پہنچا جس وقت سے مکتوب
زندگی کا بندھا کچھ اسلوب
ارد و میں مستعمل لفظ ’’اسلوب‘‘ انگریزی زبان کے لفظ ’’STYLE‘‘ کے مترادف ہے۔ اس کے لفظی معنی طرز، روش، انداز بیاں، طرزِ ادا، طریقہ، طریقِ ادا، طور، صورت، راہ اور پیرایۂ گفتار کے ہیں۔ یہ کسی ادبی تخلیق کار کا خاص پیرایۂ اظہار ہے جس میں وہ اپنے فکر و خیال کی لفظی مرقع نگاری اس موثر انداز میں کرتا ہے کہ بیان کی شدت قاری کے دِل کو مسخر کر لیتی ہے۔ گل دستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنا اورایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا اسلوب کا معجز نما کرشمہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ایک تخلیق کار جب پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تووہ قلب اور روح کی گہرائیوں سے اس کو نمو بخشتا ہے۔ تخلیقِ ادب کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ ادب پارے اس وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب تخلیق کار اپنے دل پہ گزرنے والی ہر کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالے۔ ایک نیا ادب پارہ جب منصہ شہود پر آتا ہے تو اس کا براہِ راست تعلق ایام گزشتہ کی تخلیقات سے استوار ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ لمحۂ موجود کی تخلیقات ایک درخشاں روایت کی صورت میں منسلک ہیں ایک مثالی نظام ہمہ وقت روبہ عمل لایا جاتا رہا ہے جس کی بدولت تخلیق کار کی منفرد سوچ سے آگاہی ہوتی ہے۔ تخلیقی اظہار کے متعدد امکانات ہوا کرتے ہیں۔ ایک زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کاراپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے منتخب کرتا ہے یہی اس تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے۔ سیف الدین سیفؔ نے کہا تھا:
سیفؔ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
زندگی کے سفر میں کچھ لوگ طعام، ملبوسات، ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذوقِ سلیم سے متتمع افراد میں سے کچھ لوگ تو خونِ جگر سے مزین تصاویر میں دلچسپی لیتے ہیں، بعض لوگوں کو من و سلویٰ پسند ہے لیکن پرورشِ لوح و قلم کی نزاکت و نفاست کے رمزآشنا لوگ الفاظ کے تاج محل بنا کر ان میں زندگی بسر کرنا اپنا نصب العین بناتے ہیں۔ یہ تیشۂ حرف ہی ہے جس کے وار سے فصیلِ جبر منہدم کی جا سکتی ہے۔ ارض وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ہر عہد میں باضمیر ادیبوں کے اسلوب کا امتیازی وصف رہا ہے۔ پس نوآبادیاتی دور میں با شعور اور باوقارتخلیق کاروں نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں جذبۂ انسانیت نوازی کا خیال رکھا ہے۔ انھیں یقین ہے کہ چمنستانِ وطن محض چمکتے ہوئے کوہ ودمن کا نام نہیں بل کہ یہ تو ابنائے وطن کے اجسام اور ارواح سے عبارت ہے۔ سوہنی دھرتی کی محبت سے سرشار اس چمن کی عنادل نے چشمِ تصور سے ہمیشہ سرزمین وطن کے گوشے گوشے سے جوئے حیات کو اُبلتے دیکھا ہے۔ مادرِ وطن کی آغوش میں ہر شام مثلِ شامِ مصر اور ہر شب مانندِ شبِ شیراز اُن کے لیے آسودگی اور مسرت کی نوید لاتی ہے۔ اردو زبان کے تخلیق کار جہاں بھی پہنچتے ہیں، رومانوں کے اِس شہرِ طرب اور حسین ارمانوں کی اِس خلد بریں کی یاد اُن کے قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ یہی ان کا اسلوب ہے جو ان کی پہچان بن گیا ہے۔ مکہ، مدینہ، نجف اور کر بلا کی خاک کو اپنی آ نکھ کا سرمہ بنانے والے اُردو زبان کے تخلیق کاروں کو مغربی تہذیب کی جعلی چکا چوند اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری بالکل متاثر نہیں کر سکی۔ سر زمینِ وطن کے دیوانوں کے دشتِ جنوں اور پروانوں کی بزمِ وفا کی یاد ہر جگہ انھیں مضطرب رکھتی ہے۔ اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سکھانے والے ان جہاں نورد ادیبوں نے اپنی جنم بھومی کے بارے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا ہر ایک ذرہ اُنھیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔ فلک کی ہم سر اس زمین کے ذرات کا بوسہ دینے کو آکاش بھی سر نگوں ہو جاتا ہے۔ سدا جنوں کے ساز چھیڑ کر سرشار نگاہِ نرگس اور پابستۂ گیسوئے سنبل رہتے ہوئے ارض پاکستان کے ساتھ پیمان وفا باندھ کر اس کی عظمت کے گیت گانے والے اور وطن کے بام و در کی خیر مانگنے والے اردو زبان کے حساس تخلیق کاروں کا جذبۂ ملی سے لبریز اسلوب تا ابد دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرتا رہے گا۔
آلامِ روزگار کی زد میں آنے والے ادیبوں کے جذبات واحساسات ان کی تحریروں میں نمایاں ہوتے ہیں۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر ستائش و صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیقِ ادب میں ہمہ وقت میں مصروف رہنے والے مخلص اور صابر و شاکر تخلیق کار اب دنیا میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ادیبوں کی کتابِ زیست کے ناخواندہ اوراق کی مثال ایک ایسی سوانحی یادداشت کی سی ہے جس کی پیشانی پر سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور محسن کش درندوں کی لُوٹ مار، عیاری، مکر و فریب اور پیمان شکنی کے بکھیڑوں کا قشقہ کھنچاہے۔ اس سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے لوح جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع صبح بہاراں کا نصاب لکھنا ہر ادیب کا مطمح نظر بن جاتا ہے۔ اپنے موثر اسلوب کے ذریعے وہ اپنے تجربات پوری دیانت سے حرف حرف زیبِ قرطاس کرتا ہے۔ ان کا اسلوب کسی جذبے کی موجودگی کے خاص انداز سے روشناس کراتا ہے۔ ادبی تخلیق کا وہ قوی، فعال اور لائق صد رشک و تحسین معیار جس کے اعجاز سے تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتا ہے وہی تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے۔ ادیب اپنے اسلوب کا دامن تھام کر قلزم موضوعات کی غواصی کر کے اظہار و ابلاغ کے گہر ہائے آب دار بر آمد کرتا ہے۔
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں جب اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو تخلیق فن کے اس فعال جذبے کو بالعموم غیر شخصی تصور کیا جاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ تخلیق کار کے لیے غیر شخصی معیار تک رسائی بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ اس مرحلے پر وہ تخلیقِ ادب کو اپنی اوّلین ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے ذات کے بجائے فن پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ درد و غم اور مصائب کا ایک غیر مختتم سلسلہ تخلیق کار کو ہر وقت بیدار رکھتا ہے۔ تخلیق کار پر یہ بات بہت جلد واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی شخصیت کی نسبت تخلیقِ ادب کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی تخلیقات کو دوام حاصل ہو گا اور انھی کی بدولت اس کا نام بھی زندہ رہے گا۔ اسلوب در اصل ایک تخلیق کار کے تخلیقی تجربوں کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس تخلیق کار کی شخصیت کے جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی ممکن ہے۔ اسلوب کے ذریعے ایک نقاد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تخلیق اور اس کے لاشعوری محرکات کے بارے میں سمجھ سکے۔ مسائلِ عصر اور زمانۂحال کے تقاضوں کے بارے میں ادیب جو کچھ محسوس کرتا ہے اس کا اسلوب ان تمام کیفیات کو منعکس کرتا ہے۔ ایک تخلیق کار کے اندر ایک محتسب تلوار لیے موجود ہوتا ہے جو اسے در کسری پر صدا کرنے سے روکتا ہے اور حق گوئی و بے باکی پر آمادہ کرتا ہے۔ ادب کا حساس قاری چشمِ تصور سے تخلیق کار کے دِل پر اُترنے والے سب موسم دیکھ لیتا ہے۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے معجز نما کرشمے میر تقی میرؔ کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ جہاں میرتقی میرؔ نے اپنے عہد کے انحطاط پذیر معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی اس دیانت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ وہ تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل سے آگہی اور حریت فکر کا اہم حوالہ ثابت ہوتا ہے۔
جتنے ہیں یاں امیر بے دستور
پھر بہ حسن سلوک سب مشہور
پہونچنا اُن تلک بہت ہے دُور
بات کرنے کا واں کسے مقدور
حاصل اِن سے نہ دِل کو غیر خراش
چار لُچے ہیں مستعدِ کار
دس تلنگے جو ہوں توہے دربار
ہیں وضیع و شریف سارے خوار
لُوٹ سے کچھ ہے گرمیِ بازار
سو بھی قندِ سیاہ ہے یا ماش
حریت ضمیر سے جینے کی تمنا رکھنے و الے ادیبوں کے دل پر جو گزرتی ہے وہ اسے بلا تامل زیبِ قرطاس کر دیتے ہیں۔ ان کے دل میں جو کچھ کہنے کی خواہش ہوتی ہے وہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے بیان کر دیتے ہیں۔ وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے نہ ہی حشو و زوائد سے اپنی تخلیق کو آلودہ ہونے دیتے ہیں۔ ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ وفاکو بجھنے نہیں دیتے اور متاعِ لوح و قلم چھین کر لب اظہار پر تالے لگانے والوں سے براہِ راست مخاطب ہو کر ان پر واضح کر دیتے ہیں کہ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو مکمل طور پر منہدم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ غم جہاں کا حساب کرتے وقت تخلیق کار کو آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے فریاد کناں، جگر فگار اور الم نصیب انسانوں کے گروہ کے دکھ بے حساب یادآتے ہیں، جو اپنے زخموں کے ایاغ تھامے داد طلب ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ کسی مصلحت اندیشی کے بجائے اپنے ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے براہِ راست حرفِ صداقت لکھتے جاتے ہیں۔ اسلوب کے ذریعے تخلیق کار کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے۔ ایک موثر اور جان دار اسلوب کا حامل تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا خود اثبات کرتا ہے۔ ممتاز برطانوی نقاد والٹر پیٹر (1839-1894: Walter Pater) نے کہا تھا:
” The style, the manner, would be the man, not in his Unreasoned and really Uncharacteristic caprices, invoulantry or affected, but in absolutely sincere apprehension of what is most real to him.” (1)
ایک صاحبِ طرز ادیب جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اس کی دِلی تمنا ہوتی ہے کہ اپنی بصیرت اور دُور اندیشی کور و بہ عمل لاتے ہوئے وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائے۔ وہ اس پر اسرار انداز میں اپنے خیالات کی لفظی مرقع نگاری کرتا ہے کہ رنگ، خوشبو، حسن و جمال، اوجِ کمال اور شام زوال کے حقیقی مناظر قاری کو عصری آگہی سے متمتع کرتے ہیں۔ تیزی سے گزرتے ہوئے وقت میں مسرت و شادمانی، راحت و سکون، حزن و ملال اور یاس و ہراس کے لمحات میں بہ یک وقت صبر و تحمل کا مظاہر اس کی مضبوط اور مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف ہے۔ ایک جری تخلیق کار زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے، احتسابِ ذات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، حق و صداقت کا علم بلندکر کے جب تخلیقِ ادب کا فریضہ انجام دیتا ہے تو وہ حرف صداقت کی ناگزیر اور ابد آشنا سحر نگاری سے قارئینِ ادب کو چونکا دیتا ہے۔ قارئینِ ادب کے لیے سہل الحصول مسرت کے یہ لمحات جمالیاتی تسکین کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ ان ادب پاروں کے عمیق مطالعہ سے جو حقیقی مسرت و شادمانی حاصل کرتا ہے وہ دل کش اسلوب ہی کا ثمرہے۔ شاعری میں لفظ کی حرمت کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ منافقت، قول و فعل کا تضاد اور ہوس پرستی نے نوع انساں کو اخلاقی اعتبار سے تحت الثریٰ میں پہنچا دیا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار مصائب آلام کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیتا بل کہ فسطائی جبر کے خلاف بزدلانہ انداز میں دہائی دینے کے بجائے اُسے نظر انداز کر کے نئے زمانے اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کے لیے انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ترک و انتخاب بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ اپنے دلی جذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے خیالات سے تصنع اور تکلف کی گرد صاف کرنا از بس ضروری ہے۔ ایک مرصع ساز کی حیثیت سے تخلیق کار جس طرح اپنے اسلوب میں غیر ضروری باتوں اور غیر متعلقہ تفصیلات کو حذف کر کے صداقت کی طرف گامزن ہو کر لعل و جواہر پر کندہ کاری کی سعی کرتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ذوقِ مطالعہ سے محروم قاری کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کور مغزی اور بے بصری اسے مزاج خانقاہی میں پختہ تر کر دیتی ہے اور وہ بے حسی، بے عملی اور کاہلی کا شکار ہو کر شب و روز ایک گونہ بے خودی کے لیے سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ انسان دوستی کو شعار بنانے والا ادیب جبر کے سامنے کسی صورت میں سپر انداز نہیں ہو سکتا۔ وہ عیاری اور مکاری کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتا۔ انسانی ہمدردی کو شعار بنانے والا تخلیق کار اپنے اسلوب کو ذاتی مفادات اور حرص و ہوس سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔ دستیاب معلومات میں سے ترک و انتخاب کا مرحلہ تخلیق کار کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوتا ہے اس کے باوجود اسلوب کی چھلنی سے حشو و زوائد الگ ہو جاتے ہیں۔ اپنے اسلوب میں وہ ٹھگوں کو آئینہ دکھا کر ہتھیلی پر سرسوں جما دیتا ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی (ولی محمد: 1740-1830) نے احسان فراموش، محسن کش، پیمان شکن اور آستین کے سانپوں کی سادیت پسندی پر اپنے منفرد اسلوب میں جو گرفت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کیا کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مِل کے لُوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کِس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹُک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا
کسی بھی شخص کے ساتھ معتبر ربط برقرار رکھنے کے لیے اسلوب کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسلوب میں جب خلوص، درد مندی اور ایثار کے جذبات کی فراوانی ہو تو اعتماد بحال ہو جاتا ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالبؔ (1797-1869) کے خطوط کا اسلوب ایسا ہے کہ ان میں مراسلے کو مکالمہ بنا دیا گیا ہے۔ جنگ آزادی 1857 کی ناکامی کے بعد تاجر کے رُوپ میں آنے والے برطانوی دہشت گرد جب تاج ور بن بیٹھے تو بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون میں محبوس کر دیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے تین بیٹوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ ان شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے چوک کے سامنے لٹکا دی گئیں جہاں ان بد نصیب شہزادوں کی بوٹیاں گِدھ اور کتے کئی دِن تک نوچتے رہے۔ (2) برصغیر کے نامور اہلِ علم و دانش بھی برطانوی استبداد کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور فسطائی جبر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ سانحہ 1857 کے بے گناہ مقتولین میں ممتاز عالم امام بخش صہبائی (1802-1857) کے خاندان کے اکیس افراد بھی شامل تھے۔ (3) نو آبادیاتی دور میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے اپنے ذہن و ذکاوت کی بے پناہ قوت کے استعمال سے استعماری جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ قلعۂ فراموشی میں محصور بر صغیر کے مظلوم باشندوں کو جن لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کا سامنا تھا ان کا احوال مرزا اسداللہ خان غالبؔ کی شاعری اور خطوط میں موجود ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالبؔ نے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب گھر سے باہر نکلنا دشوار اور بات پر زبان کٹتی ہو تو بھی حرفِ صداقت لکھنے والے دِل کی بات لبوں پر لاتے رہتے ہیں۔ تخلیق کار کی روح اور قلب پر اُترنے والے موسموں کے احوال کو جب ملبوسِ الفاظ نصیب ہوتا ہے تو یہ اسلوب کی صورت میں مرکزِ نگاہ بن جاتا ہے۔ منفرد اندازِ فکر کا مظہر یہ فنی اظہار جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کا یہ اسلوب آج بھی قاری کے دل کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے۔
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زَہرہ ہوتا ہے آب اِنساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر، بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک
تشنۂ خوں ہے، ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی، واں نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مِل گئے، پھر کیا؟
وہی رونا تن و دِل و جاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گِریاں کا
اِس طرح کے وصال سے، یارب
کیا مٹے دِل سے داغ ہجراں کا
ایک ذہین تخلیق کار یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ عملی زندگی کے تجربات و مشاہدات اور داخلی جذبات و احساسات کی حقیقی صورت گری اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ مطالعۂ ادب سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار کا اسلوب محض مجرد الفاظ سے نہیں بل کہ ادب پارے کے مجموعی تاثر سے متشکل ہوتا ہے۔ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ان کا اپنے ماحول، موقع و محل، تاریخ، سیاست اور معاشرت سے گہرا تعلق ہے۔ ایک تخلیق کار ان سب عوامل سے اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کا آئینہ دار بن کر سامنے آ تا ہے اور مرحلۂ شوق ہے کہ وہ طے ہی نہیں ہوتا۔ مشتاق احمد یوسفی، محسن بھوپالی، حمایت علی شاعر اور پطرس بخاری کے اسالیب کا تنوع اس بات کا ثبوت ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے اسلوب میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس سلسلے میں حرفِ صداقت کی اہمیت کو تسلیم کرنا تخلیق کار کے لیے نا گزیر ہے۔ اسلوب میں کبھی سوز و ساز رومی کی کیفیت ہے تو کبھی پیچ و تابِ رازی کا سماں ہے:
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کے اسلوب کا جائزہ لیں تو معلم ہوتا ہے کہ مرید پور کا پیر بھی ایک مزاحیہ کردار ہے۔ اس مزاحیہ کردار کے بارے میں مرید پور سے شائع ہونے والے ایک قلیل الاشاعت مقامی اخبار ’’مرید پور گزٹ‘‘ نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس (1898-1958) نے صرف دو ماہ تک چھپنے والے ’’مرید پور گزٹ‘‘ کی اس خصوصی اشاعت کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا مکمل فائل تو تاریخ کے طوماروں میں دب چکا ہے اور اب اس گزٹ اور اس کے مدیر کا کسی کو اس کا اتا پتا معلوم نہیں۔ مرید پور گزٹ کے مدیر کا حلیہ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اپنے شگفتہ اسلوب میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’رنگ گندمی، گفتگو فلسفیانہ، شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں۔ کسی صاحب کو ان کا پتا معلوم ہو تو مرید پور کی خلافت کمیٹی کو اطلاع پہنچا دیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ نیز کوئی صاحب ان کو ہر گز ہرگز چندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دار نہ ہو گی۔۔ ۔ اس اخبار نے مرید پور کے پیر کے خطوط کے بَل پر جو خصوصی نمبر شائع کیا وہ اِتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اُس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پرنظر آتے ہیں۔‘‘ (مرید پور کا پیر)
مرزا محمد ہادی رسواؔ (1857-1931) کے امراؤ جان ادا کی بیان کردہ آپ بیتی کی اساس پر لکھے گئے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کی کہانی مظلوم لڑکی کی ایسی فریاد ہے جس میں اس عہد کی معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی روداد نہایت موثر انداز میں بیان کی گئی ہے۔ امراؤ جان ادا نے اپنی ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز طوائفوں کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر جو نصیحت کی ہے اس کا اسلوب چشم کشا صداقتوں اورنفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے:
’’اے بے وقوف رنڈی !کبھی اس بھُلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھے دِل سے چاہے گا۔ تیرا آشنا جوہروقت تجھ پر جان دیتا ہے۔ چار دِن کے بعد چلتا پھرتا نظر آئے گا۔ وہ تجھ سے ہر گز نباہ نہیں کر سکتا اور نہ تو اس لائق ہے۔ سچی چاہت کا مزا اُسی نیک بخت کاحق ہے جو ایک کا منھ دیکھ کے دوسرے کا منھ کبھی نہیں دیکھتی۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔‘‘
تخلیق ادب کے لیے مواد، معلومات، مشاہدات اور تجربات کو بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اپنی تخلیقی تحریروں میں اپنے جذبات و احساسات کو اپنی خاس طرزِ ادا سے نکھار عطا کرنا منفرد اسلوب کا اہم وصف ہے۔ اسلوب جب ہر اعتبار سے مستحکم صورت اختیار کر لیتا ہے تو یہ تخلیق کار کی شخصیت کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ ادیب کی شخصیت کے اوصاف اُس کی تحریروں میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ قزاقوں کے دشت سے گزرنے والے قافلے کو متنبہ کرتے ہوئے حمایت علی شاعر (1926-2019) نے آندھیوں اور بگولوں کے خطرے کے باعث رات ہو یا دن جاگتے رہنے کا مشورہ دیا۔ جبرکا ہرانداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ حسینؑ کو زادِ راہ بنانے والے اس جری تخلیق کار اور حریت فکر و عمل کے اس مجاہد کا اسلوب فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے:
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میرِ کارواں یارو میرِ کارواں یارو
اپنی شاعری میں ایک ذہین مرصع ساز کی حیثیت سے محسن بھوپالی (1932-2007) نے دُرِ نایاب کو اس جرأت سے تارِ تخیل میں پرویا ہے کہ ان کا اسلوب حریت فکر کی پیکار اور ضمیر کی للکار بن کر جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ محسن بھوپالی نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہی حریت فکر کے مجاہدوں کے لیے طرزِ اد ابن گئی۔ موجودہ دور میں انسان شناسی اور حیات پیمائی کے لیے کسی بھی شخص کی اُنگلیوں کے نشانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی ادیب کی پہچان کے لیے اس کا اسلوب خضرِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ظالم و سفاک استحصالی عناصر اپنے مکر کی چالوں سے جاہ و منصب پر غاصبانہ طور پر قابض ہیں۔ وہ طالع آزما، مہم جُو اور موقع پرست عناصر جو شریک سفر ہی نہ تھے پس نو آبادیاتی دور میں منزلوں پر ان کا غاصبانہ تسلط ہو گیا۔ جس وقت فکر و خیال کو الفاظ کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے تو تخلیق کار کی شخصیت اور اسلوب کے بارے میں تمام حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔ تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور سوچ کے انداز کی حقیقی کیفیت اس کے اسلوب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اسلوب ہی ہے جو کسی تخلیق کار کی کارگہِ فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ محسن بھوپالی نے حرص و ہوس کے کچلے ہوئے استحصالی عناصر پر واضح کیا کہ جس مقام پر ان کی منافقت، سفاکی، محسن کُشی، پیمان شکنی اور انسان دشمنی نے جست کی مظلوم انسانیت نے عزم و ہمت، صبر و استقامت اور حوصلے سے کام لے کر اس سے آگے نکل کر منزلوں کی جستجو جاری رکھی ہے۔ اپنے اسلوب سے محسن بھوپالی نے تاریخ کے ایک سبق کی طرف متوجہ کیا ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہی نہیں۔ گلزار ہست و بود میں غرورِ سرو و سمن کی نوعیت لمحاتی ہے۔ اگر قاتل تیشے تھامے باغ کے ساونتوں کے جسم چیرنے والے بھیڑ وں کے جامہ میں نہاں بھیڑیا قماش کے باغبانوں کی رعونت کایہی حال رہا تو وہ خار و خس جو اِن سے پہلے چمن کے کرتا دھرتا تھے پھر سے اس چمن کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر یہاں مجبوروں کے چام کے دام چلائیں گے۔ محسن بھوپالی نے اس صریح جھوٹ اور فکر و خیال کی لُوٹ مار پر گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے:
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ایک تخلیق کار اپنے ذوق سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے سب سے پہلے موزوں الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کے بعد ان الفاط کو دل کش انداز میں ترتیب دے کر انھیں حسین جملوں کا روپ عطا کرتا ہے۔ یہی پیرایۂ اظہار در اصل تخلیق کار کا اسلوب ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں پیرایۂ اظہار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جو دِل فگاروں کو رختِ دِل باندھ کر منزلوں کی جستجو پر مائل کرتے ہیں۔ جہاں تک مقاصد اور مفاہیم کا تعلق ہے ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ ذیل میں اسلوب اور موضوع کے حوالے سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
رشید احمد صدیقی: (1892-1977) ’’چارپائی‘‘ = ’’ہندوستانی ترقی کرتے کرتے تعلیم یافتہ جانور ہی کیوں نہ ہو جائے، اس سے اس کی چارپائیت نہیں جدا کی جا سکتی۔۔ ۔ چارپائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے، فتح ہو یا شکست وہ رخ کرے گا ہمیشہ چارپائی کا۔ پھر وہ چارپائی پر لیٹ جائے گا، گائے گا، گالی دے گا یا مناجات بہ درگاہ قاضی الحاجات پڑھنا شروع کر دے گا۔‘‘ (4)
مشتاق احمد یوسفی (1923-2018): ’’چارپائی اور کلچر‘‘ = ’’قدرت نے اپنی رحمت سے صفائی کا کچھ ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ ہر ایک چارپائی کو سال میں کم از کم دو مرتبہ کھولتے پانی سے دھارنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جو نفاست پسند حضرات جان لینے کا یہ طریقہ جائز نہیں سمجھتے وہ چارپائی کو اُلٹا کر کے چلچلاتی دھُوپ میں ڈال دیتے ہیں۔ پھرد ِن بھر گھر والے کھٹمل اور محلے والے عبرت پکڑتے ہیں۔‘‘ (5)
ہماری معاشرتی زندگی میں کتوں نے جو اندھیر مچا رکھا ہے اُس سے عاجز آ کر حساس لوگ تن پہ ردائے ماتم اوڑھ کر تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتوں کی سادیت پسندی کی وجہ سے ہر دانگ ذلت، نحوست، بے غیرتی، بے ضمیری، لعنت و ملامت اور بے توفیقی کی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے اور مظلوموں کا لہو چاٹ چاٹ کر اپنی خارش زدہ دُم لہرا کر کتے جب سر بازار چلتے ہیں تو لوگ ان خارش زدہ سگان راہ کو دیکھ کر سراسیمگی کے عالم میں دہائی دیتے ہیں کہ مار چلے مار چلے۔ اردو کے ممتاز ادیبوں کے اسلوب میں بھی کتوں کا حوالہ موجود ہے۔
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس: اپنے ایک مضمون ’’کتے‘‘ میں پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنی گل افشانیِ گفتار کا لوہا منوایا ہے۔ پطرس کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے اپنی سوچ کو الفاظ کا جامہ پہنا کر قاری کو احتساب ذات پر مائل کرتا ہے۔ پطرس کی تخلیقی زندگی کے وہ تجربات جن کا تعلق فکر و خیال، جذبات و احساسات، نفسی اور باطنی کیفیات سے ہے وہ سب ان کی شگفتہ تحریروں میں سمٹ آئے ہیں۔ پطرس کے اسلوب کی بے ساختگی کسی تکنیک کی محتاج نہیں بل کہ فکر و نظر کی بوقلمونی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تخلیق کار کی اپنی ذات ہی اس کے اسلوب کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ا پنے اس مزاحیہ مضمون میں پطرس نے کُوڑے کے ڈھیر، شہر کے کوچہ و بازار یا حلوائی کے تھڑے کے نیچے پڑے آوارہ سگِ راہ کو موضوع بنایا ہے۔ کتے کا یہ خوف محض پطرس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بل کہ یاران نکتہ داں کے لیے صلائے عام کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ تحریر کا ایک ایک لفظ جس گل افشانیِ گفتار کا مظہر ہے اس اسلوب کو دیکھ کر نگاہ بے اختیار پطرس بخاری ہی کی طرف اُٹھتی ہے۔
’’کہوں کِس سے میں کہ کیا ہے سگِ رہ بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مُصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ایک تو متعدی مرض اور پھر بچوں بوڑھوں سبھی کو لاحق ہے۔‘‘ (6)
مشتاق احمد یوسفی (1923-2018): سیزر، ماتا ہری اور مرزا =اپنے اس شگفتہ مضمون میں مشتاق احمد یوسفی نے اپنے نثری طرزِ بیان میں ایک پالتو السیشن کتے جس کا نام ’’سیزر‘‘ تھا، کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کتیا ’’ماتا ہری‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اس کتے کی ہئیت کذائی بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کتا سدا بے ضرر لوگوں کے در پئے آزار رہتا ہے۔ یہ کتا خلقِ خدا کے لیے خوف، دہشت اور اذیت و عقوبت کا باعث بن جاتا ہے۔
’’بڑے آدمیوں کی ایک ہی رہی۔ آپ نے سنا نہیں کہ نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑیے تھے؟ آدمی کی صحبت میں اِن کا بھیڑیا پن جاتا رہا، مگر خود آدمی۔۔ ۔۔ ۔‘‘ (7)
کنہیّا لال کپور (1910-1980): ’’ہم نے کتا پالا‘‘ اس مضمون میں ایک ماہ کے لیے فالتو مہمان کی حیثیت سے قیام کرنے والے ایک کتے کے بارے میں مزاحیہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ کنہیّا لال کپور کے ان جملوں کی باہم تنظیم اور حسن کاری نے سحر نگاری کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے کوڑے کے ہر ڈھیر کو سونگھنے والے اور مفادات کے استخواں نوچنے والے کتوں کے سر پر عصائے حرف کا وار کیا ہے:
’’آپ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں، ہر کتا باولا نہیں ہوتا جیسے ہر انسان پاگل نہیں ہوتا۔۔ ۔۔ ۔ کتے کو دیکھ کر چاہے وہ کتنا ہی شریف اور بے ضرر کیوں نہ ہو مجھے اس سے خدا واسطے کا بیر ہو جاتا ہے۔ میرا بس چلے تو تمام کتوں کو ایک لمبی چوڑی حوالات میں بند کر دوں۔‘‘ (8)
اردو نثر کے اسالیب میں درآنے والے متشدد کتوں کا ذکر چل نکلا تو مناسب ہو گا کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ دیو جانس کلبی کے کتے کی نسل سے تعلق رکھنے والے مقامی کتوں کے بارے میں اردو زبان کے شعرا کی گل افشانیِ گفتار کا عالم کیا ہے۔ اپنے تجربات، احساسات اور مشاہدات کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے وقت فیض احمد فیضؔ نے جس انفرادیت کا ثبوت دیا ہے، وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے اپنے شاعرانہ طرزِ بیان میں ’’کتے‘‘ کے بارے میں لکھا ہے:
کتے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے
کہ بخشا گیا جن کوذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار، سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے
تو انسان سب سر کشی بھُول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہِلا دے (نقشِ فریادی)
امریکہ کے ممتاز ادبی تھیورسٹ سٹینلے فش (Stanley Fish) نے نثر نگار کے اسلوب کے دو انداز بتائے ہیں ایک کو وہ ماتحت انداز کا نام دیتا ہے جب کہ دوسرے کا نام اس نے اضافی انداز رکھا ہے۔ ادبی نثر کے جملوں کے ماہر مبصر کی حیثیت سے سٹینلے فش نے تحریر میں موزوں الفاظ کے انتخاب کو اظہار و ابلاغ کے لیے نا گزیر قرار دیا ہے۔ تخلیق ادب کے حوالے سے ایک ذہین تخلیق کار کے لیے اس کے تشخص کی بہت اہمیت ہے۔ جہاں تک اسلوب کی انفرادیت اور تشخص کا تعلق ہے اس میں جو عوامل شامل ہیں ان میں تاریخی حقائق، جغرافیائی حالات، زمان و مکاں سے وابستہ ارتعاشات اور فکر و خیال کے تغیرات شامل ہیں۔ جرمن فلسفی اور ادبی نقاد ہرڈر (Johann Gottfried Herder) نے قدیم یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس (Herodotus, B. C 484 BC, D. 425 BC) کے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے:
"He organized his chronology in terms of winter and summer, a natural way of accounting for the course of the war in his day, as appropriate for general conducting a war as it was for shepherdess to count her life time in terms of springs. He inserted speeches, the documentation and the mainsprings of that age, the collection and editing of which cost him so much, but which have the misfortune to regard by Us as rhetorical exercise embraced by great general.”(9)
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو تخلیقی فن کار کا اسلوب اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کی ایسی صورت ہے جس میں کئی نسلوں کی تہذیبی اقدار متکلم دکھائی دیتی ہے۔ لسانی ارتقا ہو یا اصناف ادب کا فروغ دونوں کا تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق ہے۔ تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیق فن پر مائل ہوتا ہے تو وہ آئینہ ایام میں اپنی ہرادا پر نظر ڈالتا ہے۔ علم و ادب کی جو درخشاں روایات اسے میراث میں ملتی ہیں اپنے اسلوب میں وہ انھیں تحفظ دیتا ہے اور خوب سے خوب تر کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے کی سعی کرتا ہے۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد ادب کے وہ خزینے جو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے یا وہ تخلیق کار جن کی ادبی کامرانیوں سے وابستہ حقائق ابلقِ ایام کے سموں کی گر دمیں اوجھل ہو گئے ان پر تحقیقی نظر ڈالنا منفرد اسلوب کے حامل ادیب کی ذمہ داری ہے۔
اپنے پسندیدہ موضوع کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے لیے تخلیق کار جس اسلوب کا انتخاب کرتا ہے اس کی تفہیم کے لیے ارتکازِ توجہ ناگزیر ہے۔ فکر و نظر اور گہری سوچ بچار کے بعد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو باطن کی خارجی صورت عطا کرتے ہوئے تخلیق کار کے دل پر جو حالات گزرتے ہیں ان کے بارے میں اطالوی مجسمہ ساز مائیکل اینجلو (1475-1565: Michelangelo) نے کہا تھا:
’’مجسمہ ساز بُت کو مر مر تراش کر نہیں بناتا بل کہ بُت اِبتدا ہی میں سنگِ سفید میں موجود ہوتا ہے اور جلوہ نمائی کا منتظر اور متقاضی، استادِ کامل محض پتھروں کی عارضی چادر کو علاحدہ کر دیتا ہے۔‘‘ (10)
روح اور قلب کی اتھاہ گہرائی میں اُتر جانے والی اثر آفرینی اسلوب کی مرہونِ منت ہے۔ وادیِ خیال میں مستانہ وار گھومتے وقت افکار کا جو خام مواد دستیاب ہوتا ہے اسے تاثیر سے دو آتشہ بنا کر کندن بنانا اسلوب کا معجز نما کرشمہ ہے۔ حبس کے ماحول میں معاشرتی زندگی کی وضع ایسی بدلی ہے کہ لوگ طورسے بے طور ہو گئے ہیں، حالات اور سے اور ہو گئے ہیں مگر افق پر کوئی بدلی دکھائی نہیں دیتی۔ رابن ہڈ، ہلاکو اور چنگیز کے قبیح کردار اور لائق نفرت انسان دشمنی کو وتیرہ بنانے والے ظالم وسفاک اور موذی و مکار اور ابلیس نژاد درندے مضمحل، مردم گزیدہ اور درماندہ انسانوں کے سر کاٹ کاٹ کر زمین پاٹ پاٹ کر دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ ایسا عبرت خیز اور اعصاب شکن افسانہ ہے جو معاشرتی بے حسی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ افکارِ تازہ سے مزّین ادب پارے کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ اس میں حسن و جمال اور فکر و خیال کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جائے اور اس کی تاب و تواں اور کشش قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دے۔ ادیب جب اپنی تخلیق میں مظلوم انسانیت کا وبال باندھے تو قاری اس کے مطالعہ کے بعد اپنے دِل میں کئی کئی خیال باندھے۔ ذو معنی الفاظ سے ایہام پیدا کر کے شعر انے اپنے سادہ اسلوب میں بھی ظاہری طبعی حسن اور سراپا نگاری سے سحر نگاری کا سماں باندھا ہے:
زلف لٹکا کے جس دم وہ سرِ بازار چلے
سب نے یہ حال دیکھ کر کہا مار چلے مار چلے
اردو نثر میں بے ساختہ شگفتگی اور بے تکلفی کی مظہر ظرافت کا جو ارفع معیار غالبؔ کے خطوط میں نظر آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ زندہ ادب تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی اقدار و روایات کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک صاحب اسلوب ادیب کلاسیکی ادب کے مطالعہ کو اس لیے شعار بناتا ہے کہ وہ اسے ہر عہد میں ذہنی بالیدگی اور فکری تنوع کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ کلاسیکی ادب کے دامن میں فکر و خیال، تہذیب و تمدن اور سماج و معاشرت کے حوالے سے جوگنج ہائے گراں مایہ موجود ہیں وہ قندِ مکرر کی صورت میں نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ اس قسم کے فنی تجربے ادبی جمود کے خاتمے اور ذہنی بیداری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان (1914-1999) کی گل افشانیِ گفتار کا عالم دیکھ کر اردو کی کلاسیکی شاعری کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کرنل محمد خان کی فوجی زندگی کے شب و روز نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شخصیت ہی ان کا اسلوب بن گئی ہے۔ کرنل محمد خان کی باغ و بہار شخصیت کا عکس شگفتہ الفاظ کی شکل میں صفحۂ قرطاس پر اُبھرتا ہے تو قاری بے اختیار مسکرانے لگتا ہے۔
’’مہو کے وہ مضافات بھی چلتی گاڑی سے دِل فریب نظر آ رہے تھے جن سے چند مہلک قسم کی فوجی مشقوں کی یاد وابستہ تھی۔ ہیما پہاڑی تو ہمیں وادیِ گنگا کی طرح محبت کے اشارے کر رہی تھی۔‘‘ (11)
کرتے ہیں مسافر کو محبت سے اشارے
اے وادیِ گنگا ترے شاداب نظارے
اختر شیرانی (12)
’’ان سب میں سے دلچسپ آدمی کیپٹن رام ناتھ تھے۔ ابتدائے جنگ میں رسالدار تھے اوراگر جنگ نہ چھڑتی تو شاید رسالدار ہی جیتے اور مرتے۔ لیکن جنگ کے فیض عام میں خانہ بر اندازانِ فوج نے آپ پر بھی کپتانی پھینک دی اور سچ تو یہ ہے کہ ایسا کر کے آپ کا ستیا ناس کر دیا۔ یعنی ایک عظیم الشان رسالدار کو ایک نہایت بے تو فیقے افسر میں بدل دیا۔ رام ناتھ اپنے سرٹیفکیٹوں کے علاوہ شکل و صورت سے بھی نیم خواندہ لگتے تھے۔ آپ کا کپتان ہونا نہ صرف آپ کے مزاج کے منافی تھا بل کہ غالباً قضا و قدر کے ابتدائی منصوبے کے بھی خلاف تھا۔ آپ کسی کام میں کپتانی کرتے تو آپ سے حوالداری ہو جاتی۔ پریڈ پر جاتے تو سپاہیوں پر دانت پیسنا شروع کر دیتے۔‘‘ (13)
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بل کہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی (14)
عرصہ ہائے دہر کے ہنگاموں میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کو شعار بنانے والا ادیب قصہ ہائے فکر و عمل کو نئی تاب و تواں عطا کرتا ہے۔ اسلوب کی ندرت سے تخلیق کار شیرازۂ اسباب کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے اور متلاطم سمندر سے سر گرم ستیز رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ وارفتہ نکہتوں کے ہجوم میں کھو کر اسلوب میں وسعت نظر اور کیفِ کوثر وتسنیم کی نوید لاتا ہے۔ جدتِ فکر کے فراواں مواقع اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیتے ہیں۔ اس میں موسیقیت کا آہنگ اور حسن و جمال کا سنگ اسے منفرد رنگ عطا کرتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کا ناصحانہ اورتدریسی نوعیت کا منفرد اسلوب قاری کے دل میں ایک ولولۂ تازہ پیدا کر کے نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرتا ہے بل کہ فکری استعداد کو صیقل کر کے سعیِ پیہم پر مائل کر کے خود اعتمادی اور احتساب ذات پر مائل کرتا ہے۔ جب قلعۂ فراموشی کے محصور مجبور انسانوں کی فکر محبوس ہواور ان کی گفتار پر تعزیریں ہوں تو ایسا اسلوب سفاک ظلمتوں میں فروغ نور کے لیے ستارۂ سحر بن جاتا ہے اور مہیب سناٹوں بانگِ درا ثابت ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار کے پاس اس بات کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اپنے لیے لائحۂ عمل وضع کرے۔ حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ حسین ؑکو زادِ راہ بنانے والے تخلیق کاروں کی بیاض رخ پر صبحِ بہاراں کی عطر بیز صباحتیں بھی قربان کی جا سکتی ہیں۔ ادیب اپنی آزاد مرضی سے جو کچھ کہنا چاہے اسے اس کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ فضائے فکر و عمل میں نکھار پیدا ہو۔ فیض احمد فیضؔ نے ایسے لائق صد رشک و تحسین اسلوب کے بارے میں کہا تھا:
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھُوٹی نہیں اَپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادِم ہے مگر دِل
ہر داغ ہے اِس دِل میں بہ جز داغِ ندامت
یہ اسلوب ہی جو کسی ادب پارے کو مجموعی اعتبار سے عمدہ یا فقید المثال معیار کے پیشِ نظر عظیم قرار دینے کا فیصلہ کرنے میں نقاد کی رہنمائی کرتا ہے۔ عمدہ اور عظیم ادب میں اِمتیاز جہاں اوجِ خیال کا ثمر ہے وہاں اس میں ہئیت کے بہ جائے مواد کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ عظیم ادب کی تخلیق میں زبان و بیان کے قواعد و ضوابط کو زادِ راہ بناتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے جملہ محاسن کو اسلوب میں جگہ دینا ادیب کی اولین ترجیح رہی ہے۔ عظیم ادیبوں نے معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل پر توجہ دیتے ہوئے مادی زندگی کی ہر احتیاج کو بلا تامل اپنی تخلیق کا موضوع بنایا۔ ذہن و ذکاوت کے بر محل استعمال سے قواعد پر عمل پیرا ہو کر مقصدیت اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا۔ انگریزی ادب کی عظیم تخلیقات درج ذیل ہیں:
اطالوی ادیب دانتے (1265-1321: Dante Alighieri) کی تصنیف: Divine Comedy عظیم ادبی تخلیقات میں شامل ہے۔ انیسویں صدی کے ممتاز برطانوی ناول نگار ولیم میک پیس تھیکرے (1811-1863: William Makepeace Thackeray) کا تاریخی ناول ہینری ایس منڈ (Henry Esmond) کو بھی مواد کے معیار اور تنوع کی بنا پر عظمت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انگریز شاعر جان ملٹن (1608-1674: John Milton) کی فردوس گم گشتہ (Paradise Lost)، ایسی عظیم تخلیق ہے جس کا ہر عہد کے ادب میں نشان ملے گا۔ فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو (1802-1885: Victor Hugo) کے تاریخی ناول کم اذیت ناک (Les Misérables) کا شمار انیسویں صدی کی عظیم ادبی تخلیقات میں ہوتا ہے۔
اُردو ادب میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ (1797-1869) کے دیوان غالب کو عظیم ادبی تخلیق کا درجہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے اپنی تصنیف محاسن کلام غالبؔ میں لکھا ہے:
’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں مقدس وید اور دیوان غالبؔ۔ لوح سے تمت تک مشکل سے سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یاں حاضر نہیں۔ کون سا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ موجود نہیں ہے۔ شاعر کواکثر شعرا نے اپنی اپنی حدِ نگاہ کے مطابق حقیقت اور مجاز جذبہ اوروجدان ذہن اور تخیل کے لحاظ سے تقسیم کیا ہے مگر یہ تقسیم خود ان کی نا رسی کی دلیل ہے شاعری انکشافِ حیات ہے جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں۔ شاعری بھی اپنے اظہار میں لا تعین ہے۔ جمال الٰہی ہر شے میں رو نما ہوتا ہے آفرینش کی قدرت جو صفات باری میں سے ہے شاعر کو بھی ارزانی کی گئی ہے۔ جہاں ملائکہ کارخانۂ ایزدی میں پوشیدہ حسن آفرینی میں مصروف ہیں۔ شاعر یہ کام علی الاعلان کرتا ہے۔ اس لحاظ سے مرزا کو ایک رب النوع تسلیم کرنا لازم آتا ہے۔ غالبؔ نے بزمِ ہستی میں جو فانوسِ خیال روشن کیا ہے کون سا ’’پیکر تصویر‘‘ ہے جو اس کے ’’کاغذی پیراہن‘‘ پر منازلِ زیست قطع کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔‘‘ (15)
ادبی تنقید میں مختلف ادیبوں کے اسلوب کا تقابل جائزہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مہدی افادی نے اردو زبان کے عناصر خمسہ (سر سید، نذیر احمد، شبلی نعمانی اور حالیؔ) کے اسلوب کے بارے میں اپنے خاص انداز میں لکھا ہے:
’’سر سید سے ’’معقولات‘‘ الگ کر لیجئے تو کچھ نہیں رہتے، نذیر احمد بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑ سکتے، شبلیؔ سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالیؔ بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں، لیکن ’’آقائے اردو‘‘ یعنی پروفیسر آزاد صرف انشا پرداز ہیں، جن کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں، اسی لیے واقعات بھی انھوں نے جس قدر لکھے ہیں ’’قصص‘‘ (یعنی ’’ٹیلز‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں ’’افسانۂ یارانِ کہن‘‘ سمجھئے۔‘‘ (16)
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تخلیق اور تنقید میں مغائرت کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ تخلیق کار اور نقاد کے زاویۂ نگاہ میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ بعض اوقات ان کے اسلوب میں شدید تناؤ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اردو زبان میں تنقید کا آغاز خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) کی کتاب مقدمہ شعر و شاعری سے ہوا۔ حالیؔ نے تذکروں سے ہٹ کر اردو تنقید کے لیے سب سے پہلے نئی راہ متعین کی۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں جہاں اردو زبان کے مختلف ادیبوں کے اسالیب کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے وہاں نو آبادیاتی دورسے وابستہ خود ان کے اسلوب کے بارے میں بھی آگہی ملتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے بارے میں کلیم الدین احمد نے یہ لکھا ہے:
’’خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط۔ یہ تھی حالیؔ کی کل کائنات۔‘‘ (17)
اردو کے جری نقاد وارث علوی (1928-2014) نے تنقید کو نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ مکتبی تنقید کی نارسائی کو دیکھتے ہوئے اس کے سخت خلاف تھے اس لیے اس تنقید پر انحصار کرنے والے مدرس کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے، ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے، ہر کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے بے نقط ملفوظات کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔ جب بھی بولتا ہے تنقید ہی بولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میں دم ہے وہ کسی شاعر کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔ وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔ جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ چکے، ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماورا النہر سے چلتا ہے تو پانی پت میں آ کر دم لیتا ہے۔‘‘ (18)
مکتبی تنقید کے مسموم اثرات نے گلشنِ ادب کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ مکتبی تنقید کی بے بضاعتی اور تہی دامنی پر گرفت کرتے ہوئے پروفیسرگوپی چند نارنگ نے فرانس کے ممتاز ادبی تھیورسٹ، فلسفی اور نقاد رولاں بارتھ (1915-1980: Roland Barthes) کے حوالے سے لکھا ہے:
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔ متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے ہیں اور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔ مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں ؛اس لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرنا ضروری ہے،‘‘ (19)
مکتبی تنقید اور مدرس کی فکری نہج کے بارے میں وارث علوی نے ہمیشہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ وارث علوی نے محض خارجی حقائق پر توجہ نہیں دی بل کہ اس مسئلے کے داخلی پہلو کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ یہ وہ طرزِ خاص ہے جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ وارث علوی کے پیرایۂ بیان میں اس جری نقاد کے ضمیر کی آواز پوری معنویت کے ساتھ مقتضائے حال کی ترجمان بن جاتی ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے۔ چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے تمام ادبی منظر نامہ گہنا دیا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں تحقیق اور تنقید کی حالت زار کسی سے مخفی نہیں تنقیدی نشستوں نے انجمن ستائش باہمی کی ناقابلِ برداشت صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ سمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں جید جاہل، خفاش منش کندۂ نا تراش اور بُزِ اخفش رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ جب سے سندی تحقیق کے ساتھ مدرسین کومالی منفعت اور اضافی ترقیوں کی جھلک دکھائی گئی ہے، تحقیق اور تنقید کو بازیچۂ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ اب ہر مدرس جلد از جلد ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں ہتھیا کر زر و مال سمیٹنے اور خود کو اعلا تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فکر میں مبتلا ہے تعلیمی اداروں میں مدرسین کی صورت میں جو نام نہاد نقاد براجمان ہیں، ان کی بو العجبیوں اور خام خیالی نے ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا ہے۔ تحقیق اور تنقید کے نام پر جو گل کھلائے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق اپنے جذبات حزیں کا اظہار کن الفاظ میں لکھا جائے۔ اپنے ایک مضمون ’’روح کی اڑان‘‘ میں وارث علوی نے اپنی طرزِ خاص میں اس لرزہ خیز، اعصاب شکن اور روح فرسا المیہ کے تضادات، ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی اور خلوص سے لکھا ہے:
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر، بلبل شیراز اور طوطیِ ہند سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔ صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ کر لاتا ہے۔۔ ۔۔ دو پی ایچ۔ ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر ’’کام‘‘ کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔ مدرس کے لیے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے کی وہی اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہتا۔ مدرس ان عجوبۂ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں چاول پر قل ہو اللہ لکھا کرتے تھے، کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘‘ (20)
جدید دور میں اردو زبان کے ممتاز ادیبوں نے اپنے اسلوب کی تشکیل میں اردو زبان کے کلاسیکی ادب اور عالمی کلاسیک کا بہ نظر غائر جائزہ لیا ہے۔ اردو زبان کے ادیبوں نے اظہار و ابلاغ کے داخلی اور خارجی پہلوؤں پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے، ہر قسم کے تصنع کو نظر انداز کرتے ہوئے سادگی، سلاست اور بے تکلفی کو شعار بنایا ہے۔ کورانہ تقلید سے دامن بچاتے ہوئے جدت اورتنوع کو زادِ راہ بنانے پر اصرار کیا ہے۔ موزوں ترین الفاظ کا انتہائی مستحسن انداز میں استعمال ان کا مطمح نظر رہا ہے۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ اردو زبان نے دنیا کی بڑی زبانوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اسلوب کے مطالعہ سے کسی تخلیق کار کے عہد کے حالات معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔ اسلوب ایک ایسا طرزِ احساس ہے جو کسی بھی مصنف کے عہد کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کا امین بن جاتا ہے۔
٭٭
مآخذ
1, Walter Pater: Appreciations, Macmilan And Co. London, 1889, Page, 34
2۔ فرمان فتح پوری (ڈاکٹر ): ہندی اردو تنازع، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، اشاعت اوّل، 1977، صفحہ، 79
3۔ رئیس احمد جعفری: بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد، کتاب منزل، لاہور، اشاعت اوّل صفحہ 50
4۔ رشید احمدصدیقی: مضامین رشید، انجمن ترقی ارد ہند، دہلی، سال اشاعت، 1986، صفحہ 83
5۔ مشتاق احمد یوسفی: چراغ تلے، پہاڑی بھو جلہ، دہلی، سال اشاعت، 2001، صفحہ 113
6۔ احمد شاہ بخاری پطرس: پطرس کے مضامین، حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی، بار سوم، 2000، صفحہ 54
7۔ مشتاق احمدیوسفی: خاکم بدہن، ادبی دنیا، اردو بازار، دہلی، اشاعت اول، 1973، صفحہ 43
8۔ کنہیّا لال کپور: گردِ کارواں، ساقی بک ڈپو، دہلی، جدید ایڈیشن، 1987، صفحہ 157
9. Johann Gottfried Herder, On World History. Routledge, London, 2015, Page 9.
10۔ بہ حوالہ سیّد عابد علی عابد: انتقاد، ادارۂ فروغ اُردو، لاہور، بارِ اوّل، 1956، صفحہ 170
11۔ محمد خان کرنل: بجنگ آمد، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، سال اشاعت، 2013، صفحہ 38
12۔ اختر شیرانی: اخترستان (نظموں کا دوسرا مجموعہ)، ناشران کتاب منزل، لاہور، طبع اوّل، 1946 صفحہ 91
13۔ محمدخان کرنل: بجنگ آمد، صفحہ، 152
14۔ مرزا محمد رفیع سودؔا: کلیاتِ سوداؔ، مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی، جلد اوّل، مجلس ترقی ادب، لاہور، سال اشاعت، 1973، صفحہ 494
15۔ عبدالرحمٰن بجنوری ڈاکٹر: محاسن کلام غالبؔ، انجمن ترقی اردو پریس، اورنگ آباد، طبع ثانی، 1925، صفحہ 1
16۔ ایم مہدی حسن افادی الاقتصادی: افادات مہدی، مطبوعہ مطبع حکیم برہم، گورکھ پور، طبع ثانی، 1923، صفحہ 227
17۔ کلیم الدین احمد: اردو تنقید پر ایک نظر، بک امپوریم سبزی بازار، پٹنہ، اشاعت، 1983 صفحہ 110
18۔ وارث علوی: ’’روح کی اڑان‘‘ ، مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو، راول پنڈی، جلد 22، شمارہ جنوری۔ مارچ 2013، صفحہ 11۔
19۔ بہ حوالہ گوپی چند نارنگ: ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1994، صفحہ 163۔
20۔ وارث علوی: ’’روح کی اڑان‘‘ ، مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو، راول پنڈی، جلد 22، شمارہ جنوری۔ مارچ 2013، صفحہ 11۔
٭٭٭