ستیہ پال آنند
خارا از اثر گرمیِرفتار می سوخت
منتے بر قدمِ راہ ردانست مرا
(غالبؔ)*
کوئی مجھ سے یہ کہتا ہے
’’یہاں بیٹھو،ذرا آرام کر لو،تھک گئے ہو
ہزاروں کوس تو اب چل چکے ہو
یہ رستہ اب یہیں پر ختم ہوتا ہے،سمجھ لو
یہ پتھر کچھ ذرا ہموار سا ہے،بیٹھ جاؤ!‘‘
میں اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہوں
مگر کوئی نہیں باہر۔۔مِرے اندر ہی کوئی بولتا ہے
ذرا جھک کر دریدہ پاؤں اپنے دیکھتا ہوں
تپکتے آبلوں میں نبض چلتی ہے
دھکا دھک دھک،دھکا دھک!
یہ کیسا راستہ دشتِ سخن کا تھا،جو میں نے طے کیا ہے؟
کہ آغازِ سفر میں تو یہ کانٹوں سے بھرا تھا
نکیلے تیز تر خارِ مغیلاں چبھ رہے تھے
کوئی سایہ نہیں تھا،بس فقط اک خار زارِ بے اماں تھا
میں اب پیچھے کی جانب دیکھتا ہوں
وہاں حدنظر تک۔۔۔
جس پڑاؤ سے کسی دن میں چلا تھا
عجب منظر ہے پیچھے ،دیکھتا ہوں،آنکھیں ملتا ہوں
فقط اک ٹیڑھا میڑا راستہ ہے
کہاں خارِ مغیلاں ہیں؟سبھی تو جل چکے ہیں
کہیں کچھ راکھ اب بھی اُڑ رہی ہے!
یہ میری گرمیِ رفتار تھی،میں جانتا ہوں
کہ جس نے خارو خس کو پھونک ڈالا ہے
یہ رستہ تو بہت ہموار سا لگنے لگا ہے!
تسلی سے(ذرا کچھ دل لگی سے)خود سے کہتا ہوں
مری نظموں کے نقشِ پا
مرے تلووں سے ٹپکے خون کے قطرے
مرے پیچھے جو آئیں گے،انہیں رستہ دکھائیں گے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* مری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کوجلا کر راکھ کر دیا ہے،اس لیے اب (میرے پیچھے آنے والے)رہ نوردوں کے لیے یہ راستہ آرام دہ ہو گیا ہے۔(آزاد ترجمہ)