات کو غلط ثابت کردیں اور دوسری طرف اس کے جذبات چاہتے تھے کہ معاملہ بڑھے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی باسط کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی۔ پھر اس نے آخر کار اسماء آپی سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اسے پتا تھا کہ گھر میں امی کی چلتی ہے اور امی ہر کام اسماء آپی کی رائے کے مطابق کرتی ہیں۔ اس نے کئی دن سے الماری میں پڑے پرس میں سے موبائل نکالا۔ اس پہ باسط کے کوئی بیس پچیس میسجز اور کئی مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ ان سب کو نظر انداز کر کے اس نے اسماء آپی کا نمبر ملایا۔
“ہیلو آپی کیسی ہیں”
“بسمہ کیا حال ہیں بھئی امی بتا رہی تھیں تم شاپنگ پہ گئی تھیں منگل کو، کیسا سوٹ لیا؟فون بھی اسی لیئے نہیں کیا میں نے اسی دن سے آنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ شہیر کو جو موشن آنے شروع ہوئے تو سچ ہلکان ہوگیا میرا بچہ، ساتھ ساتھ میں بھی۔ اب بچہ بیمار ہو تو ماں بھی ساتھ ہی آدھی ہوجاتی ہے۔ سب دیکھتی جاو اگلے سال تم بھی ہماری طرح انہی کاموں میں لگی ہوگی”
انہوں نے اس سے فون کرنے کی وجہ پوچھنے کی بجائے اپنی ہی بات کہنی شروع کردی۔ پہلے بسمہ کے دل میں آیا کہ بس ادھر ادھر کی بات کرکے فون رکھ دے مگر پھر سوچا کہ ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو کرلیا اب بات کر ہی لینی چاہیئے۔
“ہاں آپی سوٹ بھی لیا تھا اور فرنیچر بھی میرے ساتھ ہی لیا۔ پھر گھر بھی دکھانے لے گئے تھے۔”
“ارے واہ اپنا روم دیکھا؟ کیسا ہے؟ اور سن باسط سے اکیلے میں بات کا موقع ملا۔ اتنا رومینٹک ہے وہ یہ موقع تو نہیں چھوڑا ہوگا شادی سے پہلے منگیتر سے ملنے کا جو رومانس ہے نا سچ بس کیا بتاوں۔ کتنی لکی ہے تو بسمہ” بسمہ کو لگا شاید آپی صرف بات ہی کرنے کی بات کر رہی ہیں اسی لیئے اس نے سوچا تھوڑا بات کلئیر کرے
“آپی موقع تو ملا مگر باسط بہت زیادہ کلوز ہورہے تھے۔ میں گھبرا کر نکل آئی تھی روم سے”
“لو یہ کیا بات ہوئی ایسا کیا کردیا بچارے نے”
“آپی ۔۔۔۔۔ انہوں نے ” وہ لمحہ بھر کو رکی “انہوں نے مجھے کس کیا”
“اوہوووو مجھے پتا تھا تمہارا منگیتر کبھی بھی شاندار موقع نہیں چھوڑے گا۔ بس بھیا کو نا بتانا وہ فضول اس سے جھگڑنے پہنچ جائیں گے۔ تو بھی عجیب ہے موقع انجوائے کرنا چاہیئے تھا نا۔ چل یہ بھی ٹھیک ہی ہے تھوڑا بھرم بھی تو پڑے ہونے والے میاں پہ کہ اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والی چیز نہیں۔” بسمہ اتنی شدید دل برداشتہ ہوئی اس نے فورا ہی کام کا بہانا کر کے کال کاٹ دی۔ اتنا تو اسے پتا تھاکہ بھیا کو غصہ بھی اس بات پہ آتا ہے جس پہ گھر والے شہہ دیں۔ ورنہ انہیں فکر نہیں ہوتی کہ گھر میں کیا چل رہا ہے۔ اس نے تھکے تھکے ہاتھوں سے باسط کو میسج ٹائپ کیا
“سوری میں بہت شرما گئی تھی۔ اسی لیئے موبائل بھی نہیں دیکھا بس اب پلیزشادی تک ہم بات نہیں کریں گے پلیز پلیز۔ اتنی بات تو مانیں گے نا میری۔”
اس نے یہ دیکھے بغیر کہ باسط نے کیا میسج کیئے تھے یہ میسج کر کے موبائل آف کردیا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
ایک مہینہ جیسے پر لگا کے اڑ گیا۔ وہ بیوٹی پارلر کی ایک کرسی پہ بیٹھی یہی سوچ رہی تھی۔ ویسے وقت ہی کہاں ملا خریداریاں، پارلر کے چکر، مہمانوں کا آنا جانا عجیب بھگدڑ میں سارے دن گزر گئے۔ کل سادگی سے مسجد میں نکاح بھی ہوگیا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ کسی اور کی زندگی میں ہورہا ہو اور وہ صرف دیکھ رہی ہو۔ نکاح کے وقت پین ہاتھ میں لیئے کچھ سوچنے کا بھی ٹائم نہیں ملا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں سر بھی ہلا دیا دستخط بھی کردیئے رو بھی لی حالانکہ وہ اصل میں کچھ بھی محسوس ہی نہیں کرپارہی تھی۔ ٹائم تو اسے اب ملا تھا تین گھنٹے سے بیوٹیشن نے بلا کے بٹھایا ہوا تھا۔ کبھی بال کھڑے کر کے چلی جاتی کبھی منہ پہ فاونڈیشن مل جاتی۔ اپنی شکل آئینے میں دیکھ کر بسمہ کو فی الحال تو بالکل یقین نہیں تھا کہ وہ ذرا بھی اچھی لگے گی۔ ایک تو پارلر کا ماحول ہی اس کے لیئے عجیب تھا۔ اتنے بڑے پارلر میں اس کا آنا ہی پہلی بار ہوا تھا۔ جینز اور گہرے گلے والی ٹی شرٹس پہنے کم عمر ہیلپر لڑکیاں اور اسی قسم کے کپڑوں میں ملبوس گولڈن بالوں والی سینئر بیوٹیشن۔ اسی کے کپڑوں سے شرٹ کے گلے کی فراخی کا زیادہ اندازہ بھی ہورہا تھا باقی لڑکیاں تو بچاری کمزور سی تھیں۔ برائیڈل سروس والے ایریا میں باڈی ویکس کراتی دلہنیں اس کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیئے کافی سے زیادہ ہی تھیں۔
شکر یہ ہوا کہ میک پورا ہونے کے بعد وہ واقعی اچھی لگ رہی تھی بس اپنی عمر سے کافی زیادہ لگ رہی تھی۔ وہ تیار ہو کے ویٹنگ ایریا میں آگئی جہاں کچھ خواتین اپنی دلہنوں کے ساتھ آئی بیٹھیں تھیں اور وقت گزاری کے لیئے آتی جاتی دلہنوں پہ تبصرہ کر رہی تھیں۔ ان کی باتوں سے یہ لگ رہا تھا کہ اگر کوئی کالی ہے، موٹی ہے یا عمر زیادہ ہے تو دلہن بن کر اس نے کوئی گناہ کر دیا۔ بہت سی خواتین اپنے ساتھ ایک دو خواتین کو خاص طور سے اندر لائیں بسمہ کو دکھانے کہ کتنی پیاری گڑیا جیسی دلہن بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ بسمہ کو شدید الجھن ہورہی تھی آتی جاتی خواتین کے اس طرح دیکھنے اور تبصرے کرنے پہ۔ اسے مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی انتظار کرنا پڑابھیا کے آنے کا اور اتنی سی دیر میں ہی وہ کافی بےزار ہوگئی۔ بھیا اسے سیدھا شادی ہال ہی لے گئے وہاں صرف دادی اور ایک رشتے کی خالہ آئی ہوئی تھیں جو بچاری باقی رشتہ داروں میں کچھ کم حیثیت تھیں اولاد بھی بس ایک بیٹی تھی جو کچھ سال پہلے بیاہ دی تھی تو شادیوں پہ انہیں چھوٹے موٹے کام کے لیئے ہی بلایا جاتا جو وہ تکلف میں کردیتیں اور بلانے والے ایسے ظاہر کرتے جیسے یہ سب کرنا ان کی ذمہ داری تھی، انہیں شادی پہ بلا کر اتنی عزت جو دی گئی تھی۔ باقی خواتین تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں دادی اور وہ خالہ جنہیں سب بٹو خالہ کہتے تھے وہ سادے سے کپڑوں میں جلد ہی تیار ہوگئی تھیں اور انہیں گاڑی والا ہال پہنچا گیا۔
جب تک لوگ آنے شروع نہیں ہوئے تھے تو بسمہ کو لگ رہا تھا وقت گزر ہی نہیں رہا گرمی سے اس کا برا حال تھا ایک چھوٹا سا بریکٹ فین اس کے منہ پہ چل رہا تھا ای سی تھا تو مگر بار بار لائٹ آنے جانے سے اس کی کولنگ نا ہونے کے برابر تھی
اور پھر ایک دم کب لوگ آگئے بارات آگئی فوٹو شوٹ رخصتی سب بھاگتے دوڑتے ہوگیا۔ باسط کی شوخیاں عروج پہ تھیں دل کھول کے سگی اور رشتے کی سالیوں کے ہر قسم کے مذاق کا جواب دیا جارہا تھا۔ اور بسمہ کا ٹینشن اور تھکن سے برا حال تھا۔ بار بار پیٹ میں مروڑ سے اٹھ رہے تھے اور باتھروم جانا ناممکن۔ گھر آکر بھی پتا نہیں کونسی رسمیں جاری تھیں۔ بشرہ ساتھ آئی تو تھی مگر وہ اپنی چھوٹی بیٹی کو سنبھالنے میں مگن تھی اور باقی سب رشتے دار منہ دکھائی نپٹا رہے تھے۔ بہت دیر بعد رسمیں ختم ہوئیں اور اس کو اوپر کمرے میں لایا گیا تو باسط کی سب سے چھوٹی بہن نے کہا بھابھی آپ باتھ روم وغیرہ سے ہو آئیں تو تھوڑا میک اپ فریش کروالیں۔ باتھ روم آتے ہی اس کا دل چاہا منہ بھی دھو لے ٹھنڈے پانی سے، چہرہ عجیب تپتا ہوا محسوس ہورہا تھااورآنکھوں میں جلن۔ پچھلی تین چار راتوں سے گھر میں ہنگامے کی وجہ سے اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اب بھی آدھی سے زیادہ رات گزر ہی چکی تھی۔ بہت ضبط کرکے خود کو منہ دھونے سے روکا اور بس ضرورت سے فارغ ہوکر نکل آئی۔ سسرال آنے سے لے کر کمرے میں آنے تک اس کو پتا ہی نہیں تھا کہ بشرہ آپی ہیں کہاں ان کے آنے کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا اسے۔ باسط کی ایک کزن جس نے بیوٹیشن کا کورس کیا ہوا تھااس نے بسمہ کے میک اپ کو دوبارہ تھوڑا ٹچ اپ کیا۔ اور ایسی ایک کزن ہر خاندان میں ہوتی ہی ہے جو بچاری مفت میں ایسی سروسز فراہم کرتی ہے اور جب پیسے دے کر کام کرانے کی باری ہو تو کسی دوسری بیوٹیشن کو پیسے دے کر منہ خراب کرانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بسمہ اس بچاری کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھ رہی تھی جسے دیکھ کے اندازہ ہورہا تھا کہ آج کی برات کی ساٹھ فیصد خواتین نے اسی سے میک کرایا ہے۔
وہ لڑکی اپنا سامان سمیٹ ہی رہی تھی کے باہر اونچی آواز میں بحث اور ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں بہت ساری نسوانی آوازوں میں ایک مردانہ آواز شاید باسط کی تھی۔ بسمہ کی دھڑکن ایکدم تیز ہوگئی ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہوگئے۔ وہ لڑکی ہلکے سے مسکرائی اور آہستہ سے کہا بیسٹ آف لک اور باہر نکل گئی۔
کچھ ہی دیر بعد باسط کمرے میں آگیا۔ بسمہ کا چہرہ خود ہی جھک گیا۔ اسے شرم سے زیادہ کچھ عجیب سا احساس ہورہا تھا اسے سمجھ ہی نہیں آیا اپنے احساس کو کیا نام دے۔ مگر جو بھی تھا خوشگوار نہیں تھا۔ اس کا دل ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا کہ اب باسط زبردستی کرے گا۔ ایک مہینے پہلےتک جو بھاگ جانے کا تھوڑا بہت حق اس کے پاس تھااور اس دن اس نے استعمال کیا وہ ایک کاغذ پہ دستخط کر کے وہ گنوا چکی تھی۔ اس تعلق کے متعلق اس کی ساری معلومات بس سائنس کی کتاب میں موجود ایک غیر واضح سی ڈفینیشن تک محدود تھی۔ اس سے اگلی معلومات وہ تھی جو گل بانو کی شادی پہ دادی سے سنی تھی۔ گل بانو کا تین دن اسپتال میں رہنا۔ باقی کیا تھا وہ صرف اس کا اندازہ تھا۔ اس کا دل چاہا وہ گہری نیند سوجائے جو ہونا ہے ہو، کم از کم اسے پتا نا چلے۔ آنکھ اسپتال میں کھلے یا گھر میں تب کی تب دیکھی جائے گی۔
باسط شاید اپنے ہار اور شیروانی وغیرہ اتار رہا تھا۔ کمرے میں بہت خاموشی تھی کہ نیچے کی باتوں کہ ہلکی ہلکی آوازیں اور باسط کے کپڑوں کی سسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔
“بسمہ!”
باسط نے بیڈ کے پاس آکر ہلکے سے اسے پکارا
بسمہ نے آہستہ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ آج باسط کی رنگت کافی کھلتی ہوئی لگ رہی تھی۔ نقوش اس کے ویسے بھی جاذب نظر تھے ہی وہ مجموعی طور پہ کافی اچھا لگ رہا تھا۔
باسط سامنے بیٹھ گیا
“اچھا لگ رہا ہوں نا”
باسط کے لہجے میں کہیں بھی مہینہ پہلے ہونے والے واقعے کا کوئی اثر نہیں تھا۔
بسمہ نے ہلکے سے مسکرا کر سر جھکا لیا۔
“ارے کنجوس لڑکی نئے نویلے میاں کی تھوڑی سی تعریف کردو گی تو کیا ہوجائے گا۔ مانا آپ جتنے حسین نہیں مگر ہم پہ بھی لڑکیاں مرتی ہیں”
بسمہ کو ہنسی آگئی۔
باسط نے ہاتھ تھاما
“آج اجازت ہے نا محترمہ؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا میری اسنو وائٹ اتنی شرمیلی ہے۔” بسمہ اپنی بدلتی کیفیت سے حیران تھی۔ اسے اب واقعی ٹھیک ٹھاک والی شرم آرہی تھی کسی بھی اور احساس کے بغیر۔
“اچھا جی پہلے اپنا گفٹ لیں گی یا میرا گفٹ دیں گی”
دلہن کو بھی کوئی گفٹ دینا ہوتا ہے۔ اف لعنت ہے مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں بسمہ نے ہکا بکا ہو کر باسط کی شکل دیکھی۔ باسط اس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھ کر ہنس پڑا۔
“یار تم اتنی ہی ہونق ہو یا آج کوئی خاص تیاری کی ہے۔” پھر اٹھ کے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے ایک گفٹ باکس نکال کے لے آیا۔
“یہ تمہارا گفٹ وہ کیا کہتے ہیں اردو میں؟ منہ دکھائی، ہے نا؟ اور میرا گفٹ میں خود لے لوں گا جو اس دن آپ نے پورا نہیں لینے دیا۔”
باسط کے لہجے میں شرارت تھی۔
بسمہ کی آنکھ کھلی تو کچھ دیر کے لیئے اسے سمجھ ہی نہیں آیا وہ کہاں ہے غیر ارادی طور پہ اس نے سر گھمایا روز کی عادت تھی ذرا دور دوسرے بستر پہ دادی کو دیکھنے کی مگر نظر اتنی دور جا ہی نہیں پائی بالکل برابر میں سوتے باسط پہ نظر پڑتے ہی وہ بوکھلا کے اٹھ گئی۔ چند لمحوں میں ہی رات ذہن میں گھوم گئی بالکل ایسے جیسے کوئی خواب دیکھا ہو۔ دھندلی دھندلی سی تصویریں ایسے یاد آرہی تھیں جیسے وہ کسی سحر کے زیر اثر تھی۔ اوپر روشن دان سے آتی روشنی دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ دن کافی نکل آیا ہے باہر سے چہل پہل کی آوازیں بھی آرہی تھیں
اس کے اٹھنے سے باسط کی نیند بھی ڈسٹرب ہوگئی۔
“کیاہوا سو جاو نا یار” باسط نے اسے قریب کرنے کی کوشش کی۔ وہ جھجھک کر دور ہو گئی۔
“سب اٹھ گئے ہونگے”
“ہاں تو”
“عجیب لگے گا نا ہم روم میں ہیں”
“ارے یار سب کو پتا ہے ہم ہی سب سے دیر سے سوئے ہونگے۔تمہیں اٹھنا ہے اٹھ جاو مجھے شدید نیند آرہی ہے۔” باسط نے بہت سیدھے سادے سے انداز میں کہا نا اس میں کوئی شوخی تھی نا ناراضگی۔
وہ بے چارگی سے بیڈ کے کونے میں ہو کر بیڈ گئی۔ منہ ہاتھ دھونے کے لیئے بھی کمرے سے باہر جانا پڑتا اور ابھی اسے بہت جھجھک محسوس ہورہی تھی۔ باسط نے بازو آنکھوں پہ رکھ کے دوبارہ سونے کی کوشش شروع کردی۔ ایک دو منٹ وہ ایسے ہی لیٹا رہا۔ پھر اٹھ کے بیٹھ گیا۔
“اچھا میں سنیہ کو بھیجتا ہوں۔” باسط نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا۔ اور روم سے نکل گیا۔ تھوڑی سی دیر بعد سنیہ اور بشرہ آپی اندر آئیں۔ اور بشرہ آپی کو دیکھ کے بسمہ کے ذہن میں سب سے پہلے یہی خیال آیا کہ اب آنے کا کیا فائدہ۔ ایک تو اسے ان کے چہرے کی معنی خیز مسکراہٹ سے ہی الجھن ہورہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ سنیہ ادھر ادھر ہوگی اور یہ کچھ نا کچھ بےتکا پوچھیں گی۔ جس کے بارے میں بسمہ بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور کم از کم کسی ایسے شخص سے تو بالکل نہیں جس سے وہ بالکل بے تکلف نہیں تھی۔
“سنیہ نے پہلے سے الماری میں سجے اس کے جہیز کے کپڑوں میں سے ایک دو نسبتا آرام دہ سوٹ نکالے۔
“بھابھی بتائیں ابھی کونسا سوٹ پہنیں گی؟” بسمہ کے بولنے سے پہلے بشرہ آپی بول پڑیں۔
“ارے یہ کیسے بتائے گی۔ ہماری بسمہ ان معاملات میں بہت سیدھی ہے ویسے ہی پہلے دن اتنی شرم آرہی ہوتی ہے اسی لیئے تو میں ساتھ آئی تھی یہ تو کچھ بولے گی ہی نہیں۔ ایسا کریں سنیہ یہ تو بہت سادے سے سوٹ ہیں وہ سی گرین فراک نکال لیں جس پہ گوٹے کا کام ہے۔ ”
بشرہ آپی نے پیچھے الماری میں ٹنگی ایک کافی بھاری سی فراک کی طرف اشارہ کیا۔ سنیہ نے سوالیہ نظروں سے بسمہ کی طرف دیکھا کیونکہ اس سے بسمہ کی کافی دوستی پہلے ہی ہوچکی تھی اور بسمہ اسے اپنی پسند کا سوٹ بتانے ہی والی تھی۔ مگر مجبورا بسمہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
بسمہ تیار ہو کے نیچے آئی تو پتا چلا اسماء آپی اور ایک دو کزنز ناشتہ لے کر آئی ہوئی تھیں۔ باسط بھی تھوڑی دیر میں تیار ہو کے نیچے ہال میں آگیا اور بسمہ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا جس پہ باسط کے کزنز اور بسمہ کے گھر والوں سب نے ہی ایک زور دار “اووو” کیا۔
“لو بھئی تم نے تو ایک ہی رات میں پلو سے باندھ لیا ہمارے دیور کو” نازیہ بھابھی نے کہنے کو مذاق کیا مگر لہجے میں صرف مذاق نہیں تھا۔ بسمہ شرمندہ سی ہوگئی۔ ہنسی مذاق چلتا رہا جس کا ہدف بسمہ اور باسط دونوں تھے مگر جواب باسط ہی دے رہا تھا۔
ولیمہ ایک دن بعد تھا اسماء آپی چاہ رہی تھیں کہ بسمہ کو کل شام تک کے لیئے لے جائیں مگر باسط نہیں مان رہا تھا۔ آخر کار یہی طے ہوا کہ باسط اپنے گھر والوں کے ساتھ آج شام ہی بسمہ کو لینے آجائے گا۔
ولیمہ بھی خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔ مگر یہ صرف بسمہ کا خیال تھا کیونکہ دونوں اطراف میں کئی ایسی چھوٹی چھوٹی تکراریں رسموں پہ ہوئیں جن کی وجہ سے کچھ رشتہ دار کافی ناراض ہوگئے تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی کیٹرنگ اور کھانا بھی زیادہ نہیں بھایا تھا۔ جس پہ بسمہ اور باسط کی غیر موجودگی میں طنزیہ باتیں ہو ہی جاتیں مگر ان دونوں کی لیئے فی الحال سب سیٹ تھا۔ باسط کی ساری توجہ بسمہ پہ تھی جہاں بسمہ ہوتی کچھ دیر بعد باسط بھی وہیں ہوتا۔ صوفے پہ تو تقریبا جڑ کے بیٹھ جاتا۔ آخر دو تین دن بعد ایک دن نازیہ بھابھی اوپر آئیں تو بسمہ کمرے میں اکیلی تھی باسط کچھ دیر کے لیئے دوستوں کے پاس گیا تھا۔ نازیہ بھابھی اندر آگئیں
“بسمہ میں ایک بات کرنا چاہ رہی تھی مگر دیکھو برا مت ماننا۔ میں بھی بہو ہوں یہاں کی میں نہیں چاہتی کہ تم اپنی سادگی میں یا کم عمری میں کسی ناخوشگوار مسئلے سے گزرو”
“نہیں بھابھی آپ کہیں آپ بڑی ہیں میرے بھلے کے لیئے ہی کہیں گی۔” ان کے لہجے نے بسمہ کو ڈرا دیا مگر اس نے کوشش کر کے اپنا لہجہ عمومی ہی رکھا۔
“دیکھو یار سیپریٹ گھر ہو یا گھر میں غیر شادی شدہ لڑکیاں نا ہوں تو یہ لپٹنا چپٹنا چل جاتا ہے مگر ساس سسر کے سامنے اچھا نہیں لگتا نا۔ باسط تو مرد ہے وہ نہیں کرے گا ان چیزوں کا خیال تم تو لڑکی ہو سمجھا کرو۔ کسی دن ساس نے ٹوک دیا تو نئی سسرال میں کیا عزت رہ جائے گی؟ لوگوں کے سامنے باسط سے تھوڑا فاصلہ رکھا کرو۔ مناسب نہیں لگتا یہ سب”
بسمہ کو اول تو ان کی بات ہی عجیب لگی پھر جس قسم کے الفاظ انہوں نے استعمال کیئے وہ کافی قابل اعتراض تھے کیونکہ بسمہ خود بھی کوشش کرتی تھی کہ باسط پاس آکر بیٹھا ہے تو تھوڑا فاصلہ کر لے سب کے سامنے باسط کااتنا قریب بیٹھنا اسے عجیب لگتا تھا۔ اور تب زیادہ لگتا جب کوئی بلکہ عموما نازیہ بھابھی ہی کوئی نا کوئی شوخ جملہ کہہ دیتی تھیں۔
“جی بھابھی میں خیال کروں گی”
بسمہ کو اتنی شرمندگی ہوئی کہ وہ زیادہ بول ہی نہیں پائی۔ اور پھر بسمہ نے اور زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا کہ باسط اور وہ سب کے سامنے زیادہ قریب نا ہوں۔ اسے نازیہ بھابھی کے اعتراض کے طریقے نے بہت دھچکہ سا پہنچایا تھا۔ اور وہ دوبارہ ایسا کوئی اعتراض سننا نہیں چاہتی تھی۔ اور ظاہر ہے یہ بات باسط نے بھی محسوس کرلی۔ وہ ایک دن کچن میں کھڑی سلاد کاٹ رہی تھی باسط برابر میں آکر فریج سے پانی نکالنے لگا۔ وہ تھوڑا اور دور ہوگئی۔
“ارے بیگم صاحبہ کیوں مجھ سے بھاگتی پھرتی ہیں”
“اففو باسط سمجھا کرو نئی دلہن ہے لڑکیاں تم لڑکوں کی طرح بے شرم نہیں ہوتیں” ساتھ ہی کھڑی نازیہ بھابھی نے بسمہ کے بولنے سے پہلے جواب دیا۔
باسط نے ایک نظر نازیہ پہ ڈالی اور ایک بسمہ پہ۔ خاموشی سے پانی پی کر گلاس رکھا جاتے جاتے کچھ سوچ کے رکا۔
“بسمہ فارغ ہوجاو تو اوپر آنا ذرا۔”
“اوہو اب تو دن میں بھی دیور جی کو یاد ستانے لگی” نازیہ بھابھی نے حسب عادت جملہ چست کر ہی دیا اور اتنا بلند آواز میں کیا کہ باسط نے ضرور سنا ہوگا۔ بسمہ نے پہلے سوچا کہ اوپر نا جائے مگر باسط کے لہجے کی سنجیدگی کا خیال آیا تو وہ سلاد اتنی ہی چھوڑ کر اوپر آگئی۔
“جی آپ نے بلایا تھا” بسمہ کی کیفیت ایسی تھی جیسے شرارت کرنے کے بعد پرنسپل کے آفس میں اسٹوڈنٹ کی ہوتی ہے
“آو بیٹھ جاو پھر بات کرتے ہیں”
بسمہ بیڈ کے ایک سائیڈ پہ بیٹھ گئی
باسط اس کے سامنے بیٹھ گیا
“بسمہ جانو کوئی مسئلہ ہے کیا۔ شادی سے پہلے تم کتراتی تھیں وہ سمجھ آتا ہے اب کیا ہوا؟”
“باسط سب نوٹ کرتے ہیں”
” تو کرنے دو کیا فرق پڑتا ہے”
“اچھا نہیں لگتا نا نازیہ بھابھی بھی ٹوک چکیں ہیں کہ امی ناراض ہوں گی”
” یہ نازیہ بھابھی نے کہا تم سے؟ لو بھلا کہہ بھی کون رہا ہے”
“کیا مطلب”
“کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے تم گھبراو نہیں میں خیال کروں گا آئیندہ۔ مگر پلیز تم بھی سب کے سامنے ایسے پیچھے نا ہوا کرو شوہر ہوں تمہارا عجیب لگتا ہے۔”
بسمہ نے سر ہلا دیا۔ اس نے سکون کا سانس لیا چلو ایک مسئلہ تو خیریت سے حل ہوگیااور شکر بھی کیا کہ باسط کو اوپریٹ کرتا ہے۔ مگر یہ پہلا اور چھوٹا مسئلہ تھا۔
اگلے کچھ دنوں میں کھیر پکوا کر اسے ایک طرح سے باقاعدہ گھر کے کاموں میں حصہ دے دیا گیا۔ مگر پتا نہیں نازیہ بھابھی کے ساتھ کیامسئلہ تھا وہ اسے کوئی کام خود سے نہیں کرنے دیتیں ہر کام میں خود ہی ساتھ کھڑی ہوجاتیں کئی بار بسمہ کی ترکیب بدل دی اور کھانے کا مزہ خراب ہوگیا اور جب کھانا لگتا تو کسی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑتیں
“بھئی آپ لوگ کچھ کہیے گا نہیں نئی نئی دلہن ہے کم عمر بھی ہے اونچ نیچ ہوجاتی ہے یہ بھی میں نے تھوڑا مدد کروا دی۔ اسے ابھی ٹھیک سے پکانا نہیں آتا نا۔” بسمہ کو سمجھ نہیں آتا کہ انہیں کیوں لگا کہ اسے پکانا نہیں آتا کچھ چیزیں تو وہ پہلے ہی جانتی تھی پھر منگنی سے شادی کے بیچ دس گیارہ مہینوں میں اس نے کافی کچھ سیکھ لیا تھا۔ وہ صرف جھنجھلا کے رہ جاتی۔ باسط کی چھٹیاں بھی ختم ہو گئی تھیں وہ تھک کے آتا تو بسمہ کو مناسب نہیں لگتا کہ وہ اتنی جلدی سسرال کی شکایتیں کرنے لگے۔
باسط آفس سے آتا تو نازیہ بھابھی اسے پانی لینے دوڑا دیتیں اور باسط کے سامنے ٹوکنا نہیں بھولتیں کہ شوہر کے آتے ہی ان چیزوں کا خیال رکھا کرو۔ کئی بار پیچھے سے آکر اسے دوپٹہ سر پہ اڑھانے لگتیں کہ جیٹھ یا سسر آرہے ہیں ایسے اچھا نہیں لگتا۔ وہ خود بھی سر پہ دوپٹا اوڑھے رکھتیں مگر وہ عموما اتنا مختصر ہوتا کہ صرف سر کے گرد ہی ہوتا۔
اس دن بھی باسط کے آنے کے ٹائم پہ دروازہ بجا بسمہ دروازہ کھولنے کے لیئے بڑھی تو فورا نازیہ بھابھی نے روک دیا۔
“تم پانی لے آو میں کھول آتی ہوں۔”
بسمہ پانی لے کر آئی تو باسط ہال کے صوفے پہ بیٹھا جوتے اتار رہا تھا۔ نازیہ بھابھی ساتھ ہی بیٹھی تھیں۔
“ارے یار آج تو بہت تھک گیا”
“لیٹ جاو یہیں تھوڑی دیر”
باسط نے بسمہ سے پانی کا گلاس لے کے پیا اور واقعی وہیں لیٹ گیا نازیہ بھابھی کے گھٹنے پہ سر رکھ کر۔ اس کا انداز اتنا عام سا تھا جیسے یہ کوئی روز کی بات ہو۔ بسمہ حیران سی کھڑی رہ گئی۔
*****۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...