’’فتنہ انکارِ حدیث‘‘ دورِ حاضرہ کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ ہے اس وجہ سے نہیں کہ اس کا موقفِ علمی زیادہ مستحکم و مضبوط ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ فتنہ دہریت اور کمیونزم کا ہم آہنگ ہے۔ اس کا مقصد بجز دین کو فناء کرنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ دہریت عقلِ انسانی کو اور کمیونزم احتیاج بشری کو دین پر غالب کرتی ہے۔ منکرینِ حدیث جن کو کتاب آسمانی کے انکار کی جرات نہیں ہوئی لیکن انہوں نے کتاب اللہ کو اس کے حامل کی تفسیر و تشریح سے محروم کر کے اسے بے اثر بنانے کا مذموم منصوبہ تیار کیا اور حق تعالیٰ نے اپنے بندے کی ہدایت کا جو مکمل سامان کیا تھا اس کو درہم برہم کرنا چاہا۔ حق تعالیٰ نے صرف کتاب نازل کرنے پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی ان اوصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا منْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَوَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (سورت الجمعۃ 62 آیت 2)
وہی ہے جس نے اُٹھایا اَن پڑھوں (اُمّیِوں) میں ایک رسول اُن ہی میں کا (سے)، پڑھتا ان پاس اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا اور سکھاتا کتاب اور عقلمندی۔ اور اس سے پہلے تھے وہ صریح بھلاوے (گمراہی)میں۔ (موضح القرآن، شاہ عبد القادر صاحب)
تاکہ وہ بتدریجی طور پر حسب ضرورت کتاب کی ایک ایک آیت کی توضیح و تشریح و نیز عملی تصویر اُمت کے سامنے پیش فرمائیے اور اس کی صحیح ترتیب متعین فرمائی۔ جن مسائل کا کتاب میں اجمالی ذکر ہے یا کوئی جُزوی بات بیان نہیں کی گئی اس کی تفصیل و تشریح فرما دیں اور جُزئیات کو بیان فرما کر تکمیلِ دین کا فریضہ انجام دیں۔ منکرینِ حدیث (جن کا مرکز ادارہ ’طلوع اسلام‘ لاہور ہے) اس گمراہی میں مبتلا ہیں یا دوسروں کو یہ کہہ کر گمراہ کرنا چاہتے ہیں کہ واجب الاتباع محض وحی الٰہی ہے اور وحی صرف کتاب اللہ میں منحصر ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت آپ کی زندگی تک محض ’مرکزِ ملت‘ ہونے کی وجہ سے تھی، آج ’مرکز ملت‘ کی عدم موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی پابندی غیر ضروری ہے۔ ان کا قول یہ بھی ہے کہ ’اطاعت صرف خدا کی ہو سکتی ہے کسی انسان کی نہیں ہو سکتی، حتی کہ رسول بھی اپنی اطاعت کسی سے نہیں کرا سکتا۔ قرآن، رسول کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی شئے کو حرام قرار دے دے۔‘ حالانکہ قرآن شریف میں جا بجا اَطِیْعُوا اللّٰہ کے ساتھ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْل کا حکم فرمایا گیا ہے اور ایک جگہ تو یہ ارشاد فرمایا گیا ہے: مَّن یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ ’جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘ منکرینِ حدیث کا یہ مغالطہ نہایت شدید اور انتہائی گمراہی کا باعث ہے، خصوصاً جب کہ یہ مغالطہ کا قرآن فہمی کے دعوے کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ صحیح عقیدہ وہ ہے جس کی ترجمانی علامہ اقبال نے کی ہے ؎
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
ضرورت ہے کہ اس حقیقت کو اہلِ علم اور عامۃ المسلمین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ اس فتنے سے محفوظ رہیں۔ اصل حقیقت کو سمجھنے کے لئے اور بنیادی باتیں بطورِ سوالات رکھ کر ہمیں اس پر خالص علمی انداز میں بحث کرنی چاہیے۔
وہ بنیادی سوالات حسب ذیل ہو سکتے ہیں: ۔
× وحی کی کتنی صورتیں ہیں اور کیا کتابِ الٰہی کے علاوہ بھی وحی ہو سکتی ہے یا نہیں؟
× حدیث الرسول فی نفسہٖ دین میں حجت ہے یا نہیں؟
× حدیث کا جو معتبر مجموعہ ہمارے پاس ہے وہ یقینی ہے یا نہیں؟
× ظن شرعی حجت ہے یا نہیں؟
× احادیث مسلّمہ واجب العمل ہے یا نہیں؟
× منکرین حدیث کے جوابات
× منکرین حدیث کے ترجمے کی غلطی
× طلوع اسلام جون 1957ء کے ’باب المراسلات‘ کے جوابات؟
ان سوالات پر حضرت علامہ محمد ایوب صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے قرآنی دلیل کے ساتھ روشنی ڈالیں ہے، اُمید ہے کہ حضرت علامہ کے جواب سے ہر طالبِ حق کی تشفّی ہو جائے گے اور بے شمار حضرات کا تذبذب اور شکوک و شبہات رفع ہو جائیں گے۔
حضرت علامہ نے بدلائل عقلی و نقلی ثابت کیا ہے کہ ظن عقلاً اور شرعاً دونوں طرح حجت ہے اور موجبِ عمل ہے، گو موجبِ ایمان نہیں۔ کیونکہ موجبِ ایمان تو یقینی ہی ہے، اس لیے اصول یہ ٹھہرا کہ ظن پر عمل ہو گا اور یقین پر ایمان کا دارومدار ہے۔ حجیتِ ظن کے سلسلے میں بے شمار مغالطے شرعی اور منطقی اصطلاحات کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے حضرت علامہ نے ظن اور یقین اور متعلقہ اصطلاحات کی وضاحت فرما دی ہے تاکہ ان کا صحیح مفہوم ذہن نشین ہو جائے۔ اسی احتیاط کے پیشِ نظر یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ ایک ظن تو یقین کا مقابلہ ہے جو علم کی ایک قسم ہے، مثلاً ظنی علم جو یقینی علم کا مقابل ہے۔ دوسرا ظن عمل کی ایک قسم ہے جس کی دو قسمیں ہیں؛ ایک سُوءِ ظن اور دوسرا حُسن ظن۔ سُوءِ ظن سے اللہ تعالیٰ نے بچنے کو فرمایا ہے اور حُسنِ ظن پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس ظن کو حضرت علامہ نے حجت قرار دیا ہے وہ ظن وہ ہے جو یقین کا مقابل ہے اور قسمِ علم ہے۔ حُسن ظن اور سوءِ ظن پر بحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مولانا کا طرزِ بیان خاص علمی اور تحقیقی ہے، اس میں دورِ جدید کی انشاء پردازی اور الفاظ کی سحر کاری نہ ملے گی لیکن جوئندگان حق کو ہدایت کی روشنی اور حقیقت کا نور نظر آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فہم سلیم عطا فرمائے اور وَسْوَاسِ الْخَنَّاس کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین!
کارکنانِ ادارہ المیزان لاہور