(Last Updated On: )
فرخندہ رضوی خندہ
طنز و مزاح ایک ہی صنف کے دو پہلو ہیں، طنز کریں تو کرنے والا شاید مطمئن ہو جائے مگر جس پر کی جائے وہ کچھ دیر کے لئیے پورے کا پورا بدحواسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان دو لفظوں کی تعریف ہر کوئی اپنے ہی انداز میں کرتا ہے ویسے دیکھا جائے تو مزاح کا مقصد قہقہے لگانا نہیں ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھرانا ہے اگر ویسے کبھی کبھار قہقہہ بھی لگا لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ طنز کو مزاح سے الگ الگ بھی کیا جا سکتا ہے مگر جو انہیں جوڑے رکھنے میں مزا ہے وہ جدا کرنے میں نہیں۔ ان دو لفظوں کی شگفتگی میں بہت بار سبق بھی نمایاں نظر آنے لگتا ہے۔ کوئی طنزو مزاح کو ایک صنف مانتا ہے تو کوئی اسے اسلوب کا درجہ دیتا ہے۔ جس طرح دوسرے ادب کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے طنز و مزاح کو غیر سنجیدہ لیا جاتا ہے۔ ایسے ادب کی تخلیق خاص کر وہی کرتے ہیں جن کا تجربہ بہت وسیع اور طنزو مزاح کا شغف بھی رکھتے ہیں۔ چاند کی گود،، میں اُترنے کے لئیے مجھے اتنی سی تمہید تو باندھنی ہی تھی آج مجھے چند لفظ اس کتاب کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد لکھنے کا حکم صادر ہوا۔ میرا محترم بھائی اشفاق ایاز صاحب سے بہت محبت و احترام کا رشتہ پچھلے کئی سالوں کی رفاقت پر مختص ہے۔
آج مجھے ان پیج فائل موصول ہوئی جس میں ’چاند کی گود میں‘ محترم بھائی اشفاق ایاز کی ’’تیس روزہ چاند‘‘ اور برقی مجلے ’’ارمغانِ ابتسام‘‘ میں شائع ہونے والی نگارشات، خوبصورت و دلچسپ طنز و مزاح سے بھرپور تحریروں کو یک جا کر کے ایک کتابی شکل دی گئی ہے۔ مجھے کبھی تیس روزہ چاند پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر آج چاند کی گود میں شائع ہونے والی تمام تحریروں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ہر تحریر ہی اپنی جگہ بہت دلکش ہر کہانی میں اپنی ہی خوبصورتی نمایاں نظر آئی اور انداز تحریر اپنی طرف متوجہ کرتا ہی چلا گیا۔
مزاح کا فن اتنا آسان نہیں کہ اس میں تسلسل کو آسانی سے برقرار رکھا جا سکے۔ لکھاری کی مہارت اسے شروع سے آخر تک بہترین انداز میں لے جائے تبھی اُسے فنکار بنا دیتی ہے۔ طنزو مزاح کا فن ہر کوئی نہیں اپنا سکتا۔ چاند کی گود میں کی سبھی تحریریں اپنے اندر مزاح کا اسلوب لیئے اپنی طرف متوجہ کرتی ہی چلی جاتی ہیں مگر کچھ خاص تحریروں نے تو ہونٹوں پر بے تحاشہ مسکراہٹ بکھیر دی، ایک تحریر کا عنوان نائب قاصد صاحب، مظہر شاہ کی مزاحیہ عادت کو بیان کرتے ہوئے چار چاند لگا دیئے۔ ویسے ہر تحریر میں ہنسنے و مسکرانے کے تمام لوازمات موجود ہیں قاری کو ایک تحریر ختم ہوتے ہی دوسری تحریر اپنی طرف متوجہ کرتی ہی چلی جاتی ہے۔۔
یہاں اتنا کہتی چلوں کہ بھائی محمد اشفاق ایاز صاحب کا یہ سفر جاری و ساری رہنا چاہیے علم کی دنیا کا ایک قابل قدر ستون ہیں ان کی شعوری، بیداری اور مزاح سے بھرپور تحریروں کا سلیقہ انہیں طنز و مزاح نگاروں کی صف میں کھڑے ہونے کا فخر عطا کرتا ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں پڑھنے کے بعد اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سی تحریریں قاری کو اپنی جانب از خود متوجہ کرتی اور اس بات کا احساس دلاتی گزرتی ہیں کہ اس گزرتے وقت کی گھُٹن میں طنزو مزاح کی کس قدر ضرورت ہے۔ چند عنوان تو پڑھتے ہی مسکراہٹ ہونٹوں پر خود بخود چمک اٹھتی ہے مثلاً ٹنڈ اور بیگم، بیگم کا روزہ وغیرہ۔۔
تحریروں کا مزا لینے کے لئیے کتاب تو قاری کو پڑھنی ہی پڑھے گی۔ آخر میں بہت سی دعائیں کتاب کے مصنف محترم محمد اشفاق ایاز صاحب کے لئیے کہ یہ ظرافت کا سفر رواں دواں رہے۔ ایسے ادب کی بہت ضرورت ہے۔ طنزو مزاح لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہر قاری پر فرض ہے۔ کتاب کی اشاعت پر بہت بہت مبارک۔ چاند کی گود میں کا سفر میرے سنگ آج اتنا ہی تھا۔ بہت سی دعائیں
(فرخندہ رضوی خندہ)
پروفیسر مرزا وسیم بیگ
محمد اشفاق ایاز، سر سید ڈگری کالج میں ایف ایس سی (۱۹۸۴۔ ۸۶ء ) پری میڈیکل) کلاس میں انگریزی کا شاگرد تھا۔ میں اس کی تحریرسے اس وقت متعارف ہوا جب اس نے کالج میگزین کے لئے ایک مزاحیہ تحریر لکھی تھی۔ اگرچہ وہ میگزین بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر شائع نہ ہو سکا۔ لیکن مجھے وہ تحریر بہت پسند آئی۔ میں نے اسے بلایا اور شاباش دی۔ اس کے بعد اس سے ملاقات ہوتی رہی۔ پھر المیر ٹرسٹ لائبریری کے اجلاس میں اس کی تحریریں سننے کا موقع ملا۔ مجھے اس کی تحریروں میں جو چیز پسند آئی وہ یہ کہ اس کے مزاح میں کرداروں کا احترام بھی ہے۔ وہ پھکڑ پن اور طنز کے تیر چلانے کی بجائے کرداروں کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حادثات سے مزاح کشید کرتا ہے۔ اس کی زیر نظر کتاب اس کے منتخب مضامیں کا مجموعہ ہے۔ اس کی اس کوشش پر میں اسے دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پروفیسر رانا صفدر علی
جس زمانے میں محمد اشفاق ایاز سرسید کالج میں زیر تعلیم تھا، میں اردو پڑھایا کرتا تھا۔ بعد میں میرے نہ چاہنے کے باوجود مجھے کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ اشفاق ایک کھلے دل اور بڑے ظرف کا مالک تھا۔ وہ کلاس میں بھی برجستہ جملوں سے ایک خوشگوار ماحول پیدا کئے رکھتا تھا۔ مجھے کالج کے دوران اور اس کے بعد اس کی تحریریں پڑھنے کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ جہاں ملتا بڑے احترام اور ادب سے پیش آتا۔ لیکن ان مختصر ملاقاتوں میں بھی اس کی زبان سے نکلے ہوئے بعض جملے کئی دنوں تک لطف دیتے رہتے۔ میں اس کے اکثر جملوں کو اپنے دوستوں کی محفل میں سناتا تو وہ بھی بڑے محظوظ ہوتے۔ ایک بات کا میں خصوصی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ محمد اشفاق ایاز نے مزاح کے لئے جو ماحول منتخب کیا ہے وہ اساطیری نہیں بلکہ ہمارے اردگرد ہی ہے۔ اس میں کسی کی تضحیک نہیں بلکہ احترام اور شگفتگی ہے۔ اس کی زیر نظر کتاب اردو ادب کے ساتھ ساتھ یقیناً گجرات کے مزاحیہ ادب میں بیش قیمت اضافہ ہے۔
عارف علی میر ایڈووکیٹ
مجھے محمد اشفاق ایاز کے مزاحیہ اندازِ تحریر کا علم اس دن ہوا۔ المیرٹرسٹ لائبریری و مرکز تصنیف و تالیف کی ایک نشست میں پروفیسر وسیم بیگ مرزا کی کتاب کی رونمائی تھی۔ پروفیسر صاحب خود بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ اس موقع پر محمد اشفاق ایاز نے پروفیسر صاحب کا، جو ان کے کالج کے زمانہ میں استاد تھے، خاکہ پیش کیا تھا۔ لائبریری میں موجود شرکاء خاص طور پر پروفیسر صاحب اس خاکہ سے بہت محظوظ ہوئے اور مجلس کے اختتام تک مسکراتے رہے۔ انہوں نے اپنے شاگرد کے مزاحیہ انداز کو خوب سراہا تھا۔ مجھے اس لحاظ سے بھی خوشی ہے۔ کہ لائبریری کے اراکین میں ایک ایسا فرد بھی موجود ہے جس کی تحریر خشک ماحول میں تازگی کے پھول کھلا دیتی ہے۔
افتخار الدین بھٹہ
محمد اشفاق ایاز ضلع گجرات کے مزاحیہ نثری ادب میں پہلا مزاح نگار ہے۔ قبل ازیں پروفیسرانور مسعود جن کا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے مزاحیہ شعری ادب میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ہے۔ محمد اشفاق ایاز کی تحریر میں جان بھی ہے اور شگفتگی بھی۔ مجھے امید ہے کہ وہ مزاحیہ نثری ادب میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
(اہل رائے کا مختصر تعارف کتاب کے آخر میں دیا گیا ہے)