کیوں چمن میں بے صدا مثل رمِ شبنم ہے تو
لب کُشا ہو جا ، سردوِ بربطِ عالم ہے تو
اقبال ؒ
حکیم ا لاُمت اقبال کا یہی شعر ہے جس نے مُرغِ چمن بن کر مجھے نغموں پر اکسایا ۔ فلسفۂ مغرب کو خشک اور بے رنگ و بوپا کر جب میں نے اقبال کی آنکھوں سے کائنات کو دیکھا‘ تو خالقِ کائنات کی عظمت اور بزرگی نگاہوں میں نور بن کر چمکنے لگی۔ کائنات کی رنگا رنگی اور اس کی غایت اور مقصدیت میری روح کو مسرور کرنے لگی اور میرا دل پکار اٹھا۔
سینہ ہے تیرا امیں اُس کے پیامِ ناز کا
جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
اپنے دل کو ٹٹولا تو ایک دبی چنگاری پائی اور خواہش پیدا ہوئی کہ یہ چنگاری بھڑک اٹھے، اور اتنی روشن ہو جائے کہ ملّتِ اسلامیہ کے ہر نوجوان کے دل میں علم اور محبت کی شمع جلا دے ۔ اس خواہش نے جب اظہار کے لیے راستے تراشے تو قلم کو جنبش ہونے لگی اور میں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ ماہنامہ شاہین کوپن ہیگن میں راقم الحروف کا سلسلہ مضامین میری اسی اُمنگ کا آئینہ دار تھا۔ ان مضامین کو اب کتابی شکل دے کر یورپ میں نوجوانوں کے لیے افکارِ اقبال کو روشناس کرنے کی غرض سے پیش کیا جارہا ہے ۔ اس مجموعہ میں اقبالیات سے متعلقہ وہ مضامین بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جو ماہنامہ شاہین کے علاوہ کوپن ہیگن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ وقار اور سویڈن کے جریدے منزل میں شائع ہوئے ہیں ۔
جن حضرات نے بیرون ملک کلامِ اقبال کے حوالے سے راقم الحروف کی پذیرائی اور ہمّت افزائی کی ہے میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ ان میں سے چند دوستوں کے نام یہ ہیں :
محمد آصف خواجہ صاحب مدیر شاہین کوپن ہیگن ڈنمارک ‘ ذوالفقار حسین صاحب مدیر پندرہ روزہ وقار کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ‘ جمیل احسن صاحب مدیر منزل سویڈن ‘ ترغیب بلند نقوی صاحب صدر بزم ادب کو پن ہیگن ڈنمارک، بزم فکر نو، بزم ادب، ادارہ شاہین کے جملہ احباب اور ڈنمارک میں رہنے والے دیگر شیدایان اقبال ۔
کوتاہی ہوگی اگر پاکستان میں رہائش پذیر احباب کا تذکرہ نہ کروں جو پاکستان میں اقبالیات کے فروغ و نشرو اشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ۔ جن صاحبان نے اس راہ میں میری رہنمائی فرمائی ہے اور جن مقتدر ہستیوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ہے ان میں سر فہرست پروفیسر مرزا محمد منور صاحب سابق ناظم اقبال اکادمی ‘ لاہور اور ڈاکٹر وحید عشرت صاحب نائب ناظم، اقبال اکادمی، لاہور ہیں۔
ان دونوں حضرات کے اسماء گرامی محتاج و تعارف نہیں ہیں۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اقبالیات سے میری دلچسپی نے مجھے ڈاکٹر وحید عشرت تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا اور ان کے توسط سے ہی مجھے محترم پروفیسر مرزا محمد منور کی خدمت میں باریابی نصیب ہوئی ۔ ان صاحبان کے چمن زار ادب سے مجھے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ پروفیسر مرزا محمد منور سے میں کہتا ہوں کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنا مرید بنالیں مگر وہ راضی نہیں ہوتے۔
جہاں تک ڈاکٹر وحید عشرت کا تعلق ہے میں ان کو فلسفے میں اپنا استاد سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے فلسفے کی ابجد ان سے ہی سیکھی ۔ انہوں نے میرے تجسّس اور علم کی لگن کا بروقت اندازہ لگایا، اور صحیح سمت میں میری رہنمائی فرمائی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر وحید عشرت نے اپنی تصانیف اور مقالات کے ذریعے میرے لیے مشرقی اور مغربی مفکرین و ماہرین اقبالیات کی کتابوں کے مطالعہ کا ذریعہ فراہم کیا۔ ان سے ہی مجھے اقبال کو سمجھنے کا شعور ملا ۔ مجھ میں اور ڈاکٹر وحید عشرت میں جو قدر مشترک ہے وہ اقبال سے محبت ہے، اور دوسچے عاشق آپس میں رقیب نہیں ہوتے ‘ بلکہ رفیق ہوتے ہیں ۔
مجھے ان مقالات میں کوئی دعویٰ علم نہیں، میری کوشش کا مقصد سلیس اور عام فہم زبان میں اقبال کا پیغام عام کرنا ہے۔ یہ میری زندگی کا اہم مقصد ہے اور دوستوں کا تعاون شامل حال رہا تو یہ سلسلہ تازیست جاری رہے گا۔ اور اس کا بھی مقصد اقبال کے الفاظ میں صرف اس قدر ہے کہ……..
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
میں ۱۰ فروری ۱۹۲۵ء کو بمقام مراد آباد‘ یوپی، انڈیا میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب مرحوم شیخ علی احمد صاحبِ طرز بزرگ، خاندان چشتیہ صابریہ سے وابستہ تھے۔ اپنے ہمعصر بزرگوں میں مخصوص مقام رکھتے تھے ۔ اردو اور فارسی ادب کے دلدادہ تھے ۔
میں اوائل عمر میں جگر مراد آبادی سے مثاثر ہوا۔ چند برس ہی گذرے تھے کہ برصغیر کے سیاسی حالات مسلمانوں کے حق میں دگرگوں ہوتے نظر آئے ۔ شعر و شاعری جو اسکول کے زمانے ہی سے شروع کر دی تھی اس کو خیر باد کہہ کر کلامِ اقبال کا مطالعہ شروع کیا، جس کے ذریعے نگاہوں کے سامنے ایک جہانِ نو آباد پایا۔
برصغیر کے حالات مسلمانوں کے لیے خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے ۔ آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی رات آئی ۔ اس رات میں ریاست ٹونک میں مرحو م اختر شیرانی کا مہمان تھا۔ صبح ہوئی تو قرب و جوار میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو چکا تھا ۔ ریاست ٹونک البتہ محفوظ تھی ۔ کئی دن گزرنے کے بعد جب حالات کے پرسکون ہونے کی کوئی اُمید نظر نہ آئی تو واپسی کا سفر اختیار کیا ۔ ٹونک سے دلی تک اس سفر میں جو کچھ دیکھا او رجو گزری وہ ایک الگ دلدوز داستان ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح پاکستان کی سر زمین پر پہنچ کر سجدۂ شکر ادا کیا ۔
میں نے ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں مراد آباد کے ایک عظیم درویش اور بزرگ مولانا مجیب الحق سے حاصل کی۔ موصوف مراد آباد کے علمی اور ادبی حلقوں میں مسلمانوں اور ہندو دونوں میں یکساں لائقِ تکریم سمجھے جاتے تھے۔ وہ ایک قابل استاد تھے ۔ میرے بچپن کا زمانہ ان کی عمر کا آخری دور تھا جبکہ وہ تقریباً گوشہ نشین ہوچکے تھے ، آپ میرے والد صاحب کے رفیق دوست تھے اور اسی ناطے مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے فارسی کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی روشناس کرایا اور اس قابل کر دیا کہ بارہ سال کی عمر میں مجھے مراد آباد کے ہیویٹ مسلم ہائی سکول میں ساتویں کلاس میں بہ آسانی داخلہ مل گیا، جہاں سے میں نے الٰہ آباد یونی ورسٹی بورڈ سے ۱۹۴۰ء میں میٹرک پاس کیا۔ بوجوہ عارضی طور پر باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا لیکن علم حاصل کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی ۔ تقسیم ہند سے قبل اور فوراً بعد طوفان انگیز دور سے گزرنا پڑا لیکن مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۵۲ء میں بی اے کی سند حاصل کی ۔
پاکستان میں آکر میں شروع دن سے ہی قومی ائیر لائن سے منسلک ہوگیا۔ زیادہ حصہ بلکہ عمر کا بیشتر حصہ لاہور اور راولپنڈی میں میں گزرا۔دسمبر ۱۹۷۶ء میں راولپنڈی سے کوپن ہیگن ٹرانسفر ہوا ۔ یہ عارضی پوسٹنگ تھی ۔ جہاں صرف تین سال رہنا تھا لیکن مدت میں کچھ توسیع ہوگئی اور ۱۹۸۰ء کے اختتام تک یہاں رہنا پڑا ‘ دسمبر ۱۹۸۰ء میں پی آئی اے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ڈنمارک میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور یہاں ایک دوسری ائیر لائن میں شامل ہوگیا۔ اپنی اس طویل ائیر لائن سروس کے آخری سولہ سال ڈنمارک میں بحیثیت سیلز مینجر گزارے ۔ اور ڈنمارک کے قانون کے مطابق ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور مجھے اپنی علمی پیاس بجھانے کا موقع فراہم کیا۔
آج کل میں اقبال کے فلسفے کی روشنی میں مغربی مفکرین اور فلسفیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ ڈنمارک میں اخبارات کے ذریعے افکارِ اقبال کی تشہیر ‘ خصوصاً بیرون ملک بسنے والے اپنی قوم کے نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے کا عزم لیے ہوئے، اپنی بساط کے مطابق انتھک کام کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں کے پڑھے لکھے طبقے نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی ہے۔
اقبال کے اشعار یاد آتے ہیںتو دل کے تار چھیڑ جاتے ہیںاور میں گنگنانے لگتا ہوں۔ اگر تنہا ہوتا ہوں تو کبھی کبھی ایک شعر کو سینکڑوں مرتبہ اور گھنٹوں بار بار پڑھتا رہتا ہوں ‘ کبھی سرور و مستی میں ڈوب جاتا ہوں اور کبھی یادرفتگان کا جھونکا آتا ہے تو آنکھوں سے موتی ٹپکنے لگتے ہیں ۔ اگر دوستوں کی محفل ہے تو کلامِ اقبال سے خود بھی لطف اندوز ہوتا ہوں اور احباب کو بھی تڑپا تڑپا دیتا ہوں۔ میری یہی تڑپ میرے ان مضامین میں نمایاں ہے جو اس کتاب کی صورت اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ اقبالیات کے بازار میں یہ افکار سوت کی اٹی ہی سہی لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ میں بھی فکرِ اقبال کی تعبیر و تشریح کرنے والے حضرت علامہ کے عشاق میں شامل ہوں ۔ یہی میرا سرمایۂ حیات اور یہی میری کمائی ہے۔
غلام صابر