اکبر حمیدی(اسلام آباد)
فارسی میں کہتے ہیں’’مفت راچہ گفت‘‘یعنی مفت میں اگر کوئی چیز ملتی ہے تو اس کے کیا ہی کہنے!غالب نے بھی کہا تھا’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیاہے۔‘‘
اشتہار اخبار میں دیں، میگزین میں دیں، ریڈیو، ٹی۔وی پر دیں ہرجگہ پیسے دینے پڑتے ہیں……لیکن ایک جگہ ایسی ہے جہاں جتنے اشتہار چاہیں دے دیں کوئی خرچہ نہیں مانگتا!
یہ جگہ شہروں کی دیواریں ہیں……جس شہر میں جائیں دیواریں طرح طرح کے اشتہاروں سے بھری نظر آئیں گی۔کچھ اشتہار تو کاغذ پرلکھے ہوتے ہیں اور کاغذ کا اشتہار دیوار پر چسپاں کر دیا جاتا ہے……لیکن کچھ اشتہار براہِ راست دیوار پر لکھ دئیے جاتے ہیں ان اشتہاروں کے سانچے تیار کیے جاتے ہیں ا ور پھر ان سانچوں میں سیاہی بھر کر سانچہ دیوار پر اُلٹ دیاجاتاہے یوں یہ سانچے کا اشتہار دیوار پرلکھا جاتا ہے۔یہ اشتہار کئی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی عبارات بھی مختلف ہوتی ہیں مگر ان کا چونکا دینے والا آہنگ ایک جیسا ہوتا ہے !! مثال کے طور پر……
’’بانجھ مردوں۔عورتوں کا شرطیہ علاج……آپ کے شہر میں درویش باوا کے پاس…………تشریف لائیں۔‘‘
’’آپ کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟ یہ جاننے کے لئے مشہور نجومی، پامسٹ……عبدالستار سے ملئے……جو ستاروں کی گردش رفتار اور سمت کو جانتے ہیں۔‘‘
’’سیاسی قیدیوں کو فوراً رہا کیا جائے۔‘‘
’’ہاضمے کی درستی کے لئے پھکی……لکڑ پتھر ہضم……جو چاہیں بے دھڑک کھائیں۔‘‘
’’چشم کشا مرہم۔ لگاتے ہی چودہ طبق روشن ہو جائیں۔آزمائش شرط ہے۔‘‘
اس طرح کے اشتہار آپ کو برصغیر کے تمام شہروں کی دیواروں پر نظر آئیں گے۔
ان شہروں پر ہی کیا موقوف مجھے تو یہ دنیا ایک شہر ہی نظر آتی ہے۔آسمان اور زمین اس کی دیواریں دکھائی دیتے ہیں جن پر کسی نے اپنی فنکاری دکھانے کے لئے رات اور دن کے اشتہارچسپاں کر رکھے ہیں۔رات کے اشتہارپر چاند سورج ، ستارے ، اندھیری اور چاندنی راتیں یہ سب کیسی پُر معنی تحریریں ہیں۔
زمین کے اشتہار میں میدان، پہاڑ، سمندرا ور ان میں لکھی بے شمار لفظوں کی تحریریں اپنے اندر کیا کیا معنویت رکھتی ہیں۔ یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان تحریروں سے اشتہار دینے والے کو سوچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔غالباً ان اشتہاروں کا بڑا مقصد بھی یہی ہے!
سچ پوچھئے تو یہ کائنات مجھے شہروں بھری ایک دنیانظر آتی ہے جس کی دیواریں……سب دیواریں اشتہاروں سے بھری ہیں بلکہ خود انسان جہاں کہیں بھی ہے……دیوار بن گیا ہے……اور اس دیوار پر نظریوں، اعتقادوں، ملکوں ، قوموں، رنگوں، نسلوں، طبقوں،مشغلوں کے اشتہار چسپاں ہیں…………جو کئی طرح کے تضادات سے بھرے ہیں……اصل انسان تو ان اشتہاروں کے نیچے کہیں چُھپ گیا ہے……غائب ہو گیا؟…………
جیسے ہماری دیواریں اشتہاروں تلے دَب کر نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں…………!!
٭٭٭
’’ایک عورت کے بارے میں ایک رویاء ۹۹سال گزرے ملہمِ زمانہ نے کچھ یوں دستاویز کی تھی:’قبل از نمازصبح، میں اپنے مکان کے کمرے میں کھڑا ہوں۔اس وقت دیکھا کہ باہر ایک عورت زمین پر بیٹھی ہے،جو مخالفانہ رنگ میں ہے۔وہ بہت بری حالت میں ہے اور اُس کے سر کے بال مقراض سے کٹے ہوئے ہیں۔کوئی زیور نہیں اور نہایت ردی اور مکروہ حالت میں ہے اور سر پر ایک میلا سا کپڑاپگڑی کی طرح لپیٹا ہوا ہے۔اُس کے بات کرنے سے مجھے کراہت آتی ہے۔نماز عصر کا وقت ہے،میں جلدی سے اُٹھا ہوں کہ نماز کے لئے چلا جاؤں۔کچھ کپڑے میں نے ساتھ لئے ہیں کہ نیچے جا کر پہن لوں گا۔یہ جلدی اس لئے کہ اُس عورت کو میرے ساتھ بات کرنے کا موقعہ نہ ملے۔پس میں نے جلدی کے سبب پگڑی کو ہاتھ میں لیا اور پشمینہ کی سرخ چادر اوپر لے لی اور کمرے سے نکلا۔جب میں اُس کے برابر سے گزرا تو میرے منہ یا آسمان سے آواز آئی کہ:لعنتہ اللہ علی الکاذبین(جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے)۔ساتھ ہی یہ الہام ہوا کہ ۔۔۔اُس پر آفت پڑی۔آفت پڑی۔اور دیکھا کہ وہ عورت ایک نہایت ذلیل شکل میں کوڑھیوں کی طرھ بیٹھی ہے‘۔
گو یا روحانی آسمان سے دیکھنے والی نظر کو وہ سب کچھ بہت پہلے نظر آگیا تھا،جسے ۹۹سال بعد کی مادی زمین پر مادی منظروں کے شعبدوں میں ہی نظر آنا تھا۔۔۔۔۔۔ممکن ہے وہ اپنے مادّی نسوانی روپ میں انتہائی حُسن اور رغبتِ شہوانی کا بے مثل مظہر ہومگر اُس کا کوڑھ اُس کے باطن میں ہو،یعنی اُس کی روح کوڑھی ہو‘‘
(احمد ہمیش کے طویل افسانہ داستان پُش اور پُل سے اقتباس
بحوالہ افسانوی مجموعہ کہانی مجھے لکھتی ہے ص نمبر ۱۹۸،۱۹۹ )