(Last Updated On: )
عرض سنتے ہی مرا کام بنا دیتا ہے
میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
خاک و افلاک میں رشتہ ہے، شعور اتنا ہی
خاص کو ہم نسب عام بنا دیتا ہے
چھاؤں بھر دھوپ کی مہلت میں شجر میرے لیے
ایک خس خانۂ آرام بنا دیتا ہے
ثبت و محکم بھی تغیر کی حد و زد میں ہے
جب بھی چاہے وہ اسے خام بنا دیتا ہے
تجربہ جیسے کوئی نسخۂ بینائی ہو
میرے دکھ کو مرا انعام بنا دیتا ہے
جو یہاں آیا یہاں سے کبھی نکلا ہی نہیں
شہر، رستوں کا عجب دام بنا دیتا ہے
اپنی قامت بھی ضروری ہے کہ پہچانے جاؤ
یوں تو نقاد بڑا نام بنا دیتا ہے
٭٭٭