عرضِ حال
’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ستمبر ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی تھی۔اس میں میرے تنقیدی مضامین کے یہ چھ مجموعے یک جا کئے گئے :۱۔حاصلِ مطالعہ،۲۔تاثرات،۳۔مضامین اور تبصرے ، ۴۔ستیہ پال آنند کی بودنی نا بودنی،۵۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت،۶۔ڈاکٹر وزیر آغا۔عہد ساز شخصیت۔
اس دوران چندنئے مضامین،تبصرے،تاثرات لکھے گئے،چند مباحث بھی ہوئے اور یہ سارا میٹر یک جا کیا گیا تو 232 صفحات کی کتاب بن گئی ۔یوں ’’مضامین و مباحث‘‘کی اشاعت کا جواز بن گیا ۔ اس کتاب کو ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘کا ضمیمہ شمار کیا جانا چاہئے۔’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘کا نیا ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں یہ کتاب’’مضامین و مباحث‘‘بھی شامل رہے گی۔انشاء اللہ۔ اس مجموعہ میں بعض باتوں اور نکات کی تکرارہوئی ہے۔ایک مضمون کے بعد دوسرے مکالمہ یا مضمون میں بھی جب ملتی جلتی بات زیرِ گفتگوآئی تووہاں ایسی تکرار ناگزیر تھی۔تاہم ایسے نکات میںمیرے نئے مطالعہ اور اس پر میرے غوروفکرکے ایسے اثرات ضرور ملیں گے جو اہلِ علم حضرات کے لیے دلچسپی کا موجب ہوں گے۔
’’مضامین و مباحث‘‘ میں ’’بحث و نظر‘‘کے تحت شامل کی جانے والی خط و کتابت اورمصری ادیب اسماعیل احمد ادہم کی کتاب’’سامی عربی تاریخ سے چند حقائق‘‘ کے اردو ترجمہ پرمیرا جائزہ خصوصی پیشکش ہے۔ خوش ہوں کہ مجھے یہ کام کرنے کی توفیق ملی۔ اسماعیل احمد ادہم کے اردو ترجمہ نگار کے ساتھ میری جو مراسلت ہوئی،اسے کسی ایڈیٹنگ کے بغیر شامل کیا گیا ہے۔اس خط و کتابت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک علمی معاملہ میں میری طرف سے پوری کوشش ہوتی رہی کہ دوسرے فریق کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا جائے۔علمی بحث کودلائل اور شواہد کے ساتھ علمی طور پر ہی آگے بڑھایا جائے۔لیکن میری طرف سے عزت و احترام اور ہمدردی کے باوجود فریق ثانی مسلسل شرارت اور اشتعال انگیزی کی طرف مائل رہے۔اور میرے مستحکم دلائل کو پڑھنے کے بعد کوئی مدلل بات کرنے کی بجائے یکے بعد دیگرے مختلف موضوعات کو چھیڑ کراور شوخ بیانی سے کام لے کر ہر پہلے موضوع سے فراراختیار کرتے رہے۔
ہماری اردو کی ادبی دنیا میںمصری ادیب مذکورجیسے نظریات رکھنے والے ادباء کو عام طور پرآسانی کے ساتھ مذہبی اشتعال انگیزی کا شکار بنا لیا جاتا ہے۔میں بھی اس گھٹیا حربہ کو آزما سکتا تھا لیکن میں اسے اردو کی ادبی دنیا کا منفی رویہ سمجھتا ہوں۔چنانچہ میں نے اپنے مکالمہ کومدلل علمی سطح پر رکھااور اپنے علمی دلائل کے ساتھ اسماعیل احمد ادہم کے اردو ترجمہ نگار کے تئیں ہمدردانہ،دوستانہ اور کسی حد تک حوصلہ افزا رویہ اختیاررکھنے کی کوشش کی۔لیکن افسوس کہ میرے ایسے رویہ کا انہوں نے منفی اثر لیا اورعلمی طور پر بات آگے بڑھانے کی بجائے مسلسل شرارت اور اشتعال انگیزی کی طرف مائل رہے۔تاآنکہ مجھے تھوڑا سا سختی کے ساتھ ان کا نوٹس لینا پڑا اور پھروہ ساری شوخیاں بھول کر بالکل غائب ہو گئے۔
اپنے اس تجربہ کو اس لیے بھی من و عن پیش کر رہا ہوں کہ اس سے اندازہ کیا جا سکے کہ اپنے پہلے ادبی معرکوں میں بھی میرا رویہ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ ایسا ہی رہا ہے۔میں نے از خود کوئی جنگ چھیڑنے سے گریز کیا ہے۔علمی و ادبی اختلاف رائے کرنا اور ادبی تہذیب کے ساتھ اس کا اظہار کرنا ہر ادیب کا حق ہے۔میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ کہیں کوئی اختلافی بات ہے تو اسے سلیقے کے ساتھ پیش کر سکوں۔لیکن ہمارے اردو کے ادبی معاشرے میں طاقت اور اختیار کی رعونت کے حامل ادیبوں نے اختلاف کو بھی گستاخی میں شمار کیا اور پھر مجھے ایک کے بعد ایک ادبی معرکے سے گزرنا پڑا۔میں معرکہ آرائیوں میں الجھنا نہیں چاہتا تھا لیکن جب بار بار مجھے بعض معرکوں میں الجھایا گیا تو مجھے ہر معرکے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا پڑا۔یہ سراسرخدا کا فضل و کرم ہے کہ میںہر معرکہ میں سرخرو ہو کر نکلا۔معرکہ آرائی کے دوران میں نے ممکنہ حد تک ادبی تہذیب کو ملحوظ رکھا۔کہیں مجھے بعض سخت الفاظ لکھناپڑے تو وہ الفاظ بھی معرکے کے دوسری طرف کے لوگوںکے سو فیصدسخت الفاظ و انداز کے مقابلہ میں بمشکل پانچ فیصد تھے ۔ کبھی دوٹوک حساب کتاب کی ضرورت پڑی تو ان معرکوں کے ریکارڈ سے اپنے اس موقف کے سارے ثبوت بھی پیش کردوں گا۔ویسے مخالفین کا سارا متعلقہ ریکارڈ میرے ساتوں تنقیدی مجموعوں میں موجود ہے،کوئی بھی ذہین محقق آسانی سے انہیں تلاش کر سکتاہے۔
اردو ماہیے پر تحقیق و تنقید کی میری پانچ کتابیں ان سات کتابوں کے علاوہ ہیں۔ان معروضات کے ساتھ اپنے تنقیدی مضامین کا ساتواں مجموعہ ’’مضامین و مباحث‘‘ادبی دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
حیدرقریشی(جرمنی سے)