اشعر تم کیوں نہیں سمجھ رہے کہ ماموں ہمیں وہاں بلا رہے ہیں بیٹا۔۔ اشعر کی ماما اب اسے ساری بات سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔
ماما آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں کہ میری پڑھائی چل رہی ہے، بیچ میں سے کیسے امریکہ چلا جاو ماما؟؟
بیٹا ابھی صرف دو سالہ ہی تو ہوئے ہیں تم وہاں شروع سے شروع کر لینا بیٹا لیکن میں تمہارے ماموں کو منع نہیں کر سکتی۔۔۔ ماما اب اس کے پاؤں ہی پڑنے والی تھیں ۔
ماما بس بھی کریں۔۔۔ لیکن ماما ثانیہ؟؟ میں اسے کیسے چھوڑ کر چلا جاؤں گا… آپ کو پتا ہے میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں..
.
بیٹا تو ہمیشہ کے لئے تھوڑی جانا ہے۔۔ جب تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ تو واپس آجائیں گے ہم.. ماما کا انداز سمجھانے والا تھا۔۔
ماما اپنی جگہ صحیح بھی تھیں ۔۔ اشعر جب چودہ سال کا تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔۔ تایا چاچا نے کچھ ٹائم ساتھ یا پھر وہ بھی بھائی کی جائیداد کے پیچہے پر گئے ۔۔ تب سے بس ان کے ماموں ہی تھے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا اور اب تک دے رہے تھے۔۔۔ اشعر کی پڑھائی کا سارا خرچہ ہمیشہ انہوں نے ہی اٹھایا تھا لیکن اب وہ چاہتے تھے کہ کوئی بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے وہ امریکہ اکر ان کا کاروبار سنبھالے اور ان کا ساتھ دے۔۔۔
اشعر ہر سچائی سے واقف تھا اور احسانات کے نیچے دبا ہوا تھا کہ تو انکار بھی نہ کر سکا۔۔
ماما میں نے آپ کی ہر بات مانی ہے لیکن یہ کیا بات ہوئی مجھے ثانیہ کو تو بتانے دے دیں ۔ وہ میرا انتظار کر ے گی ماما ۔۔۔
بیٹا ہمیں کسی کو بغیر بتائے ہی جانا ہے تاکہ تمھارے تایا چاچا کو نہ پتہ چلے۔۔۔ اور ثانیہ کو بھی نا ہی بتاؤ کچھ ٹائم کی تو بات ہے اور وہ خوش ہو گی جب تم کچھ بن کر آؤ گے ۔۔
اور اس طرح میں امریکہ چلا گیا اور وہاں جا کر ماموں کا بزنس چلانے لگا ۔۔بزنس میں بزی ہونے کی وجہ سے میرا پیشن کھو چکا تھا اب کچھ باقی نہ رہا تھا اس مٹی کے ذرے کی طرح سب ہاتھ سے نکل چکا تھا۔۔
مہوش میرے ماموں کی اکلوتی بیٹی۔۔ دکھنے میں انتہائی خوبصورت اور انتہا سے زیادہ بھولی۔۔۔ وہی تھی جس سے میری دوستی جلد ہی ہو گئی تھی وہ تھی اتنی پیاری۔۔ کم گو تھی لیکن جب کوئی اپنا ملتا تو صرف بولتی ہی جاتی۔۔۔
اشعر کا روٹین تھا وہ پورا ہفتہ کام سنبھالتا اور ویک اینڈ پر وہ اشعر کو بوسٹن گھماتی ۔۔
* * *
اشعر آپ کے وہاں کیسے دوست تھے ؟؟؟ مہوش بھی اکثر ایسے ہی سوالات کرتی تھی ۔۔ وہ اشعر کو جاننا چاہتی تھی۔۔
اچھے دوست تھے میرے ۔۔۔ میں ذرا پڑھاکو ٹائپ بچہ تھا ۔۔ اسلیے زیادہ دوست نہیں تھے میرے۔۔۔۔
اشعر مہوش سے کبھی دوستوں کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر پاتا تھا کیونکہ بہت سی یادیں تھیں جو اس کا پیچھا کرنے لگتی تھیں ۔۔۔
تم اپنے بارے میں بتاؤ؟؟؟ اشعر کا صرف سوال کرنا ہی ہوتا تھا اور مہوش کی آنکھوں کی چمک اور بڑھ جاتی تھیں اور وہ اپنے بارے میں سب بتانے لگتی تھی۔
* * *
تین سال ایسے ہی گزر گئے اور اشعر نے ماموں کے کاروبار کو بہت نفع پہنچایا اور بہت جلد ہی فیکٹریوں میں اضافہ ہونے لگا۔۔
* * *
ماما!! آپ یہ کیا بول رہی ہیں ۔۔ میں مہوش سے شادی کر لو۔۔۔ اشعر کے لیے یہ حکم ایک عذاب کی طرح نازل ہوا تھا۔۔
مہوش تم سے پیار کرتی ہے بیٹا اور ماموں بھی یہی چاہتے ہیں۔۔۔
اس بات کی نفی تو اشعر بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔ مہوش اس سے پیار کرتی تھی کیونکہ اس کی آنکھوں کی چمک صاف صاف اس کی محبت کی گواہی دیتی تھی۔۔
ماما ثانیہ کا کیا ہوگا ؟؟ اشعر تھا کہ ثانیہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔۔۔
ثانیہ کا نہیں پتا تمہیں؟؟؟ اس نے تو اپنے کزن سے شادی بھی کر لی ۔۔
ماما نے یہ کیوں بولا تھا نہیں پتا۔۔۔ لیکن کچھ ٹائم کے لیے تو اشعر کو سکتا ہی آگیا تھا۔۔
آپ یہ کیا بول رہی ہیں؟؟؟
ہاں مجھے بھی کچھ ٹائم پہلے ہی پتہ چلا مسز شہلا سے ۔۔۔ثانیہ کی تو شادی بھی ہو گئی دھوم دھام سے۔۔ اس کے پھوپھو کے بیٹے سے ۔۔
(مسز شیلا ان لوگوں کی پڑوسی تھی)
ماما میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اشعر آج بہت رویا تھا جو امید اسے یہاں روکے ہوئے تھی آج وہ چکنا چور ہو چکی تھی۔
اشعر نے کنفرم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی کیوں کہ ماما اس کی ایسی برین واشنگ کر چکی تھی کہ اسے پکا یقین ہو چکا تھا کہ ثانیہ شادی کر چکی ہے۔۔
اشعر مہوش سے شادی کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔۔ اس طرح ان دونوں کی شادی ہوگئی۔۔ مہوش سوچ سے بھی زیادہ اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔۔۔
“نکاح تو نام ہی محبت کا ہے”
مہوش نے آہستہ آہستہ اشعر کے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے تھے ۔۔ لیکن ایک دم حادثاتی طور پر ماموں انتقال کرگئے اور اشعر نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا ۔۔
* * *
آخری پیشنٹ ہونے کی وجہ سے اشعر ثانیہ کو باہر لے آیا تھا کیونکہ اس کے بعد ثانیہ کی چھٹی تھی اور آہستہ آہستہ اس نے شروع سے سٹارٹ کیا۔۔۔۔
یہاں آکر پتا چلا کہ تم لوگ شفٹ کر چکے ہو اور باقی میں نے زیادہ پوچھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔ جس دن میرا ایکسیڈنٹ ہوا اور میں تم سے ملا تو مجھے عجیب سا لگا ۔۔ لیکن اب تک مجھے نہیں پتا تھا کہ تم شادی شدہ نہیں ہو۔
پھر میں نے ڈھونڈ کر ارم کا نمبر نکالا اور اس سے بات کی جس پر مجھے پتا چلا کہ تم نے شادی ہی نہیں کی اور میرے انتظار میں رہیں۔۔۔۔
اس دن میں اپنی نظروں میں گر گیا تھا ثانیہ اور مجھے اب ماما پر بہت غصہ آیا اور میں فوراً گھر گیا اور ماما کو مقابل کھڑا کیا لیکن اب وہ بھی کیا بولتیں شرمندہ تھیں ۔ لیکن میں نے چیخ چیخ کر اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔ جس کو ماما نے یہ بول کر چپ کرایا کہ مہوش گھر میں ہے اور اس کو ابھی ایکسیڈنٹ میں ہونے والے حادثے کا نہیں پتا۔۔۔
پتہ ہے ثانیہ میری قسمت اتنی خراب چل رہی تھی نہ کہ یہ بات مہوش نے سن لی اور میری بہت کوشش کے باوجود اس نے خودکشی کی کوشش کی۔۔۔
ثانیہ کو ساری صورت حال بتاتے ہوئے اشعر بہت ٹوٹا ہوا معلوم ہو رہا تھا اور ایک نظر اٹھا کر سامنے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
اشعر، مہوش ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ اس کی رپورٹس بہت اچھی ہیں اور ایکسرے بھی ٹھیک ہیں ۔ ٹانگ کی ہڈی تقریبا ٹھیک ہو چکی ہے۔ اللہ کی طرف سے مدد ہی ہے کہ اوپر سے کودنے کے باوجود اتنی جلدی ریکور ہو رہی ہے ۔۔۔
سوری ثانیہ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا میری غلطی ہے لیکن اب صرف پچھتاوے سے کیا ہوگا۔۔۔۔
مہوش بہت اچھی ہے ثانیہ۔۔ اس کی تو اس سب میں کوئی غلطی بھی نہیں ہے میں اسے ان سب میں نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔سب سے زیادہ اسے میری ضرورت ہے۔۔
میرے ساتھ جو بھی ہوا میری قسمت میں لکھا تھا میں تمہیں معاف کرتی ہوں ۔۔۔
اب تم کر بھی لو شادی! آنٹی عورت بنتی جا رہی ہو..اشعر نے ہنس کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا گئی ۔۔۔
تمہاری پوری بات میں مجھے ایک بات سمجھ میں آئی ۔۔ جو آپ سے پیار کرے اس کی قدر کرو ضروری نہیں آپ کو اس سے پیار ہو۔ نکاح کے بعد پیار ہو ہی جاتا ہے۔
اوہو! بڑی باتیں کر رہی ہو کوئی ہے کیا ؟؟اشعر فوراً اچھل کر پوچھنے لگا۔
جلدی بتا دوں گی۔۔ ثانیہ صرف مسکرا ہی سکی تھی کہ فی الحال وہ آگے کا سوچ رہی تھی۔۔۔
* * *
کیسی طبیعت ہے اب تمہاری؟؟؟ ثانیہ اگلے دن ہسپتال سے اشعر کے گھر گئی تھی۔۔
کیسی دکھ رہی ہوں میں؟؟؟ مہوش نے الٹا سوال داغا جس پر ثانیہ سٹپٹا گئی۔۔
بہت اچھی لگ رہی ہو بہت ہی پیاری۔۔۔ ثانیہ بالکل اس کے پاس بیٹھ چکی تھی۔۔
تم نے شادی کیوں نہیں کی ثانیہ؟؟؟ کیا تم اشعر کو مجھ سے چھین لو گی؟؟؟ مہوش تھی کہ بس رو دینے کو تھی ۔ جس کو دیکھ کر ثانیہ کا دل پھٹنے لگا تھا ۔۔ کیا تھی اس لڑکی کی غلطی جو اسے اتنا سہنا پڑا۔۔۔
تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں اشعر کو تم سے چھین لوں گی۔۔۔ نہیں مہوش وہ تمہارا شوہر اور تم سے بہت پیار کرتا ہے اور میری شادی نہ کرنے کی وجہ میرا کریئر تھا۔۔
اچھا مطلب تو تم اب اشعر سے پیار نہیں کرتیں ؟؟ مہوش کھل چکی تھی۔۔
ظاہر ہے مہوش جو بھی تھا بچپن میں تھا اس کا روگ لے کر تھوڑی بیٹھوں گی میں۔۔ .infact میری شادی بھی ہونے والی ہے اور میں تمہیں ضرور انوائیٹ کروں گی ۔۔جیسے اشعر میرا دوست ہے تم بھی تو ہو نہ؟؟؟
ثانیہ اس کو نارمل کرنے میں کامیاب ہو رہی تھی اور زندگی کی طرف اب مہوش واپس آ رہی تھی۔۔۔
یہ سب ثانیہ نے اشعر کے کہنے پر کیا تھا کیونکہ بس اب وہ ہی بچی تھی جس کے بات کرنے سے مہوش نارمل ہو سکتی تھی اور اس کے بات کرنے سے مہوش حددرجہ پر سکون ہو چکی تھی۔۔۔ اشعر خوش تھا کے مہوش اب اس سے صحیح بات کر رہی تھی۔۔۔ ان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئی تھیں ۔۔
* * *
لیکن ثانیہ اپنے جھوٹ بولنے پر دل کھول کر ہنسی تھی واپسی پر اس نے ہر اس بات کا مذاق اڑایا تھا جو وہ اسے بول آئی تھی۔۔ کسی نے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا میرا کیا قصور تھا میرے ساتھ کیوں اتنا برا ہوا؟ اب ہنسنے کے علاوہ تھا ہی کیا .. بس اب اپنی قسمت میں ہنسا ہی جا سکتا تھا.. کیسے سب نے اپنی مجبوریاں بتا دیں اور میں بس سنتی رہی ۔۔کیوں نہیں بول پائی؟ جو میں نے جھیلا جو میں نے برداشت کیا اس کا کیا؟؟
بس اشعر کی ساری کہانی سن لی۔۔ اپنی کیوں نہیں بتا سکی؟؟؟
ہاں سمجھ گئی اس لئے ان کے اب بتانے سے صرف میرے جذبات کی بے قدری ہوتی۔۔ جو میں نے جھیلا اس کو بتاتی تو میرا مذاق اڑاتے۔۔ آج بھی وہ بہت تکلیف دہ سفر طے کر آئی تھی اور سب بھلانے کا سوچ کر سو چکی تھی۔
* * *
السلام علیکم!!! ثانیہ نے پیچھے سے آرام سے سلام کیا تھا جس پر ارسل نے مڑ کر دیکھا تھا لیکن کوئی خاص ریکٹ نہیں کیا تھا۔۔
وعلیکم السلام! آپ جناب ،،آج ہمارے ہسپتال کیسے آگئیں ؟؟؟ ارسل کا انداز taunt کرنے والا تھا..
وہ ثانیہ کو نظر انداز کرکے فائل میں غرق ہونے کی ایکٹنگ بخوبی کر رہا تھا…
وہ میں پوچھنے آئی تھی کافی پینے چلیں ۔۔ ثانیہ یہ بات نظر جھکا کر ہی کہہ پائی تھی۔۔
اوہ خیریت، ڈاکٹرثانیہ آج راستہ کیسے بھول گئی ہیں آپ اور کافی میری طبیعت ٹھیک نہیں یا آپ کی؟؟؟
وہ میری جلدی چھٹی ہوگئی تھی تو سوچا کہیں کافی پی لو پھر کسی دوست کے ساتھ جا کر پینے کا خیال آیا تو تم یاد آئے ۔ لیکن اگر تم بزی ہو تو کوئی بات نہیں میں گھر چلی جاتی ہوں ثانیہ نے اس کو پوری بات سمجھائی پھر تھوڑی مایوس ہو کر اٹھنے لگی۔۔
سنو ڈاکٹر صاحبہ! میرے کیبن میں آتا کوئی اپنی مرضی سے ہے لیکن جاتا میری مرضی سے ہے۔۔ تو تشریف رکھیں،، آپ کی طرح بے مروّت نہیں کہ اپنے پاس آئے ہوئے مہمان ان کو ذلیل کر کے جانے کا بول دو ۔۔ ارسل نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تھی لیکن اب وہ ثانیہ کو دیکھ رہا تھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔۔
سوری ارسل میری لائف بہت الجھی ہوئی تھی جو اب تقریباً سلجھ چکی ہے۔۔ لیکن اب میں تمھیں اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں تم مجھے چاہ رہے ہو بغیر میرے بارے میں جانے ہوئے شاید سب کچھ پتہ چل جانے کے بعد میں تمہیں پسند نہ آؤں۔۔
ثانیہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کر رہی تھی کہ اس کے بارے میں یہ جان کر کے وہ کسی کو اتنا پسند کرتی تھی بھول جائے گا اسے پھر وہ ملال بھی ختم ہوجائے گا جو اسے روز سونے نہیں دے رہا کہ جیسے میرے پیار کو منزل نہیں ملی میں بھی اس کے ساتھ بالکل ویسا ہی کر رہی ہوں ۔۔
ثانیہ تمہیں مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہارے بارے میں سب جانتا ہوں۔۔۔
تمہیں حیرت ہو گی یہ جان کر جب تم نے مجھے انکار کیا تو میں نے ڈاکٹر ارم سے کانٹیکٹ کیا جس سے میری بات تمہاری بہن کی شادی میں ہوئی تھی۔ انہیں میں نے اپنے بارے میں سب بتایا اور پھر یقین دلایا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اورتمہارے اس بیہیویر کی وجہ جاننا چاہتا ہوں ۔۔شاید انہیں میری باتوں پر جلدی یقین اگیا تھا اور وہ تمہارے لیے اچھا چاہتی تھی۔۔ اس لئے ارم نے تمہارے بارے میں سب بتا دیا اور میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں تمہیں خوش رکھوں گا۔
مجھے یقین تھا جس لڑکی کے ساتھ اتنا برا ہوا وہ کسی کے ساتھ ایسا نہیں کرے گی اور تم بات کو کلیر ضرور کروگی ۔۔
تم نے یہ کیوں سوچا کہ یہ سب جاننے کے بعد میں تمہیں بھول جاؤں گا۔۔۔ نہیں ثانیہ میں تمہیں کبھی فورس نہیں کروں گا نہ ہی تم پر اپنی فیلنگز کو تھوپھوں گا۔۔ فیصلہ تمہارا ہے اگر تم انکار بھی کرو گی تو مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ سب ہی کی اپنی مرضی ہوتی ہے تمہیں بھی حق ہے اپنا فیصلہ کرنے کا۔۔۔
جب تک ارسل اس کو سمجھاتا رہا ثانیہ نے اپنی آنکھیں برسنے دیں ۔ وہ درد ،وہ تکلیف جو برسوں سے دل میں رکھ کر بیٹھی تھی آج آنکھوں کے ذریعے سب نکال رہی تھی پھر مسکرا کر ارسل کو دیکھنے لگی اس پورے عرصے میں ارسل نے ثانیہ کو چپ نہیں کرایا اور اس کو رونے دیا تاکہ وہ خود کو نارمل کر لے۔۔۔
گھر والوں کو کب بھیج رہے ہو ؟؟؟ثانیہ کا یہ کہنا تھا کہ ارسل اپنی سیٹ سے اچھل چکا تھا۔۔
ارے میڈم!! اگر ایسی کوئی بات آئندہ کرنی ہو تو تھوڑی تمہید ہی باندھ لینا۔۔ ابھی ہارٹ اٹیک ہو جاتا اور پھر مسکرانے لگا۔۔
کل بھیجتا ہوں لیکن لڑکی انہیں نہ تم ذلیل کر دینا جیسے مجھے کیا تھا۔۔۔ میں بھولا نہیں ہوں ۔۔۔۔
ارسل نے مصنوعی خفا ہونے کی ایکٹنگ کی جس پر ثانیہ بھی مسکرا دی۔۔۔
* * *
ارم شادی کا انویٹیشن دینا تھا تھا …. ثانیہ نے رشتہ پکا ہونے کے بعد ارم کو کال کی تھی ۔۔۔
تمہاری؟؟؟ ارم اچھل ہی گئی تھی…
ہاں تو کس کی ثانیہ مسکرا رہی تھی ۔۔۔
* * *
ثانیہ کی شادی کا فنکشن ان کے لان میں منعقد کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
آج وہ غضب کی حسین لگ رہی تھی۔۔ ریڈ اور پرپل کے کمبینیشن کی میکسی اس پر بہت جچ رہی تھی، گولڈ کی نفیس سی جولری پہنے وہ سب کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی تھی۔۔۔
ارسل نے آف وائٹ اور ریڈ کے کمبینیشن کی شیروانی زیب تن کی تھی اور دونوں ساتھ بیٹھے بالکل مکمل لگ رہے تھے۔۔۔ نکاح پہلے ہی ہوچکا تھا آج رخصتی کا دن تھا۔۔۔
اوہو ارسل تم نے کر ہی لیا جو چاہتے تھے مجھے خوشی ہے کہ تم دونوں کی شادی میں تھوڑا ہاتھ میرا بھی ہے۔۔۔۔ ارم اب دونوں کی برابر میں بیٹھی ارسل کو تنگ کر رہی تھی۔۔۔
دیکھ لو میں نے بس کبھی غرور نہیں کیا!! ارسل نے اترانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔۔
دونوں کے تمام دوست آئے تھے اور سب کو ہی دونوں کی جوڑی بہت پسند آئی تھی اشعر بھی آیا تھا اور دونوں کو خوب دعائیں دی تھی مہوش نہیں آسکتی تھی لیکن آنا چاہتی تھی۔۔۔
* * *
ثانیہ گھونگھٹ میں بیٹھی اب ارسل کا ویٹ کر رہی تھی۔۔ آہستہ سے دروازہ کھلنے کی آہٹ ہوئی اور ثانیہ اپنے آپ کو درست کرنے لگی۔۔۔
بہت اچھی لگ رہی ہو آج تم ۔۔۔ گھونگھٹ کو ہٹا کر اس نے پہلے اس کی تعریف کی تھی۔۔۔
ثانیہ کو آنکھوں میں پانی آنے لگا تھا بہت ٹائم سے جس پیار کی کمی کو محسوس کر رہی تھی اس نے اسے پورا کیا تھا۔۔۔ ثانیہ کو اپنا مضبوط ساتھ دیا تھا۔۔۔ ہمیشہ خوش رکھنے کا وعدہ کیا تھا ۔۔۔۔ثانیہ آج بہت خوش تھی اس کی زندگی مکمل ہوچکی تھی اور مقابل اس کو بہت پیار کرنے والا ملا تھا۔۔۔
لڑکی سن لو یہ آنسو آج تو نکل گیا اب ذرا اندر ہی رکھنا انہیں۔۔۔۔۔ ارسل کا انداز انگلی اٹھا کر دھکی دینے والا تھا۔۔۔
میں یہ نہیں کہتی ارسل کے مجھے تم سے پیار ہوگیا لیکن جلد ہو جائے گا اور بھرپور اور مکمل ہو گا میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گی۔۔۔۔
ہائے بس بھی کرو مجھے شرم آرہی ہے ارسل کا انداز ایسا تھا کہ ثانیہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔۔
ختم شد!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...