“جتنی تو شکل سے معصوم لگتی ہے نا، اندر سے اُتنی ہی مّکار ہے یوں سب کے سامنے جھوٹ بول کر ہمیں گمراہ مت کر،، کیا پہلی بار تُو نے اس کو یہاں پر بلایا ہے یا تیرا عاشق پہلی بار تجھ سے یہاں ملنے آیا ہے”
کشمالا غُصّے اور حقارت سے اسے دیکھتی ہوئی بولی جبکہ ہاتھ کا اشارہ اس کے عاشق کی طرف تھا جو کہ اس وقت حویلی کے ملازموں میں گھیرے میں جکڑا کھڑا تھا۔۔۔ کشمالا چلتی ہوئی اُس کے شوہر کی طرف آئی جو کہ سرخ آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ کشمالا نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل اُس کے شوہر کی طرف بڑھایا
“یہ تصویر شانو کی بیٹی نے تھوڑی دیر پہلے لی ہے جب یہ بدذات اپنے اس عاشق کو اپنے ماں بننے کی خبر سنا رہی تھی”
کشمالا کی بات سن کر حیرت اور بے یقینی سے اُس نے اپنی بیوی کو دیکھا۔۔۔ اُس کی بیوی ماں بننے والی تھی اور ایسی کوئی بات کی اسے خبر تک نہیں تھی۔۔۔ دوسری طرف وہ افسوس بھری نظروں سے کشمالا کو دیکھ رہی تھی جو ایک کے بعد ایک اس پر بہتان لگا رہی تھی مگر احتجاجاً بھی وہ اپنے لئے کچھ نہیں بولی یونہی خاموش کھڑی رہی
“میں ایک بار پھر تیرے سامنے قسم نہیں اٹھاؤں گی، تجھے یقین کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ تیرے اوپر ہے۔۔۔ لیکن میں اس گُناہ کی پوٹ کو اب اس حویلی میں نہیں رکھو گی۔۔۔ اس کی کوکھ میں پلنے والا گند،، وہ اس حویلی کا خون نہیں ہے اگر اپنی بیوی پر تُو آج بھی یقین رکھتا ہے تو بےشک اِسے اس حویلی سے لے کر چلا جا”
کشمالا اُس کی طرف دیکھتی ہوئی بول رہی تھی اور وہ موبائل کی اسکرین پر خاموشی سے اپنی بیوی اور اُس انسان کی تصویر دیکھ رہا تھا جس سے وہ نفرت کرتا تھا۔۔۔ اس بات سے خود اس کی بیوی اچھی طرح باخبر تھی۔۔۔ کشمالا کی بات سُن کر وہ چلتا ہوا اپنی بیوی کے پاس آیا جو آنکھوں میں بے شمار آنسو لئے اب اُسی کو دیکھ رہی تھی
“مجھ سے اپنے بچے کا ثبوت مت مانگیے گا سائیں، ورنہ میں مر جاؤں گی”
وہ تڑپ کر اپنے شوہر کو دیکھتی ہوئی بولی تھی جو کہ پہلے ہی اُس سے خفا ہوکر اُسے اکیلا حویلی میں چھوڑ کر چلا گیا تھا
“تم نے اِسے میسج کرکے یہاں بلایا تھا یا نہیں”
وہ اپنی بیوی کو دیکھ کر سوال اٹھانے لگا تو اُس کی بیوی نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ اپنے شوہر کے سر پر رکھا
“آپ کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے اِسے کوئی میسج نہیں کیا تھا”
اُس کے قسم کھانے پر اس کا ہاتھ بری طرح اپنے سر سے جھٹک دیا گیا
“دو دن پہلے بھی تم نے میرے سر کی قسم کھائی تھی،، وہ قسم سچی تھی یا جھوٹی تھی،، سچ سچ بتانا مجھے”
بے انتہا سنجیدگی سے اُس نے اپنی بیوی سے پوچھا جو اپنے شوہر کی بات سن کر ایک پل کے لیے خاموش ہوگئی حویلی میں موجود تمام نفوس کی نظریں اس وقت ان دونوں پر ٹکی تھی
“اگر میں آپ کو اس وقت پورا سچ بتا دیتی تو آپ مجھ سے خفا ہوجاتے مگر وہ بھی پورا سچ نہیں تھا سائیں۔۔۔ میں آپ کو اصل حقیقت۔۔۔”
اُس نے بولنا چاہا تب اُس کے شوہر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید کچھ کہنے سے روکا
“تم نے میری ناراضگی کے ڈر سے میری جھوٹی قسم کھائی یعنی اُس دن بھی یہ تم سے ملنے آیا تھا جو کچھ تمہارے بارے میں بولا گیا وہ سچ تھا۔۔ تو میں آج تمہاری قسم پر کیسے یقین کر لوں”
وہ غضب ناک نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھتا ہوا بولا اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی
“جب تمہیں اس انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی تو کیوں اسے وضاحت دے رہی ہو آج اس کو ہم دونوں کے رشتے کی حقیقت سچ بتا دو”
ملازموں کے بیچ جگڑا ہوا وہ بے خوف ہو کر بولا اپنے دشمن کی بات سُن کر وہ مشتعل انداز میں اپنے دشمن کی جانب اسکو مارنے کے لیے اس کی طرف بڑھا
“رک جاؤ، اس کے گندے خون سے اپنے ہاتھ خراب مت کرو،، اچھا ہے جو اس وقت فیروز یہاں موجود نہیں ہے۔۔۔ میں اب کوئی خون خرابہ نہیں چاہتا۔۔۔ بے شک ہماری عزت کا جنازہ نکل چکا ہے۔۔۔ اپنی بیوی کو طلاق دے کر ابھی اسے، اس کے ساتھ رخصت کرو یہ میرا حکم ہے”
شمشیر جتوئی جو سارے عرصے خاموش، چپ کا لبادہ اوڑھے صوفے پر بیٹھا تھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔۔۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی موت کے بعد سے اس کی طبیعت میں وہ روعب اور طنطنعہ نہیں بچا تھا مگر حویلی میں آج بھی اس کے حکم کو بجا لایا جاتا
“یہ اس حویلی سے اسی کے ساتھ جائے گی مگر میں اسے طلاق دے کر نہ تو آزادی بخشو گا نہ کسی کی دلی مراد پوری کرو گا۔۔۔ بیشک یہ میرے نکاح میں رہ کر ساری زندگی میرے اس دشمن کے ساتھ گزارے مگر میں اسے آزاد نہیں کروں گا”
وہ اپنی بیوی کو غصے میں دیکھتا ہوا شمشیر جتوئی سے بولا اور قہر آلود نظروں سے اپنے دشمن کو دیکھتا ہوا وہاں سے جانے لگا کشمالا خاموش کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی
“سائیں۔۔۔ سائیں میری بات سنیں،، آپ بے شک مجھ سے خفا رہے یا مجھ سے بات نہیں کریں مگر میں یہاں سے نہیں جاؤں گی”
وہ روتی ہوئی اپنے شوہر کے سامنے آ کر بولی اسے لگا اگر آج وہ اس حویلی سے نکل گئی تو اس کی زندگی سے بھی ہمیشہ کے لیے نکل جائے گی جسے وہ اپنی زندگی سمجھنے لگی تھی
“چلی جاؤ اس وقت،، میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے اور اس حویلی میں ایک بار پھر قتل ہو”
وہ غضب ناک نظروں سے اس کے روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا جس کی آنکھ میں آنسو اسے بے چین کر دیتے تھے۔۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں جا چکا تھا اس کی بیوی ڈبڈبائی نظروں سے ابھی تک سیڑھیاں تک رہی تھی
“چھوڑ دو اس بدبخت کو اور حویلی سے دور کرو ان دونوں بے شرموں کو”
شمشیر جتوئی اپنے ملازموں سے بولتا ہوا وہاں سے چلا جبکہ کشمالا مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جو اب تک سیڑھیاں دیکھتی ہوئی آنسو بہا رہی تھی
*****
کھٹکے کی آواز پر رباب کی آنکھ کُھلی،، کمرے میں مُکمل اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بالکونی سے کمرے میں آتی چاند کی روشنی میں اس نے ایک ہیولے کو اپنے کمرے کے اندر آتا دیکھا تو رباب اُٹھ کر بیٹھ گئی
“زریاب آپ یہاں اس وقت”
رباب ذریاب خان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر فوراً اس کے سینے سے جا لگی
“کیسی ہو تم”
زریاب خان اسے اپنے حصار میں چھپائے بیقراری سے پوچھنے لگا
“آپ کو یہاں اس طرح نہیں آنا چاہیے تھا،، اگر کوئی آپ کو یہاں پر دیکھ لے۔۔۔ بابا سائیں یا فیروز لالا کو خبر ہو جائے تو غضب ہو جائے گا”
رباب ذریاب خان سے الگ ہوتی ہوئی بولی،، فکرمندی کے ساتھ خوف کے آثار بھی اس کے چہرے پر نمایاں تھے
“تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے اپنی جان کا رِسک لیا ہے،، پورا ڈیڑھ ماہ گُزر گیا ہے تمہیں دیکھے ہوئے اگر آج یہ قدم نہ اٹھا تو اپنی جان سے جاتا”
زریاب خان اس کا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتا ہوا بولا بےساختہ رباب نے اپنا ہاتھ ذریاب خان کے ہونٹوں پر رکھا
“خدا نہ کریں آپ کو کچھ ہو،، آپ کو تو خبر بھی نہیں ہے اس ڈیڑھ ماہ میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔۔۔ مجھے اب آنے والے وقت سے بہت ڈر لگ رہا ہے ذریاب”
رباب نے پریشان ہوتے ہوئے زریاب خان سے کہا وہ کس مشکل میں گھِر چُکی تھی زریاب خان کو کیسے بتا سکتی تھی
“رباب جو بھی بات ہے وہ صاف صاف مجھے بتاؤ خدارا” اُس کے چہرے پر پریشانی کا جال دیکھ کر زریاب خان بھی پریشان ہوگیا اور رباب سے پریشانی کا سبب پوچھنے لگا
“میں کیسے بتاؤں،، آپ باپ یعنی میں۔۔۔ میں اُمید سے ہوں زریاب”
رباب پریشان ہوتی ہوئی بولی کیونکہ یہ وقت شرما کر،، یہ خبر دینے کا ہرگز نہیں تھا۔۔۔ زریاب خان یہ خبر سن کر ایک پل کے لیے خاموش ہو گیا پھر اس نے رباب کو دوبارہ اپنے حصار میں لیا
“اگر میں بابا اور اسماعیل لالا کو منا بھی لو،، کہ وہ ہم دونوں کے خاندان کے بیچ دشمنی کو ختم کرنے میں پہل کرتے ہوئے دوستی کا آغاز کریں تو کیا تمہارے بابا سائیں اور فیروز لالا اس دوستی کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔۔۔ اس بات کا جواب تم اچھی طرح جانتی ہو،، تمہارے بابا سائیں یا فیروز لالا ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔۔۔ اب اس مسئلہ کا صرف ایک ہی حل ہے رباب،، ہم دونوں کو یہاں سے کہیں دور جا کر اپنی زندگی کی شروعات کرنی چاہیے میں تمہیں یا پھر اپنے بچے کو اس دشمنی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے سکتا تم سمجھ رہی ہو نا میری بات”
زریاب خان رباب کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو رباب نے آنکھوں میں آنسوں کے ساتھ اقرار میں سر ہلایا۔۔۔ اس کے بابا سائیں،، فیروز لالا اور شمروز لالا بے شک اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے لیکن وہ کتنا ہی بابا سائیں یا فیروز لالا کے آگے گِڑگِڑا لیتی،، ان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ لیتی مگر وہ اپنی آن اور شان کے لئے کبھی سردار اکبر خان کے خاندان سے دشمنی ختم نہیں کرسکتے تھے
“میری بات غور سے سنو رباب،، میں کل رات دو بجے تک یہاں آؤں گا تمہیں لینے کے لیے۔۔۔ رات کے اندھیرے میں ہم بسوں کے اڈے تک پہنچیں گے اور پھر وہاں سے شہر کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔۔۔ میں نے تم سے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا ہے میں یہ وعدہ مرتے دم تک نبھاؤں گا کل رات میرا انتظار کرنا”
بولنے کے ساتھ ہی زریاب خان رباب کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرتا ہوا اس سے الگ ہوا مگر دروازے پر کھٹکے کی آواز پر وہ دونوں چونکے۔۔۔
رباب نے پریشان ہو کر اپنے کمرے کے بند دروازے کی طرف دیکھا اور پھر زریاب خان کو دیکھنے لگی۔۔۔ زریاب خان نے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کالی چادر میں خود کو چھپاتا ہوا وہ دوبارہ بالکنی کے راستے سے نیچے اتر کر حویلی کی دیوار پھیلانگتا ہوا رات کے اندھیرے میں غائب ہوگیا
زریاب خان کے جاتے ہی رباب نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا وہ اطمینان کا سانس لیتی ہوئی دوبارہ دروازہ بند کرکے اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی
****
ڈیرہ رعیسانی کے قریب میں دو قبیلے آباد ہیں جن میں برسوں سے دشمنی چلی آرہی تھی۔۔۔ شمشیر جتوئی طبیعت کے لحاظ سے سخت گیر انسان ہے سب ہی اس کے غصے اور جلال سے ڈرتے ہیں ساری نرمی اس نے صرف اپنی لاڈلی بیٹی رباب کے لئے ہی برتی ہوئی ہے۔۔۔ رباب فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی سے چھوٹی ہے اور اپنے بابا سائیں کی طرح وہ اپنے دونوں بھائیوں کی بھی لاڈلی ہے۔۔۔ فیروز جتوئی کی اپنی خالہ زاد کشمالا سے شادی ہوئی ہے کشمالا تھوڑا تیز مزاج رکھنے والی عورت ہے،، اس کے ہاں دل آویز، پلورشہ اور آرزو کے بعد ضیغم جتوئی یعنی تین بیٹیوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا اور تب سے ہی اس کا مزاج ہر کسی سے کم ہی ملتا ہے خاص کر اپنی نند رباب سے وہ ہر وقت خائف رہتی ہے کیونکہ شمشیر جتوئی (سسر) فیروز اور شمروز کے ساتھ اس کا دس سالہ بیٹا ضیغم بھی اپنی پھوپھو کے گُن گاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ منہ سے کچھ نہیں بولتی مگر اس کی آنکھوں میں ہر وقت رباب کو وجود بری طرح کھٹکتا رہتا ہے
فیروز جتوئی اور شمروز جتوئی بھائی ہونے کے باوجود، انکی طبیعت ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے فیروز جتوئی اپنے باپ کا ہم مزاج ہے مگر وہ بہت جلد باتوں نے آجانے والا جلد باز مرد ہے جو سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے، اپنی روایات اور رسم و رواج کا پابند جبکہ شمروز جتوئی ایک ٹھنڈے مزاج رکھنے والا انسان ہے۔۔۔ شمروز جتوئی کے مزاج پر کچھ تعلیم کے بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ بھی اپنی روایات کا پابند ہے مگر بہت سی باتوں میں وہ اپنے باپ اور بھائی سے اختلافات رکھتا ہے اسی وجہ سے وہ شہر میں رہتا ہے۔۔۔ مہینے بعد تین چار دن کے لئے حویلی میں سب سے ملنے کے لیے آتا ہے
شمروز جتوئی کے کہنے پر ہی شمشیر جتوئی نے رباب کو آگے پڑھنے کی اجازت دی میٹرک تک تعلیم اپنے علاقے میں موجود گرلز اسکول سے مکمل کرنے کے بعد وہ شمروز جتوئی کے پاس شہر آگئی ایسے ہی ایک دن اچانک اس کا سردار ذریاب خان سے اتفاقیہ ٹکراؤ ہوا اور دونوں کو ہی پہلی نظر کی محبت ہوگئی،،، یہ جاننے کے باوجود کے ان دونوں کے خاندان میں برسوں سے دشمنی چلی آرہی ہے وہ دونوں ہی اپنے اپنے دل سے ایک دوسرے کی محبت فراموش نہیں کر پائے اور یونہی ایک دن سردار زریاب خان نے رباب سے اپنا رشتہ مضبوط کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا
جب تک رباب شہر میں موجود رہی تب تک رباب اور زریاب خان کی ملاقاتیں ہوتی رہی مگر امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد اور پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شمشیر جتوئی نے اسے واپس آنے کا حکم دے دیا۔۔۔ رباب افسردہ دل کے ساتھ اپنے قبیلے واپس لوٹ گئی
سردار اکبر خان اپنے قبیلے کا انصاف پسند اور صلح جُو انسان ہے اپنے باپ دادا کے مزاج سے بالکل مختلف۔۔۔ اس کے دو بیٹے سردار اسماعیل خان اور سردار ذریاب خان ہیں۔۔۔ اسماعیل خان کی بیوی زرین ایک نرم طبعیت رکھنے والی مخلص عورت ہے جس کا دس سالا بیٹا تیمور ہے
زریاب خان اپنی بھابھی زرین سے شروع سے ہی قریب ہے۔ ۔۔ عزت اور احترام والے رشتے کے ساتھ وہ ذریاب خان کی رباب سے پسندیدگی اور اس کے نکاح والے راز سے بھی واقف ہے
سردار اکبر خان کی بیوی کبریٰ ایک سخت گیر اور کرخت عورت ہے اپنے شوہر کے علاوہ سب پر ہی اس کا روعب اور دب دبا چلتا ہے۔۔۔ بیٹے بھی اس کے آگے بولنے کی جرات نہیں کرتے البّتہ پوتے کو ساری چھوٹ حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ دس سال کی عمر سے ہی سردار تیمور خان کافی گُستاخ طبیعت کا مالک ہے
*****
“توبہ خدا کا جو زرا آج کل کی لڑکیوں کو شرم اور لحاظ رہا ہوں،۔۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، بے حیائی کا یُوں عام ہو جانا”
کشمالا کمرے کے اندر آنے کے ساتھ ہی بلند آواز میں بڑبڑاتی ہوئی کمرے کا دروازہ بند کرکے چابیوں کا گُچھا میز پر رکھتی ہوئی بیڈ پر بیٹھی
“کیا منہ ہی منہ میں بڑبڑائے جا رہی ہو۔۔۔ اب رات کے وقت کس کی شامت آگئی تمہارے ہاتھوں”
فیروز جتوئی جوکہ کے پہلے سے ہی کمرے میں موجود بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا کشمالا کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
“میری کیا مجال ہے سائیں جو میں اس گھر کی مہرانی کی شامت لاسکو۔۔۔ جو میرے یہ گناہگار کان سن چکے ہیں ان کو سن کر تو میں صرف کانوں پر ہاتھ رکھ کے استغفار ہی پڑھ سکتی ہوں”
کشمالا چادر نما دوپٹہ اتار کر بیڈ پر ایک طرف رکھتی ہوئی فیروز جتوئی سے بولی
“تمہیں پھر تکلیف ہوگئی میری بہن سے، کتنی بار کہا ہے رباب کے لئے میں تمہاری زبان سے ایک لفظ نہ سنو۔۔۔ ارے دلآویز پلورشہ آرزو سے پہلے وہ میرے لئے اہمیت رکھتی ہے،، بہن نہیں بیٹی ہے وہ میری”
فیروز جتوئی اپنی بیوی کی عادت جانتا تھا وہ ضرور رباب کے بارے میں اب کوئی بات کریں گی اس لیے فیروز جتوئی پہلے ہی سخت تیور لیے کشمالا سے بولا
“واہ سائیں واہ ابھی تو میں نے کچھ بولا ہی نہیں ہے آپ پہلے ہی بھڑک رہے ہو کل کو جب آپ کی یہی بیٹی آپ کی پگڑی پر لات مار کر آپ کے دشمن کے ساتھ بھاگے گی ناں”
اس سے پہلے کشمالا کا جملہ مکمل ہوتا فیروز جتوئی کا بھاری ہاتھ کشمالا کے منہ پر نشان چھوڑ گیا
“سردار اکبر خان کا چھوٹا بیٹا تھوڑی دیر پہلے آپکی دلاری کے کمرے میں چوری چھپے اس سے ملنے آیا تھا۔۔۔ کل رات کو بھگاکر شہر لے جانے والا ہے وہ آپ کی رباب کو۔۔۔ اپنے اِن گناہگار کانوں سے سن کر آئی ہو اگر ایک بھی بات جھوٹ بولوں تو سرعام کوڑھے مار لینا مجھ غریب کو سائیں”
کشمالا کی بات سن کر فیروز جتوئی کو جلال آیا وہ طیش میں بیڈ سے اٹھتا ہوا کمرے سے باہر نکلنے لگا تب بھی کشمالا اس کے سامنے آگئی
“جوش سے نہیں سائیں اب ہوش سے کام لینے کا وقت آگیا ہے۔۔۔ اگر آپ ابھی رباب سے پوچھ گچھ کا ارادہ رکھتے ہو تو وہ کبھی بھی نہیں قبولے گی تھوڑا سا انتظار سے کام لو۔۔۔ کل رات تک خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا شاید آپ کی لاڈلی کے کچھ اور لچھن آپ کے سامنے آجائیں”
کشمالا فیروز جتوئی کو طنزیہ بولتی ہوئی آخری بات پر ہنس کر فیروز جتوئی کے سامنے سے جانے لگی تبھی فیروز جتوئی نے کشمالا کی چُٹیا کو مٹھی میں پکڑا
“مالا جو کچھ جانتی ہوں سچ بول دو ورنہ آج ہی قیامت برپا ہو جائے گی”
فیروز جتوئی کشمالا کی معنی خیز بات سے مزید برہم ہوا تھا۔۔۔ اگر اس کی بیوی سچ بول رہی تھی تو وہ پوری حقیقت جاننا چاہتا تھا
“گستاخی معاف سائیں،، اُمید سے ہے آپ کی لاڈلی،،، سرداروں کا ناجائز بچہ پل رہا ہے اس کے پیٹ میں”
کشمالا فیروز جتوئی سے اپنی چٹیا چھڑواتی ہوئی بولی تو فیروز جتوئی نے کشمالا کی گردن کو دبوچ لیا
“اگر تمہاری ایک بھی بات جھوٹ نکلی مالا تو میں تمہارا مقبرہ کل کی رات اِسی حویلی میں تیار کروا دوں گا،، یاد رکھنا”
فیروز جتوئی بولتا ہوا کشمالا کو فرش پر دھکیل کر اپنی پگڑی سر پر رکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا کشمالا کے ہونٹوں پر زہریلی مسکان نمایاں ہوئی
اسے معلوم تھا ابھی اس وقت اس کا شوہر غصے میں ڈیرے پر گیا ہوگا کیوں کہ خبر ہی کچھ ایسی تھی لیکن اب اسے کل کا انتظار کرنا تھا۔۔۔ مگر اس سے پہلے وہ صبح ہوتے ہی ملازمہ سے کہہ کر رباب کے کمرے کی تلاشی لینا چاہتی تھی کیا معلوم کوئی اور ہی راز فشاں ہو جائے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...