رات کی سیاہی پر تربوز کی قاش جیسا ماہتاب اپنی کمسن چاندنی کو غالب کرنے کی مسلسل جد و جہد کر رہا تھا۔ درختوں کے مردہ جسم پتھروں کی طرح خاموش کھڑے اشرف المخلوقات کی مختلف شکلوں کا نظارہ کر رہے تھے۔ دھندلی چاندنی کے کھیت میں چھوٹے چھوٹے بچّے کبڈی کھیل رہے تھے۔ ان میں سے کسی کے جسم پر صرف قمیض ہی تھی، کچھ گھٹنے میں ہی مست تھے اور بعض ان دونوں چیزوں کے بوجھ سے آزاد تھے۔ یہ سب بے فکر اور متشکر الٰہی تھے۔ ان سے کچھ دور مٹّی کے چبوترے پر کچھ بوڑھے، ادھیڑ عمر اور ایک دو جوان بیٹھے ہوئے دنیا کی نئی اور پرانی باتوں پر تبصرہ کر رہے تھے۔
’’اب تو پانچ پیسے مانگنے میں سرم آتی ہے پانچ پیسے کی حکیکت ہی کیا ہے۔‘‘
’’پانچ پیسے دینے میں تو میآ مرتی ہے، زیادہ کون مائی کا لال دے گا۔‘‘
’’ارے بھیّا دنیا جیسے جیسے آگے جا رہی ہے، آدمی کنجوس ہو رہے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ بڑے دل والے ہوتے تھے۔ نہ کھلانے میں کنجوسی نہ دینے میں۔‘‘
’’اور کیا سادی بیاہ ہو، پھاتحہ درود ہو، سینکڑوں بھائی بند کھا آتے تھے۔ کوئی ٹوکنے والا بھی نہ تھا، آج کل تو گھسنے بھی نہیں دیتے۔‘‘
’’یہ پینٹ پتلون والے بڑی محنت کرواتے ہیں، بڑی مشکل سے پانچ پیسے نکالتے ہیں۔ سگریٹ سنیما میں دسیوں روپے لٹا دیتے ہیں۔‘‘
’’ارے تو نے وہ فلم دیکھی لکچھمی پہ جو چل رئی ہے۔ میں نے دیکھی آج۔ کیا غضب کی لونڈیا ہے۔ ۔ بالکل ننگی ناچی ہے۔ ۔ سالی ہے بڑی جور دار۔۔ میں نے کئی پھلموں میں دیکھا ہے اسے۔‘‘
’’ابے ناولٹی والی دیکھ۔۔ انگریجی پھلم ہے۔ ۔ مزہ آ جائے گا۔‘‘
’’آجکل جمّن کے یاں کے ٹھرّے میں نسہ نہیں آریا۔‘‘
’’سالا پانی بہت ملاتا ہے۔‘‘
اتنی دیر میں رات کئی قدم آگے بڑھ گئی۔ ماہتاب اپنی جد و جہد میں کامیاب ہوتا جا رہا تھا۔ مٹّی کے کچّے مکانوں سے آتی ہوئی پیلی پیلی روشنیاں بجھتی جا رہی تھیں۔ بچّے اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے لگے لگے سو گئے تھے۔ کبڈی کبڈی کرتے ہوئے بچّوں کی آوازیں پھٹے ہوئے بستروں میں گم ہو گئیں تھیں۔ چبوترے پر بیٹھے ہوئے لوگ کچھ اپنی بیویوں سے چمٹ کر اور کچھ کھٹملوں کو مارتے مارتے عالم خواب میں پہنچ گئے تھے۔ فقیروں کے اس محلے میں مکمل رات ہو چکی تھی۔ سب اپنی اپنی جگہ بے سدھ پڑے اس طرح خرّاٹے لے رہے تھے جیسے دن بھر مزدوری کرتے کرتے تھک گئے ہوں۔ ان ہی بے فکر خرّاٹوں میں ایک بوڑھی عورت کی آہیں تحلیل ہو رہی تھیں۔ شاید تکلیف کی شدّت اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو کراہنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک بوڑھا آدمی لڑکھڑا تا ہوا ان سسکیوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چلتے چلتے ایک سوتے ہوئے آدمی سے ٹکرا کر وہ گرتے گرتے بچا۔ ’’یہ۔ یہ راستے میں پتھّر کس نے ڈالا ہے؟‘‘ آواز کی لکنت نے لفظوں کو بے ترتیب کر دیا تھا۔ آدمی سے ٹکرا کر وہ تھوڑی دیر کے لیے وہیں رک گیا۔
’’ابے او فقیرے، اندھا ہو گیا ہے کیا۔ یہ پتھر نہیں، میں ہوں میں۔ "سوتا ہوا آدمی اٹھ کر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا۔‘‘
’’میں؟ میں کون؟ اچھا میں ہوں! ٹھیک ہے ٹھیک ہے‘‘۔ فقیرے بڑبڑاتا ہوا پھر آگے بڑھنے لگا۔
’’ابے بڈھّے نسا کرتا پھر رہا ہے۔ ۔ تیری بڑھیا مر رہی ہے۔‘‘ پھٹی ہوئی چادر سے ایک آواز اُبھری۔ فقیرے پھر رک گیا۔
’’کیا؟ مر رہی ہے؟ تو مرنے دے۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولا ’’نہیں۔ !نہیں! مرنے مت دے۔ روک لے۔ تُو جا۔ اپنی بڑھیا سے کہہ دے کہ وہ مر جائے۔ میری بڑھیا مر جائے گی تو سراب۔ سراب کے لیے پیسے کون لائے گا۔ جا جلدی جا۔‘‘
’’کیوں رے! میری بڑھیا کو کیوں کوس رہا ہے۔ سالے زبان کھینچ لوں گا۔ تُو مرے، تیری بڑھیا مرے۔‘‘
’’ارے جانے دے نسہ کر کے آیا ہے بڈھا۔‘‘ کسی دوسری طرف سے آواز آئی۔ پھر خاموشی ہو گئی، فقیرے بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ ’’سالے لڑنے کو آتے ہیں۔ میں کوئی لڑتا تھوڑے ہی ہوں۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ میری بڑھیا مر جائے گی تو پیسے کون لائے گا۔ کھانا کہاں سے آئے گا۔۔ ہونہہ۔۔‘‘
فقیرے گھر میں گھسا، مٹّی کے تیل کا چراغ اپنی آخری سانس پوری کر رہا تھا۔ اس کی پیلی پیلی روشنی چھپر میں پھیل رہی تھی۔ چراغ کی لوکا دھواں لگتے لگتے چھپر کے اندر کا پھونس سیاہ ہو چکا تھا۔ چھپر کا آگے کو جھکا ہوا حصہ مٹی کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر رُکا ہوا تھا۔ دونوں دیواروں کے بیچ کی خالی جگہ بغیر کواڑوں کا دروازہ بنا رہی تھی۔ ایک دیوار سے ملا ہوا ٹھنڈا چولہا جلنے کا منتظر تھا۔ اس کے قریب ہی المونیم اور مٹّی کے خالی اور کالے سے چند برتن رکھے ہوئے تھے۔ صحن میں بچھی ہوئی ایک بغیر ادوان کی کھاٹ پر ننگے پڑے چار بچّے سردی میں سکڑتے ہوئے پلّوں کی طرح ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے۔ اندر ایک موٹے بانوں کی بنی ہوئی چار پائی پر ایک بیمار بوڑھی عورت کراہ رہی تھی۔ فقیرے نے اندر گھستے ہی آواز لگائی۔
’’ارے چلّاتی کاہے کو ہے۔ ۔ کیا بات ہے۔ ۔ سو جا۔۔‘‘
شاید فقیرے بھول گیا تھا کہ وہ اپنی بیمار بیوی کے لیے سورج ڈوبنے سے قبل دوا لینے گیا تھا۔ بڑھیا کراہتی رہی۔ فقیرے اس کی چار پائی کے قریب پہونچ کر وہیں بیٹھ گیا۔ اور بڑھیا کو دیکھنے لگا۔ بڑھیا اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہونٹ ہل کر ہی رہ جاتے۔ شراب کے پُرانے پیالوں جیسی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اس کے چہرے کی جھرّیوں سے بھری ہوئی سیاہ کھال آگ کی تپش سے سکڑے ہوئے پلاسٹک کی طرح لگ رہی تھی۔ فقیرے کو اس پر ترس آ گیا۔
’’اری روتی کا ہے کو ہے۔ تو اچھّی ہو جائے گی۔۔ آرام سے سو جا۔ سویرے دوا لا دوں گا۔۔ اب تو پیسے ہی نہیں بچّے۔ ۔ لے تھوڑی پی لے ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
فقیرے نے اپنے کُرتے کی لمبی سی جیب سے ایک بوتل نکالی اور زبردستی بڑھیا کے منہ سے لگا کر تھوڑی سی انڈیل دی۔ بڑھیا کڑوا سا منہ بنا کر رہ گئی۔
فقیرے نے تھوڑی سی اپنے منہ میں انڈیلی اور چھپر کے باہر پڑے ہوئے ایک پلنگ پر پڑ کر سو گیا۔ بڑھیا کی حسرت بھری نگاہیں اُسے دیکھتی رہ گئیں۔ رات برابر آگے بڑھ رہی تھی۔ چھپر کے اندر ٹمٹماتا ہوا چراغ اپنی آخری سانسیں لے کر ختم ہو گیا۔ اب صرف چاند کی دھندلی سی روشنی گھر میں بکھری ہوئی تھی۔
اس پورے محلّے میں فقیروں کی برادری کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا۔ کتنے ہی فقیر ایسے تھے جو دن بھر اپنی مفلسی کی داستان بیان کر کے پیسے اکٹھّے کرتے اور رات کے اندھیرے میں پکچر ہالوں، جوئے کی بازیوں اور شراب کے اڈّوں پر انہیں خرچ کر دیا کرتے۔ فقیرے بھی ان میں سے ایک تھا۔ تھا تو ساٹھ کے لپیٹ میں۔ لیکن دیکھنے میں اچھا خاصا تندرست تھا۔ شراب بے حد پیتا۔ اگر کسی دن اُسے شراب نہ ملتی تو چیختے چیختے گھر آسمان پر اُٹھا لیتا۔ کبھی بچّوں کو مارتا اور کبھی بیوی کو۔ سامان اِدھر اُدھر پھینکتا، چلّاتا پھر تا، جب ہٹّا کٹّا اس قابل تھا کہ کوئی کام کر کے پیسہ کما سکے، تب تو نئے نئے ڈھنگ سے بھیک مانگتا رہا۔ اور جب بھیک مانگنے کے دن آئے یعنی جوانی کے ایّام گزر گئے تو گھر میں بیٹھ کر کھانے لگا۔ خوب شراب پیتا، اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا۔ خود کہتا کہ اب میرے کھانے پینے کے دن ہیں۔ میں نے بہت کما لیا۔ فقیرے کی بیوی ایک سیدھی سادی عورت تھی۔ وہ جیسا کہتا ویسا ہی کرتی۔ سڑکوں پر اور گلیوں میں بھیک اکٹھّی کرتی۔ پورے دن میں اچھّی خاصی بھیک جمع ہو جاتی۔ کھانا تو وہ سب مل کر کھایا کرتے۔ لیکن پیسے سب فقیرے لے لیتا اور شراب کے اڈے یا پکچر ہال کے اندر انہیں خرچ کر آتا۔ بڑھیا کو ٹوکنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ چھ افراد پر مشتمل اس خاندان کا خرچ تنہا فقیرے کی بیوی چلا رہی تھی۔ چاروں بچّے ابھی چھوٹے ہی تھے پھر بھی وہ بچّے سڑکوں پر گھوم کر کچھ پیسے اکٹھے کر ہی لیتے تھے اور اس خوف سے کہ گھر میں باپ چھین لے گا، بازار ہی میں چٹ کر جاتے تھے۔ جس دن بڑھیا بیمار ہوئی بچّے رات کو روٹی روٹی چلّا کر ہی سو گئے۔ بڑھیا کی طبیعت اچانک بہت بگڑ گئی۔ لیکن فقیرے کے روزانہ کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس دن بھی وہ شراب پینے گیا اور کافی رات میں لوٹا۔
صبح کو فقیرے اُٹھا تو اس وقت سورج کی روشنی چہار جانب پھیل چکی تھی۔ اس نے اُٹھتے ہی پاس پڑی ہوئی بوتل اُٹھائی اور ایک ہی سانس میں خالی کر دی۔ پھر اس کی نگاہیں چھپّر کے نیچے اور دیواروں کے اندر پڑی چارپائی پر لیٹی ہوئی بڑھیا پر پڑیں۔ بچّے اسے اُٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ رات بھر کے خالی پیٹ کھانا مانگ رہے تھے لیکن بڑھیا ٹس سے مس نہ ہوتی تھی۔ فقیرے کھڑا ہوا اور پورا منہ کھول کر انگڑائی لی۔ پھر مریل خچّر کی طرح بڑھیا کے پلنگ تک پہنچا۔ کچھ دیر تک وہ کھڑا ہوا اپنے بدن کو تیزی سے کھجاتا رہا، پھر بڑھیا کی طرف جھُکا اور اس کے بازوؤں کو ہلا جُلا کر اُسے اُٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ بڑھیا کا جسم بالکل ٹھنڈا پڑا تھا۔ اس کی جھرّیوں سے بھری ہوئی کھال اکڑ کر مردہ مچھلی کی کھال جیسی لگ رہی تھی۔ آنکھوں سے بہتا ہوا پانی خشک ہو کر دونوں کنپٹیوں پر لکیر یں بناتا چلا گیا تھا۔ منہ سے اُگلی ہوئی شراب گردن پر آ کر جم گئی تھی۔ دو ایک مکھّیاں بڑھیا کے بند ہونٹوں میں راستہ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ فقیرے کو جب احساس ہوا کہ وہ مر گئی ہے، تو وہ چیخنے لگا۔ بچّے بھی اس کے ساتھ ساتھ ماں سے لپٹ کر چلّانے لگے۔ ان کے چلّانے کی آواز سن کر محلّے کی کچھ بوڑھی عورتیں اور بچّے فقیرے کے گھر میں آ گئے تھے۔ جب فقیرے کی بچی ہوئی محبت کی آخری قسط پوری ہو گئی تو اس نے رونا بند کر دیا۔ بڑھیا کے مردہ جسم پر نظر ڈالی، چادر سے بڑھیا کے کھلے ہوئے چہرے کو ڈھک کر گھر میں آنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوا باہر آیا۔ یہ میری بہن ہے، جسے میں نے گود میں کھلایا تھا۔ یہ میری بھاوج ہے، جس کے گھر کا خرچ ایک عرصہ تک میں نے اُٹھایا تھا۔ یہ میری خالا ہے جسے میں نے ماں کی طرح سمجھا۔ یہ سب اب کیوں آئے ہیں۔ اب تو وہ مر چکی۔ اسے مٹّی کے نیچے دبانے کے لیے۔ فقیرے ایک عجیب سی ہنسی ہنسا اور پلنگ پر پڑی ہوئی خالی بوتل اُٹھا کر اپنے کُرتے کی لمبی سی جیب میں ٹھونس لی۔
اس کی بہن، بھاوج، خالا، فریضۂ تعزیت ادا کرنے کے لیے اس کی جانب بڑھیں لیکن فقیرے ان سب کو نظرانداز کر کے کسی فلمی گانے کے بول گنگناتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...