“زرا پلٹ کر دیکھو۔” دانین نے اسی مسکراہٹ سے کہا۔ اس کی مسکراہٹ پر چونکتے ہوئے اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کا دماغ بھک سے اڑا۔ اس کی بہن مکمل طور پر ان کے قبضے میں تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ جارحانہ انداز میں دانین کی طرف بڑھا مگر اشعر کی دھاڑ پر اس کے قدم رکے۔
“یہی رک جاؤ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تمہاری بہن کا بھیجا اڑا دیں گے۔”
“کیا خیال ہے؟” افشین نے اسے خونی نگاہوں سے خود کو دیکھتے پا کر پوچھا۔
“چلو کھولو مجھے۔” دانین نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک طرف بھائی کے گناہ گار تھے تو دوسری طرف بہن مشکل میں تھی۔ وہ عجیب سی کشمکش میں پڑگیا تھا۔
“تم جیسے گھٹیا سوچ کے لوگوں کے ساتھ جب تک اسی سوچ کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے تم لوگ نہیں سدھرتے۔ اب کھولو مجھے۔ یوں کھڑے کھڑےشکل کیا دیکھ رہے ہو؟” دانین نے حقارت سے کہا ۔ کوئی چارہ نہ پا کر اس نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا جس پر اس نے سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ اور پاؤں کھولے۔ ہاتھ پاؤں آزاد ہونے کے بعد وہ کرسی سے اٹھ کر احتشام کے سامنے آئی۔
“کہو کیسا رہا؟”
“تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔” اس نے اپنا غصہ دباتے ہوئے کہا۔
“وہ تو تمہارے بقول میں نے پہلے بھی نہیں کیا تھا ۔خیر میرے شوہر اور نند کو بھی چھوڑو۔”
احتشام کے اشارے پر وہی آدمی رابیل کی رسیاں کھولنے پھر سے آگے بڑھا۔
“اوئے اپنے بہنوئی کو کھول، اسے وہ خود ہی کھول لے گا۔” دانین نے اسے ٹوکا۔ رابیل اس کا انداز دیکھ کر ہنس دی۔
“تمہارا ڈوپٹہ کہاں ہے؟” وہ چونکہ کالج یونیفارم میں تھی تو ڈوپٹہ غائب دیکھ کر اس سے سوال کیا۔
“آپی وہ۔۔۔وہ میرے پاؤں میں اٹک رہا تھا تو اُس بندے نے کھینچ کر پھینکا تھا۔ حالاں کہ میں نے کہا بھی تھا کہ اگر چاہیئے تو ویسے ہی لے لو۔” رابیل نے ایک بندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اشعرنے ان سب سے اسلحہ لے کر ایک کمرے میں پھینکوایا اور ایک کونے میں کھڑا کر کے ان کے ہاتھ باندھ چکا تھا۔ دانین ،ارتضی اور رابیل کو دروازے کی طرف جانے کا اشارہ کرتی ہوئی مڑ کر اس کے آدمیوں کی طرف آئی
“بھائی آپی بہت اچھی فائٹ کرتی ہیں۔ میں نے خود دیکھا تھا۔” رابیل ارتضی کے کان میں گھس کر بولی جواباً ارتضی نے اسے گھوری دکھائی۔
“سچی بھائی۔” اس نے جھٹ سے اپنی شہ رگ پر ہاتھ رکھا۔
“خاموش رہو۔” اس نے سختی سے اسے جھڑکا۔ سب جانتے تھے سوائے اس کے۔ اس کا ایک دم سے موڈ خراب ہوا ۔ رابیل کندھے اچکاتی خاموش ہوگئی۔ افشین نے ارتضی اور رابیل کو اپنے پیچھے کر کے احتشام کی بہن کے ہاتھ کھول کر اس کی طرف بھیجا۔
“کیوں بھئی دوپٹے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟” وہ چلتی ہوئی اس کی طرف آئی جس کا رابیل نے بتایا تھا۔ اس کے نگاہیں جھکانے پر دانین کا ہاتھ اٹھا اور پوری قوت سے اس کے گال پر پڑا۔ کمرا اس کے تھپڑ سے گونج اٹھا تھا۔
“تم نے سوچا کہ کیوں نہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا جائے۔” اس نے اس کو گریبان سے پکڑ کر دیوار میں دے مارا۔ اس معاملے میں وہ ہمیشہ ہی آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتی تھی۔ اس نے جھک کر اسے اٹھانا چاہا مگر وہ ساکت ہوچکا تھا۔ اس کا سر اتنی زور سے دیوار میں لگا تھا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا تھا۔ وہ سر جھٹکتی پیچھے ہٹی۔
“جب میں نے پوچھا تھا تو آپ نے کہا تھا کوئی عدیل سے ذاتی دشمنی نکال کر اسے بدنام کر رہا ہے۔ اتنا بڑا گناہ کر کے عدیل مکر گیا اور آپ۔۔۔۔۔۔آپ نے اس سے باز پرس کرنے کی بجائے پردہ ڈالا۔ اسے سمجھانے کی بجائے آپ اس کا بدلہ لینے چل پڑے۔ آپ دونوں ہمیشہ ہی میرے آئیڈیل رہے ہیں۔ مجھے لگا تھا میرے بھائیوں جیسا کوئی نہیں ہے اور آپ نے ثابت کر دیا کہ میرے بھائیوں جیسا واقعی ہی کوئی نہیں ہے۔ ایک گناہ کرتا ہے تو دوسرا پردہ پوشی کرتا ہے۔” احتشام کی بہن اس کے سامنے آتے ہوئے بولی۔ آنسو اس کے گالوں کو بھگو رہے تھے۔ وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔
“گڑیا میری بات سنو یہ سب۔۔”
“مر گئی آپ کی گڑیا۔ مار دیا ہے آپ نے۔” اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔
“بس ایک بات بتا دیں۔ اگر اس بچی کی جگہ آپ کی بہن ہوتی تو؟”
“گڑیا۔” اشتعال میں اس کا ہاتھ اٹھ گیا مگر بروقت وہ اپنا ہاتھ روک گیا۔
“غیرت کا یہ مظاہرہ آپ پر جچ نہیں رہا بھیا۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی سب سے بڑی گھٹیا سوچ، اپنی بہن عزت اور دوسروں کی مفت کا مال۔ یُو نو واٹ بھیا ! آج سے میرے دونوں بھائی میرے لیے مر گئے۔ اگر بھائی ایسے ہوتے ہیں تو مجھے نہیں چاہئیں۔” وہ اپنے گال رگڑتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں بولی اور وہاں سے جانے کے لیے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے۔ احتشام سن سا کھڑا اسے سن رہا تھا۔ وہ جاتے جاتے اچانک پلٹی اور چیختی ہوئی بولی۔
“آئی ہیٹ یو بھیا آئی ہیٹ یو۔ سنا آپ نے؟” وہ کہہ کر تیزی سے باہر بھاگ گئی۔
تم جیسے کمینوں کے لیے اتنی سزا ہی کافی ہے کہ ساری زندگی تمہاری بہن تم سے نفرت کرتی رہے ہیں ۔تمہاری شکل دیکھے تو اسے اس کے بھائی نہیں زانی نظر آئیں۔” دانین اس کے پاس آتے ہوئے سرد لہجے میں بولی
تم نے آج میرا پہلے سے زیادہ نقصان کیا ہے ۔اب تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔”اس نے جیب سی ریوالور نکالتے ہوئے اس کی طرف کرتے ہوئے کرخت لہجے میں کہا ۔ وہ جو سب باہر کی طرف جا رہے تھے ٹھٹھک کر رکے۔
“ڈی!” افشین بے اختیار چیخی۔ اس سے پہلے ارتضی یا اشعر میں سے کوئی آگے بڑھتا دانین نے پھرتی سے اس کے پسٹل والے ہاتھ پر لات ماری اور اگلے ہی لمحے گن اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے جس پھرتی سے گن اپنے قبضے میں کی تھی اسی تیزی سے اس پر تان بھی لی تھی۔صورت حال پلٹتے دیکھ کر جہاں اشعر اور افشین نے سکھ کی سانس لی وہیں ارتضی ایک بار پھر گرتے گرتے بچا۔
“رابیل بیٹا تم چل کر گاڑی میں بیٹھو۔” افشین نے صورتحال کے پیشِ نظر اسے وہاں سے ہٹانا چاہا۔
” نہیں آپی میں نے نہیں جانا۔” اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہی جواب دیا۔ وہ بہت انہماک سے دانین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا جوش و خروش دیکھ کر اس نے سر جھٹکا۔
“ہاؤ ڈئیر یو۔” مارے طیش کے افتخار کی آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹنے لگی تھیں۔ شدید غصے کے عالم میں اس نے اچھل کر اس پر حملہ کرنا چاہا مگر دانین بجلی کی سی تیزی سے سائیڈ پر ہوئی اور اس کا بازو پکڑ کراس کے پیٹ میں لات دے ماری۔ کمرہ اس کی دلخراش چیخ سے گونج اٹھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا دانین نے ایک مکا اس کے منہ پر جڑا۔ ارتضی سانس روکے اپنی بیوی کو ایکشن میں دیکھ رہا تھا۔ وہ یوں آنکھیں پھاڑے ساکت کھڑا تھا کہ اگر زرا سا بھی ہلا یا پلک جھپکی تو یہ منظر غائب ہوجائے گا۔ رابیل البتہ خاصا انجوائے کرتی دکھائی دے رہی تھی۔
“تم نے سمجھ کیا رکھا ہے؟ میری فیملی کو اٹھا کر لے آئے اور میں نے کچھ کہا نہیں تو تم نے مجھے کمزور ہی سمجھ لیا۔” وہ ایک اور مکا اس کی ناک پر مارتے ہوئے غرائی۔ دوڑتے قدموں کی آواز سن کر وہ سمجھ گئی تھی کہ پولیس پہنچ چکی ہے۔ وہ سائیڈ پر پڑی گن پوری قوت سے اس کے سر پر مارتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ پولیس اہلکار اندر داخل ہوئے تو افشین اور اشعر نے احتشام اور ایک طرف کھڑے اس کے چاروں آدمیوں کی طرف اشارہ کیا۔ وہ انہیں سلیوٹ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ بھاری بوٹوں کی آواز پر ارتضی بھی جھرجھری لے کر ہوش کی دنیا میں لوٹا۔
“مجال ہے جو ہماری پولیس وقت پر پہنچ جائے۔” اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے تلخی سے کہا۔
“معافی چاہتے ہیں میڈم ٹریفک کی وجہ سے دیر ہوگئی۔” انسپیکٹر اسے سلیوٹ کرتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔
“تم ٹھیک ہو؟” ارتضی نے دانین کے پاس آ کر فکرمندی سے پوچھا۔
“ہاں بس منہ اپنی جگہ سے ہلا ہوا لگ رہا ہے۔” وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
“چلو جاتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس سے ہوتے ہوئے چلیں گے۔” افشین نے اس کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
پولیس نے احتشام اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا تھا اور اسلحہ بھی اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ پولیس کے جانے کے بعد وہ لوگ بھی عمارت سے نکل کر اپنی گاڑیوں کی طرف آئے۔ احتشام کو ایک پولیس اہلکار نے گاڑی کے اندر بٹھانا چاہا مگر کچھ فاصلے پر کھڑی دانین پر اس کی نظر پڑی جو رابیل کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ وہاں سے ہٹ کر اس کا دھیان اس اہلکار کے ہولسٹر میں موجود ریوالور پر گیا۔ اس نے یکدم ہی اس سپاہی کے ہولسٹر سے پسٹل کھینچا اور ان کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی وہ فائر کر چکا تھا۔ دانین جو رابیل سے باتیں کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ رہی تھی اچانک اسے لگا جیسے کوئی گرم سلاخ اس کے پیٹ میں دھنس گئی ہو۔ اس کی بے ساختہ چیخ پر ان سب نے مڑ کر اسے دیکھا جو ایک ہاتھ پیٹ پر رکھے لبوں کو سختی سے بھینچے دوسرے سے ہاتھ سے گاڑی کے کھلے دروازے کا سہارا لیے کھڑی تھی۔ وہ سب اسے پکارتے ہوئے دوڑ کر اس کے پاس آئے۔ اس سے پہلے وہ دوسرا فائر کرتا انسپیکٹر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پسٹل چھینی اور اس کو گاڑی کے اندر دھکیل کراہلکاروں کو اسے لے جانے کا اشارہ کیا۔ پولیس وین کو وہاں سے جاتے دیکھ کر وہ خود ان کی طرف آیا جہاں اشعر دانین کو سہارا دیئے گاڑی میں بٹھا رہا تھا اور افشین ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے گاڑی سٹارٹ کر رہی تھی۔ ارتضی ایک بار پھر کسی بت کی مانند بے حس و حرکت کھڑا اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑی تھی۔ پے درپے ملنے والے جھٹکوں نے اس کا ذہن ماؤف کر کے رکھ دیا تھا۔
“بھائی چلیں۔” رابیل نے جلدی میں اسے پکارا۔
“بھائی!” اس کو ساکت کھڑا دیکھ کر اب کی بار رابیل نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔
“دانین” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
“افشی آپی ان کو ہسپتال لے گئی ہیں۔ ہمیں بھی ہسپتال جانا ہے آئیں۔ ریلیکس بھائی آپی بالکل ٹھیک ہوں گی۔” اس کا پیلا پڑتا رنگ دیکھ کر رابیل اس کو تسلی دیتی گاڑی تک لائی۔ اس کی غائب دماغی دیکھ کر اس نے انسپیکٹر سے کہا کہ وہ انہیں ہسپتال چھوڑ دے چونکہ اسے بھی ان سب کے بیان لینے تھے اس لیے وہ ہامی بھرتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ رابیل نے اشعر کو کال کر کے ہسپتال کا پوچھا اور انسپیکٹر کو پتہ بتا کر ارتضی کی جانب متوجہ ہوئی جو گُم صُم سا بیٹھا ہوا تھا۔
” بھائی آپ پریشان نہ ہوں، میں نے دیکھا تھا زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی۔ ویسے بھی آپی بہت مضبوط ہیں ۔ وہ جلدی ٹھیک ہوجائیں گی۔” رابیل نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
گاڑی جیسے ہی ہسپتال کے داخلی گیٹ کے سامنے رکی، ارتضیٰ اور رابیل دونوں ہی سرعت سے گاڑی سے باہر نکل کر ہسپتال میں داخل ہوئے اور بھاگنے کے انداز میں ریسیپشن پر پہنچے۔
“دا۔۔۔دانین کون سے روم میں ہیں؟” ارتضیٰ دانین کی زخمی حالت پر کافی حواس باختہ ہوچکا تھا
“سوری سر، پیشنٹ کا پورا نام بتائیے۔” ریسیپشنسٹ نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ اور نرمی سے پوچھا۔
“پیشنٹ کا نام دانین ابراہیم ہے اور ان کو گولی لگی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ان کو اسی ہسپتال میں لایا گیا ہے۔” رابیل جو ارتضیٰ کی ایسی حالت دیکھ کر کچھ حیران اور پریشان تھی ریسیپشنسٹ کے سوال پر ارتضیٰ کو تھوڑا پیچھے کرتی خود آگے بڑھ کر بولی۔
“میم، پیشنٹ دانین ابراہیم ۔ فرسٹ فلور پر آپریشن تھیٹر میں ہیں۔ آپ وہاں تشریف لے جائیں۔”
“تھینکس” ارتضیٰ عجلت میں کہتا رابیل کا ہاتھ تھام کر فرسٹ فلور کی جانب تیزی سے بھاگا۔ وہ دونوں وہاں پہنچے تو اشعر اور افشین کو او۔ٹی کے باہر کھڑے اضطرابی کیفیت میں ٹہلتے ہوئے پایا۔
” افشی آپی کیا ہوا؟ آپی ٹھیک تو ہیں نا۔” رابیل نے افشین سے پوچھا۔
“فلحال کچھ پتہ نہیں۔ ابھی ڈاکٹر باہر آتے ہیں تو پھر ہی کچھ پتہ چلے گا۔ تم پریشان مت ہو وہ ٹھیک ہوگی۔” افشین نے اس کی پریشان صورت دیکھ کر اس کو اپنے ساتھ لگایا۔ اتنے میں ڈاکٹر باہر آئے تو وہ سب لپک کر ان کی طرف بڑھے۔
“پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ہم نے گولی نکال دی ہے۔ بروقت ان کو یہاں لانے پر ان کا خون ضائع ہونے سے بچ گیا ہے اور ان کی جان بھی۔ ان کو کچھ دیر میں ہی روم میں شفٹ کر دیا جائے گا مگر اس وقت وہ انجیکشن کے زیراثر ہیں، ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں ان کو ہوش آ جائے گا تب آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔” ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہتے اور ارتضی کی پریشان صورت دیکھ کر اس کا کندھا تھپتھپاتے آگے بڑھ گئے۔ دانین کی جان خطرے سے باہر ہونے پر ان سب نے سکون کا سانس لے کر خدا کا شکر ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتضی دروازہ کھول کر اندر آیا تو وہ آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔ آہٹ پر اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کو اپنے پاس کھڑا دیکھ کر دھیرے سے مسکرائی۔ وہ بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھا اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ جب بہت دیر گزرنے کے بعد بھی اس نے کوئی بات نہ کی تو دانین کو خود ہی بولنا پڑا۔
“پریشان ہو؟”
“نہیں مجھے کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی۔” اس نے انکار کیا۔
” تو پھر ناراض ہو؟” دانین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“تمہیں فرق پڑتا ہے؟” اس نے خفگی سے اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“ناراض کیوں ہو؟” دانین نے اٹھ کر بیٹھنا چاہا مگر پیٹ پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے اس کے منہ سے کراہ نکلی۔ ارتضی نے آگے بڑھ کر اس کو سہارا دے کر تکیوں کے سہارے بٹھایا۔
“تم نے بتایا نہیں ناراض کیوں یو؟” اس کی جانب سے جواب نہ پا کر اس نے دوبارہ پوچھا۔
“مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ کالج میں لیکچرار ہو؟”
“مجبوری تھی بھئی۔”
“یہ کیسی مجبوری تھی کہ رابیل جانتی ہے مگر مجھے لاعلم رکھا۔” اس نے جرح کی۔
“اچھا چھوڑو بھی یہ سب۔ یہ بتاؤ باقی سب کہاں ہیں؟” اس نے خالی کمرہ دیکھ کر پوچھا۔
“انکل آنٹی کو ماما گھر لے گئی ہیں۔ رابیل اور افشین بھی گھر چلی گئی ہیں۔”
“ہوں ۔” دانین ہنکارہ بھر کے خاموش ہوگئی۔
“احتشام ؟” اس نے چونک کر پوچھا۔
“حوالات میں ہے۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
“درد ہو رہا ہے؟” اس کو آنکھیں بند کرتے دیکھ کر وہ فکرمند ہوا۔ وہ نفی میں سر ہلاتی تکیے سے ٹیک لگا گئی۔ ارتضیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لیا۔
“کیا ہوا؟” اس کو خاموشی سے اپنے ہاتھ کی پشت پر انگوٹھا پھیرتے دیکھ کر دانین نے پوچھا۔
“میں ڈر گیا تھا۔”
“ابھی سے؟” وہ ہلکا سا مسکرائی۔
“تمہارے جتنا بہادر نہیں ہوں نا” وہ پھیکا سا مسکرایا.
“ان بلیوایبل۔” دانین نے تعجب سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
“کیوں؟”
“ریٹائرڈ کرنل کے بیٹے ہو کر اتنا چھوٹا دل۔” اس نے شرارتی لہجے میں کہا۔
“کہہ سکتی ہو یا پھر شاید تمہارے معاملے میں ہوگیا ہے۔” اس نے اب کی بار سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
” پر ایسا کیوں ؟”
“کیوں۔”ارتضی نے گہری سانس لی
کیوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو۔” اس نے کہتے ساتھ ہی جھک کر اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا جس پر وہ کھل کر مسکرائی۔
“لیکن دل مضبوط کرنا تو پڑے گا۔ جس شعبے سے میرا تعلق ہے وہاں پر ایسے خطروں سے روز گزرنا پڑتا ہے۔ اس طرح تو کام نہیں چلے گا ۔” دانین نے اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتے ہوئے نرمی سے کہا۔ وہ کرسی کھینچ کر اس کے نزدیک ہو کر بیٹھا
“مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا۔”
“کس پر ؟”
“جو پچھلے چند گھنٹوں میں دیکھ اور سن چکا ہوں۔”
“ایسا کچھ انوکھا بھی تو نہیں دیکھا۔ ایک نارمل سی بات تھی ۔”
“بیشک تمہارے لیے ہوگی مگر میرے لیے نیا ہی تھا۔” اس نے صاف گوئی سے اعتراف کیا۔
“اس کے بھائی کو بھی تم نے ہی پیٹا تھا ؟”
“نہیں اشعر اور افشین نے ۔”
“تو پھر وہ تمہارے ہی پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے؟” اس نے حیرت سے پوچھا۔
“اسماء کی فیملی سے ملنے جلنے کے نتیجے میں، میں ہی ان کی نظروں میں آئی تھی اور مجھ سے پھر وہ رابیل اور آپ تک پہنچے۔” اس نے وضاحت دی۔
“آئی ایم سوری۔” دانین نے اس کو خاموش پا کر کہا۔
“کس لیے؟” اس نے چونک کر سر اٹھایا
“میری وجہ سے آپ خطرے میں پڑ گئے اور رابیل کو بھی تکلیف اٹھانی پڑی۔”
“کم آن میں ایسا کچھ نہیں سوچ رہا اور ویسے بھی جس کی بیوی اور بھابھی اتنی خطرناک ہو اس کو کسی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرا خون خشک کرنے کے لیے تم ہی کافی ہو اور رہی رابیل کی بات تو اس کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ جب احتشام نے تمہیں کال کی تھی تو وہ بڑے فخر سے اسے کہہ رہی تھی کہ لوگ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں مگر تم کلہاڑی پر جا کر پاؤں مار رہے ہو بہت پچھتاؤ گے اور وہ کچھ غلط بھی نہیں تھی میں تو تمہاری انٹری پر ہی غش کھا کر رہ گیا تھا۔” اس نے مسکراتے ہوئے شرارت سے کہا تو ہسپتال کے کمرے میں اس کی ہنسی گونجی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فائنلی اس عذاب سے تو جان چھوٹی ۔” افشین عدالت کے احاطے سے نکل کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولی۔ وہ لوگ احتشام کے کیس کے سلسلے میں عدالت آئے تھے۔ احمد صاحب نے اس کیس کو لے کر خود سارا کام کیا تھا۔ سارے ثبوت اور گواہان خود ہی اپنے وکیل کو دیے تھے اور یہ ان کی بھاگ دوڑ کا ہی نتیجہ تھا کہ انہیں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دانین شروع کی پیشیوں میں تو عدالت آتی رہی مگر بعد میں احمد صاحب نےاس کی طبیعت کی وجہ سے اس کی ہسپتال کی رپورٹس عدالت میں جمع کروا کر اس کی پیشی سے سے استشنی لیے لیا ۔ چونکہ ان کا کیس خاصا مضبوط تھا اس لیے چند ہی پیشیوں میں فیصلہ ہوگیا تھا جس میں احتشام کو اغوا اور اقدام قتل کیس کے تحت سزا اور جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ عدیل کا حساب چونکہ وہ اچھے سے کر چکے تھے اس لیے احمد صاحب نے اس کیس کو بند ہی رکھنے کا فیصلہ کیا۔
“ہاں یہ ٹینشن بھی ختم ہوئی۔” اشعر بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“ختم تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ اتنی آسانی سے پیچھے ہٹیں گے۔ بس ہمیں تھوڑا سنبھل کر رہنا ہوگا۔” افشین نے کہا۔
“ویسے ہم کہاں جا رہے ہیں؟” افشین نے اسے گھر کی بجائے مین روڈ کی طرف گاڑی موڑتے دیکھ کر پوچھا۔
“لنچ کے بعد شاپنگ اور پھر دانین کی طرف چلنا ہے۔” اشعر نے جواب دیا۔
“تم تو سب کچھ ہی سوچ کر بیٹھے ہو۔”
“کیا کروں، پھر تم ہی شکایت کرتی ہو کہ میں خود سے کچھ نہیں سوچتا۔ دوسروں کے پیچھے چلتا ہوں تو سوچا پروفیشنل لائف میں نہ سہی پرسنل لائف میں ہی چھوٹے موٹے فیصلے لینا شروع کر دوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم رخصتی سے ہی منع کر دو۔” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور افشین دانین کے قتل کا ارادہ کرتے ہوئے دانت پیس کر رہ گئی۔
“کیا ہوا میں نے کچھ غلط بول دیا کیا؟” اس کی جانب سے جواب نہ پا کر اشعر نے اس کی طرف دیکھا۔
“ہاں تو میں نے کیا غلط بولا تھا۔ تم ایسے ہی تو کرتے ہو۔ دانین یہ کیسے کرنا ہے، افشین یہ کیسا رہے گا، یہ کون کرے گا؟ بلا بلا۔” افشین اپنے موقف پر ڈٹ کر بولی۔
“دیکھو بھئی اپنی پروفیشنل لائف میں تو میں ٹیم لیڈر سے ایک قدم پیچھے رہنے کا ہی قائل ہوں اور دانین چونکہ دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری لیڈر بھی ہے تو اس کے احکامات کی پابندی کرنا میرا فرض ہے۔ رہی بات تمہاری تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے ساتھ میں ہر معاملے میں خود مختار رہوں گا چاہے جاب پر ہوں یا گھر میں ایز اے ہزبینڈ ۔” اشعر نے خاصی سنجیدگی سے کہا۔
“تت ۔تم مجھ پر حکم چلاؤ گے؟” افشین نے صدمے سے اسے دیکھا۔
“تمہاری ہی ایسی خواہش تھی۔” اس نے بے نیازی سے کہتے ہوئے گاڑی ایک ریستوران کے سامنے روکی۔
“چلو اترو ہم پہنچ گئے۔” وہ اپنی سیٹ بیلٹ کھول کر نیچے اترا اور گھوم کر اس کی طرف آ کر اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا۔
“آجاؤ۔” اس کو وہیں جم کر بیٹھے دیکھ کر اس نے دوبارہ کہا مگر وہ اس کی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھی رہی البتہ منہ پھول کر ننھے منے غبارے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
“افشی کیا ہوا ہے ؟ آجاؤ یار مجھے بھوک لگ رہی ہے۔”
“تم مجھ پر آرڈر چلا رہے ہو۔ مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ ۔” اس نے پھولے منہ کے ساتھ جواب دیا۔
“اف! یار کب حکم چلایا بس یہی کہا کہ مجھے بھوک لگ رہی ہے کھانا کھانا ہے ۔”
“ہاں مگر ایک بار بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ کہاں چلنا ہے؟” افشین نے جھٹ سے جواب دیا۔
“تم نے شاید دیکھا نہیں یہ تمہارا فیورٹ ریستوران ہے تو پوچھنا کیا تھا یار، چلو اب اترو نا سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔” وہ بیچارگی سے بولا۔
“مجھے پتہ ہے میں نے کہا تھا کہ تم خود سے فیصلے نہیں لیتے اس لیے اب تم اس کا بدلہ لو گے مجھ سے۔” اس کی بےتکی بات پر وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔
“یار ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ کھانے میں حکم چلانا کہاں سے آ گیا۔ افشی یار پلیز ادھر تو دیکھو۔” اس نے اس کا بازو ہلایا مگر وہ ایک انچ اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی ۔ وہ گہری سانس لیتا دروازہ بند کرتا واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آیا ۔
“اچھا ادھر میری طرف تو دیکھو۔ مجھے بھوک لگی ہے اور مجھے کھانا کھانا ہے تو کون سے ریستوران چلیں ؟” اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو نارمل کرتے ہوئے تحمل سے پوچھا۔
“وہ جو سامنے والا ہے اس میں چلتے ہیں ۔” اس نے فوراً سے بیشتر وہاں سے چند گز کے فاصلے پر بنے ریستوران کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے بنا کوئی جواب دیے گاڑی سٹارٹ کر دی کہ اچانک سے گاڑی میں افشین کا قہقہ گونجا ۔ اشعر نے چونک کر اسے دیکھا جو گھٹنوں پر سر رکھے ہنس رہی تھی۔
“خیریت ؟” اشعر نے اس کے بتائے ہوئے ریستوران کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
“کچھ نہیں بس تمہاری خود مختاری پر ہنسی آگئی تھی۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اپنا منہ دیکھا تھا۔ جس انداز سے یہ پھول رہا تھا مجھے لگا عنقریب اس میں ایک آدھ سوراخ ہو ہی جانا ہے ۔” اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
“تمہارے بدلتے تیور دیکھ کر تمہیں ایک ڈوز دینا ضروری سمجھی ورنہ تم نجانے کیا کرتے۔ ویل ڈن افشی!” اس نے اپنے کارنامے پر خود ہی خود کو داد دی۔
“اب اگر تمہاری اجازت ہو تو اندر چلیں۔” اس نے تنک کر کہا تو وہ ہنستے ہوئے گاڑی سے نکلی۔ اشعر بھی زیرلب مسکراتے ہوئے گاڑی لاک کرتا اس کی طرف آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابیل اور ارسل لان میں بیڈ منٹن کھیل رہے تھے۔ ان سے کچھ فاصلے پر دانین بیٹھی کسی میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی اور گاہے بگاہے انہیں بھی دیکھ رہی تھی۔ ان کا کام تو ختم ہوگیا تھا مگر احمدصاحب نے خطرے کے پیش نظر اسے کچھ دن کے لیے وہیں روک لیا تھا۔ ارتضی آفس سے آیا تو اندر جانے کی بجائے اسے لان میں اکیلا بیٹھا دیکھ کر اس کی طرف چلا آیا۔
“اسلام وعلیکم!”
“وعلیکم السلام!” اس کی آواز سن کر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا۔
“جنگلی بلی آج اکیلی کیوں بیٹھی ہے؟” جب سے اسے افشین نے اس کا کوڈ نیم بتایا تھا تب سے وہ اسی نام سے اسے مخاطب کرتا تھا۔
“پھر کیا کروں؟ کچھ کرنے کو ہے نہیں اور باہر بھی نہیں جا سکتی ۔” اس نے اکتاہٹ سے جواب دیا۔
“مجھے لگا شاید مجھے مس کر رہی تھی۔” اس نے کچھ ایسے انداز میں کہا جیسے اسے اپنا مطلوبہ جواب نہ پا کر بہت مایوسی ہوئی ہو۔ وہ بےساختہ مسکرا دی۔ اس نے کرسی گھسیٹ کر آگے کو ہوتے ہوئے تھوڑا سا اس کی طرف جھکتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما۔
“تمہارا تو پتہ نہیں مگر میں اب تمہیں مس کرنے لگا ہوں۔ کام کے دوران تمہاری اس شدت سے یاد آتی ہے کہ دل چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس گھر آ جاؤں مگر کیا کروں اتنی چھٹیوں کے بعد اب بھائی بھی گھوریاں دکھانے لگے ہیں۔” اس نے آخر میں بیچاری سی صورت بنائی جس کو دیکھتے ہوئے دانین کی ہنسی چھوٹی۔
“تمہارے ٹھرکی ہونے کے بارے میں میرا خیال غلط نہیں تھا۔”
“میری محبت کو تم ٹھرک کا نام دے رہی ہو۔” اس نے منہ بنایا۔
“اچھا میرا ہاتھ تو چھوڑو۔ بچے یہیں ہیں۔” اس نے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے کہا۔
“اچھا ایک بات پوچھوں۔ سچ سچ بتاؤ گی؟” ارتضیٰ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا اور وہ جانتی تھی کہ وہ کیا پوچھے گا۔
“ہاں پوچھو!”
“کیا ہم پہلے بھی مل چکے ہیں؟اب تو بتا دو۔”
“ہاں ۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
“کہاں؟” ارتضیٰ نے حیرت سے پوچھا۔
“آپ یاد ہوگا ایک دن جب علیزہ کے ساتھ تھےتو آپ کے پاس ایک ادھیڑ عمر مانگنے والی عورت آئی تھی اور اس نے آ پ کو علیزہ کا بھائی بھی کہا تھا۔” دانین نے متبسم لہجے میں جواب دیا۔
“تو کیا وہ تم ۔۔۔۔۔۔؟ اوہ مائی گاڈ ۔” وہ ہنسا۔
“اسی لیے جب ڈنر پر میں نے بات کی تو تم غصے سے اٹھ کر چلی گئی تھیں۔”
“مجھے آنٹی اور ماما ہمارے رشتے کے بارے میں بتا چکی تھیں اور میری فطرت کچھ ایسی ہے کہ جو میرا ہے وہ صرف اور صرف میرا ہے۔ نہ ہی میں اسے چھوڑ سکتی ہوں اور نہ ہی بانٹ۔ اپنی چیزوں اور رشتوں کے معاملے میں بہت شدت پسند ہوں۔” اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
” آئی ایم سوری میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا، بٹ آئی پرومس دوبارہ نہیں ہوگا۔ جو گزر گیا وہ بھول جاؤ۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں دوبارہ کوئی شکایت نہ ہو۔” اس کے ماتھے سے بال ہٹاتے ہوئے اس نے نرمی سے کہا۔
“آپ کو فکر کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اپنی چیزوں کی حفاظت کرنا میں اچھے سےجانتی ہوں۔ اگر پہلے اس علیزہ کو آپ کی زندگی سے نکال سکتی ہوں تو دوبارہ بھی کسی ایسی چڑیل کو ٹھکانے لگا سکتی ہوں۔” دانین نے منہ بگاڑتے ہوئے جواب دیا۔
“کیا مطلب؟” وہ اس کے تیور دیکھتے ہوئے ٹھٹکا۔
“وہ جو ثبوت آپ کو ملے تھے وہ میں نے ہی پارسل کیے تھے اور ۔۔۔۔” دانین نے اس کا کھلا منہ دیکھتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
“اور؟” اس کو خاموش ہوتا دیکھ کر اس نے پوچھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے پاس آ کر رکی جو اس کے جواب کا منتظر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“اور اس دن پولیس کو بھی میں نے بھیجا تھا تاکہ وہ قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام ہوجائے کیونکہ مجھے اپنے راستے میں آنے والے کانٹے زیادہ دیر تک برداشت نہیں ہوتے۔” اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے سرد لہجے میں کہا۔
“میں نہیں چاہوں گی کہ آپ دوبارہ ویسی ہی کوئی حرکت دہرائیں ورنہ میں نہیں جانتی کہ میں کیا کر بیٹھوں گی ۔” وہ خشک انداز میں کہتی وہاں سے اٹھ کر گھر کے اندر کی جانب بڑھ گئی۔
“کتنی خطرناک لڑکی ہے۔ ارتضیٰ بیٹا زرا بچ کے۔” وہ اس کی پشت دیکھتا ہوا جھرجھری لے کر سیدھا ہوا اور اٹھ کر اس کے پیچھے ہی اندر کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭دو ماہ بعد٭٭٭
وہ ہال کے ایک کونے میں کھڑی کسی خاتون سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑے ارتضیٰ پر پڑی جو کسی لڑکی کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر ان کو دیکھنے لگی۔ اس کا دھیان نہ پا کر اس عورت نے اسے مخاطب کیا تو وہ چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوئی۔ بظاہر اس لڑکی سے باتیں کرتا ارتضیٰ درحقیقت اسی کو نگاہوں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا۔ وہ اس کے ساتھ بزنس ڈنر پر آئی ہوئی تھی۔ اس کی فرمائش پر سیاہ رنگ کی ساڑھی ہاف آستینوں اور فل بلاوز میں ملبوس اور کھلے بالوں میں وہ مرد و خواتین کی یکساں نگاہوں کا مرکز تھی۔ اپنے بزنس فرینڈز میں مصروف ارتضیٰ وقتاً فوقتاً اس پر بھی نگاہ ڈال لیتا جو ہمیشہ کی طرح جب بھی تیار ہوتی تو الگ ہی چھب دکھلاتی۔ ان سے فارغ ہو کر وہ اس کی طرف ہی بڑھ رہا تھا کہ ایک لڑکی اس کے پاس آئی اور وہ اس کے پاس رک گیا جس کے نتیجے میں وہ اتنی دور سے بھی اس کے ماتھے کے ان گنت بل دیکھ سکتا تھا۔ وہ شرارتاً اس لڑکی کے پاس کھڑا ہو کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ جب پانچ منٹ گزرنے کے باوجود بھی وہ وہاں سے نہیں ہٹا تو دانین اس خاتون سے معذرت کرتی اس کی طرف بڑھی۔ کن اکھیوں سے اسے دیکھتا وہ مکمل انجان بن گیا۔
“کیا ہو رہا ہے ؟” ان کے پاس آ کر اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“نتھنگ سپیشل۔” اس لڑکی نے ناک چڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
“آآآآ۔ یہ ہمارے بزنس فرینڈ علی درانی کی سسٹر ہیں۔” ارتضیٰ نے اس کے بگڑتے تیور دیکھ کر تعارف کروانا مناسب سمجھا۔
“اگر تم چاہو تو یہ بزنس فرینڈشپ رشتے داری میں بھی بدل سکتی ہے۔” اس لڑکی نے اس کا کالر چھوتے ہوئے ایک ادا سے کہا۔ دانین نے پوری آنکھیں کھول کر پہلے اسے اور پھر ارتضیٰ کو دیکھا جو جلدی سےنفی میں سر ہلا رہا تھا کہ میرا کوئی قصور نہیں۔
“اوہ ڈئیر! یہ باتیں بچوں کے کرنے کی نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی سیدھا لڑکے سے یہ بات کی جاتی ہے۔” دانین نے ارتضیٰ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
“تو پھر؟” اس لڑکی نے دلچسپی سے پوچھا۔
“تم آؤ میرے ساتھ میں بتاتی ہوں ۔” وہ اس کا ہاتھ تھام کر بولی اور ایک کڑی نظر ارتضیٰ پر ڈالتے ہوئے اسے لیے آگے بڑھ گئی۔ دانین اسے لیے واش روم میں آئی ۔
“کیا اس سے پہلے بھی تم ارتضیٰ سے مل چکی ہو؟” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ لڑکی کے انکار کرنے پر اس کے تاثرات کافی حد تک نارمل ہوئے۔
“ہوں۔ تو تمہیں اس سے رشتے داری کرنی ہے؟” دانین نے اس کے چہرے پر بکھرے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے پوچھا۔ اس کے ٹھنڈے ٹھار لہجے پر لڑکی نے چونک کر اسے دیکھا۔
“مم ۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔ میرا مطلب۔” اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ اب چٹانوں کی سی سختی نے لے لی تھی جس کو دیکھ کر وہ گڑبڑا سی گئی۔ اس کے ہاتھ اس کے چہرے پر سے ہوتے ہوئے اس کی گردن تک آئے اور اگلے ہی لمحے وہ اس کی گردن دبوچ چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ چیختی دانین سختی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔
“شش تمہاری آواز نہ آئے ورنہ یہی پر گلا دبا دوں گی۔” وہ اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے غرائی۔ اس کی سرد و سپاٹ آواز پر اس لڑکی کے بدن میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔
“ارتضیٰ احمد شوہر ہے میرا۔ آج کے بعد اگر اس کے قریب بھی پھٹکی تو دنیا والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گی۔” اس کے گلے پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس نے سفاکی سے کہا۔ گلے پر دباؤ کی وجہ سے اس کی آنکھیں باہر نکلنے کے قریب ہوگئی تھیں۔ خوف کی شدت اور تکلیف کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے۔
“سمجھ گئی یا مزید سمجھاؤں۔” اس کے منہ سے ہاتھ ہٹا کر اس نے اسی انداز میں پوچھا۔ گلے پر دباؤ بھی کم کر دیا تھا جس سے اس کا بگڑتا چہرہ تیزی سے نارمل ہونا شروع ہوا ۔ اس نے تیزی سے ہاں میں سر ہلانا شروع کردیا۔ اس کی حالت دیکھتے ہوئے دانین نے اس کے گلے سے اپنا ہاتھ ہٹایا تو وہ کھانستی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ اس نے جھک کر ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کیا۔
“جو یہاں ہوا اس کو بھول جانا اگر باہر کسی سے ایک لفظ بھی کہا تو کل کا سورج نہیں دیکھ پاؤ گی ۔”
“مم ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔” اس نے جلدی سے کہا۔
“گڈ گرل، اب اٹھو اور منہ دھو کر جلدی سے باہر آؤ۔ اگلے ایک منٹ میں تم مجھے پہلے جیسی فریش گھومتی پھرتی نظر آؤ۔” دانین نے اسے جی بھر کے رونے بھی نہیں دیا اور اگلا حکم صادر کر دیا۔ وہ فوراً اٹھ کر واش بیسن کی طرف آئی اور منہ دھونے لگی۔ اتنے میں ایک عورت واش روم میں داخل ہوئی۔
“خیریت؟” اس نے اس کو لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے مسلسل منہ پر پانی کے چھنیٹے مارتے دیکھ کر پوچھا۔
“پتہ نہیں میں تو جب یہاں آئی تو یہ پہلے سے موجود تھیں۔ مجھے ان کی طبیعت تھوڑی خراب لگی تو یہیں رک گئی۔” دانین نے کندھے اچکاتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا اور وہ لڑکی اس کی وارننگ دیتی نگاہوں سے خائف ہوتی تیزی سے واش روم سے باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے ہی وہ بھی باہر آئی تو ارتضیٰ کو وہیں کھڑے پایا جہاں چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ اس کے پاس آ کر رکی
“گھر چلیں۔”
“ایسے ہی؟” اس نے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
“تو کیا آیک آدھ ساتھ لے کر جانی ہے؟” اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
“لاحول ولا قوۃ۔ یار میں ڈنر کی بات کر رہا ہوں۔ کھانا تو کھا لو۔”
“ارتضی احمد !میں باہر گاڑی کے پاس ویٹ کر رہی ہوں ۔” وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتی ہال کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ چند لمحے اسے جاتا دیکھتا رہا اور پھر میزبان سے معذرت کر کے اس کے پیچھے ہی باہر چلا آیا جہاں وہ گاڑی کے پاس کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
دو ماہ قبل ہی دانین اور ارتضی کے ساتھ ساتھ اشعر اور افشین کی بھی رخصتی ہوچکی تھی۔ کچھ ان کی فیلڈ اور کچھ حالیہ ہی احتشام والے قصے کی وجہ سے انہوں نے سادگی سے ہی رخصتی کو ترجیح دی تھی۔ ولیمے پر بھی چند خاص خاص لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ اسماء اور ان کے والدین کو ان چاروں نے آپس میں مشورہ کر کے اشعر کے گھر خالی پڑے کوارٹر میں شفٹ کر دیا تھا اور ان کے اخراجات بھی ان چاروں نے مل جل کر اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ اسماء کا داخلہ بھی ایک اچھے سے سکول میں کروا دیا گیا تھا ، لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی اشعر اور افشین کے زمے تھی۔ رابیل اور ارسل کے انٹرسٹ کو دیکھتے ہوئے نوشین بیگم نے انہیں ٹریننگ کے لیے دانین کے حوالے کیا تھا۔ اس کی سخت ٹریننگ کے سامنے کبھی کبھار تو ارسل تھک کر بیٹھ جاتا مگر رابیل کا جوش مانند نہیں پڑتا تھا۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو دانین سرعت سے گاڑی سے باہر نکلتی بنا ارتضیٰ کو دیکھے گھر کے اندر داخل ہوتی سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ ارتضی کو لاؤنج میں ایان مل گیا تو وہ وہیں رک گیا۔
پندرہ بیس منٹ کے بعد جب وہ کمرے میں آیا تو سامنے ہی وہ صوفے پر ٹیک لگائے گن انگلیوں میں یوں گھما رہی تھی جیسے کوئی منچلا بائیک کی چابی گھماتا ہے۔ وہ سر کھجاتا ہوا اس کے پاس آیا۔
“سچ میں میری کوئی غلطی نہیں تھی نہ میں نے اسے بلایا نہ ہی کوئی ایسی بات کی. وہ خود ہی آئی تھی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔” اس کو خود کو گھورتے پا کر ارتضیٰ نے اپنی صفائی پیش کی
“تم اسے منع بھی تو کر سکتے تھے مگر نہیں جہاں لڑکی نظر آئی وہیں ٹھرک جھاڑنے بیٹھ گئے۔ اس کی سزا تم جانتے ہو چلو شروع ہوجاؤ۔” دانین نے گن سے اسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“تم۔۔۔”
” ارتضیٰ میں تین تک گنوں گی۔ ایک۔” اس نے گنتی شروع کرتے ہوئے کہا۔
“دانی سنو تو۔”
“دو۔”
“اوکے اوکے۔” وہ جلدی سے پیچھے ہو کر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرنے لگا۔
“دس ہو گئیں۔” اس نے زرا سی دیر کو رک کر کہا مگر اس کو توجہ نہ دیتے دیکھ کر دوبارہ سے شروع ہوگیا۔
“یار بیس ہوگئیں نا اب بس کرو۔ سچی میں میرا اتنا سا بھی قصور نہیں تھا۔” اس نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو ملاتے ہوئے کہا اور بیڈ کی پائنتی سے ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
“تم اس کو بجائے یہ بتانے کے کہ تم شادی شدہ ہو، اس کے ساتھ گپیں لگانے میں مصروف ہوگئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے پسند نہیں۔”
“اس طرح تو شوہر بھی بیویوں پر پابندیاں نہیں لگاتے جیسے تم نے مجھ پر لگا رکھی ہیں۔ اس نے برا سا منہ بنایا۔
“تمہارا ریکارڈ ہی ایسا ہے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔” اس نے لاپرواہی سے کہا۔
“اور تم نے رخصتی کے بعد مجھے آپ کہنا کیوں چھوڑ دیا ہے ؟” ارتضیٰ نے شکایت کی۔ رخصتی کے ایک ماہ بعد ہی وہ آپ سے تم پر اگئی تھی، جس کی بڑی وجہ ارتضیٰ کا نرم اور دوستانہ مزاج تھا۔
“اپنی حرکتیں دیکھی ہیں!” دانین نے اسے گھوری دکھائی۔
“اچھا نہ آج کے لیے بس کرو۔ میں آج واقعی میں بہت تھکا ہوا ہوں اب جو سزا بچ گئی ہے وہ نیکسٹ میں ایڈ کر لینا ۔” ارتضیٰ نے مسکینیت سے کہا۔
مطلب کہ تم آئندہ بھی ایسا ہی کرو گے ؟” دانین نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔
بندہ بشر ہوں ،غلطی ہو جاتی ہے ۔ اب میں جاؤں۔ یار سچی آفس میں بہت کام تھا ۔”
“ہوں ٹھیک ہے۔ جاؤ تم بھی کیا یاد کروگے کس سخی سے پالا پڑا تھا۔” وہ اس کے چہرے پر تھکن دیکھتے ہوئے نرم پڑی۔
“بہت شکریہ ملکہ عالیہ۔” وہ اٹھ کر وہیں بیڈ پر ہی لیٹ گیا اور دانین اٹھ کر چینج کرنے چلی گئی ۔
چینج کر کے نکلی تو وہ تقریباً نیم غنودگی میں جا چکا تھا۔ دانین نے اس کا کوٹ اٹھا کر الماری میں رکھا، اس کے ہاتھ سے گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور اس کے جوتے اتار کر اس کو کمبل اوڑھایا۔ کچن سے پانی کا جگ لا کر اس کی سائیڈ پر رکھ کر اس کی طرف آئی اور جھک کر اس کی پیشانی چومتے ہوئے آہستگی سے چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور بنا آواز کیے دروازہ بند کرتی سٹڈی کی طرف بڑھی جہاں کسی کیس کے سلسلے میں احمد صاحب کے ساتھ اشعر اور افشین بھی اس کا انتظار کر رہے تھے۔
ختم شد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...