مرچوں کے کھیت میں حسنی، بندو اور احمد رہٹ کے مڈھ پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔ شام ہو رہی ہے۔ رہٹ چل رہا ہے۔
کردار
حسنی، بندو، احمد، اکبر
کچھ دیہاتی، بلھا
رہٹ کی آواز:
چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت
چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت
بارہ ٹالی ہیٹھ
بارہ گئے پردیس ماں بارہ پھیر بھی آویں گے
چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت
بارہ ٹالی ہیٹھ
بارہ ٹالی ہیٹھ
حسنی رہٹ کے مڈھ پر بیٹھا طنبورہ بجا رہا ہے۔ بندو اور احمد حقہ پی رہے ہیں۔ الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے۔
حسنی: سانجھ بھئے اک ڈھیر پہ اندھا سادھو روئے
ہم نے نگری چھوڑ دی، ہمیں نہ چھیڑے کوئے
بندو: سادھو جی اب اُٹھ بھی جاؤ تار طنبورہ چھوڑ
برس رہی اسمان سے کالک تابڑ توڑ
حسنی: پچھم دیس کے نیل ماں ڈوبن لاگا بھان
اس کی ریکھا دیکھ کے ڈول گئی مری جان
سانجھ اُڑا کے لے گئی سورج پور کا رُوپ
کیا جانے کس دیس میں اُترے گی یہ دھُوپ؟
بندو: دھُپ گئی پردیس ماں کلی رہ گئی چھاؤں
مرگھٹ دیکھے گاؤں لے تو رب کا ناؤں
حسنی: سدھ بدھ ہے مجھے دھُوپ کی نا میں جانوں چھاؤں
نا مرا ٹھور ٹھکانا کوئی نا مرا کوئی گاؤں
بندو: ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پہ جلنے لا گے پاؤں
کالی رَینا سر پہ کھڑی، چلو چلیں اب گاؤں
احمد: نہیں بندو بھیا طنبورہ تو سن لیں!
بھلا ساز سنگیت کو چھوڑ کر کون جائے!
کبھی نہ کبھی آج فرصت ملی ہے
ارے اور کچھ دیر بیٹھو
ذرا سر کی دیوی کے جی بھر کے درشن تو کر لیں!
یہ دُنیا کے دھندے تو چلتے رہیں گے
حسنی: رُت بدلی، آندھی چلی، سوکھن لاگے پات
رنگ برنگ ڈالیاں، روویں مَل مَل ہات
بندو: ہائے رے مار دیا، کھوئے دیا ہمنوں
تو پکا گُن کا رہے بھیا!
احمد: بھائی جادُو وہی ہے جو سر چڑھ کے بولے
ارے یہ کوی راج ہیں!
اِن کے گیتوں میں سنسار سنگیت ہے
پھر کہو نا! وہ کیا بول تھے ؟
دھیان کس اور پلٹا؟
وہ لوگ اور وہ نقشے جنھیں بھول بیٹھے تھے ہم
آج پھر سامنے آ گئے ہیں
وہ دیس اب جو پردیس ہے
آج پھر اس کی مٹی کی خوشبو لَویں دے اُٹھی ہے
وہ قصبے وہ گلیاں وہ رستے وہ گھر
جو کھلے چھوڑ آئے تھے ہم
آج پھر ذہن میں پھر رہے ہیں
سناتے رہو بھائی!
ہم آج ڈیرے نہ جائیں گے!
حسنی: ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار
سانجھ بھئے جس دیس میں اُترے وہاں نہ ہو اجیار
حسنی طنبورہ بجا رہا ہے کہ اکبر گھوڑے پر آتا دکھائی دیتا ہے۔ اکبر گھوڑے سے اُتر جاتا ہے۔
اکبر: سلام کرتا ہوں!
ہیں یہ کیا ہو گیا ہے تجھ کو؟
میں صبح سے تجھ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں پیارے!
وہ کنچ گھر تیری جان کو رو رہا ہے حسنی!
اُدھر وہ عبدل ہے جانے کس روگ میں پھنسا ہے ؟
یہ کام کیسے چلے گا پیارے ؟
بندو: اکبر بھیا! عبدل کی کچھ کھیر کھبر ہے ؟
اکبر: بڑے مزے میں ہے شاہ زادہ!
ابھی ملا تھا
ارے وہ کیا ہے
وہ دیکھو! آکاش پروہ کیا ہے ؟
حسنی: آگے پیچھے بھاگتے تارے!
بندو: ایک دو تین، اور چار پانچ!
حسنی: وہ چھ! اور وہ سات!!
رنگ برنگ گربڑے آگ کے پنکھ لگائے
گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اُڑائے ؟
اکبر: نہ جانے کس دیس سے اُڑے ہیں ؟
نہ جانے کس دیس میں گریں گے ؟
حسنی: جانے کس کا بیاہ رچا ہے اتنے چوکھے رنگ
برج چڑھے آکاش پر ارمانوں کے سنگ
ایسے رنگ گلال میں، کیا اپنا من کھوئے
جانے اس کی اوٹ میں کوئی جلتا ہوئے ؟
بندو: کیسے بول بچا رو حسنی دیکھ کے پیار کا جھمکا؟
کیا کہنا ہے تم کا؟
حسنی: ڈھور ہنکاتے پھیر ماں کیسی کرے بچار؟
بندو تو ہے جما گنوارو تو کیا جانے پیار؟
دُور سے کنچ گھر کے سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ سناٹا اَور پھیل جاتا ہے۔ کنچ گھر کے مزدور اور کاری گر دُور سے ایک رستے پر تیزی سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اکبر: سناؤ کیا حال ہے مرے دوستو تمھارا؟
بندو: اتنے دنوں ماں سکل دکھائی
اچھے تو ہو میرے بھائی؟
اکبر: خدا کے فضل و کرم سے اچھی گزر رہی ہے!
سناؤ احمد تمھارا کیا حال ہے
کہو کیسی کٹ رہی ہے ؟
احمد: عنایت ہے بس آپ کی!
آؤ کچھ دیر بیٹھو! یہ حقہ ابھی بھر کے رکھا ہے
حقہ تو پیتے ہو تم بھی!
ارے آج حسنی نے وہ رنگ باندھا کہ بس!
یار اس کے گلے میں قیامت کی مرکی ہے
گھنگرو کا کھٹکا ہے!
ظالم نے کوئل کی آواز پائی ہے
اکبر: (کھیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے )
نہ جانے یہ جنگلی کبوتر کہاں سے اُترے ہیں اُجڑے بن میں ؟
کبوتروں کی یہ ٹکڑیاں ہیں کہ ٹڈی دَل ہے!
بڑا اندھیرا ہے بھائی احمد!
کہاں چلے ہو؟
احمد: ذرا دو کبوتر گرا لاؤں!
بس پل جھپکنے میں آ جاؤں گا!
اکبر: خدا کو مانو!!
یہ شام کے وقت ان پرندوں کو کیوں ستاتے ہو!
جانے دو! غیر وقت ہے!!
بندو: بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ، سیّد اس کی ذات
بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات!
حسنی تم کو ئی گیت سناؤ!
بابو جی کا جی بہلاؤ!
اکبر: (حسنی کی طرف دیکھ کر طنز سے کہتا ہے )
بڑے مزے میں ہو آج حسنی!
بندو: کنچ گھر ماں چھٹی ہو گئی گھگو شور مچائے
اپنے اپنے ٹھار کو، خلقت دَوڑی جائے
گھراں کو بھاگے چودھری، ٹھاکر اور ججمان
ہری بھری نگّر پَیلیاں، چھوڑ گئے کرسان
مَمٹی سے جل جوگنی، اُڑ گئی چھوڑ کے ماس
پگلی بِل بتوریاں، بولیں مڑھی کے پاس
اکبر: ارے او بندو! ذرا اِدھر چھینٹیاں تو لانا!
الاؤ ٹھنڈا پڑا ہے بھائی!
یہ کیا خبر تھی کہ اس اندھیرے میں دوستوں کی سبھا جمے گی
نہیں تو کمبل ہی لیتے آتے
بندو: کمبل کو نہیں جانتے، گاؤں کے سیدھے لوگ
ہم تو نرے گنوار ہیں، تم ہو سہری لوگ
اکبر: بھلا کبھی تم نے شہر دیکھا ہے ؟
جانتے ہو کہ شہر کیا ہے ؟
کبھی جو سپنے میں دیکھ پاؤ تو گاؤں کی ناریوں کو بھولو!
احمد: میاں باؤلے ہو کے روتے پھرو گے!
ارے شہر کی ناریوں سے خدا ہی بچائے!!
ذرا آگ کے پاس آ جاؤ خنکی اُترنے لگی ہے!
سنا تم نے حسنی!! یہ آواز کس کی ہے ؟
(بندو سہم جاتا ہے )
بندو: یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں
یارو اب نئیں بولنا، یہاں کسی کا ناؤں
احمد: میاں تم تو وہمی ہو بندو!
بندو: تم نے پھر مرا ناؤں لیا!
میں کہتا ہوں ناؤں نہ بولو!
حسنی: چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھُول اُڑائے
تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے
آواز: بندو —- ہو —- بندو
بندو: ہوت —- چاچا —- ہوت —- کیا بات ہے ؟
چکّی کی آواز: ٹُک چھک ٹُک چھک ٹُک چھک
احمد: یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے!
یہ چکی میں کیا پس رہا ہے ؟
—- مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں
کال ہے، لوگ مر جائیں گے
لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں!
بندو: ندیاں سوکھیں کال ماں، ٹڈی کھا گئی دھان
پیٹ پجاری شہر کو بھاگے، بھوکوں مریں کسان
احمد: چلو! شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں!
مگر بھائی! ہم تو پنہ گیر ہیں
شہر میں کیا کریں گے ؟
وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے
اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا
نہیں یار! اب تو یہی مر رہیں گے
اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے
اب تو یہی تھل بسائیں گے
بندو: سہر مرے کیا پھونکنا، دیکھے سہر کے لوگ
گیا تھا کنکو بیچنے، لے آیا کیا روگ؟
احمد: یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے
غلے کا توڑا نہیں!
اپنے کھیتوں کو دیکھو!
ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!
ہری ہیں، بھری ہیں!
مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!
اکبر: یہ دُکھ بھری رات کیسی کالی ہے
آج تاروں کی سَمسَرن کس کو دھونڈتی ہے!
اداس تاروں کی سَمسَرن کو جگاؤ حسنی!
گئے سمے کو بلاؤ حسنی!
سناؤ حسنی!
حسنی طنبورہ چھیڑتا ہے، بندو حقے کے نیچے کو پکڑ کر اپنی چاندی کی انگوٹھی سے حقے کا پیوندا بجاتا ہے۔
حسنی: بینا باجے۔ تنانوم تنانوم
جھانجن بولے چھن
تو چپکے چپکے آ گوری!
اس گھور اندھیری رین ماں
جوں کجرا ناچے نین ماں
تو چپکے چپکے آگوری!
(بندو چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے )
بندو: دیکھ تو حسنی!
یو کیسی پگھّم پگھّی!
بارہ سوار سامنے سے گرد اُڑاتے ہوئے آتے ہیں۔ اندھیرے میں ان کی سفید پگڑیاں اور گھوڑیوں کی آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگلے دو سواروں نے اپنے ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشالیں اُٹھائی ہوئی ہیں۔
بُلّھا: دوڑیو رے! دوڑیو!
دوڑ یو رے!
(گھوڑے سوار الاؤ کے قریب آ جاتے ہیں )
دوسری آواز: کون ہے یو اس اندھیری رات ماں۔ ہو
یو الاؤ کن نے جالا؟
لائیو رے میرا بھالا؟
تیسری آواز: ہوت نچئیے! کون ہے گا تو؟
چوتھی آواز: بلھے بیرا گھوڑا موڑ لے!
آندھی چلنے لاگی!
بندو: کون ہے بھائیا؟ کیا بات ہو گئی؟
چوتھی: ہو! وا عبدل تھا نا بندو!
بیر کاڈ کے لے گیا سالا!
ہوا کی مافک چل دو یارو
پھیروا ہتھ نہ آیا
گھوڑے سوار آن کی آن میں ہوا ہو جاتے ہیں۔ آندھی تیز ہو گئی ہے۔ اکبر، احمد، حسنی اور بندو کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔
بندو: حسنی بھیا یو ہے پریم کا سودا
مرے یار کی ساری جند گئی برباد
حسنی: تم ٹھہرو اسی باٹ پہ، ہم چلے پی کے دوار
احمد تو مرے ساتھ چل کہیں کھو نہ جاوے یار
احمد: مگر میں تو عبدل سے واقف نہیں
اس کی صورت بھی دیکھی نہیں آج تک!
خیر! تیری خوشی ہے تو چلتے ہیں
یارو یہیں راستہ دیکھنا ہم ابھی آئے!
(ٹاپوں کی آواز)
اکبر: بڑی حماقت ہے!
اس اندھیرے میں کس کو ڈھونڈو گے میرے بھائی!
مجھے تو ڈر ہے کہ آج عبدل پہ کوئی آفت نہ آن ٹوٹے
بڑی بری بات کی ہے اُس نے!
بڑی بری بات کی ہے اُس نے!