اقبال حسن آزاد(مونگیر)
کھادی کا سفید کرتا پائجامہ ،فیروزی رنگ کی ایک ہاف سوئٹراور دوپلّی ٹوپی زیب تن کئے یتیم میاں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ دبلی پتلی کایا،درمیانہ قد،پوپلا منہہ، رخسار پر کانٹے دار داڑھی اور بڑی بڑی آنکھیں․․․․․یا یوں کہئے کہ پھٹی پھٹی آنکھیں․․․․․گویا اپنے حلقوں سے نکلنے کے لئے بیتاب․․․․․عجیب سی وحشت ان کے بشرے سے ٹپک رہی تھی ۔ایک پل کو سبھی چپ ہو گئے۔جیسے linkفیل ہوجانے پر ٹی وی چلتے چلتے اچانک disconnectہو جاتا ہے۔ پھر وہ جیسے کمرے میں داخل ہوئے تھے، ویسے ہی اُلٹے قدموں لوٹ گئے۔
’’یہ بڑے میاں کون ہیں؟‘‘آصف صاحب نے ایک طویل سانس کو سینے سے آزاد کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ہمارے خاندانی نوکر ہیں۔ابا جان کے ساتھ حویلی میں رہا کرتے تھے۔ان کے انتقال کے بعد میں نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے ۔بے چارے بالکل تنہا ہیں۔‘‘رحمت حسین نے تفصیل بتائی۔
’’آپ لوگوں نے ان کی آنکھیں دیکھیں․․․․․کیسی وحشتناک تھیں․․․․․․جیسے آسیب زدہ ہوں۔‘‘
آصف میاں نے ایک جھرجھری لے کر کہا۔
’’آسیب واسیب کچھ نہیں ہوتا ہے ۔یہ سب دماغ کا وہم ہے۔‘‘رشید صاحب اپنی روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے بولے۔ یتیم میاں ڈرائنگ روم سے نکل چکے تھے مگر ایک لفظ ان کے کانوں میں پڑ ہی گیا۔وہ بدبدا کر رہ گئے۔’’آسیب!‘‘ اور ان کی آنکھوں کے سامنے دھند سی چھا گئی اور اس دھند میں دھندلی دھندلی یادیں ان کے ذہن کے پردے پر اُبھرنے لگیں۔
’’ماشاء اللہ بہت ذہین ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ زندگی میں بڑی کامیابیاں حاصل کرے گا۔‘‘ ماسٹرصغیر اکثر ان سے کہتے۔بیٹے کی تعریف سن کر کون باپ ہوگا جس کا سینہ فخر سے نہ پھول جاتا ہو۔سو یتیم میاں بھی پھولے پھولے پھرتے مگر کسے معلوم تھا کہ ․․․․․انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور نگاہوں کے سامنے ہنستا کھیلتا انور آ گیا۔۔ایک دفعہ انور کی ماں نے کہا ۔’’ اک ذری پیر صاحب سے تعویذ دلوا دیجئے۔اللہ نظر بد سے بچائے۔‘‘
اور وہ ننھے انور کی انگلی تھامے پیر صاحب کی درگاہ جا پہنچے تھے۔شہر سے باہر ایک نیچی پہاڑی پر احاطہ سے گھری درگاہ انور میاں کو بڑی پر اسرار معلوم ہوئی۔ان کی بڑی بڑی ذہین آنکھیں حیرت اور ایک نامعلوم خوف سے چوکنی سی دکھائی دینے لگیں۔پھر دونوں باپ بیٹا لکڑی کے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔پیر صاحب کی درگاہ کے سامنے جم غفیر تھا ۔زمانے بھر کے ستائے ہوئے ننگے بُچّے لوگ،پریشان حال ،سر بہ گریباں پیر صاحب کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے جو ایک اونچی کرسی پر فروکش اپنی نیلی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے ۔درمیان میں ایک نوجوان، بے ترتیب داڑھی،الجھے میلے بال،آدھے بدن سے ننگا آنکھیں بند کئے زمین پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔اس کا بوڑھا باپ روتا جاتا تھا اور کانپتا جاتا تھا۔
’’حضور! اب کیا ہوگا؟ میرا ایک ہی لڑکا ہے ۔حضور میں تو برباد ہو گیا، لٹ گیا۔‘‘ اور پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔باپ کی انگلی تھامے ننھے انور میاں نے یہ سارا نظارہ اپنی آ نکھوں سے دیکھا۔اتنے سارے لوگوں کا جماوڑا اور اس پر سے بڈھے کا رونا ۔انور میاں ذرا گھبرا سے گئے۔انہوں نے اپنے باپ کی انگلیاں کس کر تھام لیں۔یتیم میاں نے ایک نظر ان پر ڈالی۔
’’ابا! گھر چلئے۔‘‘یتیم میاں نے ان کا ہاتھ دھیرے سے دبایا گویا انہیں تسلیاں دے رہے ہوں۔پھر انہوں نے درگاہ کے ایک خادم سے دریافت کیا۔’’ اس شخص کو کیا ہوا ہے؟‘‘
خادم نے جواب دیا۔’’آسیبی کیفیت ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا؟‘‘
’’کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔بعض آسیب جلد پیچھا نہیں چھوڑتے،جان لے کر ہی ٹلتے ہیں۔ ‘ ‘اتنا کہہ کر خادم پیر صاحب کی جانب بڑھ گیا تھا۔
کچن سے شاہدہ نے انہیں آواز دی تو وہ حال میں لوٹ آئے ۔ دونوں گھٹنوں پر زور دیتے ہوئے اٹھے اورکچن کے دروازے سے جھانکا ۔’’کیا بات ہے بہو؟‘‘
شاہدہ نے کچن میں چائے بنارہی تھی اس نے ذرا نیچی آواز میں کہا۔’’ذرا دیکھ آئیے تو! کتنے لوگ ہیں؟‘‘
’’میں دیکھ آیا ہوں۔کل پانچ آدمی ہیں۔‘‘ یتیم میاں نے کہا۔شاہدہ نے کمال چابک دستی سے پانچ کپ چائے بنائی اور ایک ٹرے پر لوازمات کے ساتھ انہیں تھماتے ہوئے بولی۔’’ذرا پہنچا دیجئے۔کم بخت شرفو بازار گیا تو وہیں سٹ گیا۔‘‘
یتیم میاں نے ٹرے سنبھالی اور بلی کے قدموں سے چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ ایک لمحے کو پھر خاموشی چھا گئی۔یتیم میاں نے سلیقے سے ٹرے میز پر رکھی اور بے آواز قدموں سے واپس مڑے۔خدمت گزاری کا سلیقہ انہوں نے وکیل صاحب کی حویلی میں سیکھا تھا ۔وکیل صاحب کے جد اعلیٰ سید حمایت علی خاں اپنے علاقے کے چھوٹے موٹے زمیندار تھے ۔۱۸۵۷ میں جب غدر مچا اور انگریز افسران اپنی جانیں بچا کر ادھر ادھر بھاگنے لگے تو انہوں نے ایک افسر کو پناہ دی چنانچہ ہنگامہ فرِو ہونے کے بعد جب ایک جانب سرفروشان وطن کو پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا تھا تو دوسری جانب نمک خواروں کو سرفراز کیا جا رہا تھا۔سید حمایت علی بھی انگریزوں سے وفاداری کے صلے میں خان بہادر کے خطاب سے نوازے گئے ۔باون گاؤں کی عملداری ان کے حصے میں آ ئی اور موصوف نواب سید حمایت علی خاں کے نام نامی اسم گرامی سے مشہور ہوئے۔ نوابی ملی تو عیش و عشرت کے دروازے بھی کھل گئے ۔انہوں نے شہر سے باہر ایک پر فضا مقام پر ایک عالیشان حویلی بنوائی ۔ لق و دق حویلی اچھی خاصی بستی معلوم ہوتی تھی ۔ شہر کی حد جہاں ختم ہوتی تھی وہاں پر ایک پتلی سی ندی تھی ۔ندی کیا تھی بس ایک بڑا سا نالہ سمجھ لیجئے۔اس نالے کے اوپر ایک نیچا پل تھا ․․․․․یہی کوئی دس بارہ فٹ لمبا ۔ندی کے اس پار حویلی تھی۔ شہر کے لوگ اسے پار ندی کہتے تھے ۔حویلی کے کئی حصے تھے․․․․․مردان خانہ،زنان خانہ،نوکر پیشہ وغیرہ۔علاوہ ازیں مچھلیوں سے بھرا تالاب اور ایک ہرا بھرا باغ بھی تھا جس میں آم،لیچی،امرود ،شریفہ،آڑو اور گابھ کے درخت تھے ۔ نواب صاحب کو گابھ کا حلوہ بے حد پسند تھا ۔کہا کرتے تھے کہ یہ پھل اسم با مسمیٰ ہے۔اس کے کھانے سے مرد کے اندر عورت کو گھابھن کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور اس کے استعمال سے خلوت کی رعنائیوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ویسے بھی نواب صاحب خلوت اور جلوت دونوں جگہ مقبول تھے۔ہر شام مردان خانے رقص و موسیقی میں محفل سجتی ۔طرح طرح کی ضیافتیں ہوتیں۔ ہر دن عید تھا اور ہر رات شب برات تھی ۔کبھی فیض آباد کی چلبلی ننھی جان بلائی جاتیں تو کبھی لکھنؤ سے توبہ شکن زہرہ بائی کو دعوت دی جاتی اور پھر منہ کا مزہ بدلنے کے لئے حویلی کی خادمائیں بھی موجود تھیں : بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
اور واقعی خدا اس خاندان پر مہربان تھا۔اس ہنگامے کے دو سال بعد ان کے فرزند ارجمند نواب وجاہت حسین خاں نے اس جہان آب و گل میں آنکھیں کھولیں۔جب وجاہت حسین سن شعور کوپہنچے تو ملک میں امن قائم ہو چکا تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا ۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے والد ماجد کی روایت کو آگے بڑھایا اور خاندان کا نام روشن کیا۔حویلی ہر وقت چھماچھم کرتی ،در و دیوار کھنکتے اور یہ کھنکتی ہوئی آواز جب گنبد نیلگوں سے ٹکراتی تو چپ کھڑا آسمان آنے والے وقت کا خیال کر کے کانپ سا جاتا ۔
بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو ملک میں تبدیلی کی تیز لہر چلنے لگی اور آنے والے انقلاب کی آہٹ سنائی دینے لگی۔وجاہت حسین نے خود تو اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کی لیکن اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی انہیں بڑی فکر تھی۔خدا نے انہیں تین بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا ۔بڑے شرافت حسین،منجھلے صولت حسین ، چھوٹے کفایت حسین اور سب سے چھوٹی نفیسہ بیگم عرف بانو۔ سبھی بچے مولوی سید منظر الحق کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا کرتے تھے ۔ مولوی صاحب مظفر پور کے رہنے والے تھے۔ تلاش معاش میں گھومتے گھامتے نواب صاحب کی حویلی تک آپہنچے تھے ۔ عربی اور فارسی پر قدرت کاملہ تھی ۔الفاظ کی ادائیگی میں حرکت اور سکون کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اونچا لمبا قد،کشادہ پیشانی، چشمے کے پیچھے بڑی بڑی روشن آنکھیں اور بلند آواز کے مالک مولوی صاحب زبان کے معاملے میں بڑے سخت تھے۔ ا دھر زیر زبر گڑبڑایا ادھر ان کی چھڑی زیر سے زبر ہو گئی۔ نواب صاحب کا حکم تھا کہ تعلیم کے معاملے میں حویلی کے بچوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے ۔ایک دفعہ صولت میاں نے شعر پڑھا:
قِطع نہ کیجئے تعلق ہم سے گر نہیں عشق عداوت ہی سہی
شعر سنتے ہی مولوی صاحب بھڑک اُ ٹھے۔
’’میاں! قِطع قِطع کیا بولتے ہیں ۔قَطع نہ کیجئے تعلق ہم سے۔قاف کے اوپر زبر ہے ۔قَطع بمعنی کاٹنا ۔ سمجھے ۔‘‘
کبھی سمجھاتے۔’’شمع نہیں شمعَ َ کہئے:۔۔۔شمعَ ہر رنگ میں جلتی ہے سَحَر ہونے تک
سِحَر بمعنی جادو اورسَحَر بمعنی صبح․․․․․اسی سے سَحَری بنا ہے۔سمجھے؟
اس وقت یتیم میاں کے والد جمن میاں نواب صاحب کی خدمت پر مامور تھے۔انہیں مولوی صاحب کے پڑھانے کا انداز بے حد پسند تھا چنانچہ جب مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے کے لئے بیٹھتے تو وہ کسی نہ کسی بہانے آس پاس ہی گھومتے رہتے اور اپنی اصلاح کرتے رہتے۔اب وہ نواب صاحب سے دریافت کرتے کہ حضور سَحَری کے لئے کیا بناؤں؟ نصیبن کبھی کبھی ان کی نستعلیق اردو سے چڑھ جاتی مگر جمن میاں تو مولوی صاحب کے مرید تھے اور صحیح تلفظ کے ساتھ اردو بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ آج مولوی صاحب ہوتے تو نمعلوم نئی نسل کی زبان سے بگڑی ہوئی اردو سن کر ان کے دل پر کیا گزرتی ۔اب تو غلط سلط اردو بولنے والے بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔
شرافت حسین سارے بھائی بہنوں میں سب سے زیادہ ذہین تھے۔جب انہوں نے امتیازی نمبروں سے اسکول کی تعلیم مکمل کر لی تو مولوی صاحب کے مشورے سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے علی گڑھ بھیجا گیا ۔شرافت حسین خاں جب نئے نئے علی گڑھ میں وارد ہوئے اور کلاس میں پروفیسر صاحب نے ان کا تعارف جاننا چاہا انہوں نے بڑی شان کے ساتھ کہا۔’’نواب زادہ سید شرافت حسین خاں۔‘‘
پروفیسر صاحب نے ہنس کر کہا۔’’واہ ! سید بھی اور خان بھی ۔ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں تلوار۔‘‘
نواب زادہ سید شرافت حسین خاں نے برجستہ کہا۔
’’خان بہادر کا خطاب انگریز بہادر کی جانب سے ہمارے خاندان کو ملا ہے ۔بندہ بیک وقت سید بھی ہے اور خان بھی ․․․․․ٹھیک اسی طرح جس طرح سر سید احمد خاں۔‘‘ اور پروفیسر صاحب ہنس کر چپ ہو رہے۔
شرافت حسین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مگر عالم بے عمل کی مانند زندگی بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ۔ بیسویں صدی اختتام پذیر ہوئی اور ایک نئی صدی طلوع ہوئی ۔ادھر جیسے جیسے بیسویں صدی کا سورج اوپر اُٹھتا گیا ویسے ویسے انگریزی حکومت کا آفتاب ڈھلنے لگا۔پورے ملک میں ایک نئی لہر چل پڑی اور گاندھی جی کی قیادت میں آزاد ہندوستان کا خواب دیکھنے والے جانباز سر سے کفن باندھ کر سڑکوں پر اتر آئے ۔مگر نواب صاحب کی حویلی ان باتوں سے لا تعلق سی تھی۔ آنے والے وقت کی دھمک سنائی تو دیتی تھی مگر اس پر کان دھرنے کی انہوں نے کبھی ضرورت ہی نہ سمجھی ۔نواب وجاہت حسین کے زمانے والی بات تو نہ رہی تھی مگر ظاہری شان و شوکت میں کوئی کمی نہ آ ئی تھی۔ درخت اوپر سے تو گھنا اور بڑا دکھائی دیتا تھا مگر اندر ہی اندر کھوکھلا ہو چکا تھا۔پھر بھی مرا ہاتھ سوا لاکھ کا ۔ شرافت حسین انگریزی تہذیب کے دلدادہ تھے اور سر سید کے ہم خیال۔ٹیبل کرسی پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے ماحضر تناول فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر مسلمانوں کو اس ملک میں سر اُٹھا کر جینا ہے توانہیں جدید تعلیم سے آراستہ ہونا ہوگا۔ ان کی تین اولادیں ہوئیں۔شفقت حسین،شوکت حسین اورعنایت حسین۔انہوں نے نواب کا دم چھلا ہٹا دیا تھا البتہ نام کے آگے خان لگایا کرتے تھے ۔دن مزے مزے میں کٹ رہے تھے مگر ستم پیشہ آسمان کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۱۹۴۶ میں جب جگہ جگہ فسادات کی آگ بھڑکی تو جمن میاں بھی اس آگ میں جل مرے ۔اس وقت یتیم میاں مادر شکم ہی میں تھے ۔بے چارے پیدائشی یتیم تھے لہذا ان کا نام ہی یتیم میاں پڑ گیا ۔ نواب صاحب کو ان سے خاصی ہمدردی تھی ۔انہوں نے بہت کوشش کی یتیم میاں بھی حویلی کے بچوں کے ساتھ چارحرف پڑھ لیں مگر یتیم میاں کے خون میں وفاداری اور طابع داری کی موجیں لہریں مار رہی تھیں چنانچہ جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو نواب صاحب کی جوتیاں سیدھی کرنے لگے ۔ ہمہ وقت ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ۔ شرافت حسین کی نظر عنایت بھی ان پر تھی اور وہ انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔
اس وقت بہار رخصت پذیر تھی ۔سامان سفر بندھ چکا تھا ۔ پت جھڑ کی چاپ سنائی دینے لگی تھی اور درختوں سے پتے جھڑنے شروع ہو چکے تھے ۔پہلے تقسیم کا سانحہ پیش آیا ،پھر زمینداری ختم ہوئی ۔لوگوں نے جُوق در جُوق ہجرت کی توحویلیاں اُجڑ گئیں ۔کہیں راجیہ ٹرانپورٹ کا آفس کھل گیا اور کہیں جیون بیمہ نگم کا دفتر قائم ہو گیا ۔ بقول شخصے جہاں چنچل ناریاں رہا کرتی تھیں وہاں انچل ادھیکاری نواس کرنے لگے ۔ چونکہ شرافت حسین نے پاکستان کے نظرئے کو سرے سے خارج کر دیا تھا لہذاپار ندی والی حویلی اب تک قائم تھی۔ گابھ،چھوہارے اور انڈے کا حلوہ اب بھی بنتا تھا ۔ ضیافتیں بھی ہوتی تھیں اور کونڈہ بھی۔شرافت حسین کے دوست یار،خاص طور پر مرزا طہور علی،جو کھلی موٹر میں آتے تھے اور ترکی ٹوپی زیب تن کیا کرتے تھے ،اب بھی قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے۔ شرافت حسین کو خوب گرم چائے پسند تھی۔کہا کرتے تھے کہ عورت ہو یا چائے․․․․․گرم ہی اچھی لگتی ہے۔ چنانچہ ایک بڑے سماور میں پانی گرم کر کے ر کھ دیا جاتا تھا اور پیالیاں اس میں ڈبو دی جاتی تھیں ۔گرم پیالیوں میں چائے زیادہ دیر تک گرم رہتی تھی بالکل اسی طرح جس طرح اگلے وقتوں کے لوگوں کے جسم میں زیادہ عمر تک جوانی کی گرمی رہا کرتی تھی ۔حویلی کے پاس والی ندی سوکھ چکی تھی اور پگڈنڈی کا کام دیتی تھی مگر چند مٹی مٹی نشانیاں اب تک موجود تھیں ۔ پل کے اس پار ایک قدیم لیمپ پوسٹ تھا ۔ہر شام لیمپ جلانے والا ایک سیڑھی ہاتھوں میں لئے آتا دکھائی دیتا ۔وہ سیڑھی کو لیمپ پوسٹ سے ٹکا کر اوپر چڑھتا ،لیمپ کا شیشہ ایک جانب ہٹاتا ،لیمپ روشن کرتا اور رات کی گہری ہوتی ہوئی تاریکی میں گم ہو جاتا۔ مگر تاریکی اس وقت اور گہری ہو گئی جب شرافت حسین میدان سیاست میں کود پڑے۔کانگریس پارٹی جوائن کی اور اسمبلی کا الکشن لڑا۔اس وقت کانگریس پارٹی کا انتخابی نشان دو بیلوں کی جوڑی تھا ۔مخالفین نعرہ لگاتے: ـ دو بیلوں کی جوڑی ہے اک اندھا اک کوڑھی ہے
اس انتخاب میں شرافت حسین کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی اور کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار رام چرن کامیاب رہے تھے۔شرافت حسین کو اپنی ہار کا قلق نہیں تھا مگر اس بات کا افسوس ضرور تھا کہ الکشن کے اخراجات پورے کرنے کے لئے انہیں حویلی سے ملحق زمینوں کو فروخت کرنا پڑا تھااور اس کے خریدار وہی لوگ تھے جن کے پروج کبھی نواب صاحب کی ڈیوڑھی پر بڑا سا پگڑ باندھے ،ہاتھ میں ڈنداتھامے اُکڑوں بیٹھے رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’حجور! توہار کھکھار ہمار اُدار۔‘‘
اس وقت شرافت حسین کے بڑے صاحبزادے عنایت حسین بیس سال کے ہو چکے تھے اور مقامی کالج میں بی اے کے طالبعلم تھے ۔شفقت اور شوکت اسکول میں تھے ۔یتیم میاں انہی دنوں حویلی کی ایک کنیز سے رشتہ ء ازدواج سے منسلک کر دئے گئے ۔شادی کے اگلے ہی سال جب جب انور میاں نے اس دنیا میں قدم رکھا تو یتیم میاں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا ۔جب وہ کچھ بڑا ہوا تو اسے ماسٹر صغیر کے حوالے کر دیا گیا ۔او ر جس سال عنایت حسین نے لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تو اسی برس انور نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اس کے ایک سال بعد نواب شرافت حسین نے دنیا سے پردہ کیا۔انور اب کالج کا طالبعلم تھا ۔یتیم میاں اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے ۔ وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا، دل کا سکون تھا، وہ ان کے لئے روح افزا تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی ان کی طرح نوکر بن کر رہے لہٰذا انہوں نے اس کے اندر خدمت گذاری کا جذبہ ہی نہیں پیدا ہونے دیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ دنیا میں سراٹھا کر جئے اوران کا بھی سر اونچا کر ے مگر ہائے افسوس․․․․․
عنایت حسین نے ڈسٹرکٹ کورٹ میں پریکٹس شروع کردی ۔ وکیل صاحب روز صبح کالا کوٹ پہن کر جاسوسی دنیا سنبھالتے اور رکشے پر سوار ہو کر کورٹ جا پہنچتے ۔دن بھر پان سے شوق فرماتے ،چائے پیتے اور جاسوسی دنیا میں کھوئے رہتے۔کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا کلائنٹ ان کے پاس آجاتا تو کچھ آمدنی ہو جاتی ورنہ دن یوں ہی گزر جاتا۔ ان کے منجھلے بھائی شوکت حسین نے جب اپنی تعلیم مکمل کر لی تو انہیں HECرانچی میں سپروائزر کی نوکری مل گئی ۔مگر نوکری کے دوسرے ہی سال وہاں تاریخ کا بدترین فساد ہوا۔شوکت میاں کسی طرح جان بچا کر بھاگ آئے مگر ایک بار جو آئے تو پھر پلٹ کر نہیں گئے۔انہوں نے حویلی میں اپنا حصہ فروخت کر دیا اور پٹنہ جا کر آباد ہوگئے۔مگر چھوٹے بھائی شفقت حسین اتنے خوش نصیب ثابت نہ ہوئے۔انہیں جمشید پور میں ملازمت ملی تھی ۔اور جب وہاں فساد ہوا تو وہ مع اہل و ایال شہید کر دئے گئے۔
آزادی کا سورج طلوع ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا اور برادران وطن اس کا خوب خوب فائدہ اُٹھا رہے تھے ۔پرانے پتے جھڑ چکے تھے اور نئی تہذیب کی کونپل بھوٹ چکی تھی۔آنکھ کا پانی مر چکا تھا اور دل سے مروت ختم ہو چکی تھی ۔ایک دفعہ معمولی سے واقعہ کو لے کر جب شہر کا ماحول بگڑ گیا تو آس پاس کے مسلمان وکیل صاحب کی پناہ میں آ گئے گرچہ اس وقت تک وکیل صاحب خود بے پناہ ہو چکے تھے ۔لوگ ساری رات جاگتے رہے تھے۔ ایسے میں ایک منچلا نوجوان گنگنا اُٹھا تھا:آج کی رات بچیں گے تو سِحر دیکھیں گی
اگر اس وقت مولوی صاحب موجود ہوتے تو فوراً ٹوک دیتے کہ میاں سِحر نہیں،سَحَر بولو۔
اب بہار رخصت ہو چکی تھی۔باغ ویران تھا اور مالی سر بہ زانو۔ماسٹرصغیر حویلی چھوڑ کر جا چکے تھے۔گابھ کا درخت تیز آندھی کی تاب نہ لاکر زمین بوس ہو چکا تھا ۔حویلی کا بیشتر حصہ فروخت ہو چکا تھا۔ سارے نوکر چاکر ڈوبتے ہوئے جہاز کے چوہوں کی طرح ایک ایک کر کے رخصت ہوتے گئے۔ حویلی کے ارد گرد نئے لوگ آباد ہو گئے۔دن رات لاؤڈ اسپیکر پر بھجن کیرتن ہوتا رہتا او ر وکیل صاحب زیر لب دعائیں پڑھتے رہتے اور جب بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب ملک کی فضا بگڑی تو انہیں صاف لفظوں میں دھمکی دی جانے لگی کہ اگر جان کی خیر چاہتے ہیں تو حویلی کا باقی ماندہ حصہ بھی اونے پونے بیچ کر کہیں اور جا بسیں مگر عنایت حسین بھی خان بہادر کی اولادوں میں سے تھے لہذا اپنی جگہ ثابت قدم رہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو وکیل صاحب کی بیگم داغ مفارقت دے گئیں اور پھر چند ماہ بعد یتیم میاں کی بیوی بھی گزر گئیں ۔اب صرف حویلی کا مردان خانہ بچا تھا جس کی رنگ روروغن کے لئے ترستی ہوئی دیواروں کو یہ دو نفو س سہارا دئے ہوئے تھے ۔انور گجرات کی کسی فیکٹری میں سپروائزر لگ گیا تھا اور وکیل صاحب کے تینوں بیٹے مختلف شہروں میں ملازمت کرنے لگے تھے۔
وہ نومبر کا ایک اداس دن تھا جب رحمت میاں کو فون پر خبر ملی کہ ان کے والد صاحب اس جہانِ فانی سے گزر گئے۔سارے بھائی اپنی فیملی کے ممبران کے ساتھ اس آسیب زدہ حویلی میں یکجا ہوئے اور چہلم کے بعد یہ بچا کھچا حصہ بھی فروخت کر دیا گیا اور اس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ رحمت میاں کے دوست چائے کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔یتیم میاں ڈرائنگ روم کی دیوار سے لگے بیٹھے تھے۔ اندر سے پھر رشید صاحب کی آواز آئی۔وہ کسی وکیل کی طرح جرح کرنے کے انداز میں کہہ رہے تھے۔’’میں پھر کہتا ہوں ،آسیب واسیب کچھ نہیں ہوتا ۔یہ سب دماغ کا وہم ہے۔‘‘اچانک یتیم میاں اندر داخل ہوئے۔
’’کیا کہتے ہو بابو! آسیب ہوتا ہے ،ضرور ہوتا ہے ۔‘‘یتیم میاں ویران آنکھوں سے خلا میں گھورتے ہوئے بولے ۔پھر انہوں نے نہایت پر اسرار انداز میں کہا ۔’’پہلے تو صرف اکا دکا لوگوں پر آسیب سوار ہوتا تھا ۔آج تو پوری قوم پر آسیب سوار ہے ۔پورب سے پچھم تک اور اتر سے دکھن تک۔سمجھ رہے ہیں نا آپ لوگ؟‘‘
یتیم میاں کے کانوں میں ایک دلدوز چیخ گونجی اور نگاہوں کے سامنے خون میں تربتر لاشہ سڑک پر تڑپتا دکھائی دیا ۔یتیم میاں کی زبان سے ایک آہ نکلی۔’’ہائے میرا انور۔‘‘
ڈرائنگ روم میں ایک آسیب زدہ خاموشی چھانے لگی تھی اور یتیم میاں لرزتے قدموں سے باہر نکل گئے۔