ایٹمی جنگ کا خطرہ
(افسانوی مجموعہ’’ ایٹمی جنگ‘‘ کا پیش لفظ)
کل تک برِ صغیر کے باشندوں کی بڑی اکثریت عالمی سطح پر ایٹمی جنگ کے کسی امکان سے بھی بے خبر یا بے نیاز تھی۔لیکن اس برس پہلے انڈیا نے اور پھر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے برصغیر کے عام آدمی کو بھی ایٹمی جنگ کی تباہ کاری سے باخبر کر دیا ہے۔انڈیا اور پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہ کیے ہوتے ،تب بھی یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا ایٹمی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے۔اب اس بارود میں مٹھی بھر اضافہ ہوا ہے۔دنیا کی بڑی اور ایٹمی طاقتوں کے پاس ایٹمی اسلحہ کا جو ذخیرہ موجود ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پورے کرّہ ٔ ارض کو پانچ بار فنا کرنے کے لیے کافی ہے۔سوویت یونین کی شکست و ریخت سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا ہے ٭ لیکن ایٹمی اسلحہ تو بدستور موجود ہے۔ایٹمی میزائلوں کا کمپیوٹرائزڈ سسٹم کبھی کسی فنی خرابی کا شکار ہو گیا تو یہ فنی خرابی بھی پوری دنیا کی بربادی کا باعث بن سکتی ہے۔لیکن کل تک ہم لوگوں کی بھاری اکثریت اس خطرے کے ادراک سے بے خبر تھی۔بے شک بے خبری ایک نعمت ہے۔
۱۹۸۰ء کے وسط میں میرا ذہن بار بار ایٹمی جنگ کے امکانی خطرہ کی طرف جاتا تھا۔بعض آسمانی صحیفوں اور مذہبی کتب میں مجھے ایک بڑی تباہی کی خبریں پڑھنے کو ملیں تو میرے اندر کی بے چینی نے مجھ سے کہانی ’’حوّا کی تلاش ‘‘لکھوائی۔اس میں ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کو آسمانی صحیفوں اور مذہبی کتب کی روشنی میں دیکھنے کی کاوش تھی۔میری یہ خواہش کہ میں رہوں نہ رہوں،نسلِ آدم اس دھرتی پر آباد رہنی چاہئے،اس کہانی میں کہانی کے تقاضے کے مطابق آئی تھی۔اس میں ایک ہلکا سا سیاسی اشارہ بھی تھا۔
عربوں کی تیل کی دولت کے لالچ میں بڑی طاقتوں کا ٹکراؤ اور دونوں کی تباہی۔
’’حوّا کی تلاش ‘‘ مجلّہ ’’اوراق‘‘لاہورشمارہ فروری،مارچ ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔متعدد ادیبوں نے اس کہانی کو پسند کیا۔چونکہ اس کہانی میں ایک سیاسی اشارہ موجود تھا، چنانچہ بعد میں ایک اور کہانی لکھی گئی’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘۔اس کہانی کے بعض معاشرتی پہلوؤں سے قطع نظر،یہ بنیادی طور انسانی حرص و ہوس کو نمایاں کرکے تیل کے چشمے پر انسانیت کے دَم توڑنے کی نیم علامتی کہانی تھی۔اس میں بھی ایٹمی جنگ کے بعد کی امکانی صورتحال کو ظاہر کیا گیا تھا۔’’حوّا کی تلاش‘‘کا اختتام پُر امید تھا جبکہ ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘کا انجام تلخ حقائق کے پیش نظر مایوس کن تھا۔’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘، ’’اوراق‘‘ کے شمارہ اپریل مئی ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی
میری ان دونوں کہانیوں کے حوالے سے بعض دوستوں نے مجھ سے سوال کیا کہ ایٹمی جنگ کے بعد سطح زمین پر کسی ذی روح کازندہ بچ رہنا ممکن نہیں ہے،لہٰذا ’’حوّا کی تلاش‘‘ اور ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘میں جو لوگ ایٹمی تباہ کاری کے باوجود زندہ بچ گئے ہیں انہیں کس بنیاد پر بچایا گیا ہے؟
دوستوں کے اس سوال نے مجھے سائنسی تناظر میں سوچنے کا موقعہ عطا کیا۔اس غور و فکر نے مجھے مذہبی اور سیاسی پہلوؤں سے ہٹ کر سائنسی بنیادوں پر کہانی لکھنے کی ترغیب دی،تاہم میں نے کہانی لکھنے میں جلدی نہیں کی۔کہانی میرے اندر بنتی رہی اور پہلی کہانی سے لگ بھگ گیارہ سال کے بعد ’’کاکروچ‘‘لکھی گئی۔یہ کہانی ماہنامہ’’صریر‘‘کراچی شمارہ فروری ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی۔
’’حوّا کی تلاش‘‘ ، ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘اور ’’کاکروچ‘‘۔۔۔یہ تینوں کہانیاں کرّۂ ارض پر انسانیت کو درپیش ایٹمی تباہی کے بارے میں میرے احساس اور میری تشویش کی کہانیاں ہیں۔ایسے وقت میں جب برِ صغیر کے عوام کو بھی اس ہولناک تباہی کا اندازہ ہو گیا ہے،میں اپنی تینوں کہانیاں ایک ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ انڈیا اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر، میرے لیے یہ نئی صورتحال قدرے اطمینان کا موجب بن رہی ہے کہ دونوں طرف یہ احساس ہونے لگا ہے کہ کسی ایک کی ہلاکت کا مطلب لازمی طور پر دوسرے کی بھی ہلاکت ہے۔اس بات کو اچھے انداز میں کہا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کا جینا مرنا اب ساتھ ساتھ ہے۔غور کریں تو یہ ساتھ جینا اور ساتھ مرنا تو محبت کا مقام ہے۔تو پھر کیوں نہ ہم سب مل کر محبت کے اس مقام کو پہچانیں!
انسان کی انسان سے محبت کو صرف برِ صغیر تک ہی کیوں محدود رکھا جائے۔کرّۂ ارض ،اس بے پناہ کائنات میں ایک بے حد چھوٹی سی دنیا ہے۔اس دنیا میں ساری جغرافیائی اکائیاں اپنی اپنی جگہ ایک سچ ہیں۔لیکن کرّۂ ارض خود ایک بڑی جغرافیائی اکائی بھی ہے۔اس دھرتی کے سارے انسان اپنے قومیتی،علاقائی اور مذہبی تشخص کے ساتھ۔۔۔اپنے اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے پوری دھرتی کو ایک ملک بنا لیں اور اس ملک کے باشندے کہلانے میں خوشی محسوس کرنے لگیں تو شاید ایٹمی جنگ کے سارے خطرات ختم ہو جائیں۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟
پوری دھرتی کو ایک ملک بنانے کا خواب اور وحدتِ انسانی کی آرزو شاید بہت دور کی منزل ہے۔یہ دوری قائم رہے یا ختم ہوجائے، اس کا انحصار تو ساری دنیا کے ملکوں کے باہمی اعتماد اور یقین پر ہے۔ایک عام آدمی کے لیے شاید یہ کسی دیوانے کا خواب ہو،پھر بھی آئیے ہم سب مل کر دعا کریں۔
دنیا میں محبت کے فروغ کی دعا!
دھرتی پر نسلِ انسانی کے قائم رہنے کی دعا!
حیدر قریشی
(۱۲؍ جولائی ۱۹۹۸ء)