اردو میں اسلوبیاتی یا اسلوبیاتی تنقید کو اب کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مکمل دبستانِ تنقید کی حیثیت سے اردو میں اس کی اہمیت اب مسلّم ہو چکی ہے۔ اب اردو کے مستند نقاد بھی لسانیات اور اسلوبیات کا ذکر اپنی تنقیدی تحریروں میں برملا کرنے لگے ہیں اور ادب کے مطالعے اور تجزیے میں سماجی اور دیگر علوم کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ نقاد لسانیات کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسفہ، تاریخ سماجیات، نفسیات اور لسانیات کے تعاون اور تفاعل سے ادبی تنقید میں نظری وسعت پیدا ہوتی ہے اور یہ اپنے روایتی خول سے باہر نکل آئی ہے۔ اب تنقید محض تاثرات کے پُر کیف اظہار کا نام نہیں یا تنقید کو اب محض اس کے داخلی رنگ سے نہیں پہچانا جا سکتا، اور نہ ہی تنقید اب صرف ذوق اور وجدان کی چیز بن کر رہ گئی ہے، بلکہ اس میں معروضی نقطۂ نظر اور سائنسی انداز پیدا ہوا ہے اور نتائج کے استنباط میں غیر جانب دارانہ رویّے اور قطعیت کو فروغ ملا ہے۔ اب تنقید میں محض تخیّل آمیزی اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا جاتا، بلکہ عملی اور تجزیاتی طریقۂ کار بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید نظریۂ تنقید کی تمام خوبیاں اسلوبیاتی تنقید میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی تنقید کو مطالعۂ ادب کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کراتے ہیں لسانیات و اسلوبیات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادبی تنقید کے جدید نظریات کا خواہ وہ ساختیات ہوتا ہے۔ ساختیات یا نظریۂ ردِ تشکیل، لسانیات و اسلوبیات سے کسی نہ کسی حد تک رشتہ ضرور استوار ہے اسلوبیات جس کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے، ان نظریات و تصورات سے گہرا علاقہ رکھتی ہے۔ ان نظریات کو سمجھنے کے لیے اسلوبیات کا سمجھنا بیحد ضروری ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ میں اس امر کا بالتصریح ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اسلوبیات کو سمجھے بغیر یا لسانیات کے بنیادی اصول و ضوابط کو جانے بغیر، نظریۂ ساختیات کو نیز ان تمام فلسفیانہ مباحث کو جو ’پس ساختیات‘ کے تحت آتے ہیں، سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘(۱)
لہٰذا اسلوبیات یا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید سے کماحقہٗ واقفیت کے لیے بنیادی باتوں کا جاننا، بیحد ضروری ہے۔ (۲)
اسلوبیات تنقید سے متعلق چند بنیادی باتیں یہ ہیں:
۱۔ اسلوبیات سے متعلق سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس کا لسانیات سے بہت گہرا رشتہ ہے، کیوں کہ زبان جو لسانیات کا مواد و موضوع ہے، وہی زبان ادب کا ذریعۂ اظہار بھی ہے۔ اور ادبی زبان کا مطالعہ و تجزیہ ہی ’اسلوبیات‘ (Stylistics) کہلاتا ہے
اسلوبیات میں لسانیات سے بھر پور مدد لی جاتی ہے۔ لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے سے متعلق جو علم و بصیرت فراہم کرتی ہے، اس کا اطلاق ادب کے مطالعے اور تجزیے میں بھی کیا جاتا ہے۔ لسانیات میں جتنے بھی نئے نئے نظریات فروغ پاتے ہیں ان کا اطلاق ادب کے مطالعے میں بھی کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ادب کا مطالعہ و تجزیہ چامسکی کی تبادلی تخلیقی قواعد (Transformational Generative Grammar) کی روشنی میں بھی کیا گیا ہے۔ اسلوبیات میں لسانیات کی اصطلاحات سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلوبیات میں ادبی متن کا تجزیہ لسانیات کی مختلف سطحات پر کیا جاتا ہے۔ جن میں صوتی، صرفی، لغوی، نحوی، قواعدی اور معنیاتی سطحیں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics) کی ایک اہم شاخ قرار دیا گیا ہے۔ اسلوبیات اور لسانیات کے اسی گہرے رشتے کی وجہ سے اسلوبیات کو ’لسانیاتی مطالعۂ ادب‘ یا ’لسانیاتی تنقید‘ بھی کہا گیا ہے۔ روجرفاؤلر نے تو اسلوبیات پر اپنی ایک کتاب کا نام ہی لسانیاتی تنقید (Linguistic Criticism) رکھا ہے۔ (۲) ایک دوسرے اسکالر نائجل فیب نے اسلوبیات کو ’ادبی لسانیات‘ (Literary Linguistics) کے نام سے یاد کیا ہے۔ (۳) جب کہ ہیلیڈے اسلوبیات کو ’ادبی اسلوبیات‘ سے ممیز کرنے کے لیے ’لسانیاتی اسلوبیات‘ (Linguistic Stylistics) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ (۴) اردو میں ’اسلوبیات‘ اور ’اسلوبیاتی تنقید‘ دونوں ہی اصطلاحیں مروج رہی ہیں۔
لسانیات جدید (Modern Linguistics) کا ارتقا بیسویں صدی کے آغاز سے فرڈی نینڈ ڈی سلسیور (۱۸۵۸ تا ۱۹۱۳ء) کے ان بصیرت افروز اور انقلاب آفریں لسانیاتی افکار سے ہوتا ہے جو اس کی پس از مرگ کتابCourse in Genegal Linguisticsمیں پائے جاتے ہیں۔ یہ کتاب سلسیور کے کلاس نوٹس پر مشتمل ہے جو اس نے لسانیات کی تدریس کے دوران تیار کیے تھے۔ سلسیور کے انتقال (۱۹۱۳ء) کے بعد اس کے شاگردوں نے ان نوٹس (Notes) کو مرتب کر کے ۱۹۱۶ء میں پیرس سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔ سلسیور کے لیے مثل افکار نے لسانیات کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا۔ سلسیور کو اسی لیے ’’لسانیاتِ جدید کا باوا آدم‘‘ اور ساختی /ہئیتی لسانیات (Structural Linguistics) کا بانی کہا جاتا ہے۔ اسلوبیات کی بنیاد چوں کہ ہئیتی یا توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics) پر قائم رہے، اس لیے اسلوبیات کا سلسیور کے افکار و خیالات سے گہرا رشتہ ہے۔ سلسیور کے بعد بلوم فیلڈ نے اپنی کتابLanguageکی اشاعت سے ساختی / ہئیتی یا توضیحی لسانیات کو فروغ دیا جس سے زبانوں کے توضیحی مطالعے اور تجزیے کی راہیں مزید ہموار ہوئیں۔
توضیحی لسانیات پر مبنی اسلوبیاتی مطالعات کا آغاز اگرچہ بیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے، لیکن ادب کے لسانی سروکار کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ زبان کے حوالے سے ادب کے مطالعے کا ارتقا موئے طور پر۱۹۱۰ء اور ۱۹۳۰ء کے دوران روسی ہئیت پسندوں (مثلاً رومن یاکوبسن، وکٹر شکلووسکی اور بورس تو میشیوسکی) ، رو، نس ماہرینِ السنہ (مثلاً چارلزبیلی، لیواسپٹزر اور کارل ووسلر) ، چیک ساخت پسندوں (مثلاً بوہسلوو ہیورانک اور جان مکارووسکی) ، برطانوی ماہرین معنیات (مثلاً آئی۔ اے۔ رچرڈز اور وہکم امپلسن) ، نیز امریکی نئے نقادوں (مثلاً بے۔ سی۔ رینسم، ٹی۔ ایس ایلیٹ اور کلینتھ بروکس) کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان گروپوں کے درمیان اگرچہ نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے اور تحصیل مقاصد اور طریقۂ کار کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے مغائرت رکھتے تھے، تاہم یہ تمام گروپس لسانی ساخت اور ہئیت کو ادبی مواد اور ادبی سروکار پر فوقیت دیتے تھے۔ اور زبان کے جمالیاتی استعمال پر زور دیتے تھے۔ اس دور کے اسلوبیاتی مطالعات کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ۱۹۵۰ء، ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں اسلوبیات سے دلچسپی میں اضافہ ہوا، کیوں کہ ماہرین اسلوبیات نے لسانیات کے توضیحی طریقۂ کار کو اپنا یا اور بہت سے نئے لسانیاتی نظریات کی روشنی میں ادب کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیا۔ اس دوران میں اسلوبیات کو کافی فروغ حاصل ہوا اور ایک شعبۂ علم کی حیثیت سے اس کی اہمیت مسلّم ہوئی۔ (۵)
(۲) اسلوبیات کے سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کا بنیادی تصور (Basic Assumption) ’اسلوب‘ ہے۔ اسی لیے اسلوبیات کو مطالعۂ اسلوب بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات کا یہ بنیادی نکتہ ہے کہ ادب میں اسلوب زبان کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے ماہرینِ لسانیات و اسلوبیات نے اسلوب کی جتنی بھی تعریفیں بیان کی ہیں وہ سب زبان کے ہی حوالے سے ہیں۔ اسلوب میں انفرادیت بھی زبان کے ہی مخصوص اور انفرادی استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں زبان کے تخلیقی استعمال کو بھی بیحد اہمیت حاصل ہے۔
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ ہر مصنف کے یہاں اسلوب پایا جاتا ہے، کیوں کہ ہر مصنف کے یہاں زبان کا استعمال ملتا ہے۔ اسی طرح ہر فن پارے کا اپنا اسلوب ہوتا ہے اور ہر عہد کا بھی اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ اسلوب کا مطالعہ انفرادی طور پر بھی کیا جا سکتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ اسلوب الگ سے مسلط کردہ کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ مصنف کی زبان میں جاری و ساری ہوتا ہے۔ یہ اسلوبیاتی نقاد کا کام ہے کہ وہ مصنف کے یہاں زبان کے استعمال کے امتیازات کا پتا لگائے اور اس کے اسلوبی خصائص (Style- features) کو نشان زد کرے۔ اگر ادبی متن کا لسانیاتی تجزیہ کیا گیا اور اس کے لسانی امتیازات یا اسلوبی خصائص کو نشان زد نہ کیا گیا۔ تو وہ مطالعہ و تجزیہ تشنہ اور نامکمل تصور کیا جائے گا۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اسلوب کا یہ نیا تصور جو اسلوبیات نے ہمیں دیا ہے، اُس تصور اسلوب سے مختلف ہے جو روایتی نظریۂ ادب یا مشرق و مغرب کی ادبی و تنقیدی روایت میں رائج رہا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوب کے قدیم اور جدید تصور کو بڑی خوبی کے ساتھ ان سطور میں بیان کیا ہے:
’’مشرقی روایت میں ادبی اسلوب بدیع و بیان کے پیروؤں کو شعر و ادب میں بروئے کار لانے اور ادبی حُسن کاری کے عمل سے عہدہ بر آ ہونے سے عبارت ہے، یعنی یہ ایسی شے ہے جس سے ادبی اظہار کے حُسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گویا اسلوب زیور ہے ادبی اظہار کا جس سے ادبی اظہار کی جاذبیت، کشش اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، یعنی مشرقی روایت کی رُو سے اسلوب لازم نہیں بلکہ ایسی چیز ہے جس کا اضافہ کیا جا سکے۔ پس اسلوب کے قدیم اور جدید تصور یعنی اسلوبیات کے تصور میں پہلا بڑا فرق یہی ہے کہ اسلوبیات کی رُو سے اسلوب کی حیثیت ادبی اظہار میں اضافی نہیں، بلکہ اصلی ہے۔ یعنی اسلوب لازم ہے یا ادبی اظہار کا ناگزیر حصّہ ہے یا اس تخلیقی عمل کا ناگزیر حصّہ ہے جس کے ذریعے زمانِ ادبی اظہار کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ یعنی ادبی اسلوب سے مُراد لسانی سجاوٹ یا زینت کی چیز نہیں جس کارد یا اختیار میکانکی ہو، بلکہ اسلوب فی نفسہ ادبی اظہار کے وجود میں پیوست ہے۔ ‘‘(۶)
اسلوب کے اس جدید تصور کے پیش نظر، اسلوبیات اسلوب کی ان تمام تعریفوں کو جن میں زبان کے حوالے کی بجائے شخصیت، ذات یا ذہنی کیفیت کے حوالے پائے جاتے ہیں، مسترد کرتی ہے۔ مثلاً فرانسیسی دانشور بغوں کا یہ قول کہ ’’اسلوب ہی خود انسان کی ذات ہے‘‘ (۷) ، یا مشہور انگریزی نثر نگاری اور مورخ گبن کا یہ کہنا کہ ’’اسلوب کردار یا شخصیت کا عکس ہے‘‘(۸) ، یا امریکی انشا پرداز اور شاعر ایمرسن کا یہ خیال کہ ’’انسان کا اسلوب اس کے ذہن کی پرواز ہے‘‘(۹) اسلوبیات کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ (۱۰)
(۳) اسلوبیاتی تنقید سے متعلق تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ اس میں توضیحی (Descriptive) انداز اختیار کیا جاتا ہے، نہ کہ تشریحی (Interpretative) ۔ ادبی متن کی تشریح میں نقاد کو معنی کی گرہیں کھولنے کے لیے بہت کچھ اپنی طرف سے جوڑنا اور گھٹانا پڑتا ہے۔ اور تخیل (بلکہ رنگِ تخیل) سے کام لینا پڑتا ہے۔ توضیحی میں اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کیا جاتا۔ کسی مصنف کی زبان یا اس کا اسلوب جیسا ہے ویسا ہی بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زبان کے معائب و محاسن بیان نہیں کیے جاتے، اور نہ ہی اس کے اسلوب کو اچھا یا بُرا بتایا جاتا ہے۔ مطالعۂ زبان کا یہ توضیحی (Descriptive / Synchronic) انداز سلسیور کی دین ہے جس کے تحت ایک ماہر لسانیات کا بنیادی کام یہ دیکھنا ہے کہ (ایک وقت میں) لوگ کیسے بولتے ہیں (How people speak) ، نہ کہ یہ بتانا کہ لوگوں کو کیسے بولنا چاہئے (How people ought to speak) ۔ تبھی اس مطالعے کو توضیحی مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادبی زبان کے مطالعے اور تجزیے کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ اسلوبیات کا کام محض یہ دیکھتا ہے کہ کوئی مصنف زبان کا استعمال کس طرح کرتا ہے، نہ کہ اسے (مصنف کو) زبان کا استعمال کس طرح کرنا چاہیئے۔
ادبی زبان یا اسلوب کا توضیحی مطالعہ لسانیات کی مختلف سطحوں پر کیا جاتا ہے، مثلاً صوتی(Phonological) لفظیاتی (Morphological) ، نحوی (Syntactic) ، اور معنیاتی (Semantic) سطح۔ ان کے علاوہ ایک قواعدی (Grammatical) سطح بھی ہے جو لفظیاتی اور نحوی سطحوں پر ادبی متن کی توضیحی اور اس کے تجزیے کا کام انجام دیا جا سکتا ہے، اور ان تمام سطحوں پر اس کے لسانی امتیازات کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور اس کے اسلوبی خصائص کو نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام سطحیں توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics) کی سطحیں ہیں جسے یک زمانی لسانیات (Synchronic Linguistics) بھی کہتے ہیں۔
فرڈی نینڈ ڈی سلسیور کے انقلاب آفرین افکار سے بیسویں صدی کے عشرۂ دوم میں لسانیات کی اس شاخ کا ارتقا عمل میں آیا، ورنہ اس سے قبل زبانوں کے تاریخی و تقابلی مطالعے کا رجحان عام تھا۔ سلسیور پہلا اسکالر ہے جس نے تاریخی (Diachronic) اور توضیحی (Synchronic) لسانیات میں فرق کیا اور بتایا کہ زبانوں کا صرف تاریخی مطالعہ ہی کافی نہیں، بلکہ توضیحی اعتبار سے بھی زبانوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سلسیور کی اس نئی فکر سے زبانوں کے توضیحی مطالعے کی بنیاد پڑتی ہے اور بعد کے دور میں اس کی مختلف شاخیں قائم ہوتی ہیں۔
آج دنیا کی مختلف زبانوں (بشمولِ اردو ) میں اسلوبیاتی مطالعے اور تجزئے کا جتنا بھی کام ہوا ہے وہ زیادہ تر توضیحی نقطۂ نظر سے ہی انجام پذیر ہوا ہے اور اسے توضیحی اسلوبیات (Descriptive Stylistics) کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ تاہم اسلوب کا مطالعہ تاریخی اعتبار سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسلوب کے تاریخی مطالعے کے ضمن میں یہ دیکھنا ہو گا کہ اسلوب میں عہد بہ عہد کس نوع کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، نیز پہلے اس کی صورت کیا تھی اور اب کیا ہو گئی۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ کسی ایک مصنف کے اسلوب میں مختلف النوع تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔ ایک مصنف تاریخ کے مختلف ادوار میں یا اپنی پور تصنیفی زندگی میں کئی اسالیب اختیار کر سکتا ہے۔ اس مصنف کے اسلوب کی ارتقائی حالت، نیز اس میں وقوع پذیر ہونے والی عہد بہ عہد تبدیلیوں کا مطالعہ اور جائزہ تاریخی اسلوبیات (Historical Stylistics) کا موضوع قرار پا سکتا ہے۔
۴۔ اسلوبیاتی مطالعے سے متعلق چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ یہ متن پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے اسے متن آشنا (Text oriented) یا متن مرکزی (Text Centred) مطالعہ بھی کہتے ہیں۔ اس مطالعے میں ادبی متن کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس خود مکتفی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور ماورائے متن جتنی بھی چیزیں ہیں، انہیں خارج از مطالعہ قرار دیا جاتا ہے اور صرف متن کے حوالے سے ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ مصنف کے شخصی یا سوانحی کوائف ، نیز اس کے دکھ درد ، غم اور عشق یا اس کے عہد یا اس عہد کے سماجی حالات اور تہذیبی پس منظر کو ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے کے دوران زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے مضمون ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’لسانیاتی مطالعہ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات۔ اہمیت در اصل ہوتی ہے اس فن پارے کی جس کی راہ سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۱)
۵۔ اسلوبیاتی مطالعۂ ادب کے سلسلے میں پانچویں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ مطالعہ معروضی اور سائنٹفک ہوتا ہے۔ اس میں سائنسی انداز اور معروضی طرزِ استدلال اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ مطالعہ مشاہد اتی ہوتا ہے، تخیلی یا ذوقی نہیں۔ اس میں قطعیت (Precision) سے کام لیا جاتا ہے۔ اس مطالعے میں داخلیت ، تاثر یا ذاتی پسند نا پسند کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ نتائج تجزئے کی بنیاد پر اخذ کئے جاتے ہیں۔ بعض اسلوبیاتی تجزئے اعداد و شمار پر بھی مبنی ہوتے ہیں جن کی معروضیت اور قطعیت صد فی صد ہوتی ہے۔
۶۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید کے سلسلے میں چھٹی اور آخری بنیادی بات یہ ہے کہ اس میں اقداری فیصلوں (Value Judgments) سے گریز کیا جاتا ہے ، کیونکہ تعینِ قدر اس کا مقصد نہیں۔ اس کی علی الرغم روایتی یا ادبی تنقید میں تعینِ قدر کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تنقید کا دائرۂ علم کا فی وسیع ہو چکا ہے۔ او ریہ روز بروز نت نئے علوم کی روشنی میں نئے نئے نظریات اور جہات و ابعاد سے روشناس ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا تنقید کی اب وہ تعریف نہیں رہی جو قدماء نے بیان کی تھی۔ بعض ادبی اصناف کی بھی اب وہ تعریف نہیں رہی جو پہلے بیان کی جاتی تھی۔ مثلاً غزل کو پہلے ’’حکایت با یار گفتن ‘‘ یا ’’عورتوں سے باتیں کرنا‘‘ کہا جاتا تھا ، لیکن اب غزل کے موضوعات اس حد تک بدل گئے ہیں اور ان میں اتنا تنوع پیدا ہو گیا ہے کہ ’غزل ‘ کی یہ تعریف اب انتہائی مضحکہ خیز معلومات ہوتی ہے۔ اسی طرح ’مرثیہ ‘ جو پہلے خالص مذہبی چیز سمجھی جاتی تھی، اب اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ حالی نے غالب کی وفات پر، اقبال نے اپنی والدہ کے انتقال پر اور پنڈت آنند نرائن ملا نے گاندھی جی کے سانحۂ قتل پر جو حُزنیہ نظمیں لکھیں انہیں بھی ’مرثیہ‘ کے ذیل میں رکھا جاتا ہے۔
اسلوبیاتی تنقید ایک سائنسی نظریۂ تنقید ہے جو مزاحاً توضیحی ، معروضی اور غیر اقداری ہے ، لہٰذا اس میں تعینِ قدر کا کوئی جواز نہیں۔ بقولِ گوپی چند نارنگ ’’ادب کی تحسین کاری اور تعینِ قدر کا کام ادبی تنقید اور جمالیات کا کام ہے، اسلوبیات کا نہیں ‘‘ (۱۲)
(۳)
اسلوبیاتی تنقید روایتی یا ادبی تنقید سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اسلوبیاتی تنقید بحیثیتِ مجموعی لسانیات پر مبنی ہے۔ یہ اپنے حربے ، نظری زاوئے اور طریقۂ کار لسانیات سے لیتی ہے جب کہ ادبی تنقید کا لسانیات سے کوئی سروکار نہیں، یہ بیان و بلاغت ، صنائع و بدائع اور قدیم اندازِ نقد سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے۔ ادبی تنقید داخلی اور تاثراتی رنگ لئے ہوئے ہوتی ہے، جبکہ اسلوبیاتی تنقید میں سائنسی اور معروضی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ ادبی تنقید میں مصنف کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے اور مصنف اور اس کے سوانحی کوائف ، نیز اس کے عہد اور اس کے عہد سماجی و تہذیبی سیاق و سباق میں ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلوبیاتی تنقید میں یہ چیزیں خارجی اور ماورائے متن (Extratextual) تصور کی جاتی ہیں اور صرف متن کو ہی خود مکتفی مان کر اس کا مطالعہ و تجزیہ کیا جاتا ہے اسلوبیاتی تنقید میں مصنف کی زبان اور اسلوب نیز اس کے لسانی روئے کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ زبان کے تخلیقی اور جمالیاتی استعمال کے امکانات تلاش کئے جاتے ہیں اور متن کے اسلوبی خصائص (Style-features) کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس کے علی الرغم ادبی تنقید میں زبان اور اسلوب کا ذکر ضروری خیال نہیں کیا جاتا، اور اگر کبھی ان چیزوں کا ذکر آتا بھی ہے تو محض سرسری طور پر اور وہ بھی تاثراتی انداز میں۔
ادبی تنقید میں ادبی فن پارے کے معائب و محاسن بیان کئے جاتے ہیں اور انھیں کے مطالعے کی بنیاد پر قدروں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ادبی تنقید میں تعینِ قدر پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں تعینِ قدر کی کوئی اہمیت نہیں، کیوں کہ یہ سائنسی تنقید ہے اور اس کا انداز توضیحی ہے اور اسی رشتے کی وجہ سے معروضی بھی۔ تعینِ قدر یا اقداری فیصلوں کا براہِ راست تعلق تاثرات سے ہے جس کا انداز داخلی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اقداری فیصلے ذاتی پسند و ناپسند کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری ادبی تنقید اس سے بھری پڑی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں مُبالغے اور افراط و تفریط سے بھی بچا جاتا ہے اور تشریح و تبصرہ کرنے کے بجائے توضیحی انداز سے کام لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خوبصورت فقرے اور جملے ، حسین و دلکش تراکیب ، نیز بلند و بانگ اور متحیر کن دعوے اور مبالغہ آمیز تعمیمات جنھیں ہم ادبی تنقید کا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں، ان سے اسلوبیاتی تنقید کو سوں دور رہتی ہے۔
ان تمام تخالفات (Contrasts) کے با وصف اسلوبیاتی تنقید کا ادبی سے اس لئے گہرا رشتہ ہے کہ یہ ادب کی افہام و تفہیم میں ادبی تنقید کی خاطر خواہ مدد اور رہنمائی کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ یہ دونوں دبستانِ تنقید مختلف زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں، لیکن دونوں ادب کو Approach) کرتے ہیں۔ اسلوبیات کا تعلق براہِ راست زبان سے ہے جو ادب کا ذریعہ اظہار ہے اور جس کے بغیر ادب کی تخلیق یا تجسیم ممکن نہیں۔ اسلوبیاتی تنقید سے متعلق یہ وضاحت بھی ضروری کہ یہ مکمل تنقید نہیں۔ مکمل تو کوئی بھے تنقید نہیں کیونکہ کہ ہر تنقید ادب کا کسی نہ کسی مخصوص زاوئے سے ہی مطالعہ کرتی ہے خواہ وہ رومانی تنقید ہویا جمالیاتی، نفسیاتی تنقید ہو یا فلسفیانہ۔ ان سب کا اپنا اپنا زاویۂ نظر ہے ان میں سے کوئی بھی تنقید ادب کے ہمہ جہتی اور مکمل مطالعے کا دعوا نہیں کر سکتی۔ یہی بات اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ادب کی لسانیاتی اور اسلوبیاتی تنقید کے بارے میں ڈونلڈ سی۔ فریمن کی یہ رائے نہایت درست کہ یہ “Contributory Discipline“ہے ، نہ کہ “Controlling“یعنی یہ ادب کے مطالعے اور تنقید میں معاونت کر سکتی ہے ، اس کا حتمی طور پر احاطہ نہیں کر سکتی۔ ( ۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالے
۱۔ گوپی چند نارنگ، ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات ‘‘ مشمولہ ادبی تنقید اور اسلوبیات (گوپی چند نارنگ) ، دہلی : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۱۹۸۹ء۔ ص ۱۳۔
۲۔ روجر فاؤ لر (Roger Fowler) ، ۱۹۸۶ء، Linguistic Criticism (آکسفرڈ : نیویارک آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔
٣۔ نائجل فیب (Nigel Fabb) اور دیگر (مرتبن) ، ۱۹۸۷ء، The Linguistics of Writing : Arguments between language and Literature(نیویارک: میتھیون )
۴۔ ایم۔ اے۔ کے۔ ہیلیڈے (M.A.K. Halliday) ‘ ۱۹۶۴ء،”The Linguistic Style of literary Texts“مشمولہ Proceedings of the Ninth International Congress of Linguistic(دی ہیگ : موتاں اینڈ کمپنی ) ، ص ١٠٣تا ٧٠٣۔
۵۔ مزید تفصیلات کے لئے دیکھے رچرڈ ڈی۔ کیورٹن (Richard D. Cureton) کا مضمون “Literary Stylistics“مشمولہ International Eneyclapedlia of Linguistics(مرتبِ اعلیٰ ولیم برائٹ ، نیویارک : آکسفرڈ یونیورسٹی ، ۱۹۹۲ء جلد چہارم ، ص ۸۱ و ۸۲۔
۶۔ گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص ۱۴۔ ۱۵۔
۷۔ (Buffon) “Style is the man himself“
۸۔ بحوالۂ عابد علی عابد ، اسلوب ( علی گڑھ : ایجو کیشنل بک ہاؤس، ۱۹۸۶ء) ، ص ۶۲
۹۔ (Emerson) “A man’s style is his mind’s voice.”
۱۰۔ ’اسلوب‘ کی مزید تعریفوں کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب زبان ، اسلوب اور اسلوبیات (علی گڑھ : ادارۂ زبان و اسلوب ، ۱۹۸۳ء، ص ۱۵۷تا ۱۸۸۔
۱۱۔ مسعود حسین خاں ، ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ مشمولہ شعر و زبان (حسین خاں) ، حیدرآباد:شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی ، ۱۹۶۶ء۔ ص ۱۸۔
۱۲۔ گوپی چند نارنگ ، محولہ مضمون ، ص۲۱
۱۳۔ ڈونلڈ سی۔ فریمن (Donald C. Freeman) ، ۱۹۷۰ء، “Linguistic Approaches to Ltierature“مشمولہ Linguistics and Literary Style(مرتبہ ڈونلڈ سی۔ فریمن ) ، نیویارک: ہولٹ ، رائن ہا رٹ اینڈ و لنسٹن۔ ص ۳۔