فہد کے کمرے سے چلے جانے کے بعد کافی دیر تک تو عیلی اسی طرح بیڈ پر لیٹی رہی اور بے آواز آنسو بہاتی رہی
پھر خود کو سنبھالتے ھوئے اٹھی اور اپنے آ نسوں صاف کرنے لگی
آ خر اسی طرح تو وہ خود کو سنبھالتی آئی تھی جب سے دعا اور فیصل صاحب کی موت ھوئی تھی
بی بی جی یہ ناشتہ کر لیں
عیلی اپنے صاف کرتے ھوئے دعا اور فیصل صاحب کو شدت سے یاد کر رہی تھی جس سے مزید اس کے آ نسو بہ رھے تھے کہ اچانک اسے سنجا بی کی آ واز واپس ھوش میں لانے کا سبب بنی
عیلی نے چونک کر سنجا بی کو دیکھا جو افسوس بھری نظروں سے عیلی کو ہی دیکھ رہی تھیں
کہ آ خر کیا حلیہ بنا ھوا تھا عیلی کا
بکھرے ھوئے بال جبڑے پر انگلیوں کے نشانات اور پاؤں پر بندھی ھوئی پٹی
جبکہ عیلی نے ابھی بھی وہی دلہن کے کپڑے پہنے ہوئے تھے
آ نٹی ججی آ آ پ
عیلی نے بھرائی ہوئی آواز میں نظریں جھکا کر سنجا بی سے پوچھا جبکہ سنجا بی بھی خود کو سنبھالتی ھوئی عیلی کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائیں تاکہ عیلی بلاوجہ شرمندہ نہ ھو
کیونکہ عیلی کو اس حلیے میں دیکھ کر سنجا بی کو بہت تکلیف ھو رہی تھی جبکہ اس سے زیادہ فہد کے عیلی کے ساتھ کیے گئے اس رویئے پر افسوس ھو رھا تھا
کیونکہ سنجا بی کو فہد کی نظروں میں عیلی کے لئے محبت نظر آتی تھی تو پھر عیلی کے ساتھ فہد کا یہ برتاؤ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا
ک۔۔۔کوئی کام تھا آ پ کو
عیلی نے جب سنجا بی کو خود کو یوں غور سے دیکھتے ھوئے پایا تو جلدی سے بولی
ھاں جی بی بی جی وہ چھوٹے سائیں جی نے کہا تھا کہ آپ کو ناشتہ کروا دوں اور آ پ کے پاؤں کی پٹی بھی کر دوں
سنجا بی نے عیلی کے پاؤں کو دیکھ کر کہا جس پر پٹی بندھی ھوئ تھی
جبکہ سنجا بی کے اس طرح کہنے سے عیلی جلدی سے اپنے پاؤں چھپانے لگی اور ساتھ ہی اپنا چہرہ جھکا لیا
جس پر ابھی بھی فہد کی انگلیوں کے نشان موجود تھے
بی بی جی آ پ ناشتہ کر لیں
میں ابھی آ تی ھوں
وہ جی اصل میں چھوٹے سائیں جی نے ایک بیگ دیا ھے مجھے کہ آپ کو دے دوں تو میں ابھی وہ بیگ لے کر آ تی ھوں
آ پ تب تک ناشتہ کریں
سنجا بی آ ہستہ آہستہ چلتی ھوئیں عیلی کے پاس آئیں اور پھر کھانے کی ٹرے کو عیلی کے پاس رکھتی ھوئی بولیں
جی
عیلی نے بغیر سنجا بی کو دیکھے بہت آ ہستہ سے بولی اور پھر اٹھ کر لنگڑاتی ھوئی چل کر خود کو باتھ روم میں بند کر لیا
جبکہ سنجا بی بھی عیلی کی تکلیف پر افسوس کرتی ھوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں
عیلی جب کافی دیر رونے کے بعد فریش ھو کر باتھ روم سے باہر نکلی تو اسے سنجا بی بیگ میں سے کپڑے نکالتی ھوئیں نظر آئیں
بی بی جی میں آ پ کہ یہ والے کپڑے استری کر دیتی ھوں پھر آپ تیار ھو جائیں
ٹھیک ہے جی
سنجا بی نے ایک سفید رنگ کا فراک نکال کر عیلی کے سامنے کرتے ھوئے کہا جبکہ عیلی ایک نظر سنجا بی کو دیکھ کر بغیر کوئی جواب دیے چپ چاپ جا کر بیڈ پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگی
ارے بی بی جی آ پ یہ رہنے دیں
میں ناشتہ دوبارہ بنا دیتی ھوں یہ جی ٹھنڈا ھو گیا ھو گا
سنجا بی جلدی سے عیلی کے پاس آ کر بولیں
جبکہ عیلی نے ھاتھ کے اشارے سے سنجا بی کو منع کر دیا اور ناشتہ کرنے میں مصروف رہی حالانکہ اسے ناشتہ کرنے میں بہت تکلیف ھو رہی تھی کیونکہ جبڑے میں درد ھونے کی وجہ سے اس سے چبایا نہیں جا رھا تھا
جبکہ سنجا بی بھی عیلی کے منع کرنے پر چپ چاپ عیلی کا فراک لے جا کر پریس کرنے لگیں
پھر جب تک سنجا بی فراک کو پریس کر کے لائیں تب تک عیلی بھی تھوڑا بہت ناشتہ کر ہی چکی تھی
اس لئے ٹرے کو اٹھا کر باہر جانے کے لئے اٹھ رہی تھی کہ سنجا بی نے جلدی سے فراک کو بیڈ پر رکھ کر ٹرے عیلی کے ھاتھوں سے لے لی اور پھر مسکرا کر بولیں
بی بی جی آ پ بیٹھیں یہاں پر میں ابھی یہ ٹرے رکھ کر واپس آ تی ھوں پھر آ پ کے پاؤں کی پٹی کر دیتی ھوں
سنجا بی مسلسل مسکراتے ہوئے عیلی سے بات کر رہی تھی جبکہ عیلی نے غور سے سنجا بی کی جھوٹی مسکراہٹ کو دیکھا اور پھر کرب سے مسکرا ئ
نہیں آ نٹی جی میں پہلے نہانا چاہتی ھوں تو پھر بعد میں آ پ میری پٹی کر دیجیے گا
عیلی سنجا بی کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرا کر بولی تو سنجا بی بھی مسکراتی ھوئیں ٹرے اٹھا کر کیچن میں چلی گئیں
جبکہ عیلی پھر سے اپنی آ نکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتی ھوئی اٹھی اور بیڈ پر پڑے فراک کو اٹھا کر باتھ روم میں گھس گئی
فہد ابھی ابھی ھوسپیٹل سے حیات صاحب کو تھوڑی دیر پہلے ہی گھر واپس لایا تھا اور اب ان کے پاس بیٹھا ان سے ہلکی پھلکی باتیں کر رھا تھا جب اچانک سے حیات صاحب کی آ نکھوں سے آ نسوں بہنے شروع ہو گئے
جس پر چونک کر فہد نے حیات صاحب کو دیکھا اور پھر جھک کر ان کے جھریوں زدہ ھاتھوں کو چوم کر بولا
کیا ھوا بابا سائیں
آ پ رو کیوں رھے ھیں
اسد کی یاد آ رہی ہے آ پ کو
فہد کے پوچھنے پر حیات صاحب نے اپنی پلکیں جھپکائیں جس کا مطلب ھاں تھا کیونکہ جب سے حیات صاحب پیرالایز ھوئے تھے
وہ تب سے اسی طرح باتوں کا جواب دیتے تھے
بابا سائیں میں جانتا ھوں کہ آ پ کو اسد کی بہت یاد آتی ھے
مجھے بھی آ تی ھے اسد کی یاد
لیکن میں کیا کر سکتا ہوں بابا سائیں
یہ تو اللّٰہ کے فیصلے ھیں نا
ہم تو سوائے صبر کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے
فہد اس وقت حیات صاحب کو بہت عجیب سا لگ رھا تھا کیونکہ جب بھی حیات صاحب اسد کو یاد کر کے روتے تو فہد ہمیشہ انھیں اسد کے قتل کا بدلہ لینے کے بارے میں بولتا تھا
اور کہتا تھا کہ وہ اسد کے قاتل کو خود اپنے ھاتھوں سے جان سے مارے گا
اذیت ناک موت دے گا اسے
مگر اب وہ کس طرح اسد کی موت کو اللّٰہ کا فیصلہ سمجھ کر بھول رھا تھا اور حیات صاحب کو بھی صبر کرنے کا مشورہ دے رھا تھا
حیات صاحب نے غور سے فہد کے چہرے کو دیکھا جیسے اس کے چہرے کے ذریعے اس کا دماغ پڑھ لیں گے
کہ آ خر فہد کے ذیہن میں چل کیا رھا ھے
بابا سائیں مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی تھی
ابھی حیات صاحب فہد کو ہی دیکھ کر سوچ رھے تھے جب انھیں اچانک سے دوبارہ فہد کی آ واز سنائی دی
تو وہ خود کو ان سوچوں سے آزاد کرتے ہوئے فہد کی بات کو غور سے سننے لگے
وہ اصل میں بابا سائیں
فہد بولتے ھوئے رک کر حیات صاحب کے کمزور سے وجود کو دیکھنے لگا جو اسے ہی غور سے دیکھ رھے تھے
فہد نے جب حیات صاحب کو خود کو اس طرح دیکھتے ہوئے پایا تو جلدی سے نظریں چرا لیں
وہ بابا سائیں میں
میں نے
میں نے نکاح کر لیا ھے کل
وہ وہ آ پ ہی تو کہتے تھے نا کہ میں شادی کر لوں تو تو میں نے کر لی
وہ کچھ اچانک سے ایمرجنسی ھو گئی تھی تو
اس لئے آ پ کو بتا نہیں سکا اور نکاح کر لیا
لیکن انشاللہ ہم ولیمہ بہت اچھا اور دھوم دھام سے کریں گے بابا سائیں تب آ پ اپنے ارمان پورے کر لیجیے گا
فہد پہلے تو حیات صاحب سے نظریں چرا کر بات کر رھا تھا مگر پھر آ خر میں خوشی سے چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ حیات صاحب کو دیکھ کر بولا
جبکہ حیات صاحب حیرانگی سے فہد کے روشن چہرے کو دیکھ رھے تھے
انھیں تو یہ بات ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اچانک فہد نے کیسے نکاح کر لیا اور وہ بھی یوں چپ چاپ
جبکہ فہد تو نکاح کے ذکر سے ہی کتنا چڑ جاتا تھا اور غصہ کرنے لگ جاتا تھا مگر اب کس طرح خوشی سے اپنے ولیمہ کرنے کا بتا رھا تھا
میں مانتا ھوں بابا سائیں کہ آ پ کو بہت برا لگا ھو گا
لیکن میرا یقین کریں بابا سائیں مجھے خود پتہ نہیں چلا کہ اچانک کس طرح یہ سب کچھ ھو گیا
لیکن اب نکاح تو ھو چکا ھے تو
انشاللہ ہم ولیمے کے بعد ادھر حویلی میں ہی رہیں گے آ پ کے پاس
اور عیلی آ پ کی بہت خدمت کرے گی
وہ بہت اچھی ھے بابا سائیں
وہ آ پ کا بہت خیال رکھے گی تو
اب اجازت دیں
مجھے کچھ ضروری کام ھے تو میں فون پر غلام بخش سے آ پ کی طبیعت کا پوچھ لوں گا اور میڈیسن کا بھی بول دوں گا اسے تو وہ آ پ کو دے دے گا
ٹھیک ھے پھر بابا سائیں
اب میں چلتا ھوں
فہد نے حیران پریشان سے حیات صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر دوبارہ سے حیات صاحب کے ھاتھوں کو چوم کر کمرے سے باہر نکل گیا
جبکہ حیات صاحب کو وہ گہری سوچ میں مبتلا کر گیا تھا
عیلی بظاہر تو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ٹاول سے رگڑ کر اپنے بال خشک کر رہی تھی جبکہ دماغ ابھی بھی اس کا سن سا تھا
کیونکہ سوچیں ہی اتنی گہری تھیں
کب سوچا تھا اس نے کہ زندگی ایسی بھی ھو جائے گی وہ جو ہمیشہ اپنی بہن اور بابا پر ڈیپنڈ رہتی تھی اور سوچتی تھی کہ ان دونوں کے علاوہ وہ اگلی سانس بھی نہیں لے پاے گی مگر اب کیسے ان چھ مہینوں میں وہ اکیلا رہنا سیکھ چکی تھی
اب پتہ چل رھا تھا اسے کہ کسی اپنے کے چلے جانے سے انسان مرتا تو نہیں ھے کیونکہ موت تو اپنے وقت پر ہی آتی ھے مگر انسان کا شمار پھر زندہ لوگوں میں بھی نہیں ھوتا کیونکہ صرف سانس لینے کو زندہ رہنا نہیں کہتے
اور اس بات کا اندازہ اب عیلی کو بہت اچھے سے ھو رھا تھا
ابھی عیلی یہی سب سوچ رہی تھی جب اچانک سے اسے اپنے کاندھوں پر کسی کا بازو محسوس ھوا
فہد جو ابھی ابھی فارم ھاؤس میں داخل ھوا تھا جلدی سے اپنے کمرے میں گیا تو اسے عیلی سفید فراک پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گم صم سی کھڑی نظر آئی عیلی کو دیکھتے ہی فہد کے چہرے پر اچانک سے مسکراہٹ پھیل گئی تو وہ یوں ہی مسکراتا ھوا بغیر آ واز پیدا کیے چلتا ھوا عیلی کے پیچھے کھڑا ھو گیا اور پھر اپنا ایک بازو عیلی کے ایک کاندھے سے گزارتا ھوا دوسرے کاندھے تک لایا اور عیلی کے بالوں پر کس کر کے بولا
عیلی
میری جان
کتنی پیاری ھو نا تم
تم نے میرے لاے ھوئے کپڑے پہنے
فہد عیلی کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ عیلی فہد کے یوں اچانک سے آ جانے پر شوکڈ ھو کر کھڑی تھی
آ ئ ایم سوری عیلی
میں نے تمہیں ڈانٹا تمہارے چہرے کو زور سے پکڑا اور اور بالوں کو بھی تو کھینچا تھا
یار مجھے غصہ آ گیا تھا بس اس لئے
غصے میں
میں جانتا ھوں کہ تمہیں بہت تکلیف ھوئی ھے
بٹ بٹ آ ئ پرومس عیلی
کہ میں ایسا دوبارہ کبھی نہیں کروں گا
اور تم نے بالکل ٹھیک کہا عیلی
تم اتنی نیک ھو اتنی پرہیزگار تو مجھے بھی تو تمہارے قابل بننا ھو گا نا
تبھی تو ہم ایک خوشحال زندگی گزاریں گے
اور میں پوری کوشش کروں گا عیلی کہ تمہارے قابل بن سکوں
بس تمہیں میرا ساتھ دینا ھو گا
تم میرا ساتھ دو گی نا عیلی
ھاں بولو
فہد مسلسل بولتے ھوئے عیلی کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیر رھا تھا جبکہ عیلی سانس روکے فہد کی بات سن رہی تھی پھر فہد نے بولتے ھوئے عیلی کا رخ موڈ کر اپنی طرف کیا تو عیلی جلدی سے م اپنا چہرہ جھکا کر اپنے آنسو روکنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی جبکہ فہد نے عیلی کو دیکھ کر اس کے چہرے کو اپنے ھاتھ سے اوپر کیا تو عیلی نے جلدی سے اپنی آ نکھیں بند کرلیں
ییہیہ یہ صبح والے نشان ھیں نا
فہد نے عیلی کے چہرے پر اپنی انگلیوں کے نشانات پر ھاتھ پھیرتے ہوئے کہا جبکہ عیلی فہد کی اس حرکت پر مکمل کانپ اٹھی
عیلی میری جان
آئی ایم ریلی سوری یار
پتہ نہیں میں کیسے غصے میں
آ ئ ایم سوری
بہت درد ھو رھا ھو گا نا تمہیں
فہد نے تڑپ کر عیلی کے سرخ گالوں کو اپنی دو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہا جبکہ عیلی اب باقاعدہ ہلکی ہلکی ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی تھی
عیلی پلیز یار ایسے مت روؤ
مجھے بہت گلٹ فیل ھو رھا ھے
آ ئ پرومس م۔۔۔۔میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا اور
اور ڈرنک کرنا بھی چھوڑ دوں گا
بلکہ اب تو تم میرے پاس ھو تو میں ڈرنک کروں گا ہی کیوں
میں تمہیں دیکھ کر اپنی ساری تکلیفیں بھول جاتا ھوں عیلی بس بس تم مجھے دھتکارا مت کرو
مجھے بہت تکلیف ھوتی ھے عیلی
میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے
اسد کے بعد صرف تم ھو عیلی جسے میں اس قدر محبت کرتا ھوں
اسد تو چلا گیا
مگر اب میں تمہیں کھو نہیں سکتا ھوں عیلی
بس تم ہمیشہ میرے پاس رہنا تاکہ میں زندہ رہ سکوں
اور اگر تم مجھ سے کبھی بھی کبھی بھی الگ ھوئی نا عیلی تو میں اسی وقت خودکشی کرلوں گا
فہد ایک جذب کے عالم میں عیلی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بول رھا تھا اور ساتھ ساتھ عیلی کے آ نسو اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کر رھا تھا جبکہ عیلی کچھ بھی سنے بغیر (جو فہد بول رھا تھا) بس فہد سے ڈرنے میں مصروف تھی
عیلی تم نے مجھے معاف کر دیا نا
ہر غلطی ہر گناہ کے لئے
جو جو مجھ سے ھوئے
فہد نے اچانک سے عیلی کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا اور پھر عیلی کی پیشانی پر کس کر کے بولا
جبکہ عیلی بغیر کوئی حرکت کیے اسی طرح چپ چاپ فہد کے سینے سے لگی رہی
عیلی کیا ھوا
فہد نے کچھ دیر تک تو عیلی کے جواب کا انتظار کیا اور پھر جب عیلی کچھ نہ بولی تو فہد نے عیلی کے چہرے کو پکڑ کر اوپر کیا اور پھر عیلی کی بند ھوئی آنکھوں کو دیکھ کر بولا
مگر عیلی کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر فہد نے ریلی کو اپنی بازوؤں میں اٹھایا اور پھر اسے بیڈ پر لیٹا کر اس پر کمبل ڈالنے لگا
تم بدلہ لینے کے لئے نہیں بنی ھو عیلی تم تو محبت کرنے کے قابل ھو
اور اب تمہیں صرف میری محبت ہی ملے گی
فہد نے بولتے ھوئے دوبارہ عیلی کی پیشانی پر کس کیا اور پھر خود بھی عیلی کے پاس لیٹ کر اسے دیکھنے لگا
جبکہ زینب جو کب سے فہد کے آ نے کا انتظار کر رہی تھی اور اب جب اسے فہد کے یہاں پر آ نے کا پتہ چلا تھا تو جلدی سے کیچن سے باہر نکل کر فہد کے کمرے کی طرف چلی آئی تھی مگر فہد کی باتیں اور پھر فہد کا عیلی کو یوں کس کرنا دیکھ کر اندر ہی اندر جلتی ھوئی وہاں سے چلی گئی
کچھ دیر بعد عیلی کی جب آ نکھ کھلی تو فہد کو اپنے قریب بیڈ پر سوئے ھوئے پایا
عیلی جو فہد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے سونے کا ڈرامہ کر رہی تھی مگر پھر فہد کے اس طرح عیلی کے قریب لیٹ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے سے وہ سچ میں سو گئی تھی
کہ پھر اچانک نیند میں گبھرا کر عیلی کی آ نکھ کھل گئی
تو فہد کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر جلدی سے وہ اٹھی اور پھر پانی پینے کی غرض سے کیچن میں چلی گئی جبکہ فہد جو عیلی کو بیڈ پر لیٹا کر کچھ دیر تک تو اسے لیٹا دیکھتا رھا تھا جس کی پلکیں بار بار ہل رہی تھیں جو اس بات کو صاف ظاہر کر رہی تھیں کہ عیلی سوئی نہیں ھے اور فہد اس بات کو جانتا تھا اس لئے عیلی کے گیلے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگا جس سے عیلی کچھ ہی دیر میں سکون سے سو گئی تو فہد اٹھ کر خود بھی نہانے کی غرض سے باتھ روم چلا گیا اور پھر جب کچھ دیر بعد نہا کر باہر نکلا تو عیلی کو اسی طرح سوئے ھوئے پایا تو فہد خود بھی عیلی کے پاس جا کر لیٹ گیا اور پھر عیلی کو اسی طرح دیکھتے ہوئے گہری نیند سو گیا
اس وقت کچن میں کوئی وجود ایک بڑی سی چھری اٹھا کر اسے مضبوطی کے ساتھ اپنے ھاتھوں میں پکڑے فہد کے کمرے کی طرف جا رھا تھا اور پھر کمرے میں داخل ھو کر کمرے میں موجود فہد (جو کہ کروٹ لے کر لیٹا ھوا تھااس لیے فہد کا چہرہ واضح نہیں ہو رھا تھا ) اس کے پاس دبے قدموں کے ساتھ چلتے ھوئے اسے مارنے کی غرض سے گیا ابھی اس وجود نے اپنا ھاتھ اٹھایا ہی تھا کہ قاسم کی آ واز سن کر جو کہ فہد کو ہی پکار رھا تھا
وہ وجود جلدی سے ڈریسنگ روم میں چھپ گیا جبکہ قاسم بولتے ھوئے جب کمرے میں داخل ھوا تو فہد کو سوتا ھوا دیکھ کر قاسم واپس چلا گیا جبکہ قاسم کے باہر نکلتے ہی وہ وجود بھی جلدی سے باہر نکل گیا اور چھری واپس لے جا کر کچن میں رکھ دی