میں چھوڑوں گی نہیں اس ہاشم کو۔۔ ہماری گھر کی تمام خوشیاں برباد کر دیں۔۔ میری پھولوں جیسی بہن کو چھین لیا مجھ سے۔۔ آسام آپ کچھ کرتے کیوں نہیں۔۔
آج آسیہ کی ڈیتھ کا تیسرا دن تھا۔۔ عظمی کو تو تب سے سکون ہی نہیں آ رہا تھا سوچ سوچ کر ہی غصہ آ رہا تھا اسے۔۔ اس کی گھر کی خوشیان چھین لیں تھیں اس ہاشم نے۔۔
عظمی ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں جس کی بنا پہ ہم کہہ سکے کہ یہ سب ہاشم نے کیا ہے۔۔ اس وقت ہم کمزور ہیں۔۔
آسام بھی بے بس تھا۔۔ وہ کب سے اسے سمجھا رہا تھا لیکن وہ سمجھ ہی نہ رہی تھی۔۔
اللہ غارت کرے اسے۔۔ جیسے ہماری گھر کی خوشیاں برباد ہوئیں ہیں وہ بھی کبھی خوش نہ رہیں۔۔
وہ روتی جا رہی تھی۔۔ اور یقینا دل پہ لگے تو منہ سے بھی بددعائیں لگتی ہیں۔۔
عظمی پلیز صبر کرو۔۔ تمہیں اس سے بد دعائیں دینے کی ضرورت نہیں۔۔ وہ جو اوپر بیٹھا ہے نا وہ بہترین منصف ہے۔۔ اس لیے اس طرح بول کر خود کو گنہگار مت کرو۔۔
اس کی بات پہ اب وہ چپ تو ہو گئی تھی لیکن آنسو ابھی بھی جاری تھی کہ ان پہ کسی کا اختیار نہیں رہا کبھی۔۔
عظمی۔۔ آسام پاس سے اس کے قریب آیا اور اسے اپنی بازوئوں کے گھیرے میں لیا ۔۔
دیکھو میری جان۔۔ یوں رو رو کر نہ تم اپنی طبعیت کر رہی ہو بلکہ روشم بھی مسلسل نظر انداز ہو رہی ہے۔۔ ابان اور نمل تو بڑے ہیں۔۔ مگر اس ننھی جان کو تمہاری ضرورت ہے۔۔ پلیز سنبھالو خود کو۔۔
اسے پیار سے خود سے لگائے وہ اسے دلاسہ دینے کے ساتھ ساتھ سمجھا رہا تھا۔۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن آسیہ کا۔۔ اس کے بولنے سے پہلے ہی اس نے اس کے لبوں پہ انگلی رکھ دی۔۔
عظمی پلیز اب اس بارے میں کوئی بات نہیں۔۔ میں جانتا ہوں آسیہ کا دکھ بہت بڑا ہے۔۔ لیکن اب اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی تم۔۔ بلکہ اس گھر میں ہی کوئی بات نہیں ہو گی اب سے۔۔
آسام کی بات پہ عظمی حیرت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی۔۔
لیکن کیوں آسام۔۔ خود کو اس سے الگ کر کے وہ اس کے سامنے آئی۔۔
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ روشم کسئ بھی طرح کا کمپلیکس پالے۔۔ وہ بڑی ہو تو اس احساس کے ساتھ زندہ نہ ہو کہ اس کے ماں باپ اسکے ساتھ نہیں ہیں۔۔ بلکہ وہ خود کو ابان اور نمل کی بہن کی سمجھیں۔۔ اب یہ تم پہ بھی ہے عظمی کہ تم اسے کتنا پیار دیتی ہو۔۔ پلیز اسے اپنی اولاد سمجھنا عظمی۔۔ دوسرے کی اولاد کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔۔ میں قیامت کے دن آسیہ اور عفان کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔۔
آسام کی بات پہ عظمی کے بے اختیار آنسو نکل آئے۔۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم۔انسان تھا۔۔ اور اس بات کے بعد تو وہ واقعی اسے اتنا عظیم دیخھ رہی تھی کہ عظمی کو لگا اسے دیکھنے کے لیے اس کا قد چھوٹا پڑ گیا۔۔
بے اختیار ہی وہ اسے کے گلے جا لگی۔۔
آئی پرامس آسام میں آپ کو اور خود کق قیامت کے دن شرمندہ نہیں ہونے دوں گی۔۔
اس کے سینے پہ سر رکھے وہ اس کے ساتھ ساتھ خقد سے بھی وعدہ کر رہی تھی۔۔
مجھے یقین ہے تم پہ میری جان۔۔ اس کے بالوں پہ ہونٹ رکھ کر اس نے اسے خود میں سمیٹ لیا۔۔
***
اففف یار پہلی پریزنٹیشن ہے۔۔ سچ میں بہت کنفیوز ہوں۔۔ وہ مسلسل نیلم کے کان میں بولے جا رہی تھی۔۔ اور نیلم اس کا یہی جملہ صبح سے کوئی ہزار دفعہ سن چکی تھی۔۔
سامنے سر عارف پریزینٹیشن لے رہے تھے اور اگلا گروپ انہئ کا تھا۔۔
روشم اب تم نے کچھ کہا نا تو یقین کرو تمہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا ہے میں نے۔۔ ایسے کہہ کہہ کر اپنی پریزینٹیشن کے ساتھ ساتھ میری پریزینٹیشن بھی خراب کرے گی یہ لڑکی۔۔
اسے اس بار اچھا خاصا ڈانٹ کر آخر میں وہ منہ میں بڑبڑائی۔۔ تب سے وہ اسے موٹیویٹ کر رہی تھی پر اب نیلم کی بھی بس ہو چکی تھی۔۔
آخرکار ان کا نمبر آ ہی گیا تھا۔۔ پہلے نیلم نے اپنے پارٹ کو ایکسپلین کیا۔۔ اب اس کی باری تھی۔۔
گلے سے تھوک نگلتی وہ مرے مرے قدم اٹھاتی وائٹ بورڈ کے پاس آئی۔۔ اور نیلم پراجیکٹر کے پاس آ کر بیٹھ گئی کہ اب سلائیڈز اسے ہی چینج کرنی تھی۔۔ لیکن اسے بیسٹ آف لک کا اشارہ دینا نہ بھولی تھی۔۔
روشم نے ایک گہرا سانس لیا اقر پریزینٹیشن دینی شروع کی۔۔ سٹارٹ پہ وہ لڑکھڑائی لیکن آہستہ آہستہ اس میں کانفیڈنس آتا جا رہا تھا۔۔ لیکن یہ بھی تھوڑی دیر کے لیے تھا آگے اس کی بینڈ بجنے والی تھی۔۔ اس بات سے بچاری لا علم تھی۔۔
عرش میر نے روحان اور نومی کو دیکھا اور دونوں کو ہی آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا۔۔
اور نومی جو کہ فرنٹ پہ ہی بیٹھا تھا اس نے بیگ سے باکس نکالا اور زمین پہ جھک کر اسے کھول دیا۔۔
روشم جو بڑے آرام سے بول رہی تھی ۔۔ جونہی پائوں سے کوئی نرم چیز لگنے سے نیچے دیکھا تو اس کی چیخیں آسمان کو چھونے لگی۔۔
کیونکہ ایک موٹا چوہا اس کے پائوں پہ چڑھا تھا۔۔ وہ چیختی ہوئی وہی پاس چیئر پہ چڑھ گئی۔۔ پراجیخٹر نیچے گر چکا تھا۔۔ اب بس وہ تھی اور اس کی چیخیں ۔۔
پوری کلاس اس کی حاکت دیکھ کر ہنس رہی تھی چوہا کب کا جا چکا تھا کلاس سے مگر وہ آنکھیں کھولتی تو اسے کچھ نظر آتا۔۔۔۔
مس روشم۔۔ سر عارف کی گرجدار آواز پہ اس نے آنکھیں کھولی۔۔ اپنی حالت دیکھ کر خود بھی وہ شرمندہ ہوئی۔۔ کلاس میں ابھی بھی دبی دبی آوازیں آ رہی تھی۔۔
سوری سر۔۔ چیئر سے نیچے اتر کر وہ شرمندہ شرمندہ سی بولی۔۔
چوہا آپ سے بڑا تو نہیں تھا مس روشم جو آپ نے چیخ چیخ کر پوری کلاس سر پہ اٹھا لی تھی۔۔ مینرز بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔ سر عارف نے اس کی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی تھی۔۔
اور وہ بھی چپ کر کے سنتے رہی اب سر کو کیا بتاتی کہ چوہے کے سامنے کہاں مینرز یاد رہتے ییں۔۔
کلاس ڈس مس۔۔ باقی جتنے گروپس رہ گئے ہیں ان کی پریزینٹیشن اگلے لیکچر میں ہو گی۔۔ وہ کہہ کر رکے نہیں تھے کلاس سے نکلتے چلے گئے تھے۔۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ انہیں اس وقت کتنا غصہ ہے۔۔
تم بھی حد کرتی ہو روشم۔۔ نیلم اس کے پاس آ کر غصے سے بولی۔۔ پہلی پریزینٹیشن ہی خراب گئی تھی اس کے تو نمبر بھی مڈز میں انکلیوڈڈ تھے۔۔
یار میرا کیا قصور ہے۔۔ وہ چوہا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی نیلم نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔۔
بس کر دو اب جو ہونا تھا ہو گیا۔۔ میں کیفے جا رہی ہوں۔۔ تم بھی اپنا بیگ لے کر آ جائو اب۔۔
نیلم باہر جا چکی تھی بلکی تقریبا ذیادہ تر کلاس ویسے ہی خالی ہو چکی تھی۔۔ وہ بھی اپنا بیگ لے کر جونہی دروازے کی طرف بڑھی عرش میر وہی کھڑا تھا۔۔
وہ اسے نظر انداز خر کے جانا چاہتی تھی جب وہ اس کے سامنے آ گیا۔۔
کیسی ہو لیڈی۔۔ اس کا سامنے آ کر وہ دککشی سے گویا ہوا۔۔
میرے ٹھیک ہونے یا نا ہونے سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے مسٹر عرش میر خان۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بہادری سے بولی ۔۔اور عرش میر کو یہی بہادری تو ہوا دیتی تھی۔۔
ہائے۔۔ صدقے آپ کی اس ادا پہ۔۔ ویسے چوہے سے کوئئ اتنا بھی ڈرتا ہے کیا۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا تم اتنا ہنگامہ کرو گی۔۔
آئی برو اچکاتا وہ روشم کو تپا گیا۔۔
اوہ تو یہ گھٹیا حرکت تم نے کی ہے۔۔ اس دن تو بہت بول اصول پسند بن رہے تھے۔۔
روشم کا لہجہ صاف تمسخرانہ تھا۔۔
ہاہاہا۔۔ اصول پسند ہی ہوں لیڈی۔۔ محنت کرنے میں خلل نہیں ڈالتا ۔۔ ہاں جب اس محنت کا آئوٹ پٹ انا ہوتا ہے تو پھر میں اپنا بھی حصہ ڈالتا ہوں۔۔
اسے مزید غصہ دلانے کو اس نے آنکھ دبائی اور روشم کا دل کیا اس خبیث کا سر پھاڑ دیا۔۔
متواسط چال چلتی وہ اسکے قریب آئی۔۔
پھر تم بھی تیار رہنا عرش میر جان کیونکہ ادھار رکھنا تو میری بھی عادت نہیں۔۔ اسے چیلنج کر وہ رکی نہیں تھی۔۔ اس کے سائڈ سے ہو کر نکلتی چلی گئی۔۔
آئی لائک دیٹ اٹیٹیوڈ۔۔ چلو اب یونی میں رہنے کا مزہ تو آئے گا۔۔ وہ سیٹی پہ دھن بجاتا کی رنگ گھماتا کلاس سے باہر آ گیا کیونکہ گارڈن میں اس کے دوست اس کا انتظار کر رہے تھے۔۔
***
دیکھنا میں اس کو چھوڑوں گی نہیں قتل کر دوں گی میں اس کا۔۔ کیفے میں آتے ہی اس نے زور سے بیگ ٹیبل پہ پٹخا۔۔
کیا ہوا ہے گرل۔۔ اتنے غصے میں کیوں ہو۔۔ نیلم کو اسے یوں آگ بگولہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔۔
وہ چوہا۔۔ مسٹر عرش میر خان نے چھوڑا تھا۔۔ کرسی پہ بیٹھ کر اس نے نیلم کے سر پہ بم پھوڑا۔۔
واٹ۔۔ وہ چلائی۔۔
جی۔۔ میں بھی کہہ آئی ہوں اسے۔۔ اب وہ بھی انتظار کرے میرے سرپرائز کا۔۔ اپنی طرف سے اس نے چیلنج کیا تھا مگر اس کی بات سن کر نیلم نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔
یا اللہ یار تم کیا کر رہی ہو۔۔ چھوڑو اس سب کو۔۔ وہ انسان بہت خطرناک ہے۔۔ نیلم اسے وارن کر رہی تھی مگر اس کے دماغ یہ بات ابھی نہیں آ رہی تھی۔۔
اگر وہ خطرناک ہے تو اس سے بھی ذیادہ خطرناک ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ خطروں سے کیسا کھیلا جاتا ہے۔۔ روشم نے اس کی بات کو کسی کھاتے میں نہ لیا۔۔ وہ تو بس اب عرش میر کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔۔
اففف۔۔ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ نیلم نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا کیا کیونکہ اس ضدی لڑکی کو سمجھانا کم از کم اس کے بس کی بات نہیں تھی۔۔
***
کیا ہوا ۔۔ نہیں کھانا کھایا۔۔ ندرت کو برتن ویسے ہی واپس لاتا دیکھ کر بے جی نے پوچھا۔۔ آج عفان کی برسی تھی اور جس دن اس کی برسی ہوتی تھی اس دن پورے گھر میں سوگ کا سماں ہوتا تھا۔۔
آج بھی بلکل ایسا ہی تھا۔۔ پورے گائوں میں دیگ بانٹنے کا حکم دینے کے بعد وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتی تھی۔۔ اور بائو جی کو تو کبھی اس دن سے لگائو رہا ہی نہ تھا۔۔
نہیں کھایا۔۔ بلکہ ڈانٹ کر بھیج دیا۔۔ ندرت نے برتن سنک میں رکھ دیے۔۔ اس کے ماتھے کا زخم اب کافی بھر چکا تھا۔۔
ایسے کیسے چلے گا۔۔ کچھ تو کھا لیں۔۔ بے جی کی بات پہ ندرت حیرت سے گھومی۔۔
مجھے آپ کی سمجھ نہیں آتی بے جی۔۔ وڈی اماں کتنا ظلم کرتی ہیں آپ پہ۔۔ ہم دونوں کو کسی کھاتے میں نہیں رکھتی پھر بھی آپ ان کی سائڈ لیتی ہیں۔۔ ان کے نا کھانا کھانے پہ پریشان ہوتی ہیں۔۔
ندرت کو بے جی کا یہ امداز بہت برا لگتا تھا۔۔ اسے تو یہ دن ہی عید لگتا تھا جس میں نہ وڈی اماں باہر آتی تھی اور دیگیں بانٹنے کی وجہ سے عرشمان بھی مصروف رہتا تھا۔۔ اور اسی دن وہ کھل کر جیتی تھی۔۔
ندرت ایسے نہیں کہتے۔۔ وہ اگر غلط کرتی ہیں تو ان کے اعمال ان کے اعمال ان کے ساتھ ہیں ۔۔ ہم کیوں ان کے ساتھ بھی ویسا کر کے برے بنیں۔۔ اور خود میں اور ان میں کوئی فرق نہ رکھیں۔۔
ویسے بھی تمہیں پتہ ہے نا اس وقعہ کا جب ہمارے نبی پہ ایک عورت کوڑا پھینکتی تھی اور جس دن نہ پھینکا اس دن سرکار دو جہاں خود چکے گئے ان سے ملنے۔۔
جس نبی میں اتنی عاجزی ہو میں اس کی امتی ہو کر کیسے اس کی اطاعت نہ کروں۔۔ اس لیے مجھے شرم آتی ہے ندرت۔۔ میں قیامت کے دن اللہ کے سامنے کم از کم اس بات پہ سرخرو ہونا چاہتی ہوں کہ میں نے اپنا بہترین دیا۔۔
ان کی بات ختم ہوئی تو ندرت کتنی دیر ان کو مسمرائز سی دیکھتی رہی۔۔ پھر ہوش آیا تو آ کر ان کے گلے لگ گئی۔۔
آپ کیسے اتنی اچھی ہیں بے جی۔۔ کہاں سے لاتی ہیں ایسی باتیں۔۔ سچ میں بے جی آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے مجھ میں ہمت آتی ہے سب سہنے کی۔۔ آپ نہ ہوتی تو میں شاید کب کی ہمت ہار چکی تھی۔۔
ان کے گلے لگی وہ رو رہی تھی۔۔ بے جی نے اسے پیار سے علیحدہ کیا۔۔
ارے پاگل نہ ہو تو۔۔ اللہ سوہنا کبھی سب دروازے بند نہیں کرتا۔۔ ایک بند کرتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے۔۔ اگر میں نہ ہوتی تو کوئی اور ہوتا۔۔ اب تم زیادہ پریشان مت ہو۔۔ میں ذرا عصر پڑھ لوں ٹائم نکلا جا رہا ہے۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ تو کچن سے چلی گئی جبکہ پیچھے کھڑی ندرت کافی دیر تک سوچتی رہی کہ کیا واقعی عرشمان اسی ماہان عورت کا بیٹا ہے۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...