ڈنمارک کے ایک میوزیم میں مارکو ایوارسٹی نے اپنا کام نمائش کے لئے رکھا۔ اس میں گولڈ فش پانی کے برتن میں تیر رہی تھیں۔ یہ برتن برقی بلینڈر تھے۔ ایوراسٹی نے تماشائیوں کو دعوت دی کہ اگر کسی کی خواہش ہے تو وہ آگے بڑھ کر بلینڈر کو آن کر سکتا ہے۔ آخر میں ایک شخص آگے بڑھا اور بلینڈر کو آن کر دیا۔ مچھلی کا ملیدہ بن گیا۔ کچھ دیر میں پولیس آ گئی اور بلینڈر کی تاریں اتروا دی گئیں۔ میوزیم پر جانوروں کو ایذا دینے کا الزام لگا (جو بعد میں ختم ہو گیا)۔
ایوارسٹی کا کہنا تھا کہ ان کا کام لوگوں کو تین میں تقسیم کرنے کے لئے تھا۔ اور یہ آپ کو خود آپ کے بارے میں آگاہ بھی کرتا ہے۔ اگر آپ کی خواہش بٹن دبانے کی ہے تو آپ اذیت پسند (sadist) ہیں۔ اگر ایسی نمائش آپ کو اپ سیٹ کر دیتی ہے تو آپ اخلاق پسند (moralist) ہیں جبکہ اگر آپ سب کے ردِعمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو پھر آپ تماش بین (voyeur) ہیں۔
لیکن کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایوراسٹی کا یہ کام آرٹ نہیں تھا۔ آپ کا اس بارے میں جو بھی خیال ہو، لیکن ایوراسٹی کا کام بہت سے سوال اٹھاتا ہے۔ آرٹ کے بارے میں بھی اور اخلاقیات کے بارے میں بھی اور اس بارے میں بھی کہ آرٹ کو جج کرنے کا معیار کیا ہونا چاہیے۔
اور ان سوالات سے پھر نئے سوال نکلتے ہیں جو ہمارے اپنے بارے میں ہیں۔ آرٹ ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے؟ اور اس کی ہماری زندگی میں کیا جگہ اور مقصد ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاطون آرٹ کے شدید مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹ ہمارے جذبات سے کھیلتا ہے نہ کہ عقل سے۔ اور افلاطون کی نظر میں عقل انسانی روح میں سب سے اونچا درجہ رکھتی ہے اور اسے ہمیشہ انسان کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں آرٹ ایک مسئلہ تھا کیونکہ یہ ہمارے جذباتی حصے کو نمو دیتا تھا۔ ان کو دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی نظر میں آرٹ تصور کو اصل کر کے دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ اور ایسا کرنا سچ کی تلاش میں رکاوٹ تھا۔
افلاطون اس بارے میں اس قدر شدید جذبات رکھتے تھے کہ وہ بڑے پیمانے پر سنسرشپ اور پابندیوں کے حق میں تھے۔ اگرچہ آپ شاید ان کی اس بات سے اختلاف کریں گے لیکن ان کے مرکزی خیال سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ آرٹ طاقتور ہے۔
لیکن اس کا فائدہ کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں برطانوی فلسفی کولنگ وڈ کا کہنا ہے کہ آرٹ کو اکثر زندگی کی حقیقت سے فرار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی خوشی کے لئے، توجہ کو کچھ دیر کو بٹانے کے لئے۔ لیکن بہترین آرٹ وہ ہے جو ہمارا دنیا کو دیکھنے اور اس سے انٹرایکشن کا ایک نیا زاویہ دے۔ اور وہ ان دونوں میں تفریق کرتے ہیں۔ دل بہلانے کے لئے آرٹ اور میجک آرٹ۔
دل بہلانے والا آرٹ وہ ہے جو دن بھر کی تکان کے بعد کچھ دیر کے لئے حقیقت سے فرار کر راستہ دے۔ جبکہ میجک آرٹ وہ ہے جو ناظرین کو حقیقت کا سامنا کرنے میں مدد کرے۔
سادہ کرداروں والا ایک جاسوسی یا رومانوی ناول یا پھر پیچیدہ کرداروں والا سوچ بیدار کرنے والا ایک ناول۔ مرچ مصالحے والی فارمولا فلم یا کسی سماجی مسئلے کو چھیڑنے والی فلم۔ ہم شاعری، نثرنگاری، ڈراموں اور دیگر آرٹ میں اس طرح کی تفریق دیکھ سکتے ہیں۔
کولنگ وڈ کا خیال تھا کہ ہمیں میجک آرٹ پر وقت صرف کرنا چاہیے۔ یہ ہمیں اچھی زندگی بسر کرنے میں مدد کرتا ہے۔
لیکن کئی لوگوں کے خیال میں یہ تفریق نہیں کی جا سکتی۔ یہ جلد ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ ایک کتاب یا فلم جو کسی کے لئے وقت گزاری ہو، کسی اور کے لئے زندگی بہتر کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
مثلاً، کسی کے لئے ہیری پوٹر سیریز وقت گزاری ہو سکتی ہے جہاں پر جادو کی چھڑی سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ کسی دوسرے کے لئے اس میں دوستی، ٹیم ورک، وفاداری، استقامت کے سبق ہو سکتے ہیں۔
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آرٹ کا اخلاقیات پر اثر ہو سکتا ہے۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرٹ کی اپنی اخلاقیات کا ایک پہلو کاپی رائٹ کا ہے۔ کسی کا مواد چوری کرنا غیراخلاقی حرکت سمجھی جاتی ہے لیکن اس میں کئی بار دلچسپ کیس بھی آ سکتے ہیں جن میں ایک ڈیوڈ سلیٹر کا ہے۔
سلیٹر انڈونیشیا کے جنگل میں فوٹو شوٹ کر رہے تھے جب ایک بندر نے ان کا کیمرہ پکڑ لیا۔ اور اس سے کھیلتے ہوئے کچھ مزیدار سیلفیاں کھینچیں۔ سلیٹر نے ان تصاویر کو کاپی رائٹ کروانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ تصاویر انہوں نے نہیں بلکہ بندر نے کھینچی تھیں۔
یہ تصاویر بہت مقبول ہوئیں مگر اس وقت ان تصاویر پر کاپی رائٹ کسی کا نہیں لیکن ایک گروپ نے بندر کی طرف سے کیس کیا ہے کہ ان پر کاپی رائٹ اس بندر کا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اسے ملنی چاہیے۔ سلیٹر کا کہنا ہے کہ کاپی رائٹ ان کا ہے کیونکہ کیمرہ ان کا تھا اور سیٹ اپ ان کا تھا۔ آرٹسٹ وہ ہیں۔ بندر صرف ایک ذریعہ تھا۔ آرٹ کی ایک ڈیفنیشن میں آرٹسٹ کا “ارادہ” اہمیت رکھتا ہے۔ بندر کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف سلیٹر کا ارادہ بھی بندر کی سیلفی کا نہیں تھا۔ اس کیس کا تو معلوم نہیں کیا نتیجہ ہوتا ہے لیکن آپ کا کیاؒ خیال ہے؟ کیا بندر کی یہ سیلفی آرٹ ہے؟ اور اگر ہے تو پھر آرٹسٹ کون ہے؟ یا پھر کیا یہ سلیٹر اور بندر کی مشترکہ پیشکش ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرٹ کے فلسفانہ سوال پر سب سے پہلے جس نے غور کیا، وہ ارسطو تھے۔ اپنے استاد افلاطون کے برعکس ارسطو آرٹ کے حامی تھے اور اسے مفید سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جسم کو جذبات کی مکمل رینج کو تجربہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ توازن میں رہے۔ اداسی سے لے کر جوش تک ہر جذبے کی تحریک ہونا ہمارے لئے اہم ہے تا کہ ہم زندگی کو محسوس کر سکیں۔ اور اگر یہ جذبات ہمیں زندگی میں نہیں ملتے تو اس میں آرٹ ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اور جب ہم انہیں محسوس کر لیتے ہیں تو پھر آخر میں ہمیں خوشگوار احساس ہوتا ہے جسے ارسطو کتھارسس کہتے تھے۔
اگرچہ ارسطو کے کئی معاملات میں خیالات غلط تھے لیکن ان کی کتھارسس کی تھیوری جمالیات کے ایک معمے کو بڑی خوبصورتی سے حل کرتی ہے۔ اس معمے کو ٹریجڈی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔
پرابلم آف ٹریجڈی عجیب معمہ ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کسی رلا دینے والی فلم کو اپنی مرضی سے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کرتے ہیں۔ دو گھنٹے بھی لگاتے ہیں اور اس کے ٹکٹ کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ رلا دینے والی کہانیاں، فلمیں، ڈرامے لکھے اور دیکھے جاتے ہیں؟
ارسطو کی تھیوری کے مطابق ڈراونی فلم یا رلا دینے والا ڈرامہ ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے مضبوط منفی جذبات کا اظہار محفوظ جگہ پر کر سکیں اور اس تجربے سے ہونے والا جذباتی اثر ہمیں بہت پسند آتا ہے۔
آرٹ ہمارے جذبات جگانے کے لئے بہت ہی موثر ذریعہ ہے۔ لیکن کیسے؟
اگر آپ اس بارے میں سوچیں تو یہ بہت ہی عجیب ہے کہ ہم کسی ڈرامے کے کرداروں سے جذباتی تعلق پیدا کر لیتے ہیں جب کہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ اصل نہیں بلکہ فکشنل ہیں۔ اپنے محبوب کردار کی موت پر اصل آنسو بہاتے ہیں۔ یہ سوال آرٹ سے منسلک ایک اور مسئلہ ہے جس کو فکشن کا پیراڈاکس کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینڈل والٹن کا کہنا ہے کہ ہم پر غیرحقیقی چیزوں کا اثر ہوتا ہے لیکن یہ جذباتی ردِعمل خود میں اصل نہیں ہوتا۔ وہ ان کو “نیم جذبات” کہتے ہیں یعنی کہ یہ جذبات کی طرح لگتے تو ہیں لیکن اصل جذبات سے مختلف ہیں۔ اس کا ایویڈنس والٹن اس طرح دیتے ہیں کہ ڈراونی فلموں میں لوگ اس طرح خوفزدہ نہیں ہوتے جیسا کہ اصل زندگی کے کسی ڈراوٗنے واقعے پر۔ آپ ایسی فلم دیکھتے ہوئے فلم تھیٹر سے دوڑ نہیں جاتے یا پولیس کو فون نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن نویل کیرول اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ فکشن کے کرداروں اور صورتحال سے ہم پر ہونے والا ردِعمل اصل جذبات رکھتا ہے۔ ہمارے جذبات کو خارجی دنیا کی حقیقت سے مطابقت کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے پسندیدہ کرداروں کے بارے میں مضبوط جذبات رکھ سکتے ہیں۔ ان کی خوشی اور ان کی پریشانی ہم پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طریقے سے جیسے ہمارے دوستوں کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب واپس بلینڈر کی گولڈ فش کی طرف۔ اس آرٹ ورک نے آرٹ اور اخلاقیات کے تعلق کے بارے میں سوال اٹھائے۔ اور یہاں پر دو بڑے مکتبہ فکر ہیں۔
ایک autonomists کا ہے۔ ان کے خیال میں آرٹ اور اخلاقیات بالکل الگ معاملات ہیں۔اور آرٹ ورک میں اخلاق کی اپنی چھلنی کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے۔ اس نقطہ نظر میں ایوراسٹی نے کچھ غلط نہیں کیا۔ یہ آرٹ کا اظہار تھا۔
لیکن دوسری طرف aesthetic moralist ہیں جن کی نظر میں آرٹ اور اخلاقیات کا آپس میں تعلق ہے۔ کسی بھی غیراخلاقی حرکت کا دھبہ آرٹ کو داغدار کر دیتا ہے۔ ان کی نظر میں ایواراسٹی کا تصور زبردست ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت کہ اس کا اظہار جس طریقے سے کیا گیا، اس پر اخلاقی لحاظ سے سوالیہ نشان ہیں، اس لئے یہ اس کی جمالیاتی قدر کو بھی داغدار کرتا ہے۔ آرٹ ہمارے خیالات کو چیلنج کرتا ہے اور یہ اچھی بات ہے لیکن ہر چیز کی حدود ہوتی ہیں۔
ہم ایسے آرٹ کو سراہتے ہیں جو دنیا میں مثبت تبدیلی لے کر آتا ہے۔ اور اگر کوئی آرٹ برے ایکشن اور برے رویے پر مائل کرتا ہے تو پھر اس میں بھی آرٹسٹ ذمہ دار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں سیریز کے اگلے حصے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ یہ ذمہ داری اور اخلاقیات آخر ہیں کیا؟