عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی اداکار ،صداکار ،شاعر ، مزاح نگار اورڈرامہ نویس اطہر شاہ خان جیدی نے ستتر ( 77) سال کی عمر میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔ ادب اور فنون لطیفہ کا وہ درخشندہ ستارہ جو یکم جنوری 1943ء کو رام پور ( اُتر پردیش ۔بھارت ) سے طلوع ہواوہ دس مئی 2020ء کو کراچی میں غروب ہو گیا۔ کراچی کے سخی حسن شہر خموشاں کی زمین نے اردو ادب اور فنون لطیفہ کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپالیا۔ اُن کے پس ماندگان میں ایک اہلیہ اور چار بیٹے شامل ہیں۔پس نو آبادیاتی دور میں جب وطن عزیز کو آزادی نصیب ہوئی تواطہر شاہ خان کے خاندان کے افراد نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیااور لاہور پہنچ گئے۔ پشاور اور لاہور میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اطہر شاہ خان نے اُردو سائنس کالج،کراچی سے گریجویشن کی۔اس کے بعد انھوں نے جامعہ پنجاب،لاہور سے صحافت میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
اطہر شاہ خان جیدی نے ریڈیو پاکستان کے متعدد پروگراموں میں حصہ لیا اوراپنے اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔ پیہم اُنیس برس تک مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دینے والا ان کا ریڈیو پروگرام ’ رنگ ہی رنگ جید ی کے سنگ ‘ دنیا بھر میںبہت مقبول ہوا۔پاکستان ٹیلی ویژن پر اُن کے ڈراموں ’’ با ادب با ملاحظہ ہو شیار ‘‘ ، ’ ہیلو ہیلو ‘ ، ’ انتظار فرمائیے ‘،’ برگر فیملی ‘ ،’لاکھوں میں تین ‘ ،’ پرابلم ہاؤس ‘ ، ہائے ہیدی ‘ اور ’ جیدی اِن ٹربل ‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ۔ اُن کے ٹیلی ویژن ڈرامے کا کردا ر’ جیدی ‘ پی۔ ٹی۔ وی اور این ٹی ایم( نیٹ ورک ٹیلی ویژن مارکٹنگ ) پر یکساں مقبول تھا۔اطہر شاہ خان نے پاکستان فلم اندسٹری میں بھی خدمات انجام دیں ۔ایک کہانی نویس اورمکالمہ نگار کی حیثیت سے اطہر شاہ خان نے جن مقبول پاکستانی فلموں میں اپنی خداداصلاحیتوں کا لوہا منوایا اُن میں سال 1970ء میں بننے والی اردو فلم’ بازی ‘ جس میں محمد علی ،ندیم ،قوی خان اور نشو نے اداکار ی کی بہت مقبول ہوئی ۔اُن کی ایک اورفلم جمعہ سات جون سال 1974ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ مقبول پنجابی فلم ’ منجی کتھے ڈاہواں ‘ تھی جس نے فلم کے کاروبار میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ۔پنجابی فلم ’ منجی کتھے ڈاہواں ‘ کی کہانی اطہر شاہ خان جیدی نے لکھی اوراسلم پرویز،منور ظریف ،قوی خان ،اطہر شاہ خان ،رنگیلا،سنگیتا اور عشرت چودھری نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ سال 1976ء میں اطہر شاہ خان جیدی کی لکھی ہوئی کہانی پر مبنی فلم ’ گونج اُٹھی شہنائی ‘ میں محمد علی ،زیبا ،وحید مراد،اسلم پرویز اور روحی بانو نے اپنی موثر اداکاری سے اس فلم کو یادگار بنا دیا۔ سال 1982ء میں بننے والی فلم ’ آس پاس ‘ میں اپنے بڑے بھائی ہارون پاشا سے مِل کر اطہر شاہ خان نے معاون ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس فلم کو کامیابی سے ہم کنار کیا ۔اس فلم کی کہانی اطہر شاہ خان نے لکھی فلم ’آس پاس ‘کے ممتاز اداکاروں میں اطہر شاہ خان ،ندیم،راحت کاظمی،رنگیلا،رانی اور بابرہ شریف شامل تھے ۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اطہر شاہ خان کی شہرت اور مقبولیت کا قصر ِ عالی شان شوبزمیں اُن کی لائق تحسین کارکردگی کی اساس پر استوارہے مگر تخلیق ادب میں بھی ان کو مضبوط اور مستحکم مقام حاصل ہے ۔
سال 5 197ء کے وسط میں اطہر شاہ خان نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے پاکستا ن ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنے کا آغاز کیا اور بیس برس کے عرصے میں ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور سٹیج کے لیے مجموعی طو پر سات سو ڈرامے لکھے ۔اُنھوں نے اپنے لیے ایک مزاحیہ کردار ’ جیدی ‘ تخلیق کیا جسے ریڈیواور ٹیلی ویژن کے ناظرین نے بہت سراہا۔اطہر شا ہ خان جیدی نے فن ِ افسانہ نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ان کے افسانے احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے رجحان سازادبی مجلے ’ فنون‘ میں شائع ہوتے تھے۔اُن کے افسانوںمیں ترقی پسندانہ شعور کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک ہی نشست میں پڑھے جانے والے مختصر افسانے کے واحد تاثر کو وہ بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے افسانوں میں انھوں نے جبر کے ہرانداز کو لائق استردادٹھہرایا اور معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کے حق میں آوا ز اُٹھاکر مقتدر حلقوں کو اُن کے پاس مرہم بہ دست پہنچنے کی راہ دکھائی۔حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے و الے اس جری تخلیق کار نے زندگی بھر حریت فکر کا علم بلند رکھااور ہر قسم کے جبر کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کاکردار ادا کیا ۔فراعنہ کے در پر صدا کرنے کے وہ سخت خلاف تھے ،وہ جانتے تھے کہ اہرام کے اِن بوسیدہ کھنڈات میں ایسی حنوط شدہ لاشوں اور فوسلز کے سوا کچھ بھی نہیں جنھیں زندہ انسانوں کے مسائل کا کوئی احساس و ادراک ہی نہیں ۔
اطہر شاہ خان نے ایک مزاح نگار کی حیثیت سے بہت شہرت حاصل کی ۔اُنھوں نے جیدی کی صور ت میں ایک مزاحیہ کردار تخلیق کیا۔ ادب میں طنز و مزاح کے حوالے سے مزاحیہ کردار اور مسخر ے میں جو اہم فر ق ہے وہ ذوقِ سلیم سے متمتع قارئین سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ معاشرتی زندگی میں مسخرے عزت واحترام سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں ۔شیخ چَلّی قماش کے مسخروں کی چال ڈھال ،انداز ِ گفتگو اور اُن کی ہیئتِ کذائی دیکھتے ہی ناظرین ان تھوتھے چنوں کے بارے میں سب حقائق جان لیتے ہیں اور بے اختیار ہنسنے لگتے ہیں۔ جہاں تک کسی مزاحیہ کردار کا تعلق ہے تو یہ اپنی خود ساختہ، جعلی اور فرضی توقیر و تکریم کی بنا پر اپنے تئیں عصرِ حاضر کا نابغہ اوریگانۂ روزگار فاضل سمجھتے ہوئے رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ بے کمال مزاحیہ کرداروں کی نظر میں کوئی اہل کمال جچتا ہی نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مزاحیہ کردار جعلی وقار کا بھرم قائم رکھنے کے لیے تصنع ، نمود ونمائش ،دوغلاپن،جعل سازی اور منافقت کا سہار ا لیتا ہے مگر مسخر ے کی خامیاں ،قباحتیں اور کراہتیں اس قد ر واضح ہوتی ہیں کہ انھیں عام آدمی کی نظروں سے پنہاں رکھنے کی کوئی کوشش کسی صورت میں کامیاب ہو ہی نہیں ہوسکتی ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جسے بھی کہیں سے ایک گانٹھ ہلدی کی مِل جائے وہ اس ہلدی ک یگانتھ کو اپنی جیب میں ڈال کر پنساری ہونے کا دعویٰ کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ تعلیم کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتاہے گلیوں میں کتے گھسیٹنے والا وہ ابلہ جومحض اپنا نام لکھنا سیکھ لیتاہے وہ دیو جانس کلبی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اعلا تعلیم کے بارے میں مسٹر جیدی کا یہ جملہ سن کر آج بھی لوگ مسکرانے لگتے ہیں :
There are many boys in the world, highly educated, matric second division.”‘‘
ڈرامہ ’ ہائے جیدی ‘ کے ایک منظر میں مسٹر جیدی کی ہئیت کذائی دیکھ کر ناظریں دنگ رہ جاتے ہیں۔گرم چائے کی پیالی میں مولی ڈبو کر کھاتے ہوئے مسٹر جیدی ٹیلی فون کا تار والا حصہ کا ن کے قریب رکھ دوسر ے حصے میں پکارتے ہیں :
I am Mr.Jaidi speaking on other side of telephonic system.
اِسی اثنا میں ایک مہمان صنعت کار کسی ذاتی کام کے سلسلے میں مسٹر جیدی کے کمرے میں آتاہے تو مسٹر جیدی اُسے بٹھانے کے لیے اپنی یادداشت پرزوردیتے ہوئے وہی جملہ دہراتے ہیں جو پرائمری جماعتوں میں طلبا کو سزا دیتے ہوئے ان کے اُستاد کے منھ سے غیظ و غضب کے عالم میں نکلتے تھے :
Stand up on the bench .
پینتالیس لاکھ کے کاروباری معاہدے میں مال کی فراہمی میں تاخیر کی شکایت کے سلسلے میں آنے والے اس مہمان سے تُوتُو میں میں ہونے لگی تو مسٹر جیدی نے نہ صرف کاروبار کامعاہدہ پھاڑ ڈالا بل کہ مولی اپنے ہاتھ میںتھام کر مغرور سرمایہ دار کی طرف لپکے اور اُسے کھری کھری سنائیں:
’’ مال کی شکایت کررہے ہو ہم تو شِیر مال قورمے کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔آپ مجھے بزنس سکھا رہے ہیں۔ پینتالیس لاکھ تو کیا نوے لاکھ بھی ہوں تومیںبات نہیں سنتا کسی کی ۔اوکھا ہوکے بول رہاہے ،مولی مار کر سر پھاڑ دوں گا۔‘‘
محنت کے ثمر اور مقدر کے احوال پر اطہر شاہ خان کو پختہ یقین تھا۔انھوں نے جس پر وقار اندازمیں سخت محنت کوشعار بناکر اپنے حالات بدلے اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ایڈورٹائزنگ کمپنی میں بھی ملازم رہے اورکبھی دِل بُرا نہ کیا۔وہ جانتے تھے کہ جس قدر محنت کی جائے گی رزق میں اسی قدر برکت ہو گی اور طلوع صبح ِبہاراں کے نئے امکانات سامنے آ ئیں گے۔ اطہر شاہ خان نے اُن بے حس سرمایہ داروں کے قبیح کردار پر گرفت کی ہے جو مگر مچھ کی یخنی پی کر مظلو م انسانوں پر کوہِ ستم توڑتے ہیں۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال انسانوں کے ساتھ اطہر شاہ خان نے جو عہدِ وفااستوار کیا اُسے ہمیشہ علا ج ِگردشِ لیل و نہار سمجھا۔اپنے تخلیق کیے ہوئے مزاحیہ کردار کے ذریعے اُنھوں نے مسموم حالات میں سمے کے سم کے ثمر کے جان لیوااثرات کو زائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ فریب خوردہ انسان مہلک غلطیوںسے آئندہ زندگی میںسبق سیکھنے کا عہد تو کر تاہے مگر سرابوں کے عذابوں سے ناآشناایسے آ بلہ پا انسان پر عزم انداز میں اس یقین اور اعتماد کے ساتھ دشت خار میں قدم رکھتے ہیں کہ اب یہی غلطیاں پھر اُسی انداز میں دہرائی جائیں گی اور شکستِ دِل کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔
موٹے شیشوں کی نظر والی عینک لگائے مزاحیہ کردار مسٹر جیدی کی صورت میںجب منظر عام پر آتا تو محفل کشت زعفران میں بدل جاتی۔ ایک مثالی نمونے کی شکل میںمسٹر جیدی کے رُوپ میں اطہر شاہ خان نے ایک ایسا مزاحیہ کردار متعارف کرایا جو ذہنی افلاس کے باوجود ہمہ دانی کا داعی تھا ۔ اُس کی بے ضرر سادگی اور پر لطف حماقتیں ٹیلی ویژن پر ان کے ڈراموں کے ناظرین کا دِل موہ لیتی تھیں ۔خود نمائی اورسادیت پسندی کے مرض میں مبتلا قفسو ،مصبواور تشفی جیسے بُزِ اخفش قماش کے کردار ہمارے معاشرے میں اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر یہ عقرب اپنی ایذارسانی کے باعث قابل نفرت ٹھہرتے ہیں ۔ ان کاتخلیق کردہ کردار ’ جیدی ‘ اپنی مقبولیت میں ’ چچا چھکن ‘ ، ’ خوجی ‘ اور ’ غنچہ ‘ سے آ گے نکل گیا۔انگریزی زبان سے معمولی واقفیت تک نہ رکھنے کے باوجود یہ کردارایسا تاثر دینے کی کوشش کرتاہے کہ اُسے انگریزی زبان پر اس قدر خلاقانہ دسترس حاصل ہے کہ ہومر اور شیکسپئیر تو اس کے سامنے طفلِ مکتب ہیں ۔ اس مزاحیہ کردار کی نا ہمواریوں اور بے اعتدالیوں کا سبب یہ ہے کہ تہذیب ،ثقافت اور حیات و کائنات کے مسائل کے بارے میں اس کردار کی بے بضاعتی اُسے تماشا بنا دیتی ہے ۔ یہ کردار اگرچہ زندگی کے لا ینحل مسائل کا کوئی ادراک نہیں رکھتا مگر اس کے باوجود اُس کی عامیانہ خودستائی ہی اُس کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے ۔ مصلحت وقت سے نا آشناجیدی ایک ایسا مزاحیہ کردار ہے جسے جھوٹ سے نفرت ہے اور وہ بے ساختہ انداز میں حرفِ صداقت کے تیشے سے فصیل ِمکر و فریب کو منہدم کرنے کی سعی کرتا ہے ۔اس کردار کی سادگی ،کم فہمی اور کم عقلی اپنی جگہ مگر معاشرتی زندگی کی شقاو ت آمیز نا انصافیوں ، بے رحمانہ مشق ستم اور غاصبانہ لُوٹ کھسوٹ کے خلاف اس کی تصنع سے پاک باتیں دل کی گہرائی میںاُتر جاتی ہیں۔ یہ کرادر اپنی بے ساختہ گفتگو سے متعدد سچ سامنے لاتا ہے اور مکر کا پردہ فاش کرتاہے ۔اپنے بہ قول Verbکے بغیر بھی انگریزی بولنے کے داعی مزاحیہ کردار مسٹر جیدی کا تکیہ کلام بھی بہت شگفتہ ہے مثلاً:
’’ ؒLong long ago ,once upon a time ‘‘
اپنی انگریزی دانی پر اس مزاحیہ کردار کو اس قدرناز ہے کہ ایک مرتبہ یہی کردار ایک ایسے انگریز سے جس کی مادری زبان انگریزی تھی ،مسلسل دو گھنٹے اپنی خود ساختہ انگریزی میںبات کرتا رہا۔وہ انگریز حیرت و استعجاب کی تصویر بنامسٹر جیدی کی باتیں سنتا رہا۔جب مسٹر جیدی نے اپنی بے مقصدطول بیانی پر مبنی تکلم کا یہ سلسلہ ختم کیاتو اپنی انگریزی دانی کی تحسین کی توقع میں انگریز کی طرف دیکھا ۔پیہم دو گھنٹے تک ہمہ تن گوش رہنے والے انگریز سامع نے نہایت سرسر ی انداز میں مزاحیہ کردارمسٹر جیدی سے مخاطب ہو کر کہا:
Sorry Mr. Jaidi ,I don,t know French.
انگریزی ادب میں ولیم شیکسپئیر (1564-1616 :William Shakespeare) نے اپنے چار ڈراموں میں سر جان فالسٹف ( Sir John Falstaff) کا جو مزاحیہ کردار متعارف کرایا ہے جیدی کا کردارتکلم کے سلسلوں ،ہئیت کذائی اور ربط باہمی کے انداز میں اس سے گہری مماثلت رکھتا ہے ۔ اطہر شاہ خان کو اردو کی ظریفانہ شاعری کی طرف مائل کرنے میں کراچی سے شائع ہونے والے ادبی مجلہ ’ ظرافت ‘ کے مدیر ضیاالحق قاسمی ( 1935-2006)نے اہم کردار اداکیا ۔ اردوادب میں طنز و مزاح کے فروغ کے لیے ضیا الحق قاسمی نے جو گرا ںقدر خدمات انجام دیں اطہر شاہ خان ان کے بہت مداح تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں اردو ادب میں طنز و مزاح کے فروغ کے لیے جو مساعی شروع ہوئیں ضیاالحق قاسمی کا شمار ان کے بنیاد گزاروں میں ہوتاہے ۔ وہ اس امر پر تشویش کاظہار کرتے کہ مجلہ ’ زعفران ‘ اور ’ ظرافت ‘ کے بندہونے کے بعد اُردو زبان میں اب تک طنز و مزاح کا کوئی معیار ی مجلہ شائع نہ ہو سکا۔
اطہر شاہ خان جیدی کی علمی،ادبی اور سماجی خدمات کاایک عالم معترف تھا۔ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے سلسلے میںاُن کی فقید المثال خدمات کے اعتراف میںسال 2001ء میں اطہر شاہ خان کو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغہٗ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اطہر شاہ خان عالمِ پیری میںاپنے عہدِ جوانی کو اکثر یاد کرتے تھے ۔ان کا یہ کہنا بالکل درست تھا:
کبھی اپنی بھی جوانی تھی مثالی ماہتابؔ
اب تو یاد بھی کچھ ماند نظر آتی ہے
پہلے میں آتاتھا تو چاند نظر آتا تھا
اب میں آتا ہوں تو چاند نظر آتی ہے
اطہر شاہ خان جیدی کے منفرد شعری اسلوب کا امتیازی و صف یہ ہے کہ اُنھوںنے اپنے ذوقِ سلیم کے اعجاز سے قارئین کی تعلیم و تربیت اوراصلاح پر توجہ مرکوز رکھی۔معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز پر ان کی گہری نظر تھی ۔اس لیے انھوں نے سماجی زندگی کے تضادات ،بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں کے ہمدردانہ شعورکو نہایت خوش اسلوبی سے اپنے فکر وفن کی اساس بنانے کی سعی کی ۔انھوں نے اپنے شگفتہ اسلوب میں افرادکو احتسابِ ذات کی جانب متوجہ کیا اور اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے اسرار و رموزکی گرہ کشائی پر مائل کیا ۔زبان وبیان میں ان کا وقار ان کے اسلوب کا امتیازی وصف سمجھا جاتاہے ۔انھوں نے لفظ کی حرمت کو ہمیشہ مقدم سمجھا اور کسی کی توہین ،تذلیل،بے توقیری اور تضحیک سے کوئی غرض نہ ر کھی ۔ان کے اسلوب کی شگفتگی کے اعجاز سے معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کے رنج کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔مزاحیہ صورت واقعہ کے ذریعے حسِ مزاح کو تحریک دینے کا ایسا انداز اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔
یارب دِلِ جیدی کو اِک زندہ تمنا دے
تو خواب کے پیاسے کو تعبیر کا دریا دے
اِس بار مکاں بدلوں تو ایسی پڑوسن ہو
جو قلب کو گرمادے اور روح کو تڑپا دے
اپنی ظریفانہ شاعری میںاطہرشاہ خان نے اپنی وسعت نظر کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ندرت ،تنوع اورخلوص کو شعار بنایا ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں تیسری دنیا کے ممالک میں قحط الرجال نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیاہے کہ تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی زندگی کی درخشاں اقدار و روایات پر جان کنی کا عالم ہے ۔ ایک شگفتہ مزاج تخلیق کار کی حیثیت سے ان کی شاعری میںشعور کی پختگی کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔ ان کی شاعری میں اُن کی گل افشانی ٔ گفتارسے محفل کشت ِ زعفران بن جاتی تھی ۔ خدا نے انھیں دِلِ فطرت شناس عطا کیا تھا جس نے انھیں متنوع اور نادر اسلوب سے متمتع کیا۔وہ ایک معمولی سی بات بھی اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قاری پر اُس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس عالمِ آب و گِل کے لرزہ خیز تضادات ،عبرت ناک مناقشات اور حیران کن بے اعتدالیوں پر وہ تڑپ اُٹھتے تھے۔اُن کی شاعری میں پایا جانے والا کر ب اُن کے داخلی اور خارجی احساس کا آئینہ دار ہے ۔اپنے آنسو ؤں کو ہنسی کے دیدہ زیب دامنوں میں پنہاں کر کے اپنی گل افشانیٔ گفتار سے سماں باندھنے والے اس تخلیق کار نے جس طرح خلوص اور دردمندی بے دریغ مسرتیں تقسیم کیں اس میں کوئی اُن کا شریک و سہیم نہیں ۔
رنگ ،خوشبو گلاب دے مجھ کو
اِس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اُتر آیا
ہمارے علم نے بخشی ہے ہم کو آگاہی
یہ کائنات ہے کیا ،اِس زمیں پہ سب کیاہے
مگر بس اپنے ہی بارے میں کچھ نہیں معلوم
مروڑ کل سے جو معدے میں ہے سبب کیا ہے
اس خطے میں مشاعروں کی روایت بہت قدیم ہے مگر جدید دورمیں بعض مفادپرست عناصر نے اس قدیم روایت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اب متشاعر کاتا اور لے دوڑا کی عملی مثال بن گئے ہیں۔چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزدعناصرنے اپنی جعل سازی کی وجہ سے حقیقی شعرا کے کام کو بھی دُھندلادیاہے ۔ متشاعر جب اپنی خست کے باعث خوار و زبوں پھرتے ہوں تو کوئی اُن کی داد رسی کرنے نہیں پہنچتا۔ اطہر شاہ خان نے مشاعروں میں رونما ہونے والے اس طرز عمل پر گرفت کی ہے :
کھڑا ہے گیٹ پہ شاعرمشاعرے کے بعد
رقم کے وعدے پر اُس کو اگر بلایا، تو دے
کوئی تو ڈھونڈ کے لائے کہ منتظم ہے کہاں
لفافہ گر نہیں دیتا نہ دے کرایہ تو دے
پس نو آبادیاتی دور میںتیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں نا خواندگی ،توہم پرستی اورقدامت پسندی عجب گُل کِھلا رہی ہے ۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے الم نصیب افراد کے حالات اس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہو تے جا رہے ہیں کہ حساس تخلیق کار خود کو جزیرۂ جہلا میں گھرا محسوس کرتے ہیں وہ بچ کے کہاں جائیں جب کہ چا ر سُو ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقہ ٔ صد کام نہنگ ہے ۔کُو ڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے والے ان جہلا نے تو اپنی غاصبانہ روش سے رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،زندگیاں پر خطراور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ شیخ چلی قماش کے مخبوط الحواس ،فاتر العقل مسخرے چور دروازے سے گُھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔اس قماش کے طالع آزما اور مہم جُو سفہا اپنی سادیت پسندی( Sadism) کی وجہ سے سادہ لوح لوگوں پر عرصہ ٔحیات تنگ کر دیتے ہیں ۔ اطہر شاہ خان جیدی نے نہایت دردمندی سے اس پریشان کن صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس قسم کے حالات کسی بھی قوم کے لیے بہت بُرا شگون ہیں ۔اُردو زبان کے ممتاز شاعر محسن بھوپالی(1932-2007) نے کہا تھا:
جاہل کو اگر جہل کاانعام دیا جائے
اس حادثہ ٔوقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت میں فراخ دلی ،خندہ پیشانی ،صبر و تحمل ،شگفتہ مزاجی اور طنزو مزاح کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ہنستے مسکراتے موجِ حوادث سے گزر جانے کا عمل جہاں کسی قوم کو کندن بنا دیتا ہے وہیں اس قسم کا لائق صد ر شک وتحسین طرزِ عمل اُس قوم کے مہذب اور متمدن ہونے کی دلیل بھی ہے ۔اطہرشاہ خان جیدی کی بذلہ سنجی ،شگفتہ مزاجی ،حاضر جوابی ،بات سے بات نکالنے کی مہارت ،ایک گُلِ نو شگفتہ کے مضمون کو سو رنگ سے با ندھنے کا پر لطف اور منفرد انداز ، بے ہنگم کیفیات پر فقرے چست کرنا اور پھبتی کسنا اُن کے اسلوب کا ایک ایسا نرالا روپ ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔زبان و بیان پر اُن کی خلاقانہ دسترس قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اس با صلاحیت تخلیق کار کے حضور دست بستہ سر تسلیم خم کیے ہیں اور وہ ان الفاظ کو اپنے مزاح کے اہداف پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لیے بر محل اور بے دریغ استعما ل کرتا چلا جا رہا ہے ۔ خوابوں کی خیابان سازیاں ، اہلِ جور کی قلابازیاں اور ہوا میں گرہ لگانے والوں کی بلند پروازیاں سب اطہر شاہ خان کے موضوعات ہیں۔ اطہر شاہ خان کے اشہب ِ قلم کی جولانیاں سب کہانیاں سناتی چلی جاتی ہیں۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے بر ملا کہہ دیتا ہے ،الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے ادبی مسلک کے خلاف ہے ۔ لفاظ حشرات ادب اور متشاعر ہر دور میں ادب کی رُتوں کو بے ثمر کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف رہے ہیں ۔اطہر شاہ خان نے جمود، بے عملی اورکورانہ تقلید کی مظہر فرسودہ روایات اور جھوٹی تقلید کے خلاف آواز بلندکی :
ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ پایا اُس نے
جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے
وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا
بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے
اپنی زندگی میں اطہر شاہ خان نے ہوائے جور و ستم کے مہیب بگولوں کی زد میں آنے والے الم نصیب اور جگر فگار مظلوم انسانوں میں مزاح کے وسیلے سے سدا راحتیں اور مسرتیں بانٹیں ۔ جہاں تک جذباتی پہلو کا تعلق ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ مزاح ہی ان کے اسلوب کی روح رواں ہے ۔اطہر شاہ خان نے سنجیدہ تنقید اور اصلاحی انداز فکر کو اپناتے ہوئے ابن الوقت ،کم ظرف ،کینہ پرور اور مفاد پرست سفہاکی تہی دامنی اور رعونت سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ اُن کے شگفتہ اسلوب میںمزاح محض ایک صنف کے بجائے ایک مادہ کی حیثیت سے جلوہ گر ہے ۔ وہ ہمیشہ ہنسیکو تحریک دینے اور حصولِ مسرت کے فراواں مواقع پیداکرنے کے لیے کوشا ں رہتے تھے۔ معاشرتی زندگی میں متضاد روّیے اپنانے والے افراد کی بے رحمانہ مشقِ ستم ، افراد ِ معاشرہ کی بے حسی کا مظہر روایتی نوعیت کا سلوک ،مختلف اداروں کی ناقص کار کردگی اور سیاسی مد و جزر اُن کے شگفتہ اسلوب کے اہم اور پسندیدہ ترین موضوعات رہے ہیں۔اُنھوں نے اصلاحی مقصد کے تحت افراد کی شخصیت کے بجائے اُن کی خامیوں اور خست و خجالت کو دانش مندانہ مذاق کی صورت میں طنزو مزاح کا ہدف بنایا ۔کوہ سے لے کر کاہ تک زندگی کی سب خصوصیات پر اُن کی گہری نظر تھی ۔معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کو انھوںنے بہت قریب سے دیکھاتھااور وہ اس تجربے کا حصہ رہے تھے ۔ کسی بھی کردارمیں پائی جانے والی بے ہنگم ،ناقابلِ برداشت اور تضادات سے بھرپور بے اعتدالیوں اور بے ہو دگیوں کو انھوں نے اس شگفتہ انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی کہ تناقضات کا حقیقی منظر نامہ دیکھ کر قاری زیرِ لب مسکرانے لگتا ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مزاح ،ستم ظریفی اور طنز لکھنے والوںکی تحریروںمیں طنزکی وجہ سے بالعموم تلخی کا عنصر نمایاں رہتاہے مگر اطہر شاہ خان کے اسلوب میں مسرور کن مزاح کا غلبہ ہے ۔ان کے مزاح کی لائق صد رشک و تحسیں خوابی یہ ہے کہ قارئین ان کی بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ کس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے ۔
تعبیروں کی حسرت میں ،کیسے کیسے خواب بنے
دولت اِک دِن برسے گی ،اب تو اپنی باری ہے
اللہ جب بھی دیتاہے چھپر پھاڑکے دیتا ہے
اِ س اُمید پہ ساری عمر چھپر تلے گزاری ہے
اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دِین سے رشتہ تو جو ڑ سکتا ہوں
نمازو روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
شبِ برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں
اُس کی بچپن سے نظر کم زور ہے
پھر بھی وہ اہلِ نظر بن جائے گا
سخت اَن پڑھ ہے قتیل اپنا رقیب
اِس پہ بھی وہ کونسلر بن جائے گا
ایک وسیع النظر تخلیق کار کی حیثیت سے اطہر شاہ خان نے تخلیق فن کے لمحوں میں جس محنت ، بصیرت ،خلوص ،دردمندی اور فنی مہارت سے اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطاکیا ہے وہ قاری کو جہانِ تازہ سے آشنا کرتا ہے ۔وطن عزیزمیں غیر نمائندہ حکومتوں کے مسلط کردہ حبس اور گھٹن کے اعصاب شکن مسموم ماحول کے جان لیوا سکوت کے مظہر لرزہ خیز سمے کے سم کے مہلک ثمر کو پاش پاش کر کے اطہر شا ہ خان نے ادب کے قارئین کے ساتھ درد مندی کی اساس پر ایک ایسا رشتہ استوار کر ر کھا تھا جس کے معجز نما اثر سے طلوع ِ صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے اطہر شاہ خان کی ظریفانہ شاعری سے نار بھی گل زار میں بدل جاتی ہے۔اطہر شاہ خان نے واضح کر دیا کہ سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور کھنڈرات کے سامنے بیٹھ کر آہ و فغاں کرنے و الے صرف اپنے جی کا زیاں کرتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں عملی زندگی میں یاس و ہراس کا شکار ہو کر اپنے دِل کے داغوں اور حسرتوں کی پرورش کرنے والے ہر ابلہ کی مثال ایسے بے دُم حمار کی ہے جو فاقوں سے نڈھال رہ کر چراگاہ میں ہری ہری گھاس کی رکھوالی میں ہلکان ہوتا ہے مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے کہ اس کے اُٹھ جانے کے بعد موقع کی تلاش میں رہنے والا کوئی چمار قماش گھسیارا یہاں بیٹھ کر ساری گھاس تو کاٹ کر لے جائے گا مگر وقت کے اِس جان لیوا سانحہ کے بعد پیہم فاقوں سے نڈھال اُس بے دُم حمار کو اپنی ہی خالی آ نتوں کی جگالی کرنے پڑے گی ۔ اطہر شاہ خان کے مخاطب ذوق سلیم سے متمتع ادب کے حساس اور ذہین قاری ہیں ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے اطہر شاہ خان کو اس بات کا احساس تھا کہ حرص و ہوس کی باد سموم چلنے کے بعد معاشرتی زندگی کا پوراماحول ہی عجیب ہو رہا ہے اور ہر شہر کُوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔جب ہر طرف بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہو تو ذوق سلیم سے عاری لوگوں کے سامنے طنز و مزاح کی باتیں کرنا وقت او ر محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں اس کے باوجود اس جر ی تخلیق کار نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے زندگی بھر اپنی گل افشانی ٔ گفتار کا سلسلہ جاری رکھا۔
یہ تری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا
جس پہ قانون بھی لاگو نہ ہو وہ ہتھیار چلا
پیٹ ہی پھول چلااِتنے خمیرے کھا کر
تیری حکمت نہ چلی اور تیرا بیمار چلا
بیویاں چار ہیں اورپھر بھی حسینوں سے شغف
بھائی تُو بیٹھ کے آرام سے گھر بار چلا
اُجرتِ عشق نہیں دیتا نہ دے بھاڑ میں جا
لے ترے دام سے اب تیرا گرفتار چلا
سنسنی خیز اُسے اور کوئی شے نہ مِلی
مِری تصویر سے وہ شام کا اخبار چلا
یہ بھی اچھا ہے کہ صحرا میں بنایا ہے مکاں
اَب کرائے پہ یہاں سایہ ٔ دیوار چلا
اِک اداکار رُکا ہے تو ہوا اِتنا ہجوم
مُڑ کے دیکھا نہ کسی نے جو قلم کار چلا
چھیڑ محبوب سے لے ڈُوبے گی کشتی جیدی ؔ
آنکھ سے دیکھ اُسے ،ہاتھ سے پتوار چلا
پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے حالات مکمل طور پر بدل گئے ۔منزلوں پر ان موقع پرستوں نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر لیا جو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔پیہم شکستِ دِل کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی لرزہ خیز اور اعصاب شکن بے حسی پید اہو گئی کہ اہلِ علم و دانش کا کوئی پرسان ِحال ہی نہ تھا۔اطہر شا ہ خا ن کی مندرجہ بالا غزل میں حسیناؤں کے عشوہ و غمزہ وادا،نیم حکیم عطائیوں کے مکر کی چالوں ،عیاش شوہروں کی جنسی بے راہ روی اور شہروں میں حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحانات پرشیدید نکتہ چینی کی گئی ہے ۔ معاشرے میں بعض مفاد پرست عناصر کی بے حسی نے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہنے والے قلم کار کو اجنبی اور بے نشاں بنا دیا ہے ۔گلزار ہست و بُود میں جب کوئی کلی بھی قلم کار کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھتی تو جرسِ گُل تو اُسے یقیناً وقفِ یاس و ہراس کر کے گزر جائے گی ۔جدید اُردو نظم کے ممتاز شاعر مجید امجد( 1914-1974) نے اسی معاشرتی روّیے کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
جو دن کبھی نہیں بیتا ،وہ دن کب آئے گا
انھی دنوں میں اُس اِک دن کو کون دیکھے گا
میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں ،کون دیکھتا ہے
میںجب اِدھر سے نہ گزروں گا ،کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مِرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا اطہر شاہ خان کا شیوہ تھا۔دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ وہ بھرپور تعاون کرتے تھے ۔وہ ضرورت مندوں کی اس رازداری سے امداد کرتے کہ کسی کو کانوںکان خبر نہ ہوتی ۔چناب اور جہلم کے دوآبہ کے پس ماندہ علاقے کے کئی مکین وزگار اور تعلیم کے سلسلے میں کراچی میں مقیم ہیں ۔وہ سب اطہر شاہ خان علم دوستی ،ادب پروری اور انسانی ہمدردی کے مداح ہیں ۔ دنیابھر میں اُن کے لاکھوں مداح موجود ہیں انھوں نے زندگی بھر ان سے معتبر ربط بر قراررکھا۔ٹیلی فون ،برقی ڈاک اور مکاتیب کے ذریعے وہ اپنے تمام احباب کے حالات سے با خبر ر ہتے تھے ۔میں نے ان کے کچھ مکاتیب صاحب زادہ رفعت سلطان،ارشاد گرامی ،شبیر احمداختر ،فیروز شاہ ،اسحاق ساقی ،حسین احمد ارشد ،احمد تنویر ،معین تابش ، شیخ ظہیر الدین ،حاجی محمد ریاض ،سجاد حسین ،نثار احمد قریشی اور احمد بخش ناصر کے پاس دیکھے ہیں ۔سادگی ،سلاست ،روانی اور بے تکلفی ان کے خطوط کاامتیازی وصف ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنانے کا انداز اپناتے وقت اُنھوں نے مر زااسداللہ خان غالب کے مکاتیب سے اثرات قبول کیے تھے۔شفیع ہمدم کے ساتھ ان کے دیرینہ مراسم اور خلوص و انسانی ہمدردی پر مبنی تعلق تھا۔جن دنوں شفیع ہمدم فالج کے باعث بستر تک محدود ہ وکر رہ گئے تو جن احباب نے ان کی باقاعدگی کے ساتھ عیادت کاسلسلہ جاری رکھا ان میں اطہر شاہ خان ، صابر کلوروی ،بشیر سیفی ،حامد سراج ،دانیا ل طریر ،حسرت کاس گنجوی،خاطر غزنوی ،محسن احسان اور انعام الحق کوثر شامل ہیں ۔اطہر شاہ خان کی شگفتہ مکالمہ نگاری سے شوکت تھانوی(1904-1963) کی یاد تازہ ہو گئی ۔ رام ریاض (1933-1990)کے ساتھ اطہر شاہ خان کے بہت قریبی تعلقات تھے۔ فالج کی بیماری اور بے روزگاری کے باعث رام ریاض کی زندگی کے آخری ایام بہت کٹھن ثابت ہوئے ۔اطہرشاہ خان نے آزمائش کی اِس گھڑی میں رام ریاض کا حوصلہ بڑھایااور صبر کی تلقین کی ۔
اپنی تخلیقی تحریروں میں اطہر شاہ خان نے معاشرتی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ تضادات پر گرفت کی اور سماجی زندگی کے بدلتے ہوئے حوصلہ شکن روّیوں کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی ۔اطہر شاہ خان کی شاعری پر جعفر زٹلی ،اکبر الہ آبادی ،مجید لاہور ی،دلاور فگار ،سیدضمیر جعفری,سید محمدجعفری ،عبیر ابو زری ،خضر تمیمی ،سیدمظفر علی ظفر اور اسد ملتانی کے اثرات کا پتا چلتاہے ۔ اطہر شاہ خان کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادب میں جمالیاتی عنصر کو دبانے کی خاطر اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کر نے کی مساعی کو وہ غیر حقیقی انداز فکر پر محمول کرتے تھے ۔ بعض ناقدین کی رائے ہے کہ انگریزی زبان و ادب کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو معیار فلپ سڈنی (1554-1586 : Philip Sidney )کی تحریروں میں پایا جاتاہے معاصر زبانوں کے ادب میں اس کی جانب مناسب توجہ دینے کی ضرورت کا بالعموم احساس نہیں کیا گیا۔ اطہر شاہ خان زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے نہایت تحمل اور سنجیدگی سیپرورش لوح و قلم میں مصروف رہے۔کوئی بے کمال ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طراز ی اور الزام تراشی کی غرض سے اِس با کمال تخلیق کار کی طرف نیش زنی کی خاطر بڑھتاتو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر دیتے۔ اطہر شاہ خان کا خیال تھاکہ ایک مستعد تخلیق کار کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد،بے معنی حرف گیری اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔ انھوں نے واضح کیا کہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہونے والے ذہین ادیب کو تخلیقِ فن کے دوران میں بے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر ، انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار بے لوث خادم ِخلق ،لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند ،قابل فہم اور متنوع تصورات کوپروان چڑھانے والادانش ور ،تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج مورخ کے رُوپ میں اپنے فرائض ِ منصبی ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔ایک حساس ،مخلص اور جری تخلیق کار کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت ،چربہ سازی اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتاہے ۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس مزاح نگار نے ذوق ِسلیم کی نمو کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ ادب ہردور میں اُن کے نام کی تعظیم کر ے گی۔ مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ اجلاف و ارذال کے پروردہ چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسل کے مارِ آ ستین چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔یہ بونے مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے نہایت ڈھٹائی سے ا پنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اوررواقیت کے داعی بن کر بیزار کن لاف زنی کو اپنا وتیرہ بنالیتے ہیںہیں ۔ان کے بے سروپا ہرزہ سرائی کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ جہالت کی مظہراُن کی جسارت ِ سارقانہ نے ان کی مانگے کی علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ جس بے حس معاشرے میں انگوٹھا چھاپ جاہل کو اس کی جہالت کاانعام ملنے لگے وہاں وقت کے اس قسم کے اندوہ ناک سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔سعادت مندی کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ کر کفِ اَفسوس ملنے والے وقت کے ہر جولیس سیز ر (Julius Caesar)کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتاہے کہ قدر نا شناس افعی کے ساتھ گزارا جانے والا وقت ہمیشہ رائیگاںہی جاتاہے ۔ اپنی عملی زندگی میںاطہر شاہ خان نے مصلحتِ وقت کی پروا نہ کرتے ہوئے حرف ِ صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا اور کبھی مدلل مداحی کی جانب توجہ نہ دی ۔اِس منکسر المزاج ، بے ضرر اور پارس صفت ادیب کے اسلوب اور طرزِ زندگی پر حرف گیری کرنے والوں کا معاملہ اب اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس موضوع پر مطالعہ کرتے وقت مجھے میتھیو آرنلڈ کے خیالات کی بازگشت سنائی دی۔ چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات ِ ادب کی کینہ پروری پر مبنی الزام تراشی کے جواب میں میتھیو آ ر نلڈ نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر پیمان شکن درندے ، دغا باز محسن کش اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے :
( 1) ” You shall die in your sins ”
اطہر شاہ خان جیدی کی وفات کی خبر پوری دنیامیں رنج و غم سے سنی گئی۔جھنگ شہر میںاطہر شاہ خان کے مداح اور مایہ ناز ماہر تعلیم نقاد و محقق پروفیسر غلام قاسم خان نے اتوار سترہ مئی 2020ء کی دوپہر ایک آن لائن پلیٹ فارم ( Google Meet) کے ذریعے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا جس میں کورونا وائرس کے باعث سماجی فاصلوں کی ہدایات اور شہر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف وہی تنہا بات کر رہے تھے اور اہلِ قلم اپنے اپنے کمپیوٹر، Android/ iPhoneپر اُن کی باتین بڑی توجہ سے سُن رہے تھے ۔اپنے جذبات ِ حزیں کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر غلام قاسم خان نے کہا کہ ادب میں مزاح نگاری ایک محنت طلب اور صبر آزما مرحلہ ہے۔اپنے غم کا بھید نہ کھولنا اور آنسو ضبط کرکے الم نصیب جگر فگاروں کے لیے خوشیاں فراہم کرنا ایثار ،خلوص اور انسانی ہمدردی کی دلیل ہے ۔اطہر شاہ خان جیدی کی وفات سے ملک ایک عظیم محب وطن ادیب سے محروم ہو گیاہے ۔‘‘ سٹیج ،تھیٹر اور فلم کے شائقین نے اطہر شاہ خان کی وفات کو ایک بہت بڑے سانحہ سے تعبیر کیا۔ امریکہ میں مقیم اردو زبان کے ممتاز شاعرتنویر پھول ؔ نے ہجری اور عیسوی میں اطہر شاہ خان کی وفات کا سال نکال کر ا س سانحہ کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر دیاہے :
قطعہ ٔ تاریخ ہجری (1441ہجری)
ہنساتا تھا جو سب کو،چل بساہے
ہوا اے پھولؔ!میرا دِل ہے بے کل
سپہ سالارِ افواجِ ظرافت
کہہ ’’ اطہر شاہ خاں جیدی ہراول ‘‘
قطعہ ٔ تاریخ وفات عیسوی ( 2252-232=2020 )
وہ جیدی، شہ سوارِ بذلہ سنجی
گیا دُنیا سے ہے جانِ ظرافت
نکال اے پھولؔ! اِس سے ’’ جاہِ راکب ‘‘ 232
کہہ ’’ اطہر شاہ سلطان ظرافت ‘‘ 2252
————————————————————————————————————————————————————-
1.Matthew Arnold:On Translating Homer,George Routledge & Sons Limited ,London,1862,Page 249