عون جلدی گھر جانا چاہتا تھا لیکن اچانک میٹنگ کی وجہ سے اسے روکنا پڑا اور فون بھی سائلینٹ پر لگانا پڑا۔
اب میٹنگ ختم ہوئی تو وہ جلدی سے جلدی گھر پہنچنا چاہتا تھا ۔
رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے ۔
اس نے آرزو کا نمبر ملایا لیکن بار بار فون کرنے پر بھی نمبر نہ لگا پتہ نہیں آرزو فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی ۔
سوچتے ہوئے اس نے گھر کی راہ لی ۔
اسے آرزو کی ڈر والی بات یاد آئی تو وہ زبیدہ کو فون کرنے لگا ۔
ہاں عون بیٹا اپنے فون پر عون کا فون آتا دیکھ کر زبیدہ کو بہت خوشی ہوئی ۔
آپ گھر پے ہیں یا ابھی شادی والے گھر پے ہیں اس نے جلدی سے اپنا سوال پوچھا ۔
بیٹا بارش بہت تیز شروع ہوگئی تھی میں نے سوچا بارش زرا کم ہوجائے تو پھر نکلتے ہیں زبیدہ ابھی بول رہی تھی کہ عون نے فون بند کر دیا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی ۔
آئی ایم سوری میری جان میں بہت کوشش کے باوجود بھی جلدی نہیں آ سکا ۔
اس نے جلدی سے میسج ٹائپ کیا اور آرزو کے نمبر پر سینڈ کیا ۔اسے لگا شاید آرزو اس سے ناراض ہو گئی ہے لیکن اب بھی کوئی رپلائی نہ آیا ۔
تو اس نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی ۔
آدھے گھنٹے کا راستہ اس نے دس منٹ میں طے کیا تھا ۔
وہ کافی دیر سے بیل بجا رہا تھا لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا پھر اسے لگا کر شاید بجلی نہیں ہے کیونکہ ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا ۔
اور بجلی نہ ہونے کی صورت میں ان کے گھر کی بیل نہیں بجتی تھی ۔
بجلی نہیں ہے یو پی ایس کس بے وقوف نے آف کیا ۔
اس نے سوچتے ہوئے دوبارہ سے آرزو کا نمبر ملایا جو بج بج کر بند ہوگیا اور کوئی جواب نہ ملا ۔
بارش اپنی شدت پکڑے ہوئے تھی ۔
اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔
لیکن بے سود اب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔
اب ا سے آرزو کی فکر ہونے لگی ۔
اس گھرمںں دو نوکرانیاں کام کرتی تھی
لیکن وہ بھی چھ بجے اپنا کام ختم کرکے اپنے اپنے گھر چلی جاتی ۔
اب عون کے پاس دیوار پھلانگنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا ۔
اس نے بڑی مشکل سے دیوار پھلانگی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا ۔
لیکن آرزو یہاں بھی نہ تھی وہ پورے گھر میں اسے تلاش کرنے لگا ۔
جب وہ سیڑھیوں کے نیچے خود میں سمٹی اپنے کانوں پر زور سے ہاتھ رکھے رو رہی تھی ۔
عون جلدی سے اس کے قریب آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اس کے سینے سے لگتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگی ۔
ایم سوری آرزو میں جلدی آنا چاہتا تھا لیکن نہیں آ سکا ۔پلیز رونا بند کرو وہ اسے اپنے ساتھ لگائے چپ کروانے لگا ۔
بہت برے ہیں آپ کبھی بات نہیں کروں گی آپ سے نہیں چاہیے مجھے آپ کا ساتھ بہت گندے ہیں آپ ۔وہ مسلسل اپنے نازک ہاتھوں سے اس کے سینے پر مکے مارتے اس کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔
ڈر کی وجہ سے اس کا رُم رُم کانپ رہا تھا
عون کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا ۔
بس میری جان آئندہ یہ غلطی نہیں ہوگی پلیز تم رونا بند کرو وہ اسے اپنے ساتھ بھیجے مسلسل چپ کر وآنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
وہ اسے ایسے ہی روتے ہوئے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا ۔
آئی پرومس آئندہ کبھی یہ غلطی نہیں کروں گا ۔
اس موسم میں کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا مجھے سچ میں نہیں پتا تھا تم اتنا ڈرتی ہو۔
شاباش اب چپ ہو جاؤ عون کے سارے کپڑے بھیگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آرزو بھی تقریبا بھیگ چکی تھی ۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا اور آہستہ سے اسے بیڈ پر بٹھا کر اٹھنے لگا
عون جی پلیز مت جائے مجھے چھوڑ کر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے وہ اس کے ساتھ مزید لگتے اسے مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بولی عون نے اس کے قریب سے اٹھنے کا ارادہ کنسل کرتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں لے لیا ۔
کہیں نہیں جا رہا میں یہی ہوں تمہارے پاس
کبھی بات نہیں کروں گی آپ سے ۔۔بہت زیادہ والا ناراض ہوں گی ۔وہ اس کے ساتھ لگی ہوئی بول رہی تھی اس کی بات پر عون بے ساختہ مسکرا دیا ۔
ہاں بارش کے بعد ہیں نا عون دھیرے سے بولا تھا تو اس نے اصرار میں گردن ہلائی ۔
یعنی بارش کے اس موسم میں وہ اس سے دور جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی ۔
یعنی ابھی راضی ہو تم مجھ سے ۔۔؟عون نے آہستہ سے پوچھا
لیکن بارش ختم ہونے کے بعد آپ سے بات نہیں کروں گی ۔وہ اس کے ساتھ چپکے ہوئے بول رہی تھی جب عون نے اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے ۔
ابھی راضی ہو تو اس موقع کا فائدہ اٹھانے دو ۔
وہ کہتا ہوا پھر اس پر جھکا تھا اس کی ریڈ ڈریس دیکھ کر وہ پہلے ہی اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ اس کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی ۔
لیکن اس بارش نے انہیں مزید ایک دوسرے کے قریب کردیا تھا ۔عون دھیرے دھیرے اس کی ذات پر اس قدر چھا گیا کہ بارش کی شدت اور بجلی کی کڑک اسے بھولنے لگی
مین دور کی بیل بجی ۔یقیناً گھر والے واپس آ گئے ہوں گے آرزو تو تھوڑی دیر پہلے اس کی باہوں میں بے خبر سو چکی تھی ۔
وہ اٹھا ۔تاکہ جاکے دروازہ کھول سکے ۔
اس نے آ کر دروازہ کھولا تو دروازے پے اپنے ماں باپ اور تائی کو کھڑا دیکھا جو بارش سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
آپ لوگ تو بارش کےرکنے پر آنے والے تھے ۔
وہ آگے آگے چلتے ہوئے بولا ۔جبکہ بابا پیچھے دروازہ بند کر رہے تھے اور زبیدہ اور آسیہ اس کے ساتھ ہی اندر آ گئی ۔
ہاں بیٹا بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اس لیے آ گئے آرزو کہاں ہے ۔تائی نے جواب دیتے ہوئے پوچھا ۔
جب اسے اکیلے گھر چھوڑ کے گئی تھی تک نہیں ہوئی تھی پروہ تو اب کیوں ہے ۔
وہ آگے چلتے ہوئے بولا تھا ۔
اگر آج وہ ٹائم پہ گھر نہیں آتا تو نہ جانے آرزو کتنی دیر ڈرتی رہتی رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے ۔
بیٹا ہم نے اس سے پوچھا تھا لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری اجازت نہیں ہے زبیدہ بیگم نے صفائی پیش کی ۔
بس رہنے دیں کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کےصفایاں دینے کی اور نہ ہی اب آرزو کو یہاں رہنے دوں گا لے کے جا رہا ہوں کچھ دن میں سے یہاں سے ہم الگ گھرمیں رہیں گے ۔
لے کے چلا جاؤں گا میں آرزو کو یہاں سے وہ غصے سے کہتا اپنے کمرے میں جا چکا تھا
جبکہ زبیدہ بیگم کو ایسا لگا جیسے ان کا بیٹا آج ہی ان سے دور چلا گیا ہو ۔
وہ کمرے میں آیا تھا تو آرزو کو جاگتے ہوئے پایا ارے تم تو سو رہی تھی جاگ کیسے گئی وہ واپس اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا ۔
آپ جب اٹھ کے گئے تب میری آنکھ کھلی وہ بھی اٹھ کر بیٹھنے لگی تو عون نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر واپس لیٹا دیا ۔
اور خود بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا۔
کل ہم اپنا گھر دیکھنے جائیں گے ۔اس نے آرزو کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بتایا ۔
بس تھوڑی سی سیٹنگ رہ گئی ہے پھر شفٹ ہو جائیں گے ۔
عون جی آپ سے ایک بات پوچھوں ۔آرزو نے کہا تو اور اس کے عون اس کے عون جی کہنے پر ہمیشہ سے کی طرح مسکرایا ۔
پوچھیں ۔۔۔وہ شرارتی انداز میں بولا
آپ پھوپھو سے بات کیوں نہیں کرتے ۔وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر پوچھنے لگی ۔
اس نے ایک نظرآرزو کو دیکھا پھر آنکھیں بند کر کےآہستہ سے بتانے لگا
وہ عورت مجھے جنم نہیں دینا چاہتی تھی۔
وہ مجھے اس دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھی مجھے مار دینا چاہتی تھی اور اس کام میں میرا باپ بھی شامل تھا ۔
نفرت ہے مجھے ان دونوں سے ۔اور ان کی ساری اولادوں سے بھی ۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتا میں نے ان لوگوں کو بھی بتا دیا ہے کہ میں تمہیں یہاں سے لے کر چلا جاؤں گا ۔
ہم اپنا گھر بنائیں گے ہماری اپنی الگ خوشیاں ہوں گی جن پر تمہارا اور میرا حق ہوگا ۔
ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہونگے ۔میں اپنے سب بچوں کو بہت پیار کروں گا ۔
میں اپنے بچوں سے ان کا دنیا میں آنے کا حق نہیں چھینوں گا ۔
تم جانتی ہو آرزو انچاہی اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے ۔اس کے قاتل اور کوئی نہیں بلکہ اس کے اپنے ماں باپ ہوتے ہیں۔
جس طرح سے میرے ماں باپ تھے ۔
میں نے اپنی ساری زندگی یہ تکلیف محسوس کی ہے ۔یہ دکھ سہ ہے کہ میرے ماں باپ مجھے پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
وہ آنکھیں بند کیے آہستہ آہستہ بول رہا تھا ۔
آرزو اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دے پائی تھی
کیا ہوا بیٹا تو ٹھیک تو ہے زبیدہ صبح سے اس کی پریشان سی شکل دیکھ رہی تھی اب نہ رہا گیا تو پوچھنے لگی ۔
پھپھو آپ سے ایک بات پوچھوں برا تو نہیں منائیں گی وہ معصومیت سے بولی ۔
ہاں میری جان پوچھ مائیں اپنی بیٹیوں کی بات کا برا مناتی ہے ۔زبیدہ پیار سے اس کا گال چوم کر بولی ۔
آپ عون جی کو دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھی ۔
میرا مطلب ہے وہ آپ کو۔۔۔وہ ابھی بول ہی رہی تھی کہ زبیدہ بول پڑیں ۔
کونسی ماں ہوگی جو اپنی اولاد کو دنیا میں نہیں لانا چاہے گی ۔
میں بہت مجبور تھی آرزو ۔
ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا ۔عون کا کیس بہت رسکی تھا ۔
ڈاکٹر نے کہا تھا یا میری جان بچے گی یاعون کی ۔
میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ میں عون کو بچاؤں۔
لیکن گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے ۔
کیوں کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر میں عون کو جنم دیتی ہوں تو میری جان نہیں بچ سکے گی ۔
عّون کے بابا کو مجھ میں یا عون میں سے کسی ایک کو چوننے کے لیے کہا گیا تھا ۔
اس وقت عون کے ساتھ میرے چار اور بچوں کو میری ضرورت تھی ۔
ماں تو اپنے ہر بچے سے پیار کرتی ہے ۔
میں عون سے بہت پیار کرتی ہوں
اس لئے مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ میں عون کی جان لوں۔
لیکن پھر ان چاروں بچوں کو ماں کا پیار کون دیتا ۔
اسی لیے مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا ۔
اور میں نے عون کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
لیکن پھر بھی وہ بہت ضدی تھا دنیا میں آکر ہی رہا زبیدہ نے مسکرا کر بتایا ۔
لیکن مجھے تھوڑی نہ پتہ تھا کہ وہ مجھ سے اتنی نفرت کرنے لگے گا ۔
میری آواز تک نہیں سننا چاہتا وہ کہتا ہے اسے باپ سے کوئی گلا نہیں اسے مجھ سے گلہ ہے کہ میں ماں ہوکے کیسے اسے مارنے کے لئے تیار ہوگئی ۔
لیکن میں مجبور تھی آرزو میں صرف عون کی ماں نہیں تھی چار اور بچوں کی ماں تھی جینے میں نے عون سے پہلے جنم دیا تھا ۔
لیکن عون بھی دنیا میں آیا اس کا رزق اسی دنیا میں لکھا تھا اللہ نے اسے زندگی دینی تھی ۔
اور پھر میری پیاری سی بتیجی کو اس کی دلہن بنا کے لانا تھا وہ خوشی سے اس کے گال چوم کر بولی
اس نے محسوس کیا کہ اس کے پوچھنےسے پھوپھو اداس ہوگئی ہیں
پھوپھو میں کھیر عون جی کو دے کے آوں۔
اس نےکھیر کے پیالے کی طرف اشارہ کیا
وہ میرے ہاتھ کی بنی ہوئی کھیر نہیں کھائے گا ۔زبیدہ اداسی سے مسکرائی۔
میں کھلا لونگی آپ دیں تو سہی وہ مسکرا کر پیالہ اٹھا کر باہر لے گئی ۔
اللہ میرے بچوں کو ایسے ہی خوش رکھنا ۔
وہ دعا مانگتی کھیر اٹھا کر باہر چلی آئی جہاں ان کے سارے بچے ان کا انتظار کر رہے تھے سوائے عون کے
وہ کھیر لے کر کمرے میں آ گئی ۔
جہاں وہ کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہا تھا ۔
بولا بھی تھا جلدی آ جانا مجال ہے جومیری کوئی بات مان لو اسے دیکھتے ہی وہ منہ بنا کر بولا
وہ میں آپ کے لیے یہ لینے کے لئے گئی تھی ۔
اس نے کھیر کا پیالا سامنے کیا اور ساتھ ہی ایک چمچ بھر کے اس کے منہ میں ڈال دیا
کس نے بنایا ہے یہ عون نےکھاتے ہوئے پوچھا ۔
اور ساتھ ہی پیالہ لے کر سائیڈ پر رکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔
اور کھائیں نہ میں نے بنایا ہے اسے لگا شاید جھوٹ بول کر ہی عون کو کھیر کھانے پر مجبور کرکے پھوپھو کو خوش کر دے۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی عون اپنے ہونٹ اُس کے لبوں پر رکھ چکا تھا ۔
اس سے زیادہ ٹیسٹی اور کچھ نہیں وہ اسکے لبوں پر انگوٹھا پھیرتے ہو ئے بولا۔
مجھے جھوٹ پسند نہیں ہے آرزو آئندہ جھوٹ مت بولنا ۔عون نےسیریس اندازمیں کہا ۔
پھو پھو نے اتنے دل سے بنائی تھی ایم سوری چوری پکڑی جانے پر وہ فورا ہی سچ بول بیٹھی ۔
میں تمہاری ہر غلطی معاف کر سکتا ہوں میری جان لیکن ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔عون اب بھی اسی انداز میں بول رہا تھا
آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہوں گے نہ آرزو نے پوچھا تو وہ مسکرایا
بالکل بھی نہیں ۔تم میری ہو آرزو ان لوگوں کی باتوں میں مت آیا کرو
عون جی ۔آرزو نے کچھ کہنا چاہا
اب تم مجھے ڈسٹرب کروگی ۔تو میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا ۔دھمکی دیتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے لبوں پر جھکا ۔
اور اس کے لبوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے تمام راہیں فرار بند کردی۔
رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی ۔اور ہر لمحے کے ساتھ آرزو کا عون کی محبت پر یقین بڑھتا جا رہا تھا
صبح آرزو کی آنکھ کھلی عون آئینے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا ۔
مجھے جگایا کیوں نہیں اتنی لیٹ ہوگئی میں آپ کے لئے ناشتہ بناتی ہوں ۔وہ جلدی سے اٹھی اور باہر جانے لگی ۔
جب اچانک عون نے اسے پکڑ لیا ۔
ناشتہ بھی کر لیں گے پہلے مجھے نئے سال کی مبارک دے دو ۔
وہ ایک ہی پل میں اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتے ہوئے اس کے لبوں پر جھکا تھا ۔
عون جی ۔مبارک منہ سے دی جاتی ہے ۔وہ بُرا مناکر پیچھے ہوئی اور منہ بنا کر بولی ۔
ہاں تو میں نے بھی تو منہ سے ہی دی ہے ۔عون شرارتی انداز میں کہتا شرارتی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھاتھا ۔
پتا نہیں کیا ہوگیا ہے آپ کو صبح صبح آرزو نے باہر کی طرف دوڑلگاتے ہوئے کہا ۔
ہاں جان من بھاگ لو جتنا بھاگنا ہے آج رات میں نئے سال کا تحفہ دل کھول کے وصول کروں گا ۔
مسکراتے ہوئے اپنے بال بناتے بولا ۔
آرزو شرماتے ہوئے نیچے آئیں جہاں تامیہ کو روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔
میرا یقین کریں پھوپھو عون کے پہلے میرے ساتھ تعلقات تھے پھر آرزو سے کے ساتھ شادی کر کے مجھے دھوکا دیا ۔
وہ کہتا تھا کہ وہ اسے طلاق دے کر مجھ سے شادی کرے گا لیکن اب وہ مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر رہا ہے تامیہ روتے ہوئے بولی۔
جبکہ اس کے ایک ایک لفظ پر آرزو کی قدم سست پڑتے جا رہے تھے
عون اس کے پیچھے نیچے آ گیا تھا ۔
جب اسے راستے میں کھڑا دیکھ کر کے قریب آیا لیکن سامنے تامیہ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا ۔
وہ اس کی ماں کے پاس بیٹھی نہ جانے کیا کیا بکواس کر رہی تھی ۔
تامیہ کی باتیں سن کر اسے بھی اچھا خاصہ غصہ آنے لگا ۔
لیکن وہ کسی کو اپنی صفائی پیش نہیں کرنا چاہتا تھا سوائے آرزو کے اسے اور کسی سے کوئی مطلب نہ تھا وہ آرزو کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ غلط نہیں ہے ۔
وہ اس کے قریب آیا اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا ۔
آرزو یہ لڑکی جو بھی کہہ رہی ہے سب بکواس ہے میں صرف تم سے پیار کرتا ہوں میرا اس سے کوئی مطلب نہیں ۔
نہ اس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ کل تھا اور نہ ہی آج ہے ۔عون نے اس کی آنکھوں سے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔
آرزو نے ایک نظر عون کی طرف دیکھا اور باہر چلی گئی ۔
یہ دیکھیں پھوپھو پوچھیں اس سے سب کچھ جانتی ہے یہ میرے اور عون کے بارے میں ایک ایک بات سے واقف ہے یہ ۔پوچھیں اس سے کیا نہیں جانتی یہ میرے اور عون کے بارے میں ۔
کیا اسے پتا نہیں ہے کہ عون اسے طلاق کے کرمجھ سے شادی کرنے والا تھا ۔
تامیہ آنسو بہاتی اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔
آرزو کیا یہ سچ کہہ رہی ہے کیا تامیہ وہ لڑکی ہے زبیدہ اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی
کیا تم یہ سب کچھ جانتی تھی ۔
آرزو کچھ بھی نہ بولی بس آگے بڑھ کر تامیہ کا ہاتھ تھاما ۔
تامیہ کو لگا کہ اس کا پلان کامیاب ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ چل دی
آرزو اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے کر جانے لگی ۔
وہ تامیہ کو اپنے ساتھ مین گیٹ کی طرف لائی اور دروازہ کھول کر تامیہ کو باہر کی طرف دھکا دیا ۔
تامیہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی
میں آپ کو آخری بار کہہ رہی ہو تامیہ آپی خبردار جو آج کے بعد آپ نے میرے شوہر یا میرے گھر پر بری نظر ڈالی ۔
اگر میں برداشت کررہی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جو چاہے وہ کرے ۔
اس بار ہاتھ پکڑ کے نکالا ہے اگلی بار دھکے مار کے نکالوں گی ۔
آج کے بعد میرے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھیئے گا ۔
وہ غصے سے کہتی اس کے منہ پر دروازہ بند کر چکی تھی ۔
جبکہ انیسہ اور زبیدہ حیران اور پریشان اسے دیکھ رہی تھیں جبکہ عون کے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ کھلی تھی ۔
وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا
یہ کیا کیا ہے تم نے آرزو یہ کیا طریقہ ہے مہمان سے بات کرنے کا بہت غلط حرکت کی ہے تم نے انیسہ نے غصے سے کہا ۔
جبکہ آرزو زبیدہ کے سامنے آکر رکی ۔
اسی طرح سے اپنے شوہر کی زندگی سے دوسری عورت کو نکالتے ہیں نہ پھوپھو کیا میں نے کچھ غلط کیا ۔
وہ زبیدہ کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی ۔
جب زبیدہ نے نا میں گردن ہلائی ۔
تم نے بالکل ٹھیک کیا اپنے شوہر کی زندگی میں کسی دوسری عورت کے لئے کبھی جگہ مت بننے دینا آرزو ۔
زبیدہ نے ایک نظر انیسہ کو دیکھا اور اندر چلی گئی ۔
جبکہ آرزو کو بہت برا لگا تھا ۔
وہ کبھی تامیہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
لیکن وہ اپنے شوہر کی زندگی میں کسی دوسری عورت کا وجود اب برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔
وہ کچن میں جا کر عون کے لیے ناشتہ بنانے لگی جب اس کا سر بُری طرح سے چکرانے لگا ۔
وہ وہی دروازے کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی جب انیسہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
تم ٹھیک تو ہو ۔
جی تائی امی میں ٹھیک ہوں ۔
وہ بمشکل مسکرائی اور ناشتہ بنانے لگی
ان دونوں میں سب کچھ ٹھیک ہوئے دو مہینے ہو چکے تھے اور اب تک عون نے اسے تامیہ کے بارے میں کچھ بھی نہ بتایا تھا ۔
اسے لگ رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے اور اب اسے تامیہ کے بارے میں اسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ایسا نہیں تھا
تامیہ ان کی زندگی میں بربادی لانا چاہتی تھی ۔
شاید وہ عون سے اس دن کی بےعزتی کا انتقام لینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی تھی ۔
لیکن جو بھی تھا وہ آرزو کو کھونے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
اس لیے اس نے آج ہی آرزو سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اس نے آرزو سے سچائی چھپا کر غلطی کی اسے آرزو کو مکمل بات بتا دینی چاہیے ۔آج وہ کام سے واپس آنے کے بعد آرزو کو اپنے ساتھ اپنا نیا گھر دکھانے جا رہا تھا
اس کے عون نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ تامیہ کے بارے میں بھی آرزو کو ہر ایک بات بتا دے گا ۔
آج جس طرح سے آرزو نے تامیہ کو گھر سے نکالا تھا اس نے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ عون سے بہت محبت کرتی ہے اسے کھونا نہیں چاہتی ۔
ان دونوں کو ایک دوسرے کے اظہار کی ضرورت نہ تھی لیکن پھر بھی عون بہت بار اپنی محبت کا اظہار اس کے سامنے کر چکا تھا۔