اس گھر میں میری بھی کسی کو فکر ہے بھابھی صاحبہ۔! عاصم نے دل کے پھپھولے نکالنا شروع کیے تو زینہ نے ہنسی دبا کر عاصم کو دیکھا۔۔
ویرے آج سامعہ سے بات کرتی ہوں اور تمہاری دلہنیا پھپھو کی موجودگی میں لا کر چھوڑوں گی ان شاءاللہ۔
پھپھو آپ کا کیا خیال ہے۔؟
بھئی میرا تو کچھ پتا نہیں ہے ابھی ٹکٹ میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور ان رشتے والے کاموں میں وقت درکار ہے ۔۔۔
اور ویسے بھی جیمی بار بار واپسی کے لیے بلا رہا ہے۔
پھپھو آپ کہیں بھی نہیں جا رہیں ہیں جب تک عاصم کا رشتہ نہیں ہو جاتا اور میرا ولیمہ۔!
روحیل نے دوٹوک بولا۔۔۔
روحیل بچے یہ سب کام وقت لیتے ہیں ، میں اتنا لمبا عرصہ نہیں رک سکتی ہوں۔!
پھپھو آپ میرے نکاح میں بھی شامل نہیں ہو پائیں جسکا مجھے ابھی بھی افسوس ہے مگر ولیمہ تو آپ کی غیر موجودگی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔۔
پھپھو میں کونسا لمبا چوڑا ولیمہ کر رہا ہوں بس بہت قریبی چند لوگ یا پھر زینہ کے بہن بھائی ہوں گے۔۔
ڈیڈ آپ کا کیا خیال ہے ۔؟؟
بھئی مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے ،میں تو ولیمہ نکاح کے فورا بعد ہی کروانا چاہتا تھا مگر روحیل تم خود ہی نہیں مان رہے تھے اور پھر حالات بھی یکسر بدل گئے ، تمہیں ملک سے باہر جانا پڑ گیا اور پھر باجی بھی چل بسیں۔
شمیم تم اپنی ٹکٹ کینسل کرواؤ اور سنجیدگی سے عاصم کے رشتے پر غور و فکر کرو ۔!
دونوں بھائیوں کا ولیمہ اکٹھا ہی کر لیں گے ان شاءاللہ۔۔۔
ہرےےےےےے۔!!! ارے واہ ڈیڈ۔!! آپ کے منہ میں گھی شکر ۔! عاصم نے جوش سے نعرہ لگایا۔ خالص محبتی باپوں والی خوبیاں تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔۔
بس بس چھوٹے۔! ابھی صرف بات ہو رہی ہے کوئی دلہن ڈولی میں بیٹھ کر گھر کی دہلیز نہیں پار کر آئی ہے۔؟؟ روحیل نے عاصم کو چھیڑا۔۔۔
اپنی دلہن تو چند دنوں میں بیاہ لائے ہیں اور میری دلہن لاتے ہوئے آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔؟
عاصم نے دہائی دی۔۔
زینہ بھابھی تم ابھی اسی وقت اپنی سہیلی سے میرے رشتے کی بات چلاؤ۔!!
مجھے تمہاری ہم خیال ہی لڑکی چاہئے جو صوم و صلوٰۃ اور پردے کی پابند ہو ۔۔!
کیوں نہیں ویرے۔!! میں آج ہی سامعہ کو فون کرتی ہوں۔! ابھی خوش ہو۔!!
آج نہیں بس ابھی اٹھو اور سہیلی کو فون ملاؤ۔!!
ویرے ابھی۔؟؟ زینہ نے حیرت سے عاصم سے پوچھا۔۔
ہاں تو اور کیا۔؟؟
ویرے تم حقیقتاً سنجیدہ ہو ۔؟؟
تو کیا میں غیر سنجیدہ نظر آ رہا ہوں۔؟؟
زینہ نے روحیل کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔
عاصم ابھی ہم جب اوپر جائیں گے تو زینہ کال کر لے گی اور جو جواب موصول ہوا تمہیں بزریعہ پیغام رسانی مطلع کر دیا جائے گا۔!
ڈیڈ دیکھا ہے بھیا مجھے ٹال رہے ہیں۔!! عاصم نے بچوں کی سی ضد کی تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
عاصم تم تو ایسے ضد کر رہے ہو جیسے زینہ نے لڑکی جیب میں رکھی ہوئی ہے۔!
پھپھو یہ زینہ بھابھی صاحبہ بھی میرا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔!
ہائے میں کن جذبات سے عاری لوگوں میں گرفتار ہو چکا ہوں۔!! عاصم کی دہائیاں سب اہلِ خانہ کو محفوظ کر رہیں تھیں۔۔۔
زینہ تم جاؤ اور سہیلی کو فون کرو۔ ! میں شریفاں کے ساتھ مل کر برتن سمیٹ لیتی ہوں۔!
پھپھو آپ بیٹھیں میں کر لیتی ہوں۔! بلکہ سب کےلئے چائے بھی بنا لیتی ہوں۔!
زینہ تمہاری پھپھو ٹھیک کہہ رہی ہیں تم اوپر جاؤ اور سہیلی سے بات کرو۔!
آپ بھی ساتھ تشریف لے جائیں بھیا اور جوابی کاروائی کے متعلق مجھے فوری طور پر آگاہ کریں۔! عاصم نے روحیل کو بازو سے پکڑ کر اٹھانا چاہا۔
بھابھی بولنا لڑکا خوش شکل اور خود عقل بھی ہے۔!
خوش شکل کی تو سمجھ آتی ہے مگر خود عقل سے کیا مراد ہے ویرے ہے ۔؟؟
یہ وقت سوال و جواب کا نہیں ہے تم ادھر کھڑی میری زندگی کے قیمتی پل ضائع کرنے کے در پر ہو۔
اچھا ویرے میں جا رہی ہوں۔!
عاصم۔! زینہ ابھی فون بھی کرتی ہے مگر میں سوچ رہا ہوں اسے کچھ دنوں کے لیے میرپور چھوڑ آؤں تاکہ ہم دونوں بھی زید سے ملاقات کر لیں گے اور زینہ بھی بھائی کے ساتھ چند دن گزار آئے گی۔!
پھپھو ڈیڈ آپ کیا کہتے ہیں۔؟ زینہ کو چھوڑ آؤں۔؟؟
بھئی ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جیسے تم دونوں کو مناسب لگے۔۔
ٹھیک ہے پھر مری والے منصوبے کو فی الحال ملتوی کر دیتے ہیں اور صبح میرپور کے لئے نکلتے ہیں ان شاءاللہ۔
عاصم تم بھی تیار رہنا۔! روحیل نے عاصم کو کندھے سے تھپکا۔۔۔
میں اکیلا بعد میں ڈرائیور کے ساتھ آجاؤں گا بھیا۔! آپ دونوں چلے جانا۔ میں کس لیے میاں بیوی کے بیچ میں بیوقوفوں کی طرح جاؤں۔۔! نا بابا نا ۔!!
روحیل نے عاصم کے سر پر لاڈ سے چت لگائی ۔
بس ہر وقت بولتے ہی رہنا ۔!!
تو آپ کے فائدے کا ہی بولتا ہوں ، یہ الگ بات ہے کہ آپ کو میری حکمت عملی دیر بعد سمجھ آتی ہے۔!!
عاصم کی بات پر روحیل کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔
تم نہایت بے صبرے انسان ہو۔!
جی جی جی۔ آپ کے صبر کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں آئے دن ڈیڈ کو کال کر کر کے ستایا ہوا تھا،اور جو بیچ میں مجھے سفارشی بنا رکھا تھا۔! اب جب میری باری آئی ہے تو سب نے ہاتھ اوپر اٹھا لیے ہیں۔!
عاصم میں ابھی معلومات لے کر تجھے بتاتا ہوں۔! اور تہجد شروع کر لے ، یاد ہے نا مجھے مشورے دیتا تھا تو اب یہ باتیں خود پر لاگو کر ۔۔!!!
روحیل نے عاصم کو یاددہانی کروائی اور پھر سب کو اجتماعی سلام بول کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی زینہ کو فون پر محو گفتگو پایا تو کنڈی چڑھا کر شب باشی کا لباس نکال کر غسل خانے میں گھس گیا۔۔۔
واپسی پر زینہ کو بےچینی سے اپنا منتظر پایا تو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
روحیل آپ کو پتا ہے ۔؟
کیا۔؟
آپ ادھر آرام سے بیٹھیں آپ کو بتاتی ہوں۔!
ہاں بولو۔! روحیل بیٹھتے ہی ہمہ تن گوش ہوا۔
وہ روحیل پتا نہیں آپ یا ویرے کو کیسا لگے گا ۔؟زینہ نے ہچکچاتے ہوئے سلسلہ کلام جاری کیا ۔ وہ بات دراصل یہ کہ سامعہ کے سرونٹ کوارٹر میں ایک بیوہ عورت دو ماہ سے رہائش پذیر ہے ۔
انکی اٹھارہ سالہ دو جڑواں بیٹیاں ہیں۔۔۔ زینہ کچھ دیر کے لئے ٹھہری اور روحیل کے تاثرات پڑھنے لگی۔۔
تو ۔؟؟ زینہ پوری بات بتاؤ یار۔!
وہ سامعہ کے گھر ملازمہ ہیں دو مہینے قبل انکے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ، شوہر نے اپنی پہلی بیوی اور خاندان سے چھپ کر شادی کی ہوئی تھی اور انہیں ایک کرائے کا گھر دلایا ہوا تھا بس ۔
تو ۔؟؟
تو یہ ہے کہ شوہر کی حادثاتی موت پر انکے اخراجات اٹھانے والا کوئی نہیں ہے جبھی انہوں نے سامعہ کے ہاں پناہ لی ہے اور اس کےگھر کے کام کاج کی ذمّہ داری بھی لے لی۔
بقول سامعہ کے لڑکیاں بہت سلجھی ہوئی ہیں اور ایف ایس سی تک پڑھا ہے۔اور ابھی سامعہ انہیں اپنے گھر پر دینی تعلیم دے رہی ہے۔
روحیل خاموشی سے زینہ کی بات سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
روحیل اگر یہ رشتہ ویرے کے لیے مناسب نہیں ہے تو ہم زید کے لیے پوچھ لیتے ہیں۔زینہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھ ڈالا۔۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ بھی تو اکیلا رہ گیا ہے ، اسے بھی ایک نہ ایک دن شادی تو کرنی ہے تو کیوں نا ابھی کوشش کی جائے؟؟۔!
آ ہاں کیوں نہیں۔؟ تمہیں لڑکیوں کے والد کے نام بارے میں کچھ اتا پتا ہے، میں وہاں پر بہت لوگوں کو جانتا ہوں شاید کسی سے کچھ پتا چل جائے۔
اور یہ رشتہ عاصم کے لیے مناسب کیوں نہیں ہو گا.؟؟
ووووووووہ اس لیے کہ شاید پھپھو ڈیڈ کو اعتراض ہو۔! زینہ گھبرا کر ہکلائی۔۔
تم اپنی سہیلی کو بولو بچیوں کی والدہ کو بتا دے کہ کل میں اور عاصم ان سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔
ایک مرتبہ خاندان وغیرہ کا پتا چل جائے تو پھر عاصم زید دونوں کا سادگی سے نکاح طے کر لیں گے۔
سچی۔؟؟ جوش میں زینہ اچھل کر روحیل کے ورزشی بازو کے ساتھ چپک کر بھینچنے لگی۔۔جبکہ روحیل اس اچانک لاڈ پر بھونچکا کر رہ گیا۔۔
آج بیوی صاحبہ کو مجھ ناچیز پر بڑا پیار آ رہا ہے۔ ماشاءاللہ نظر نہ لگ جائے۔! روحیل کی جذبے لٹاتی نگاہیں زینہ کو نشیلی آنکھیں جھکانے پر مجبور کر گئیں۔۔
زینہ بازو چھوڑ کر فوراً بھاگ کر صوفے پر جا بیٹھی۔
چلو جی اب آنکھ مچولی شروع ہو چکی ہے، باقیوں کی شادیاں بھی ہو جائیں گی ، اور یقیناً بچے بھی پیدا ہو جائیں مگر مجھ دل جلے کے بھاگ فی الحال جاگنے کے مواقع دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔
چلو کوئی نہیں دیر آئے درست آئے۔! روحیل نے خودکلامی کی اور چلتا ہوا زینہ کے پاس آن بیٹھا۔
بیوی صاحبہ صرف بات کی ہے تم دل پر نا لے جانا۔۔
ویسے جو تم نے ڈائری میں میرے لیے تحریر کیا تھا خود پڑھ کر سناؤ نا ۔!
بہت جی چاہ رہا ہے کہ تمہاری زبان سے ادا ہوتے یہ الفاظ میری سماعتوں میں رس گھولیں ۔
زینہ جو پہلے ہی گھبراہٹ میں اپنا پسندیدہ مشغلہ مخروطی انگلیاں مروڑنے میں غلطاں تھی فوراً پلکوں کی جھالر اٹھائی اور پھر جھکا لی۔۔
روحیل نے لمبی سانس کھینچی اور مذید بولنے کے لیے لب واہ ہی کیے تھے کہ دروازے پر ٹھک ٹھک دستک ہونے لگی۔۔
چلو جی اس گھر میں سبھی ہی میرے جذبات کے دشمن ہیں۔!
روحیل کو مجبوری سے اٹھتے دیکھ کر زینہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ جسے روحیل نے پلٹ کر ہاتھ کے اشارے سے باور کروایا کہ بھولوں گا نہیں ۔
جی فرماو چھوٹے تمہاری جان کو چین نہیں ہے اور نا مجھے چین لینے دیتے ہو۔!
بھیا کتنی مرتبہ فون کیا ہے اٹھاتے نہیں ہوتو مجھے مجبوراً آپ کی چوکھٹ پر آنا پڑا ہے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ میں ہی سب سے زیادہ ہی آپ کا خیر خواہ ہوں۔
اب زیادہ لمبی لمبی نہ چھوڑ مدعا پہ آ۔!!
میں کیا مدعا بتاؤں ؟ آپ نے ہی تو بتانا ہے سب کچھ۔.!!
مجھے اندر تو آنے دیں یار بھیا۔!
زینہ اپنی ہنسی دباتی روحیل کے عقب سے سامنے آئی۔ ویرے آؤ نا ۔!
روحیل آپ ویرے کو ساری تفصیل بتائیں نا ۔
ہاں تو میں اسے ساری تفصیل ادھر سے بتا کر رخصت کر رہا ہوں ،مجھے پتا ہے اس نے کمرے میں بیٹھ کر میلا سجا لینا ہے اور پھر اٹھنے کا نام نہیں لے گا ،صبح ویسے بھی ہمیں جلدی گھر سے نکلنا ہے ۔
عاصم منہ کے زاویے بدل کر رہ گیا۔
تو جناب عاصم صاحب آپ کی لڑکی کی والدہ سے کل ملاقات ہوگی ،اب نو دو گیارہ ہو جاؤ۔!
بھیا مجھے ساری بات بتاؤ۔!
کیوں تم نے ابھی نکاح رچانا ہے ۔؟؟
زینہ تم بتاؤ میرا مطلب بھابھی زینہ۔! عاصم جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگا جبکہ زینہ کی کھنکتی ہنسی کمرے میں جلترنگ بجانے لگی۔۔
زینہ کے نقرئی قہقہے روحیل کے دل کے تار چھیڑنے لگے۔۔
روحیل نے فوراً پلٹ کر گھورا۔۔
ویرے تم اندر آؤ میں تمہیں تفصیل سے بات بتاتی ہوں۔۔!!
ہاں ہاں تم اسے اندر بلاؤ اور پھر خود آدھی رات تک نیند سے جھولتی رہنا ، اس قصہ گو کے قصے ہی اختتام پذیر نہیں ہونگے۔! روحیل نے دانت پیس کر عاصم کو راستہ دیا۔۔۔
جئے جئے بھابھی زینہ زندہ باد ۔!
ایک ہی نعرہ روحیل بھیا میں نے کیا ہے آپ کا بگاڑا۔؟؟
روحیل نے جواب کے بجائے کن اکھیوں سے عاصم کو گھورا جبکہ زینہ کی کھنکتی ہنسی کا فوارہ دوبارہ پھوٹ چکا تھا۔۔
ویرے تم ادھر آ کر بیٹھو۔!! میرے شہزادے بھائی میں تمہیں ایک ایک بات بتاتی ہوں۔!
عاصم سینہ تان کر کونے میں پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا اور معنی خیزی سے مسکرا کر روحیل کی لاچارگی سے لطف اندوز ہونے لگا۔۔۔
زینہ جلدی سے بتا دو اس سے پہلے بھیا کا ایک پاؤ خون جل جائے۔
اپنا وقت بھول چکے ہیں کہ جب میرے سامنے دست سوال دراز کرتے تھے اور اب جب میرا وقت آیا ہے تو مجھے (پیڑی) بری ساس کی طرح ٹرخا رہے ہیں۔۔۔
چھوٹے تو یہاں بیٹھ کر باتیں نہ بھگار بلکہ باتیں سن کر نو دو گیارہ ہو جا۔۔!!
زینہ تم رہنے دو میں خود اسے خلاصہ کلام بتاتا ہوں تاکہ اسے چین کی نیند آئے۔۔۔
عاصم پانچ منٹ کے اندر مکمل بات سن کر شب بخیر بولو اور کمرے سے نکل جاؤ۔!
اور یار بھیا میں کب تاخیر کا قائل ہوں میں خود آپ کو گوشہء تنہائی فراہم کرنے کے حق میں ہوں۔ اب جلدی سے مجھے میرے مطلب کی بات بتائیں تاکہ میں جاؤں۔۔۔
روحیل نے دو منٹ سے کم وقت میں ساری تفصیلات عاصم کو سنائیں اور ساتھ ہی کمرے سے نکل جانے کا عندیہ بھی سنا دیا۔۔
ویسے بھیا کل صرف لڑکی کی ماں سے کیوں ملنا ہے ۔؟؟ ساتھ ہی لڑکی بھی دکھا دو تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو ۔!
اب روز روز میرپور جانا کونسا (سوکھا) آسان ہے ۔۔
بے صبرے انسان “(چھری تھلے ساہ لے)”چھری نیچے سانس لے۔!!
بھابھی صبح تم نے لڑکی سے مجھے ضرور ملوانا ہے ۔!! سمجھی ہونا۔؟؟
ہاں ہاں ویرے سمجھ گئی ہوں تم بےفکر ہو کر سو جاؤ ، میں پوری کوشش کروں گی۔!
کوشش نہیں کرنی بلکہ عمل کرنا ہے ۔!!
اچھا نا بول دیا ہے ، اگر لڑکی کی والدہ نے اجازت دی تو لڑکی دکھلا دوں گی ان شاءاللہ۔
ویسے بھیا آپ کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ چھری کے نیچے سانس آتی نہیں ہے بلکہ آئی ہوئی سانس بھی خشک ہو جاتی ہے ۔!
عاصم نے روحیل کو چڑایا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا جبکہ زینہ صوفے پر براجمان ان دونوں کی نوک جھونک پر محفوظ ہو رہی تھی۔۔
روحیل نے عاصم کے نکلتے ہی دروازہ کنڈی کیا اور پلٹ کر صوفے پر زینہ کے بالکل قریب آن بیٹھا۔۔
اس عاصم بےصبرے نے سارا تسلسل خراب کر دیا ہے۔
اللہ جانے اسے کب عقل آئے گی۔؟؟
روحیل نے تپ کر دل کے پھپھولے نکالے جبکہ زینہ کی ناچاہتے ہوئے بھی ہنسی نکل گئی۔۔
تم ہنس رہی ہو۔؟
جی غلطی سے ہنسی نکل گئی ہے۔! زینہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔۔
آپ یہ غمگین چہرہ درست کریں تاکہ میری دوبارہ ہنسی نہ چھوٹے۔۔۔!! زینہ نے صوفے سے اچانک اٹھتے ہوئے بولا۔۔
زینہ تم میرے صبر کو نہ آزماؤ تو بہتر ہے۔!
ہائے میں نے کیا کیا ہے ۔؟؟زینہ نے معصومیت کے ریکارڈ توڑ دیئے۔۔
تمہیں بتاؤں تم کیا کرتی ہو۔؟
ننننننننہیں مجھے نہیں سننا ۔!! آپ جہاں پر تشریف فرما ہیں وہی پر رہیں۔!! زینہ نے دور سے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا۔۔۔
روحیل سر تھام کر بیٹھ گیا۔۔!
اچھا میرا بیگ دو۔! میں آن لائن ہو کر اپنا کام تو شروع کروں ، ابھی صرف پندرہ منٹ باقی ہیں ، روحیل نے کلائی پر بندھی بیش قیمت گھڑی کو دیکھا۔
جی بہتر۔ زینہ نے اپنی جان بخشی پر سکھ کا سانس لیا اور فوراً سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا۔۔
الماری میں پڑا لیپ ٹاپ بیگ نکال کر پلٹی تو روحیل بستر پر براجمان تھا۔۔
آپ یہاں پر بیٹھیں گے؟؟
جی کوئی اعتراض ہے کیا۔؟
ننننننننہیں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔ زینہ نے روحیل کے بدلتے تیور دیکھ کر تھوک نگلا۔۔
لگتا ہے میں نے ہنس کر انہیں غصہ دلا دیا ہے ، بہتر ہے فوراً معافی مانگ لوں۔
روحیل ۔!
جی فرماؤ۔! روحیل لیپ ٹاپ کھول کر پھرتی سے ٹائپنگ شروع کر چکا تھا۔۔
ہائے غصے میں ہیں۔۔۔زینہ کی رہی سہی ہمت بھی جواب دینے لگی۔۔۔
روحیل۔!! بستر کی پائنتی پر ٹکی زینہ نے ڈرتے ڈرتے دھیمے لہجے میں دوبارہ پکارا۔۔
جواب کے بجائے روحیل نے کڑی نظروں سے زینہ کو دیکھا۔۔
وہ آپ میرے سے ناراض ہیں کیا .؟؟؟
زینہ بہتر ہے مجھے تنگ نہ کرو اور خاموشی سے اپنی جگہ پر جاکر سو جاؤ۔! میرا کام جلدی نپٹ گیا تو رات کے دو بھی بج سکتے ہیں ورنہ فجر کے بعد چند گھنٹے سونے کو ملیں گے۔۔
ٹھیک ہے میں سو جاتی ہوں مگر آپ مجھ سے خفا نہ ہوں پلیز۔! زینہ کی نشیلی آنکھیں چھلکنے لگیں تو فوراً گال رگڑ ڈالے۔
روحیل نے خشمگیں نظروں سے گھورا مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لیپ ٹاپ بستر سے ملحق دراز پر رکھا اور پائنتی پر ٹکی زینہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔
میرے صبر کا امتحان کیوں لیتی ہو۔؟؟ اب یہ رونا دھونا بند کرو۔! نجانے تمہاری آنکھوں میں پانی کا کتنا بڑا ذخیرہ نصب ہے جو روزانہ جھرنے بہاتا ہے ۔
روحیل کے ساتھ لپٹی زینہ نے یکدم روحیل کو پیچھے دھکیلا اور گویا ہوئی۔
آپ نے مجھے کچھ دیر قبل صرف “جی” سے مخاطب کیا تھا ؟؟
تو ۔؟؟ روحیل نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔۔
آپ مجھے جان روحیل کہہ کر پکارتے تھے مگر ابھی ایسا نہیں کیا۔!
میں آپ سے ناراض ہوں۔!
روحیل ہونک بنا زینہ کی شکوہ کنائی پر مسکرا کر رہ گیا۔۔
تمہیں میرے جان نہ پکارنے پر کس قدر اذیت پہنچی ہے اور جو مجھے اذیت سے دوچار کیا ہوا ہے، اس کا تو تمہیں رتی برابر ملال نہیں ہے۔۔؟
“یعنی چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔!”
خیر ابھی خاموشی سے اپنے کونے کی طرف چلی جاؤ اس سے پہلے میرے ارادے بدل جائیں۔!
نہیں جاؤں گی جب تک جان روحیل نہیں بولیں گے۔! زینہ نے منہ بسور کر بولا تو روحیل کا فلک گیر قہقہہ بلند ہو گیا۔۔”میری بلی مجھی کو میاؤں.!”
ایک تو تمہاری شکل اس قدر معصوم ہے اور اوپر سے جو تمہارے جان لیوا مطالبات ہیں ۔!!
جان روحیل محترمہ بیوی صاحبہ ، محبوبہ صاحبہ ، خشک مزاج صاحبہ اور میرے ارمانوں کی قاتل ہٹلر صاحبہ ابھی اچھے بچوں کی طرح سو جاؤ اور مجھے میرا کام کرنے دو۔!
ورنہ۔!!!
کوئی ورنہ شرنہ نہیں ہے۔میں سونے جا رہی ہوں۔! زینہ پھدک کر بستر کی پائنتی سے اٹھی۔۔
اچھا جان روحیل کمرے کی بڑی بتی بند کرو ، میں اس طرف سے یہ چھوٹا لیمپ جلا لیتا ہوں۔!
جی بہتر ۔!!
اور ہاں تمہاری تحریر کل دوران سفر تمہاری زبانی سنوں گا۔! کوئی بہانا نہیں چلے گا وگرنہ سزا ملے گی۔!
جی جناب جو حکم ۔! کنیز حاضر ہو گی ان شاءاللہ۔!!
ہا ہا ہا روحیل نے ہنستے ہوئے سر اونچا کر کے بستر کی بیک سے ٹکا کر لیپ ٹاپ اپنی گود میں رکھ لیا اور برق رفتاری سے ٹائپنگ میں مصروف ہو گیا جبکہ زینہ خاموشی سے بستر کے ایک کونے میں لیٹ گئی اور اذکار مسنونہ سے فراغت کے بعد کروٹ بدل کر دل کے مکین کو کام میں مشغول پاکر اس کا بغور جائزہ لینے لگی۔۔
کس قدر باکا سجیلا سا ہے ، چہرے کے نقوش سے لے کر دودھیا رنگت کے ساتھ گھنی کالی سیاہ داڑھی اس شخص کی شخصیت کو کس قدر رعب دار بناتی ہے۔مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ شب باشی کے سادہ سے جوڑے میں بھی اس شخص کی شخصیت کتنی نکھری نکھری لگ رہی ہے۔۔ماشاءاللہ۔
روحیل مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دیں۔زینہ اپنے خیالوں میں گم خودکلامی کرتی ، ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔
روحیل کو نظروں کی تپش کا احساس ہوا تو فوراً اپنی بائیں جانب لیٹی دشمن جاں کو دیکھا ۔
روحیل کے دیکھتے ہی زینہ نے اپنی چوری پکڑے جانے پر فوراً آنکھیں سختی سے بند کر لیں۔۔
زینہ ۔! جی بھر کر دیکھ لو۔!! میں منع تھوڑی کرتا ہوں۔!
ساکت پڑی زینہ نے بند آنکھوں میں ہی عافیت جانی اور سوتی بن گئی۔۔۔ بالآخر آدھے گھنٹے کی تگ و دو کے بعد نیند مہربان ہو گئی۔
چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھے روحیل نے زینہ کی مدہوشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی نظروں کی پیاس بجھانا شروع کر دی۔
خم دار پلکوں کی جھالر خوابیدگی کے زیر اثر تھی۔ معصوم نورانی چہرہ مدھم روشنی میں بھی دھمک رہا تھا۔۔۔
ہائے زینہ جان روحیل تم میری ہو کر بھی مجھ سے کوسوں دور ہو۔! حق بجانب رکھتے ہوئے بھی تم میری دسترس میں نہیں ہو ۔
ہائے میرے ماضی کے وہ گناہ میرے حال پر حاوی ہیں۔
یا اللہ مجھے ثابت قدمی عطا کر اور میرے دل میں صبر سرائیت کر جائے آمین۔۔
میری زینہ کو آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ میرے وجود کا لباس بنا دے آمین۔۔
روحیل نے دکھی دل کے ساتھ دعا مانگی اور دوبارہ دل پر پتھر رکھ کے اپنے کام میں جت گیا۔۔
کام کے دوران بھی گاہے بگاہے اپنی نگاہوں کو خیرہ کرنا نہ بھولا۔
رات سرکنے لگی، آنکھیں تھکنے لگیں، نیند غالب آنے لگی۔ کام کی آخری فائل مکمل کرکے بنا آہٹ پیدا کیے لیپ ٹاپ بستر سے ملحق دراز پر رکھا اور تھکن زدہ آنکھیں مسل کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔۔
******************************************
ہائے زینہ بتا نا دلہا بھائی کیسے ہیں ۔؟؟
سامعہ میری سوچ سے بھی زیادہ اچھے ہیں ماشاءاللہ۔
آئے ہائے ماشاءاللہ ۔! زینہ میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں۔!
زینہ نے شرما کر گردن جھکا لی۔
ابھی تو میری بنو شرماتی بھی ہے۔!
ہاں سامعہ مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے۔!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا سامعہ کا فلک گیر قہقہہ بلند ہوا۔
زینہ تمہیں یاد ہے جب ہم دونوں نے دلہا بھیا کی خوب مٹی پلید کی تھی۔۔
جی اور انکے پاس وہ سارے ثبوت موجود ہیں۔!
کیا ۔؟؟
یہ جب بھی ہم سے ہمکلام ہوئے ہیں ساتھ فون بھی ریکارڈنگ پر رکھتے تھے۔
وہ کس لیے تاکہ وہ بار بار مجھے سن سکیں ، انہیں میرے کڑوے کسیلے جملوں سے بھی محبت ہو گئی تھی۔۔۔
“واہ رے نرالی محبت اور اسکے قواعد و ضوابط۔”سامعہ نے مسکراتے ہوئے بولا۔۔
سامعہ جیسے میں نے سمجھا تھا انکی عادتیں بالکل بھی ویسے نہیں ہیں،وہ تو بس بری صحبت انہیں لے ڈوبی تھی ، سامعہ میں نے انکو ہر لحاظ سے پرکھا ہے ، یہ اپنی بات کے پکے ہیں اور خود پر ضبط رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ مطلب دوبارہ گناہوں میں پڑنے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ان شاءاللہ۔
سچی توبہ کر چکے ہیں الحمدللہ ۔۔
اللہ انہیں ثابت قدم رکھے آمین۔۔
تمہاری یہ تمام باتیں درست ہیں زینہ مگر شوہر کے حقوق و فرائض سے پہلو تہی نہ کرنا۔!!
یہ نا ہو ہمارے روحیل بھائی کو پرکھتے پرکھتے خود گناہوں میں ڈوب جاؤ۔!
ارے نہیں سامعہ مجھے سب پتا ہے ، اور میں نے ان سے واضح بات بھی کی تھی کہ مجھے اس رشتے کو قبول کرنے کیلئے وقت درکار ہے جو انہوں نے بخوشی قبول بھی کیا تھا۔۔
اس وقت تو قبول کر لیا تھا مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ تم ہر وقت اپنی من مانی کرتی پھرو۔۔!
اپنی من مانی نہیں کروں گی سامعہ۔! تم بس ہمارے اس پاکیزہ بندھن کے لیے خیر و برکت کی دعا کرو بس۔!!
زینہ تم میری دعاؤں میں ہو میری شہزادی۔!!
ابھی بلاؤ نا اپنی ان لڑکیوں کو اور ان خالہ کو جن کے بارے میں رات ذکر کیا تھا، ویرے نے تو روحیل کے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔۔
ویر تو آج ہی لڑکی سے ملنے کا خواہشمند ہے۔۔
ابھی تو تم آئی ہو ، سانس تو لے لو۔!
سامعہ روحیل باہر گاڑی میں میرے منتظر ہیں۔
تو انہیں اندر بلاؤ نا ۔!
نہیں سامعہ وہ اس وقت تک گھر کے اندر نہیں آئیں گے جب تک تمہارے ابو نہیں لوٹ آتے ہیں۔۔
روحیل چاہ رہے کہ تمہارے ابو کی گھر موجودگی میں خالہ سے ملاقات کریں۔۔۔
اچھا چلو جیسے تمہیں بہتر لگے مگر ایسے باہر گاڑی میں بیٹھے رہنے سے بہتر ہے وہ مہمان خانے میں اکیلے آکر بیٹھ جائیں۔۔
سامعہ وہ بس میری ہاں ناں کے منتظر ہیں پھر وہ زید کی ورکشاپ پر چلے جائیں گے۔۔۔۔
میں خالہ اور لڑکیوں کو بلواتی ہوں تو آرام سے ان سے بات چیت کر کے اطمینان کر لو ، ویسے انکی آپ بیتی بھی بہت دردناک ہے یار۔۔
ہاں یار۔! مرد پتا نہیں کیوں دوسری شادی کر کے بھول جاتے ہیں اور دوسری بیوی بچوں کو انکا جائز حق نہیں دیتے ہیں۔۔
نہیں زینہ خالہ کے میاں بیوی بچیوں کے حق میں بہت اچھے تھے مگر اپنی وصیت میں کچھ کوتاہی کر گئے ہیں، اب تو فوت شدہ کو انکی کمی کوتاہی کے بارے میں بات کرنا بھی درست نہیں ہے۔۔
یہ لو میری امی بھی آ گئی ہیں، تم بیٹھ کر باتیں کرو ، میں خالہ اور لڑکیوں کو بلواتی ہوں۔
زینہ سامعہ کی امی کے ساتھ گرمجوشی سے سلام دعا کے بعد باتوں میں مشغول ہو گئی۔۔
سامعہ کی امی کے ساتھ گفتگو کے دوران ہی ابو بھی گھر لوٹ آئے جس پر زینہ نے اہل خانہ سے اجازت لے کر روحیل کو سامعہ کے گھر کے اندر بلوا لیا۔۔
اٹھارہ سالہ سادہ شرمیلی سی لڑکیاں زینہ کو بھاہ گئیں، دونوں بہنیں سلیقے سے سر پر دوپٹہ جمائے سمٹی بیٹھی تھیں۔۔
زینہ نے انکی والدہ سے چند بنیادی باتیں پوچھیں اور روحیل سے ملاقات پر مصر ہوئی۔۔
خالہ دراصل میرے دیور نے دبئی لوٹ جانا ہے جسکی بنا پر میرے میاں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں، میرے سسر اور پھپھی ساس بھی آپ سے آکر ملاقات کریں گے مگر فی الحال میرے میاں چند بنیادی باتیں آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔۔۔
کوئی بات نہیں ہے بیٹی ، میں تمہارے شوہر سے ضرور ملوں گی ، میں بھی کچھ پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہوں ، بن باپ کے بیٹیاں ہیں تو میں بھی تسلی کر کے ہی کوئی قدم اٹھاؤں گی۔۔
جی جی خالہ ضرور۔!
خالہ آپ انکو اپنے ساتھ لے جائیں۔ زینہ نے منت طلب نظروں سے سامعہ کی امی کو دیکھ کر بولا۔
اوپر سے عاصم کے پیغامات کی بھرمار زینہ کے ہاتھ پاؤں پھلا رہی تھی۔۔
دونوں بزرگ خواتین کے جاتے ہی زینہ نے عاصم کو جوابی پیغام بھیجا۔
ویرے تسلی رکھو تمہارے والی دوسری بہن سے آدھا گھنٹہ بڑی ہے اور تمہیں یقیناً پسند آئے گی۔
اچھا اگر میرپور پہنچ آئے ہوتو سیدھا سامعہ کے گھر پر آؤ ، میں مکمل پتہ بھیجتی ہوں۔۔
سامعہ جلدی سے اپنا مکمل پتہ ادھر ٹائپ کرو۔! زینہ نے سرعت سے اپنا فون سامعہ کو پکڑا دیا۔۔
ضروری پیغام کی ترسیل کے بعد زینہ نے سکھ کا سانس لیا اور دونوں دوشیزاؤں کی طرف متوجہ ہو گئی۔۔۔۔
اوہ اب آپا فون کر رہی ہیں۔ سامعہ میں کچھ دیر آپا سے سلام دعا کر کے آتی ہوں ، آپ لوگ بیٹھو۔!
جی آپا کیسی ہیں آپ۔؟
یقین کرو آپا بالکل بھی فرصت نہیں ملی آپ کے میرپور لوٹتے ہی اسی رات روحیل کی واپسی ہوئی ہے پھر وقت ہی نہیں ملا ہے۔۔
آپا آپ سناؤ کوئی نئی تازی۔؟
زینہ میں نے کیا سنانی ہے نئی تازی ۔؟ پہلے ذیشان کو تمہاری شادی پر اعتراض تھا اور اب جب سے تمہارا گھر بار دیکھ کر آئے ہیں ، آئے دن میری جان کو سیاپا پڑا ہوا ہے۔
کیوں آپا۔؟؟
بھئی عالیشان کاریں ، کوٹھی اور آرام دہ فرنیچر کے ساتھ نوکر چاکر دیکھ کر دل پھینک لوگوں کا جی للچا جاتا ہے۔
پر آپا یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے ،میں نے تو کبھی بھی اس آسائش کی چاہ نہیں کی تھی ، میں تو صاحب دین کی متمنی تھی۔ یہ سب نعمتیں تو مجھے بن مانگے اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر ملیں ہیں۔ اور شاید آزمائش بھی اگر میں ان تمام چیزوں کا صحیح استعمال نہیں کروں گی تو آخرت میں میرے گلے کا طوق بھی بن سکتی ہیں یہ سب چیزیں۔۔۔
زینہ میرے شوہر صاحب اب مجھے یہ کہہ کر تنگ کرتے ہیں کہ اپنی بہن سے بولو کہ روحیل مجھے کاروبار بڑھانے کے لیے پیسے دے۔
آپا ۔۔! سنتے ساتھ ہی زینہ کا خون کھول گیا۔۔۔
آپا میری شادی کو بمشکل تیسرا ہفتہ شروع ہوا ہے اور میں مرتی مر جاؤ گی پر کبھی بھی روحیل سے پیسوں کی بات نہیں کروں گی۔
آپا آپ جانتی ہو کہ ذیشان بھائی نے نکاح والے دن میرے اوپر کس قدر گھٹیا الزامات لگائے تھے اور کس قدر توہین آمیز انداز میں میرے سسرالیوں سے پیش آئے تھے۔۔
کیا وہ لوگ ایسے بداخلاق لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنا پسند کریں گے۔؟؟ آپ میرے گھر تین دن قیام کر کے آئی ہو ، میرے سسرال کے اٹھنے بیٹھنے اور اخلاق سے اچھی طرح واقف ہو۔۔
آپا آپ میرے سے بڑی ہو ۔! خود سوچ کر بتاؤ ، اگر آپ میری جگہ ہوتی تو کیا کرتی۔؟؟
زینہ میں تمہاری جگہ میں ہوتی تو میں بھی وہی کرتی جو تم کر رہی ہو ، لالچ ہماری تربیت کا حصہ نہیں ہے۔۔۔ ہماری ماں نے ہمیں خوداری سکھائی ہے۔۔
مگر زینہ اس شخص نے میرا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔۔
آپا اگر ذیشان بھائی دوبارہ بولیں تو انہیں کہو خود روحیل سے رابطہ کریں ، روحیل ایسے لوگوں کے ساتھ نپٹنا بہت خوب جانتے ہیں۔۔۔
ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی زینہ ۔
زینہ مجھے پتا ہے میرے لاکھ سمجھانے اور بتانے پر بھی یہ شخص نہیں سمجھنے والا ہے ، میں تو ہر وقت یہی دعا کرتی ہوں اللہ اس شخص کو سمجھائے اور اسے ہدایت دے۔ آمین۔ یہ شخص میرے گلے میں پھنسی ہڈی کی طرح ہے ، نا نگل سکتی ہوں اور نا ہی گلے میں اسکی موجودگی کی اذیت سہہ سکتی ہوں۔۔۔
آپا دل نہ جلاؤ ۔!! دیکھو میری دعائیں کیسے رنگ لائی ہیں ، آپ بھی ایسے ہی دعائیں مانگا کرونا ۔! شادی سے قبل تو آپ عبادت میں اس قدر کمزور نہ تھیں آپا۔
ہاں زینہ آہستہ آہستہ میں کوشش کر رہی ہوں کہ امی کے گھر والی عادت اپنا لوں ان شاءاللہ۔
اچھا آپا بات اپنے تک ہی محدود رکھنا۔
میں ادھر ویرے اور زید کے رشتے کے سلسلے میں سامعہ کے گھر پر موجود ہوں ، مجھے آج روحیل زید کے پاس چھوڑ جائیں گے لہٰذا آپ بھی آ جانا تینوں بہن بھائی چند دن اکھٹے گزار لیں گے۔۔
ہاں یہ رشتے والی بات تو خوب کہی ہے ، میں خود یہی سوچ رہی تھی کہ زید کو شادی کی اشد ضرورت ہے۔ پر کچھ اتا پتا بھی بتاؤ نا۔!
یہ تمام باتیں رات جب آؤں گی تو بتاؤں گی ان شاءاللہ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ابھی میں زید کو فون کرتی ہوں کام سے واپسی پر مجھے لیتا ہوا جائے۔
اچھا ٹھیک ہے آپا۔
الوداعی سلام کے بعد زینہ نے فون پرس میں ڈالنا چاہا تو سکرین پر روحیل کا پیغام جھلملا رہا تھا۔
“زینہ میری ہٹلر بیوی بہت یاد آ رہی ہو ، ابھی جی چاہ رہا ہے تمہیں یہاں چھوڑنے کا فیصلہ غلط تھا۔
پتا نہیں میرے اتنے سارے دن تمہارے بغیر کیسے کٹیں گے۔؟”
زینہ کے چہرے میں میٹھی مسکراہٹ بکھر گئی۔
“جناب۔! صبر اور حوصلہ رکھیں۔! ملک سے باہر بھی تو چار دن گزار آئے تھے ، یہ دن بھی کٹ جائیں گے۔”
اور آپ خالہ سے بات چیت کریں ،فون پر کیوں چپکے ہوئے ہیں۔؟
“خشک مزاج بیوی جی خالہ ابھی عاصم سے سوال و جواب پوچھ رہی ہیں تو میرا بیچ میں چمچہ گری کرنا بنتا نہیں ہے۔۔”
اچھا میں ان لڑکیوں سے کچھ پوچھ گچھ کرتی ہوں ،مجھے اجازت دیں۔
اے۔!
جی۔!
مجھ سے محبت کرتی ہو نا ۔؟؟
“جی بےتحاشا بےحساب۔!”ابھی راستے میں ڈائری پڑھ کر نہیں سنائی تھی کیا۔؟ وہ بھی میرا ہی تحریر کردہ تھا۔!”
ابھی دوبارہ جی چاہ رہا ہے پڑھنے کو اسی لیے پوچھ لیا ہے۔!
ابھی تصدیق کر لی ہے تو رات کو نیند اچھی آ جائے گی ان شاءاللہ۔
اے میرے خوابوں کی شہزادی۔! نا رکو نہ پلیز.!تمہارا آس پاس ہونا ہی میرے لیے عظیم نعمت ہے۔۔!
اچھا ۔! نہیں رکتی۔! ابھی خوش۔؟
پر آپا اور زید کو رکنے کا بتا دیا ہے وہ لوگ بہت غمگین ہوں گے ، آپا آج شام میری خاطر زید کی طرف آ رہی ہیں۔!
اور وہ ذیشان۔؟ روحیل کی رگیں تن گئیں۔
ارے وہ نہیں آئیں گے ، زید آپا کو خود لائے چھوڑے گا ان شاءاللہ۔
اگر آپ نہیں چاہتے تو ہم کچھ دیر بیٹھیں گے اور پھر رات کو اسلام آباد لوٹ جائیں گے۔!
ابھی خوش ہو جائیں۔زینہ نے بڑا سا دل اور گلاب کا پھول بھیج کر فون پرس میں ڈال دیا اور سامعہ کے چھوٹے مہمان خانے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
*****************************************
خالہ جی میرے والد صاحب اور پھپھو ہی ہیں جو آپ کے پاس تشریف لائیں گے ان شاءاللہ۔باقی ہمارے کنبے میں اور کوئی بھی نہیں ہے جس سے آپ مل سکیں۔۔ہمارا چھوٹا سا خاندان ہے۔۔
فی الحال آپ صرف ہمیں اپنے شوہر کے نام پتہ بتا دیں۔
ہمارے بارے میں آپ ان خالہ اور چچا جان سے پوچھ سکتے ہیں، انکے داماد عبد السمیع بھی ہم دونوں بھائیوں کو جانتے ہیں۔ روحیل نے ادب و احترام سے وضاحت دی۔۔
آپ کے شوہر نے اپنے خاندان کے بارے میں آپ کو کبھی کوئی تعارف کروایا ہو۔؟
میرا مطلب ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے بہن بھائیوں کا تذکرہ نہیں کیا یا پھر اپنی پہلی بیوی بچوں کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔؟
بیٹا میں خود یتیم خانے میں پلی بڑھی ہوں ، میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے، یہ خدا ترس انسان تھے ، یتیم خانے صدقے کے پیسے دینے آئے تو اس ادارے کے نگران خواتین و حضرات نے انہیں نکاح کی ترغیب دلائی تو مان گئے مگر انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں انکے خاندان کے ساتھ ملنے کی ضد نہیں کروں گی ، شاید وہ جانتے تھے کہ انکا خاندان مجھے قبول نہیں کرے گا۔۔ بہرحال انہوں نے مجھے بہت عزت احترام سے ایک گھر کرائے پر دلایا اور پھر اللہ نے شادی کے ایک سال بعد دو جڑواں بچیوں سے نوازا ،
جنہیں میرے میاں نے بہت محبت سے پالا، روز تو نہیں آتے تھے مگر ہفتے میں ایک بار ضرور چکر لگاتے اور ہماری ضرورت کی ہر چیز مہیا کرتے تھے۔
وقت گزرتا گیا ، میں بھی انکی دی گئی چھت اور انکی طرف سے مہیا کیے گئے رزق پر مطمئن تھی ، بچیاں اچھے کالج میں پڑھ رہی تھیں
_
خالہ جی انکا کیا نام تھا۔؟؟
بیٹا انکا نام طاہر شبیر تھا ۔
انکا پورا نام طاہر شبیر بالم تھا ۔؟؟
جی بیٹا بالکل وہی نام ۔
کیا آپ انکی بیوی اور اولاد کے بارے میں جانتی ہیں۔؟؟
بیٹا میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ انکا ایک ہی بیٹا منیب ہے جو میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا اور نا ہی انہوں نے مجھے اتنا کریدنے کی اجازت دی تھی۔۔
بیٹا میں تو شکر گزار تھی کہ عزت سے مجھے اور میری بیٹیوں کو چھت اور ضروریات زندگی پورا کر رہے ہیں۔۔
انہوں نے اپنے کام وغیرہ کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا۔؟
صرف اتنا جانتی ہوں کہ بڑے تاجر تھے ، کاروباری شخصیت تھے اور بس ۔
تو انہوں نے وراثت میں آپ کے لئے کچھ نہیں چھوڑا جو آپ یوں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔؟؟ کوئی بینک میں پیسہ یا پھر کسی قسم کی کوئی اور زمین جائیداد وغیرہ۔؟؟
بیٹا میں نے کبھی مطالبہ ہی نہیں کیا ،میں نے سوچا مجھے ہر چیز مہیا کر رہے ہیں تو پھر فضول گوئی نہ کی جائے۔ ہفتے میں ایک دن چند گھنٹوں کے لیے آتے تھے تو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ انہیں خواہ مخواہ پریشان کروں۔
انہیں فون کرنے کی اجازت بھی ہمیں صرف کسی ہنگامی صورت میں تھی وگرنہ ہم لوگ خود سے ان سے رابطے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔۔
بیٹا انہیں برا مت سمجھنا ، وہ اچھے انسان تھے مگر شاید اپنی پہلی بیوی بیٹے کے روٹھ جانے سے خائف تھے۔
آپکو انکی موت کے بارے میں کیسے پتا چلا۔؟
انکی موت کے ایک ہفتے بعد۔!!
جب وہ اپنے مقررہ دن ہمیں ملنے نہیں آئے تو ہم ماں بیٹیوں نے سوچا شاید کوئی ضروری کام پڑ گیا ہے بس یہی سوچ کر انتظار کیا۔۔ ویسے بھی انہوں نے زلزلے کے بعد آنا جانا بہت کم کر دیا تھا ،یہی کہتے تھے کہ بہت مصروف ہوں ،نہیں آ پاؤں گا ۔ مجھے تو وہ ضرورت سے زیادہ پریشان دکھائی دیتے تھے مگر پھر وہی بات کہ میں انہیں کریدنے سے ڈرتی تھی کہ کہیں ہم سے اکتا نہ جائیں۔۔ اور ہمیں بالکل ہی چھوڑ کر نہ چلے جائیں۔
جوان بیٹیوں کی ماں ہوں ، بہت سوچ سمجھ کر زندگی گزاری ہے۔۔
اللہ بھلا کرے سامعہ اور عبد السمیع کا جنہوں نے مجھے بچیوں کے کالج کے باہر روتے دیکھ کر پوچھا تو میں انہیں اپنے گھر لے گئی اور تمام حالات سے آگاہ کیا اور آج میں آپ سب کے سامنے ہوں۔۔
کیا آپ جانتی ہیں کہ انکا بیٹا منیب انتقال کر چکا ہے اور اسکے انتقال کے بعد انکی بیوی بھی چل بسی تھیں۔۔؟
بزرگ خاتون شدت غم سے تڑپ اٹھیں ۔ نہیں بیٹا مجھے انہوں نے بالکل بھی نہیں بتایا۔۔۔
انکے انتقال کی تصدیق بھی کسی اجنبی شخص نے کی تھی جب میں بار بار انکے فون پر کال کر رہی تھی۔۔
ممانی جان وہ میں تھا۔! جب آپ نے میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ ماموں آپ کے گھر راشن ڈلوا کر دیتے تھے ، میرے اصرار پر بھی آپ نے اپنا اتا پتا دینے سے انکار کر دیا تھا۔
طاہر شبیر بالم ہمارے سگے ماموں تھے۔ بےشک انہوں نے ہمیں سب کو آپکے بارے میں بالکل بےخبر رکھے رکھا ہے اور آج سے ہم آپکو خالہ نہیں بلکہ ممانی کہہ کر پکاریں گے۔۔ میں اللہ کی حکمتوں اور مصلحتوں پر حیران ہوں کہ کیسے اللہ نے آپکو ماموں کے خاندان کے ساتھ دوبارہ جوڑ دیا ہے۔۔
بزرگ بیوہ کی آنکھیں فرحت جذبات میں برسنے لگیں، آگے بڑھ کر عاصم اور روحیل کے سروں پر دست شفقت رکھا۔۔۔
ممانی آپ پریشان نہ ہوں۔!!
بیٹا میں خوف زدہ تھی نجانے انکا خاندان کیسا ہے ، میرے لیے مزید مشکلات نہ پیدا کر دے۔۔ بس اسی خوف سے انکے گھر کی دہلیز پار نہیں کی کہ کہیں میری بیٹیاں بھی میرے سے چھین لی نہ جائیں۔۔۔
سامعہ کے والد والدہ بھی اس انوکھے ملن پر غمزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سرشار بھی تھے ۔۔۔
عاصم روحیل نے ایک دوسرے کو حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔۔
ہمیں آپ کی دونوں بیٹیوں کے رشتے منظور ہیں ممانی جان۔!! بڑی کا رشتہ عاصم کے لیے اور چھوٹی کا رشتہ میرے سالے کے لیے منظور کر لیں ۔
میں کچھ ہی دیر میں اپنے سالے کو یہاں پر بلوا لیتا ہوں ، آپ اس سے بھی مل کر تسلی کر لیجیے گا۔۔
کل ہمارے ڈیڈ اور پھپھو تمام معاملات مل بیٹھ کر طے کر لیں گے اور ماموں کے تمام اثاثے میرے زیر نگرانی ہیں ، میں آج ہی انکے گھر کے کرایہ داروں کو گھر خالی کرنے کا پیغام بھیجتا ہوں ۔ اور باقی ماموں کی جائیداد سے وصول ہونے والے کرائے کی آپ اور آپکی بیٹیاں حقدار ہیں۔۔
گھر جیسے ہی خالی ہو آپ اپنے گھر منتقل ہو جائیں گی اور اس سب کا انتظام کرنا میری ذمہ داری ہے۔۔۔ان شاءاللہ۔
مجھے افسوس ہے آپ نے اس قدر کٹھن حالات کا سامنا کیا ہے مگر اللہ سب سے بڑا کارساز ہے جو اس اکیلے پر توکل رکھنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔۔۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
” اور آپ سے یتیموں کے بارہ میں بھی سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجۓ کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائي ہیں اللہ تعالی بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے ، اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہيں مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ تعالی غلبہ والا اورحکمت والا ہے۔” (البقرۃ:220 ) ۔
اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ مرافقت کا سبب بتایا ہے کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ رہے گا ۔
سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کرکے اشارہ کیا۔”(صحیح بخاری حديث نمبر:4998 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
“یتیم کی کفالت کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو یتیم کی ضروریات پوری کرے اس کی تعلیم و تربیت، کھانے پینے اور لباس کا خیال رکھے اور دیگر امور کی دیکھ بھال کرے، نیز یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو اپنے ذاتی مال سے یتیم کی کفالت کرے یا شرعی کفالت کے تحت یتیم کی کفالت کرے۔”
ممانی پر تمام حقائق جان کر رقت طاری ہو چکی تھی ، اللہ کی وسیع رحمت پر دل بھر آیا۔۔
ممانی میرے سالے زید کو خالہ چچا اچھی طرح جانتے ہیں ، محنتی اور ایماندار لڑکا ہے۔۔ماموں کی تمام جائیداد کی ایمانداری سے دیکھ بھال وہی کر رہا ہے۔
بیٹا اللہ تمہیں بہت اچھی جزا دے آمین۔
پر بیٹا بچیاں لڑکوں کو ایک نظر دیکھ لیں اور پھر گھر کے بڑے بزرگوں کو بھی بلوا لو۔ ممانی نے آنسوؤں سے تر چہرے کو دوپٹے کے پلو سے رگڑ کر صاف کیا ۔
بیٹا گھبراؤ نہیں میں رشتوں سے انکاری نہیں ہوں مگر بیٹا بچوں کا ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھنا تو بنتا ہے آخر ساری زندگی اکھٹے گزارنی ہے۔۔۔
اوہ یار بھیا مجھے لڑکی تو دیکھنے دیتے نا۔! عاصم نے کلس کر سوچا مگر سب بزرگوں کی موجودگی میں خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔۔ روحیل کو محو گفتگو پاکر عاصم نے فوراً زینہ کو پیغام رسانی شروع کر دی ۔
زینہ کیا دونوں جڑواں لڑکیاں ہم شکل ہیں۔؟
جو آدھا گھنٹہ بڑی ہے شکل وصورت کی کیسی ہے ؟؟
زینہ کا فون تھرتھرایا تو فوراً نکال کر دیکھا۔
ہائے اس ویرے کو چین نہیں ہے۔
“دونوں ہم شکل نہیں ہیں اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بڑی والی کی شکل مجھے تمہارے کزن سے ملتی جلتی لگ رہی ہے۔ منیب جیسی بڑی بڑی آنکھیں ہیں۔ ویرے اب یہ پیغام رسانی بند کرو ، یہ لوگ کیا سوچیں گے کہ میں انکو نظر انداز کر کے خود فون پر مصروف ہوں۔۔”
زینہ بھابھی ادھر تو تمہارے شوہر نے بنا لڑکی دکھائے رشتہ پکا کر دیا ہے۔
عاصم نے زینہ کو حال دل بتانا واجب سمجھا۔۔
ویرے بولا ہے نا لڑکی پیاری ہے تمہارے ماموں زاد سے بہت مماثلت رکھتی ہے، میں تو اس بات پر بہت حیران ہو رہی ہوں۔۔۔
زینہ بھابھی بنا کسی حیلہ بہانا کے مجھے لڑکی دکھانے کا کوئی حل نکالو ۔اور اسکا نام تو بتا دو۔!! دودھ شریک بہن کا کیا فائدہ اگر بھائی کے چھلنی دل پر پھاہے نہ رکھ سکے۔۔؟
زینہ نے عاصم کی حالت زار پر بمشکل ہنسی دبائی۔۔
دل چھوٹا نہ کر ویرے ۔! تمہارے والی کا نام سویرا طاہر ہے اور چھوٹی والی کا نام سندس طاہر ہے ۔!!
“ہائے میری صبح سویرا پر ڈھیروں سلام ۔!! ماں صدقے ماں واری جائے۔!”عاصم نے مسکراتے ہوئے پھلجھڑی چھوڑی۔۔
زینہ نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔۔
زینہ یہ بھری مجلس میں دلہا بھائی کے ساتھ عشق لڑایا جا رہا ہے۔؟؟
ارے نہیں سامعہ یہ تو میرا ویر ہے ۔!! زینہ نے ذومعن نظروں سے شرمیلی سی سویرا کو دیکھ کر سامعہ کو اشارتاً سمجھا دیا۔۔