اسلم بدر(جمشید پور)
تری ہی مثل رہے بے مثال کیا کرتے
اب اور تیرے کھلونے کمال کیا کرتے
یہیں سے تیز ہواؤں کو بھی گزرنا تھا
چراغِ راہ تھے فکرِ مآل کیا کرتے
مری ہی ذات میں گُم کچھ سوالیہ چہرے
میں لا جواب تھا، مجھ سے سوال کیا کرتے
اُتر رہا تھا خود اُن پر ہر اک کرن کا عذاب
مرے اُجالے مری دیکھ بھال کیا کرتے
خیال میں تھا سمندر، نظر میں رقصِ سراب
تھکن سے چُور بدن تھے، دھمال کیا کرتے
اُنہیں پلٹ کے مری شب میں پھر سے آنا تھا
بچھڑ کے خواب سے اپنے ملال کیا کرتے
ترا ہی جال تھی دنیا بھی، ہم اُلجھتے رہے
تری گرفت میں تھے قیل و قال کیا کرتے
خود اپنے حال سے ہم بے خبر رہے اسلمؔ
تو پھر زمانے سے ہم عرضِ حال کیا کرتے
***
آرزو پیکر و اصنام سے خالی نکلی
میں نے حسرت بھی نکالی تو خیالی نکلی
جبرِ تقدیر سے ڈر جاتے تو مر ہی جاتے
جب جینے کی کوئی راہ نکالی، نکلی
تیری تصویر بنے گی تو یقیں ٹوٹے گا
ہر یقیں کی یہاں تصویر زوالی نکلی
آج سورج بھی دیا ہاتھ میں لے کر نکلا
کوچۂ شب سے سحر بھی مری کالی نکلی
اجنبی شہر میں اک دشتِ تمنّا کے کر
کاسۂ چشم سے بینائی سوالی نکلی
تیری ٹوٹی ہوئی پازیب کے گھنگھرو تارے
دامنِ شب سے ترے کان کی بالی نکلی
***
پلٹ کے راستے سارے سما گئے مجھ میں
خیال میرے مسافر تھے ، آگئے مجھ میں
تمام دشت و دمن میں کھلے نظر کے گلاب
نفس نفس تری خوشبو بسا گئے مجھ میں
سراب میں بھی رہی جستجوئے سیرابی
اُبل کے ریت سے دریا سما گئے مجھ میں
وفورِ غم میں صبا سی کسی کی یاد چلی
لبوں کے پھول سے کچھ مسکرا گئے مجھ میں
تمام عمر نہ منظر کُھلے نہ در ہی کُھلا
نظارے ایسے دریچے سجا گئے مجھ میں
بجھا سکے تو بجھا لے ، ہوائے نقد و نظر
چراغِ فن مرے طوفاں جلا گئے مجھ میں
وہ کیسی ضربِ صدائے ملنگ تھی اسلمؔ
وہ شور اُٹھّا کہ سنّاٹے چھا گئے مجھ میں
***
کچھ فکر میری حلقۂ احسان میں بھی ہے
کچھ روشنائی میرے قلمدان میں بھی ہے
وہ بات جس کی چوٹ سے زخمی ہیں میرے شعر
وہ خاص بات میرؔ کے دیوان میں بھی ہے
دھندلا گئے ہیں راستے لیکن سفر کی سمت
بھولے ہوئے سبق کی طرح دھیان میں بھی ہے
وہ لمحہ جس کی یاد سے دل ڈولنے لگے
آنسو میں بھی ہے، خون کے ہیجان میں بھی ہے
میرے گناہ اتنے زیادہ کبھی نہ تھے
پاسنگ کچھ نہ کچھ تری میزان میں بھی ہے
آہٹ سی آتی رہتی ہے ہر آن بے قدم
موجود لا مکانیت ، امکان میں بھی ہے
حیرت سے دیکھتا ہے مجھے میرا آئینہ
الجھن مجھے،خود اپنی ہی پہچان میں بھی ہے
***
اپنے جمود میں تھا مگن جھومتا رہا
سر کٹ کے گر چُکا تھا بدن جھومتا رہا
بکھرا ہُوا تھا شعر کی صورت ترا خیال
عالم تھا ، مبتلائے سخن جھومتا رہا
لفظوں علامتوں کی نئی بوتلوں میں بند
پی جس نے بھی شرابِ کہن ، جھومتا رہا
وہ خوشبوئے خیال کہ نافِ غزل میں تھی
دشت و دمن میں مست ہرن جھومتا رہا
مربوط اس طرح سے ہے تنظیمِ کائنات
سرسوں کِھلی زمیں پہ ، گگن جھومتا رہاا
آئے سپیرے، بین بجا کر چلے گئے
دہشت کا ناگ کاڑھ کے پھن ، جھومتا رہا
***
ہمارے خواب بھی کب اپنے گھر میں رہتے ہیں
کسی کی شب میں کسی کی سحر میں رہتے ہیں
عجیب بے خبری تھی تباہ ہونے تک
پناہ گاہوں میں اب ہیں ، خبر میں رہتے ہیں
سمیٹ لے گی ہمیں، منزلِ خود آگاہی
ابھی تو گردِ سفر ہیں ، سفر میں رہتے ہیں
یہ اور بات کہ دروازہ میں نے کھولا تھا
مرے سوا بھی کئی لوگ گھر میں رہتے ہیں
ہیں رہگزار پہ روشن ہزارہا شمعیں
تو پھر یہ کیسے دھُندھلکے نظر میں رہتے ہیں
نئی فضاؤں میں اُڑتے تو ہیں ضرور ، مگر
وہی پُرانے ہنر ، بال و پر میں رہتے ہیں
میں اُن کی یاد کو سیراب کرتا رہتا ہوں
فرات والے مری چشمِ تر میں رہتے ہیں
***
تیرے ہونے کی طرف دھیان تو ہے
میرا ہونا ، تری پہچان تو ہے
یاد ہے اُس کو سراپا میرا
وہ مجھے دیکھ کے حیران تو ہے
اک دیا طاق پہ ہے اِس گھر میں
اور کچھ ہو نہ ہو ، ایمان تو ہے
ہم تو سیلانیء صحرا ٹھہرے
جل چکا شہر ، بیابان تو ہے
رات بھی مجھ کو گوارہ ہے ، کہ وہ
میرے خوابوں سے پریشان تو ہے
اُکھڑی اُکھڑی ہیں ہوائیں میری
مجھ سے لپٹا مرا طوفان تو ہے
موجِ خوں میں ہے اُسی کی دھڑکن
مجھ میں میرا وہ نگہبان تو ہے
برف آنکھوں میں پگھلتی دیکھی
رُت بدل جانے کا ، اِمکان تو ہے
توڑ لوں کیسے تعلّق اُس سے
میرے قصّے کا وہ عنوان تو ہے