” تم یہاں پہ کیوں آئی ہو۔” رفعت بیگم ماہم کو گیٹ پہ دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔
” وہ سیٹ واپس چاہیے تھا ۔” وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے بمشکل بول رہی تھی۔
” دماغ تو ٹھیک ہے نا تیرا ۔تُو مجھ سے سیٹ واپس مانگنے آگئی ۔ابھی تو میں نے پہنا بھی نہیں اور تیری اتنی ہمت کہ تم مجھ سے سیٹ واپس مانگو۔”وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
” بیگم سراج نے کہا ہے کہ سیٹ واپس کر دیں۔” نیچے دیکھتے ہوئے اس نے اصل بات بتائی۔وہ ابھی تک گیٹ پہ ہی کھڑی تھی۔
” نی کمبخت ماری تُو نے ان کو کیوں بتایا۔”انہوں نے اسے ایک دھموکا جڑا۔وہ لڑکھڑا گئی
” انہیں خود ہی پتا چل گیا۔”وہ سنبھلتے ہوئے بولی۔
” جادو ہے نا ان کے پاس۔”وہ اسے گھورتے ہوئے بولیں ۔
” آپ سیٹ واپس کردیں۔مجھے واپس عنایہ کے پاس جانا ہے۔” اس نے اپنی بات دوہرائی۔
” یہ جو تُو نے شودی حرکت کی ہے نا۔اس کے بعد مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ادھر کھڑی رہ لارہی ہوں ۔”وہ غصے سے کہتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔
سر پہ چادر درست کرتے ہوئے وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔گلی سے لوگ گزر رہے تھے اور اسے دیکھ رہے تھے۔اسے سخت شرمندگی ہوئی ۔
” یہ لے ۔اور دفع ہوجا۔”وہ اس سیٹ پکڑاتے ہوئے تیز لہجے میں بولیں ۔اور اس کے منہ پہ گیٹ بند کردیا۔
وہ دائیں ہاتھ سے آنسو صاف کرتی گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
گھر پہنچ کر اس نے سیٹ بیگم سراج کے حوالے کیا۔اور خود کچن میں عنایہ کے لیے کھانا بنانے لگی۔
زری صدمے سے کنگ بیٹھی تھی۔ابھی اس کی ماما سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ارسلان کی شادی ہوگئی ہے۔اسے تو یقین ہی نہیں آیا۔جو شخص اس کے پیچھے پاگل تھا۔اس کے جانے کے نو مہینوں بعد ہی وہ دوسری شادی کرچکا تھا۔
کیا ارسلان کی اس سے محبت جھوٹ تھی؟ ۔
وہ ارسلان کو اپنی مرضی سے چھوڑ کر گئی تھی اور اسے بالکل بھی دکھ نہیں ہوا تھا لیکن اُس کی شادی کا سن کر وہ گہرے دکھ میں چلی گئی تھی۔
ماہم نے بستر پہ لیٹنے سے پہلے ایک نظر لیپ ٹاپ پہ مصروف ارسلان پہ ڈالی۔پھر لیٹ گئی۔
اماں اس سے سخت ناراض ہوچکی تھیں ۔اوپر سے بیگم سراج کو بھی اس پہ غصہ تھا۔وہ بھلا کب ارسلان سے فری ہوتی تھی۔وہ تو ان سے کم کم بات کرتی تھی۔نہ ہی کبھی ان سے مذاق کیا تھا۔پھر وہ کیسے فری ہوگئی۔
بیگم سراج کو شدید غلط فہمی ہوچکی تھی۔انہوں نے کل اتنے زور سے اس کا منہ دبایا تھا۔ابھی تک درد ہورہا تھا۔یہ نہ ہو کل کو وہ بھی اماں کی طرح اسے مارنا شروع کردیں۔
اور کل کو اسے گھر سے نا نکال دیں ۔ویسے بھی وہ ہی اسے لائیں تھیں ۔اگر انہوں نے نکال دیا تو عنایہ کچھ نہیں کر پائے گی ۔اور ارسلان تو ویسے بھی اسے کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے۔
اور اگر انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا تو وہ کہاں جائے گی جبکہ اماں بھی اسے گھر داخل ہونے سے روک چکی ہیں ۔
بہتری اسی میں ہے کہ وہ اب ارسلان سے بات ہی نہ کرے۔نہ وہ بات کرے گی اور نہ ہی بیگم سراج کچھ کہیں گی۔
آفس سے تھکا ہارا ارسلان لاؤنج میں داخل ہوا تو اس کی نظر لاؤنج میں بیٹھی ماہم اور عنایہ پہ پڑی۔ماہم عنایہ کی دو چٹیا بنا رہی تھی۔اس کے لبوں پہ مسکراہٹ ٹھہری۔ماہم کے حوالے سے اس کے خدشات دن بدن کم ہوتے جارہے تھے۔ماہم عنایہ کا بالکل ایک ماں کی طرح خیال رکھتی تھی۔وہ سوچتا تھا کیا کوئی اتنا اچھا بھی ہوسکتا ہے۔
ماہم نے جب ارسلان کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھا تو سلام کر کے اس کے لیے پانی لینے چلی گئی۔
” کیا ہورہا ہے۔” وہ عنایہ کے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے بولا۔
” چٹیا بنوا رہی تھی۔” عنایہ نے کہا۔
” ماہم تمہیں کیسی لگتی ہے۔” اس نے پوچھا۔
” بہت بہت اچھی۔” عنایہ جھٹ سے بولی۔
” پانی ۔” وہ پانی کا گلاس ارسلان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
” تھینکس ۔” وہ مسکرا کر بولا۔
وہ دوبارہ سے عنایہ کی چٹیا بنانے لگا۔کل سے ماہم اسے کچھ سنجیدہ لگ رہی تھی۔جس طرح وہ بےساختہ کچھ بھی بول دیتی تھی اب نہیں بول رہی تھی۔
” کچھ دنوں تک عنایہ کا سکول شروع ہورہا ہے۔” گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اس نے خوشخبری دی۔
” سچ ۔”عنایہ خوش ہو کر بولی ۔
ماہم سوچ رہی تھی عنایہ سکول چلی جائے گی تو وہ بور ہوجائے گی۔گھر کا کوئی کام نہیں ہوتا تھا وہ آدھا دن کیسے گزارے گی۔
” تم بس اچھے سے ٹیسٹ کی تیاری کرو۔تاکہ تمہارا کو اگلی کلاس میں داخل کیا جائے ۔” اس نے مسکرا کر عنایہ سے کہا۔
” ٹھیک ہے۔” عنایہ سر ہلا کر بولی۔
” تم کیا سوچ رہی ہو۔” وہ گم سم بیٹھی ماہم سے بولا۔
” کچھ نہیں ۔” وہ چونک کر بولی۔
” کچھ تو ہے جو گہرے مراقبے میں چلی گئی ہو۔”اس نے کہا۔
اس نے جواباً نفی میں گردن ہلائی۔
تب ہی ملازمہ نے آ کر بتایا کہ ٹیوٹر آئی ہے۔
” پاپا صبح تو پڑھا تھا ۔ٹیچر پھر کیوں آگئی؟”عنایہ پریشان ہوئی۔
وہ بھی حیران تھی کہ ٹیچر دوبارہ سے کیوں آگئی۔
” میں نے آنے کو کہا تھا ۔کچھ دونوں تک تمہارا ٹیسٹ ہے ۔تم دو ٹائم ٹیوشن لو گی تب ہی اچھا سا ٹیسٹ دے پاؤ گی۔” ارسلان نے کہا۔
عنایہ منہ بناتی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔
” تمہیں کیا ہوا ہے۔” ماہم کو اٹھتا دیکھ کر ارسلان نے پوچھا ۔ماہم کا رویہ اسے پتا نہیں کیوں پریشان کر رہا تھا۔
” کچھ بھی نہیں ہوا ۔میں بالکل ٹھیک ہوں ۔”وہ زبردستی مسکرا کر بولی۔
” تو پھر تم اتنی چپ کیوں ہو۔” وہ صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا۔
” نہیں میں نے تو صبح سے بول بول کے ۔آپ بیشک ماہم سے پوچھ لیں ۔”
” پھر میرے سامنے کیوں چپ ہو۔”
” آپ سے کیا بات کروں ۔”اس نے سوال کیا۔
” اب یہ بھی میں بتاؤ۔” اس نے پوچھا۔
” میں جاؤں ۔”اس نے پوچھا۔
ارسلان نے نفی میں گردن ہلائی۔
وہ خاموشی سے وہیں بیٹھ گئی۔
” اب بتا بھی دو۔”وہ جھنجھلا کر بولا۔
” مجھے بس آپ سے بات نہیں کرنی۔”وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” کیوں ۔”وہ حیرت سے بولا۔
” بس ویسے ہی۔ “اس نے ٹالا۔
” لیکن کیوں؟ “وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” بیگم سراج نے کہا ہے کہ میں آپ سے فری نہ ہوں ۔حالانکہ میں نے تو کبھی آپ سے ہنس کر بات نہیں کی۔نہ ہی میری آپ سے دوستی ہے۔پھر بھی انہیں ایسا لگا۔”وہ سادگی سے سچ بول گئی۔
” میں ان سے بات کروں گا۔” وہ مزید سنجیدہ ہوا۔اسے مما سے یہ توقع نہیں تھی۔
” نہیں نہیں ۔یہ مت کیجیے گا ۔وہ بہت خفا ہوں گی۔”وہ گھبرا کر بولی۔
” کچھ نہیں کہیں گی۔”اس نے تسلی دی۔
” نہیں آپ ان کو نہیں بتائیے گا۔میں آئندہ آپ سے بات نہیں کروں گی۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔تصور میں وہ خود کو بیگم سراج سے پٹتا دیکھ رہی تھی۔
” اوکے۔”وہ جواباً بولا۔اس نے سوچا ابھی نہیں موقع دیکھ کر وہ مما سے ضرور بات کرے گا۔
” شکریہ۔” وہ ہلکا سا مسکرائی۔
” لیکن میری ایک شرط ہے۔”وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
” کونسی شرط۔” وہ پریشان ہوئی۔
” تم نے مجھ سے بات کرنی ہے۔” اس نے کہا۔
” لیکن…
” جو میں کہہ رہا ہوں تم نے وہ کرنا ہے۔”وہ دوبارہ سے سنجیدہ ہوا۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔ویسے بھی خالہ شکورن کہتی ہیں شوہر کی بات ماننی چاہیے۔
” تمہیں کیا ہوا ہے۔” احسن نے گم سم بیٹھی زری کا کندھا ہلایا۔جو پچھلے دو دن سے پریشان تھی ۔
زری نے خالی خالی نظروں سے احسن کی طرف دیکھا۔
” کیا ہوا ہے۔” اس نے دوبارہ سے پوچھا۔
” تم مجھ سے محبت کرتے ہو نا۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
” شادی ہوجانے کے باوجود تم یہ سوال کر رہی ہو۔”وہ جواباً بولا۔
” تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے ۔” وہ نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
” بخار تو نہیں ہوگیا۔” وہ دوسرا ہاتھ اس کے ماتھے پہ رکھتے ہوئے بولا۔
” تم بہت بدل گئے ہو۔تمہیں بالکل بھی میرا خیال نہیں ہے۔”اس نے شکوہ کیا۔
” دنیا کی ہر آسائش تمہارے پاس ہے اور اس کے باوجود تم کہہ رہی ہو میں تمہارا خیال نہیں رکھتا۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” مجھے آسائشوں کی نہیں تمہاری ضرورت ہے۔تم مجھے بالکل بھی وقت نہیں دیتے۔”
” دو وقت کا کھانا نہ ملا تو تب میں پوچھوں گا۔”
” تمہارا ساتھ ہو تو میں ہر طرح کے حالات میں رہ سکتی ہوں ۔”وہ ہلکا سا مسکرا کر بولی۔
” فلمیں کم دیکھا کرو۔تیار ہوجاؤ ہم نے پارٹی میں جانا ہے۔”وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولا۔
زری نے مزید دکھی ہوتے ہوئے کمرے سے نکلتے احسن کو دیکھا۔
ہر پارٹی میں ان جیسا ہیپی کپل کوئی نہیں ہوتا تھا۔کیا وہ واقعی ہی ہیپی کپل تھا۔
” کیا دیکھا جارہا ہے۔”ارسلان نے ٹی وی دیکھتی ماہم کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔عنایہ دادو کے ساتھ سکول کے لیے ڈریسز لینے گئی تھی۔اس کی میٹنگ تھی وہ نہیں جاسکا تھا۔
” کک کچھ نہیں ۔” وہ گھبرا کر تھوڑا سرکتے ہوئے بولی۔
ارسلان نے بطور خاص اسے نوٹ کیا تھا۔
” ماما اور عنایہ واپس نہیں آئیں۔” اس نے ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” بیگم سراج نے اپنی ایک دوست کی طرف جانا تھا تو انہوں نے کہا وہ تھوڑی دیر سے آئیں گی۔آپ کے لیے پانی لاتی ہوں ۔” وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولی۔ارسلان اس کے پاس بیٹھا تھا اس کے احساسات عجیب ہورہے تھے۔
” میں پی آیا ہوں ۔تم بیٹھو۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر روکتے ہوئے بولا۔
ماہم ایک دم گھبرائی۔
” بیٹھ جاؤ۔میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا۔تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے میں کوئی اچھوت ہوں ۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔اور ہاتھ چھوڑ دیا۔
” وہ دراصل پہلے کبھی کسی نے میرا ہاتھ نہیں پکڑا۔”وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی۔
” کیوں تم چاہتی ہو کہ کوئی تمہارا ہاتھ پکڑے۔”وہ دلچسپ نظروں سے اسے دیکھتے بولا۔
” استغفراللہ ۔میرا ہاتھ کوئی نامحرم کیوں پکڑے۔” وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولی۔
ارسلان نے اس کے اس انداز بمشکل قہقہہ روکا تھا۔
” میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ مجھے شرم آرہی ہے۔”اس نے بات مکمل کی۔
” ویسے میں تمہارا کیا ہوا۔” اس نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” آپ تو میرے شوہر ہیں۔”اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
” پھر میں تو تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں نا۔”
” جی جی۔خالہ شکورن تو کہتی ہیں شوہر کا کام بھی کرنا چاہیے۔لیکن آپ تو مجھے اپنا کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔”اس نے منہ بنایا۔
” کمال ہے تمہیں کام کرنے کا شوق ہے۔لڑکیاں تو کہتی ہیں کہ انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ “وہ حیران ہوتے ہوئے بولا۔
” میں تو فارغ بیٹھ بیٹھ کر بور ہوجاتی ہوں ۔اوپر سے عنایہ اب دو ٹائم پڑھتی ہے۔پھر جب وہ سکول چلی جائے گی تو میں تو بالکل ہی بور ہوجاؤ گی۔اس سے اچھا تھا میں آپ سے شادی ہی نہ کرتی۔کم از کم میں کام تو کرتی ۔پھر میں بور نہیں ہوتی ۔”وہ منہ پھلا کر بولی ۔
” توبہ ہے لڑکی کیسی باتیں کر رہی ہوں ۔اور اگر تم اتنی ہی بور ہورہی ہو تو دوبارہ سے پڑھائی شروع کردو۔”وہ اسے گھور کر بولا۔
” اب میں اس عمر میں پڑھتی اچھی لگوں گی۔”
” کیوں تم بوڑھی ہوگئی ہو؟ ”
” اکیس سال کی ہوں۔اب دوبارہ سے دسویں میں تو نہیں پڑھ سکتی۔سب میرا مذاق اڑائیں گے۔” وہ معصومیت سے بولی۔
” اتنی بھی بڑی نہیں ہو اور ویسے بھی تم تو میٹرک کی سٹوڈنٹ ہی لگتی ہو۔تم اپنے سبجیکٹ بتاؤ۔میں تمہارا کسی اچھے سے اسکول میں ایڈمیشن کراتا ہوں ۔”اس نے کہا۔
” توبہ توبہ میں سکول جاؤں گی تو عنایہ کو خیال کون رکھے گا۔”اس نے دوبارہ سے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
ارسلان سوچ میں پڑھ گیا۔
” میں نے کہا تھا نا اماں تمہارا فیصلہ غلط ہے۔اب بھگتو۔”ناعمہ نے منہ بنا کر بیٹھی رفعت بیگم سے کہا۔
” چپ کر نی۔میرا تو خون کھول رہا ہے وہ چھٹانک بھر کی لڑکی مجھ سے اپنا سیٹ واپس لے گئی۔ساری زندگی اس کو کھلایا پلایا اور اب یہ صلہ دیا۔” وہ ناعمہ کو گھورتے ہوئے بولیں ۔
” اماں ویسے بھی تم نے سیٹ تو واپس کرنا تھا۔اب وہ پہلے لے گئی تو غصہ کیوں کر رہی ہو۔اور کونسا تم نے واقعی ہی شادی پہ جانا تھا جو تمہیں اتنا افسوس ہورہا ہے۔”پیزا کھاتی آئمہ نے کہا۔آج کل تو ان کے خوب مزے تھے۔ابھی تک کوئی کام والی نہیں ملی تھی۔صفائی اماں کرتیں اور کھانا ہوٹل سے آتا۔
” تیرا کیا خیال ہے میں وہ سیٹ واپس کرتی۔میں تو سوچا تھا کہ بیچ کر تم دونوں کے لیے کوئی چیز بنوا لوں گی۔پر یہ کمبخت ماہم تو بڑی تیز ہوگئی۔” انہیں نئے سرے سے غصہ چڑھا۔
” میں اتوار کو اس کے گھر جاؤں گی۔اور اس کی بہت بےعزتی کروں گی۔” ناعمہ نے کہا۔اتوار کو ارسلان سے ملاقات ہوسکتی تھی۔
” کوئی ضرورت نہیں ہے۔دفع کرو۔”انہوں نے کہا۔
” اماں اس کو ایسے آزاد چھوڑا تو کوئی پتا نہیں کل کو وہ گھر میں اور دوکان میں اپنا حصہ مانگ لے۔بھلے وہ دور ہے لیکن ہمیں اس کی لگامیں کھینچ کر رکھنی پڑیں گی۔” ناعمہ دور کی کوڑی لائی تھی ۔
یہ بات سیدھا رفعت بیگم کے دل کو لگی تھی ۔
” السلام علیکم ۔”وہ جو کچن میں عنایہ کے لیے برگر بنا رہی تھی ارسلان کی اواز پہ ڈر گئی۔
” آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔”وہ دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔
“سوری۔” وہ شرمندہ ہوا۔
” ارے سوری کی تو کوئی بات نہیں ۔آپ اتنی جلدی آگئے۔” اس نے مسکرا کر پوچھا۔
” عنایہ کا سکول کا آج پہلا دن تھا تو میں نے سوچا کہ اسے واپس لے کر آؤں گا اور ساتھ ہی لنچ کریں گے۔” وہ بھی جواباً مسکرایا ۔
” عنایہ صبح فرمائش کر کے گئی تھی کہ اس کے لیے برگر بناؤ۔”اس نے کہا۔
” ایک تو یہ لڑکی کھانے سے زیادہ جنک فوڈ کھاتی ہے۔بےشک زیادہ تر گھر کی بنی چیزیں ہوتی ہیں ۔لیکن اسے روٹی بھی کھانی چاہیے۔”وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
” میں تو جب سے یہاں آئی ہوں عنایہ ایسی چیزیں ہی کھاتی ہیں ۔انہیں پسند ہیں نا۔”وہ انڈا پھینٹے ہوئے بولی۔
” پہلے جب وہ کہتی تھی تو مما منع کردیتی تھیں لیکن میں نے اس کی ہر فرمائش پورا کرنے کے چکر میں اسے عادت ڈال دی۔”وہ جواباً بولا۔
جی۔”وہ یہ ہی کہہ سکتی تھی ۔اب باپ بیٹی کے معاملے میں کیا بولتی۔
” تم بھی اس کو سمجھانا ۔میں بھی سمجھاؤ گا۔”وہ بغور اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔وہ اسے ہمیشہ کی طرح پہلے سے زیادہ حسین لگی۔
” میں کیسے سمجھا سکتی ہوں ۔” وہ حیران ہوئی۔
” کیوں تمہیں سمجھانا نہیں آتا۔” اس نے پوچھا۔
” نہیں ۔” اس نے کہا۔
” میں سکھا دوں گا۔”وہ مسکرا کر بولا۔
” میں آپ دونوں کے معاملے میں کیا بولوں ۔”
” کیا مطلب کیا بولوں ۔”
” مطلب وہ تو آپ کی بیٹی ہے میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔”
” کیوں تم اس کو بیٹی نہیں سمجھتی۔”اس نے پوچھا۔
” میرے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔میں تو اس کی سوتیلی ماں ہوں ۔”اس کے لہجے میں حسرت تھی۔
” تم بس یہ سوچو کہ تم اس کی ماں ہو ۔سگی سوتیلی کو چھوڑو۔”وہ نرم لہجے میں بولا۔
” ٹھیک ہے ۔”وہ خوش ہوئی۔
” اب آپ باہر جائیں میں نے چولہا آن کرنا ہے تو پنکھا بند کرنا پڑے گا۔”وہ دوبارہ سے بولی۔
” اتنی گرمی ہوتی ہے تم پنکھا آن کر کے بنا لیا کرو۔” ارسلان نے اس کی سہولت کے لیے کہا۔
” ایک تو چولہا اتنا ضائع ہوگا۔پھر دیر بھی لگتی ہے۔” وہ جواباً بولی۔
” کوئی بات نہیں ۔”اس نے کہا ۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چولہا آن کیا۔جب تیل گرم ہوگیا تو اس نے توے پہ انڈا ڈالا۔جلدی کے چکر میں تیل کی چھینٹیں اس کے ہاتھوں پہ پڑیں ۔
” سی۔” اس کے لبوں سے نکلا۔
” دیکھ کر کام کیا کرو۔”پاس کھڑا ارسلان اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔
شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
ارسلان نے دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھا۔زری میں وہ یہ چیز بہت مس کرتا تھا۔
” انڈا جل جائے گا۔” وہ ایکدم سے بولی۔
” کوئی بات نہیں ۔” وہ چولہا بند کرتے ہوئے بولا۔
اس نے الماری سے فرسٹ ایڈ باکس نکالا ۔اور ماہم کا ہاتھ پکڑے اسے کچن میں پڑی چھوٹی ڈائننگ ٹیبل کی طرف لایا۔
” میں لگا لیتی ہوں ۔” وہ فوراً سے بولی۔
” میرے ہاتھ صاف ہیں ۔”وہ اسے گھور کر بولا۔اور ٹیوب لگانی شروع کی۔
ماہم مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔اسے اب ارسلان بہت اچھے لگتے تھے۔وہ اتنی عزت دیتے تھے اور اتنے اچھے طریقے سے بات کرتے تھے۔اسے ایسا ہی شوہر چاہیے تھا۔
” کیا دیکھ رہی ہو۔” وہ سر اٹھا کر بولا۔
ماہم نے نفی میں گردن ہلائی۔
” میں نے سوچا تھا کہ عنایہ کا آج پہلا دن ہے تو ساتھ لینے جائیں گے لیکن اب تم ریسٹ کرو۔” وہ ٹیوب کا ڈھکن بند کرتے ہوئے بولا۔
” کوئی بات نہیں ۔میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔واپس آ کر برگر بنا لوں گی۔”اس نے کہا۔
” برگر کو رہنے دو لنچ ہوٹل میں کریں گے۔” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔
کچن کے دروازے کے پاس کھڑی بیگم سراج کے آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ان کا بس نہیں چل رہا کہ ماہم کو جلا دیں۔