اکتوبر ۱۸۴۴ء کے ’’ایشیاٹک جرنل‘‘ میں کرنل گارڈنر کے یہ حالات اور ایک دلچسپ مُغلیہ شادی کی کیفیت ایک لیڈی نامہ نگار کی طرف سے شائع ہوئی تھی:
’’کرنل گارڈنر جو معزز خاندان نواب گارڈنر میں سے ہیں، سرکاری ملازمت کی تقریب سے ہندوستان میں آئے تھے۔ لیکن تھوڑے ہی روز بعد انہوں نے ملازمت ترک کر دی۔ اُس زمانہ میں اکثر انگریزی افسر ہندوستانی سرکاروں میں بڑے عہدہ پانے کی امید سے نوکری کر لیتے تھے۔ دوسرے اس وقت یہ خیال بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا موقعہ آئے گا کہ افواج سرکارہائے روسائے ہند سے کمپنی کی فوج کا مقابلہ ہو گا۔ لیکن جب بعد میں ایسا موقعہ آیا تو مہاراجہ ہُلکر اور دیگر روسائے ہند نے جن کے ہاں انگریزی افسر ملازم تھے، اُن سردارانِ فوج کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اپنے ہم وطن اور ہم قوم افواج انگریزی سے مقابلہ کریں۔ گارڈنر صاحب بھی ایک ایسے موقعہ پر مہاراجہ ہلکر کے ہاں ملازم تھے اور وہاں سے وہ بڑی پھُرتی، فطرت اور چالاکی کے ساتھ بچ کر نکل آنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک روز یہ زیر حراستِ سوارانِ ہلکر ایک پُل پر گزر رہے تھے، اس وقت انہوں نے وہاں سے رہائی پانے کی یہ تدبیر سوچی کہ پُل پر سے دریا میں کود پڑیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور دریا کو چیر کر دوسرے علاقہ میں پہنچے، لیکن جب دشمنوں نے وہاں بھی ان کا تعاقب کیا تو ان کو سوائے اس کے کہ گھسیارے کے بھیس میں بھاگ کھڑے ہوں اور کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اس حالت میں انجام کار یہ ایک انگریزی چھاؤنی میں پہنچ گئے۔ اس قسم کی سرگردانی اور بے سر و سامانی کی حالت میں انہوں نے دکن کے ایک چھوٹے سے مسلمان جاگیر دار کے ہاں پناہ لی اور وہ ان پر یہاں تک مہربان ہوا کہ اس نے اپنی لڑکی کی شادی ان سے کر دی۔ یہ نواب زادی اب تک اپنے دین آبائی پر قائم ہے اور ان تمام رسومات کی جو کہ ہندوستانی محل سراؤں میں مروج ہیں، پابند ہے۔ کرنل صاحب نے بھی بہت سی عادتیں اور رسمیات جو ہندوستان میں مروج ہیں، اختیار کر لی ہیں اور ان کا طرز معاشرت بالکل ایشیائی طرز پر ہے۔ اگرچہ وہ انگریزی افسروں سے بڑی خندہ پیشانی اور شوق سے ملتے رہتے ہیں۔‘‘
کرنل صاحب نے مندرجہ بالا بیان کی ’’مفصل اخبار‘‘ میں اس طرح پر تصحیح کی:
’’جس وقت میں دریائے تاپتی میں کُودا، اس وقت میں فوج ہلکر کی زیر حراست نہ تھا بلکہ امرت راؤ قرابت دار پیشوائے پونا کے قبضہ میں تھا۔ جس وقت میں نے بیگم صاحبہ سے شادی کی، اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی۔ میں نے ان کی والدہ سے اس امر کی التجا کی کہ وہ مجھے اپنی فرزندی میں لیں۔ اس درخواست کو انہوں نے منظور کیا اور غالباً یہ ان دونوں کی جان بچنے کی وجہ ہوئی۔ عیسائی شرفا کا مسلمان شریف زادیوں سے شادی کرنا پورے طور پر جائز ہے اور اس امر کا صاف طور پر فیصلہ اس وقت ہو گیا کہ جب میرے لڑکے جیمس کی شادی شاہ دہلی اکبر بادشاہ کی بھتیجی نواب ملکہ ممانی بیگم سے ہوئی۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خاندان کی مستورات کی عزت و توقیر بہت عرصے سے اس وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے اور ہندوستانی رؤسا کی نظر میں مسلم ہو گئی ہے کہ شاہ متوفی ہندوستان نے میری بیوی کو اپنی صاحبزادی کے خطاب سے ممتاز فرمایا تھا۔ میری اکلوتی لڑکی کا ۱۸۰۴ء میں انتقال ہو گیا۔ میری پوتیاں اپنی دادی کی خاص رضا کے مطابق مذہب عیسوی کے پیرو ہیں۔ یہ امر خاص ان کی مرضی کے مطابق ہوا ہے کیونکہ نکاح نامہ کی شرائط کے بموجب یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ لڑکے اپنے باپ کے مذہب کے پیرو رہیں گے اور لڑکیاں اپنی والدہ کے عقیدہ پر پلیں گی۔‘‘
اس خاندان کی ایک لڑکی سوسن کی شادی مرزا انجم شکوہ خلف مرزا سلیمان شکوہ سے ہوئی۔ مرزا انجم شکوہ ظفرؔ کے چچیرے بھائی تھے۔ اس کی کیفیت ایک لیڈی نے جو خود رسوم میں شامل تھی، یوں بیان کی ہے:
سوسن کی عمر اس وقت قریب بیس سال کے ہے اور اگر اس بات پر نظر کی جائے کہ وہ زنان خانہ کی چار دیواری میں رہی ہے تو اس کی تعلیم و تربیت اس لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے۔ انجم شکوہ یعنی دولہا کی عمر بھی قریب بیس سال کے ہے۔ یہ ایک نہایت ہی حسین اور خوشرو جوان ہے۔ لمبے لمبے بھونرالے بال شانوں کے اوپر پڑے رہتے ہیں۔ آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں اور میانہ قد ہے اور نہایت دلکش شکل ہے۔ چار پانچ برس سے انجم شکوہ اِس منگنی پر زور دے رہا تھا۔ مگر کرنل صاحب اس کی فضول خرچی کی وجہ سے راضی نہ ہوتے تھے۔ انجم کے والد بزرگوار مرزا سلیمان شکوہ نے ان دولہا دلہن کے خرچ کی کفالت کرنے سے بالکل انکار کر دیا ہے اور طرفین کا خرچ کرنل صاحب کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شاہزادے کو صرف سو (۱۰۰) روپیہ ماہوار ملتا ہے۔ ہندوستان کی عورتیں شادی پر بیجا اسراف کرنا اور غیر معمولی تکلفات کرنا باعثِ فخر سمجھتی ہیں۔ کرنل صاحب کہتے ہیں کہ اگر میں سوسن کو دس بیس ہزار روپیہ جو آتش بازی اور ہو حق میں اس شادی پر صرف ہو گا، نقد دے دوں تو وہ اس کو بہت شرمناک خیال کرے گی۔ کیونکہ ہندوستانی عورتیں مدت العمر تک اپنی شادی کی دھوم دھام کا فخریہ تذکرہ کرنے کی شائق ہوتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...