اگلی صبح بہت روشن اور چمکیلی تھی۔وہ کچن میں داخل ہوا تو رانی کے ساتھ عنایہ کا ناشتہ بناتی ماہم نے شرما کر اس کا استقبال کیا۔
” تم جاؤ آج ہم دونوں ناشتہ بنائیں گے۔” ارسلان نے رانی سے کہا۔صبح کا ناشتہ رانی بناتی تھی اور دونوں ٹائم کا کھانا کک ۔یہ بھی ارسلان کی ہدایت تھی کیونکہ صبح جب سب سو رہے ہوتے تو ماہم عنایہ کو تیار کر کے اس کا ناشتہ بناتی تھی۔
” آپ کو کھانا بناتا آتا ہے۔” نیلی آنکھوں میں حیرت اتری۔
” تم مجھے ہلکا لے رہی ہو۔” وہ کف فولڈ کرتے ہوئے بولا۔
” کیا کیا بنا لیتے ہیں ۔” وہ اسے فریج کی طرف بڑھتے دیکھ کر بولی۔
” انڈا، چائے اور بریڈ۔” وہ فریج سے چیزیں نکالتے ہوئے بولا۔
” آپ کو بریڈ بنانی آتی ہے۔”حیرت سے اس کی آنکھیں پھیلی ۔
” ماہم ارسلان آپ کیوں اتنی معصوم ہیں۔” وہ اس کی ناک دبا کر بولا۔
” شکر ہے بےوقوف نہیں کہا۔” وہ ناک پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
” تم بےوقوف نہیں ہو۔تم تو بہت سمجھدار اور اچھی ہو۔” وہ مسکرا کر بولا۔
” آپ جھوٹ بول رہے ہیں نا۔” اسے یقین نہیں آیا تھا۔پورا محلہ اسے بےوقوف کہتا تھا۔
” تمہارے حوالے سے میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔”وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” میرا دل چاہتا ہے کہ میں لوگوں کو بتاؤں کہ میں پاگل یا بےوقوف نہیں ہوں۔ہاں باقی لوگوں کی طرح میرے اندر چالاکی نہیں ہے لیکن میں جانتی ہوں کوئی بھی میری بات پہ یقین نہیں کرے گا۔” وہ دکھی ہوئی۔
” تمہارے آس پاس ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تمہاری سادگی کو پاگل پن کا نام دے دے کر تمہاری صلاحیتوں کو زنگ لگادیا۔تم ان کے مطابق سوچتی ہو ۔میں تم سے یہ کہوں گا کہ اپنے مطابق سوچو۔”وہ مسکرا کر بولا۔
ماہم نے مسکرا کر سر ہلایا۔
” بریڈ بنانے سے مطلب بریڈ کو تلنا ہے۔”اسنے بریڈ نکال کر ٹرے میں رکھتے ہوئے وضاحت دی۔
” ویسے آپ سست تو نہیں ہیں نا۔یہ نہ ہو بیگم سراج بھی اٹھ جائیں اور عنایہ بھی لیکن ناشتہ نہ بنے۔”وہ اسے چھیڑنے کے غرض سے بولی۔
” اتنی جلدی اظہار محبت کے بعد بھی تم مجھے سست سمجھ رہی ہو۔”وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
ماہم نے شرما کر نیچے دیکھا۔
” اور تم مما کو بیگم سراج نہ کہا کرو۔”وہ کچھ یاد آنے پہ بولا۔
” پھر کیا کہا کرو۔”
” مما کہا کرو۔”
” میں ان کو مما کیسے کہہ سکتی ہوں اگر وہ ناراض ہوگئیں تو۔”ماہم کو پریشانی لاحق ہوئی۔
” میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ناراض نہیں ہوں گی۔” اس نے مسکرا کر تسلی دی۔
” آج عنایہ کے سکول میں پیرنٹس میٹنگ ہے۔اس لیے آج اسے دیر سے جانا ہے۔آپ یاد سے چلے جائیے گا۔” اس نے یاد دلایا۔
” دونوں ساتھ جائیں گے۔”وہ برنر آن کرتے ہوئے بولا۔ڈبل روٹی کے ٹکڑے وہ کر چکا تھا۔
” میں کیسے جاسکتی ہوں ۔وہاں تو سگے والدین جاتے ہیں ۔” وہ جھجھک کر بولی۔
” تم اس کی ماں ہو بس یہ سوچو۔سگے سوتیلے کو رہنے دو۔”اس نے ڈبل روٹی کو انڈے میں ڈپ کرتے ہوئے کہا۔
” مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب آپ مجھے عنایہ کی ماں کہتے ہیں ۔” وہ مسکرا کر بولی۔
” مجھے تو تم ہر وقت ہی اچھی لگتی ہو۔”وہ اسے دیکھ کر بولا۔
” یہ آپ کیا بنا رہے ہیں؟” وہ موضوع بدلنے کے لیے بولی۔جب ارسلان ایسی باتیں کرتے تھے تو اسے بہت شرم آتی تھی۔
” نام تو مجھے نہیں معلوم۔ڈبل روٹی پہ انڈا لگا کر اس کو تل لوں گا۔بہت مزے کی ہوتی ہے۔” وہ ڈبل روٹی کو پلٹتے ہوئے بولا۔
” میں بھی عنایہ کے لیے کارن فلیکس بنا رہی تھی لیکن آپ نے مجھے باتوں میں لگا دیا۔” وہ ماتھے پہ ہاتھ مار کر بولی۔
” میں تو تمہیں باتوں میں لگایا ہے اور تم نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔”وہ لو دیتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔
ماہم کے چہرے پہ شرمگیں مسکراہٹ ٹھہری۔
جب ملازمہ نے ناشتہ لگا دیا تو ارسلان نے اسے مما کو بلانے کا کہا۔
” وہ تو رات کی فلیٹ سے زری بی بی کے پاس چلیں گئی۔”رانی نے جیسے دھماکہ کیا تھا۔
ارسلان کو ایک جھٹکا لگا تھا۔کیا مما اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھیں۔
” میں نے آپ سے کہا تھا نا۔” ماہم کو شرمندگی ہوئی۔ اسے لگا اس سب میں اس کا قصور ہے۔
” تمہارا اس سب میں کوئی قصور نہیں ۔تم خود کو قصوروار مت ٹھہراؤ۔ناشتہ شروع کرو۔” وہ سنجیدگی سے بولا۔اس نے سوچا رات میں مما سے بات کرے گا۔
” شکر ہے مما آپ آ گئی۔اب میرے مسئلے حل ہوجائیں گے۔” زری ماں کے گلے لگتے ہوئے رو دی۔
” یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔”وہ اسے دیکھ کر حیرت سے بولیں ۔ہر وقت تیار رہنے والی زری اس وقت بکھرے بالوں اور شکن ذدہ لباس میں تھی۔
” میری وہ ہی حالت ہے جو مجھے چھوڑنے پہ ارسلان کی تھی۔” اس کے چہرے پہ افسردہ مسکراہٹ ٹھہری۔
” مجھے تو حیرت ہے دنیا کو جوتے کی نوک پہ رکنے والی زری ایک انسان کے پیچھے خوار ہو رہی ہے۔”بیگم سراج نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔انہیں زری سے اس سب کی توقع نہیں تھی۔
” محبت بڑی ظالم شے ہے ۔اچھے بھلے انسان کو خاک بنا دیتی ہے۔”وہ تلخی سے بولی۔
” تم کتنا بدل گئی ہو نا۔”
” یہ بھی دو دن پہلے کا قصہ ہے ۔جب اس نے مجھے طلاق کی دھمکی دی تو مجھے احساس ہوا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور شاید میں ہی غلط تھی۔میں اس کا موازنہ ارسلان سے کرتی رہی پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔”وہ گلوگیر لہجے میں بولی۔
” سنبھالو خود کو۔”بیگم سراج اسے گلے لگاتے ہوئے افسردہ ہوئیں ۔وہاں وہ احمق عیش کر رہی تھی اور یہاں ان کی پھول سی بچی پہ خزاں آگئی تھی ۔
” اب آپ آگئی ہیں نا تو احسن کو سمجھائیے گا۔”وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔زری کی برین واشنگ کرنی تھی۔اس کے لیے ارسلان ہی پرفیکٹ تھا۔اور اس ہونق کو تو اس گھر سے جانا ہی تھا ۔
اسی شام کا قصہ ہے جب وہ عنایہ کے ساتھ گڑیا کی شادی کر رہی تھی تو عنایہ نے اس کے ہاتھ میں ڈائمنڈ رنگ دیکھی ۔
” یہ آپ کو پاپا نے دی ہے۔” عنایہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
” ہاں۔” وہ بتاتے ہوئے شرما گئی ۔
” ڈیڈ مما کو بھی تحفے دیتے ہیں اور ان کے ساتھ گھومنے جاتے تھے۔اس سب میں وہ مجھے ہمیشہ بھول جاتے تھے۔اب بھی ایسا ہی ہوگا ۔اب تو دادو بھی نہیں ہیں ۔میرا خیال کون رکھے گا۔”عنایہ روہانسی ہوئی۔
” ایسا کچھ نہیں ہے۔میں اور تمہارے پاپا کبھی نہیں بھولیں گے۔” عنایہ کی بات سن کر اس کا دل کٹا۔
” زندگی مکمل کسی کو نہیں ملتی ۔کسی کے پاس سب کچھ ہو کر بھی کچھ نہیں ہوتا۔تو کوئی خالی ہاتھ ہو کر بھی خالی ہاتھ نہیں ہوتا۔”
” پتا نہیں ۔مجھے تو یقین نہیں ہے۔” عنایہ افسردہ ہوئی۔
” میں آپ کی دوست بھی ہوں اور مما بھی۔اور آپ کے پاپا تو دنیا میں سب سے زیادہ آپ سے پیار کرتے ہیں ۔دیکھیں اس دن بھی آپ کے لیے مجھے ڈانتا۔اس لیے آپ پریشان نہ ہوں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔”وہ اس کا سر سہلاتے ہوئے بولی۔
” پھر ہم گھومنے کب جائیں گے۔” عنایہ خوش ہو کر بولی۔
” اس ویک اینڈ پہ جہاں آپ بولوں گی وہاں جائیں گے۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” ہم سمندر پہ جا کر پکنک منائیں گے۔”عنایہ نے کہا۔
” ٹھیک ہے۔”وہ جواباً بولی۔
” آپ ناراض ہو کر گئی ہیں نا؟ “اس نے فون پہ مما سے پوچھا۔
” ایسی بات نہیں ہے ۔”وہ جواباً بولیں ۔
” تو پھر آپ نے بتایا کیوں نہیں ۔”
” مجھے جلدی جانا تھا اور تم مصروف تھے ۔اس لیے بتا نہیں سکی۔”
” میں اپنے رویے کی معافی مانگتا ہوں لیکن آپ خود سوچیں غلطی آپ کی تھی۔”وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” تم معافی نہیں مانگو۔واقعی ہی غلطی میری تھی ۔بس یہ زری کا معاملہ حل ہوجائے تو میں واپس آکر ماہم سے بات کروں گی۔”وہ میٹھی چھری بنی۔
” وہ کہہ رہی تھی اس سب کو رہنے دوں ۔اسے آپ کی، میری اور ہم سب کی کتنی فکر ہے۔میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم چاروں فیملی کی طرح خوش باش رہیں ۔”وہ ہموار لہجے میں بولا۔
” ہمم صحیح کہہ رہے ہو۔ بس یہ ذرا یہ زری کا معاملہ سلجھ جائے۔”وہ اپنی ناگواری چھپاتے ہوئے بولیں۔ وہ زری کا مسئلہ بیان کرنا چاہ رہی تھیں اور ارسلان ماہم کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا۔
” آپ خیریت سے پہنچ گئی تھیں ۔”اس نے پوچھا۔وہ سمجھ رہا تھا مما جان بوجھ کر زری کا ذکر کر رہی ہیں لیکن اسے زری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” خیریت سے تو پہنچ گئی تھی۔پر یہاں بالکل بھی خیریت نہیں ہے۔زری احسن کے ساتھ بالکل بھی خوش نہیں ہے ۔وہ بچاری بہت…. انہوں نے خود ہی بات چھیڑی لیکن ارسلان نے ان کی بات کاٹ دی۔
” مجھے زری سے اور اس کے کسی بھی مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔جو لوگ میرے دل سے اتر جاتے ہیں وہ پھر کبھی دوبارہ میرے دل میں جگہ نہیں پاتے۔آپ اس کا مسئلہ نپٹا کر اپنے گھر لوٹیں
ہم سب کو آپ کی ضرورت ہے۔” وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد اس نے فون بند کردیا۔
” ایک تو یہ ارسلان بہت شدت پسند ہے پہلے زری کے پیچھے پاگل تھا تو کچھ نظر نہیں آتا تھا اور اب ماہم کے پیچھے پاگل ہے تو بھی سب بھول بیٹھا ہے۔”وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار تھیں ۔
سراج ہاؤس میں آج صبح سے ہلچل مچی تھی۔عنایہ کی تیاریاں ختم نہیں ہورہی تھی۔ اس وجہ سے ارسلان کی بڑبڑاہٹیں جاری تھی ۔اور ماہم بچاری تو سخت بوکھلائی ہوئی تھی۔عنایہ میڈم کو کوئی ڈریس پسند ہی نہیں آرہا تھا۔
اللہ اللہ کر کے عنایہ تیار ہوئی تو ارسلان نے اسے اپنا حلیہ درست کرنے کا کہا ۔
اس کے پاس تو جہیز والے ہی سوٹ تھے۔جو وہ اتنے دنوں سے پہن رہی تھی۔سوٹ اتنے سستے تھے کہ دو کی حالت تو کافی نازک ہوچکی تھی ۔بری کا ایک سوٹ ہی بچا تھا جو اس دن ماہم نے خوش قسمتی سے پہن رکھا تھا۔وہ وہی سوٹ لے کر تیار ہونے چل دی۔
” یہ سوٹ کیوں پہنا ہے پرسوں بھی یہ ہی پہنا ہوا تھا۔ کیا اور کپڑے نہیں ہیں؟” وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ماہم بال سنوار رہی تھی۔
” اور بھی ہیں لیکن یہ زیادہ اچھا ہے۔” وہ جیسے زبردستی مسکرائی تھی۔اگر ارسلان کو پتا چلا کہ وہ اتنے قیمتی کپڑوں کی حفاظت نہیں کرپائی تو کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے۔
” میں خود سلیکٹ کرتا ہوں ۔”وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھتے ہوئے بولا اور ماہم کی الماری کھولی۔
ماہم بوکھلا کر اس کے پیچھے آئی تھی۔
” تمہارے پاس بس یہ ہی کپڑے ہیں ۔” وہ حیرت سے چند لٹکتے سوٹ دیکھ کر بولا۔جو اچھی حالت میں نہیں تھے۔
” وہ اور بھی ہیں لیکن وہ خراب ہوگئے ہیں تو میں نے رانی سے بولا کہ ان کو ٹھیک کردے ۔ابھی اس کے پاس ٹائم نہیں ہے تو کچھ دنوں تک ٹھیک کر دے گی۔” وہ نظریں جھکا کر انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بولی۔
” پہلی بات تو یہ کہ اپنی انگلیوں پہ یہ ظلم نہ کیا کرو۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔
” اور دوسری بات یہ کہ میں کوئی غیر تھا جو تم نے مجھے یہ سب نہیں بتایا۔”وہ خفگی سے بولا۔
” وہ بہت مہنگے سوٹ تھے تو مجھے لگا آپ مجھے ڈانٹیں گے۔” وہ شرمندگی سے بولی۔
” تم اپنے اندازے اپنے پاس ہی رکھا کرو۔آئندہ اگر ایسی حرکت کی تو میں سخت ناراض ہوجاؤ گا۔”اس نے دھمکی دی تھی۔
” آئندہ ایسا نہیں کروں گی ۔پلیز آپ ناراض مت ہونا۔ایک آپ اور عنایہ ہی تو مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔”وہ معصومیت سے بولی۔
ارسلان کو اس کی معصومیت پہ ڈھیروں پیار آیا تھا۔وہ ایک قدم بڑھا کر اس کے قریب کھڑا ہوا۔ماہم نے گھبرا کر دوسری طرف دیکھا۔
” آپ لوگ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں دیر کر رہی ہوں اور اب آپ لوگ اپنی سنائیں ۔”عنایہ ایک دم سے ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
ارسلان بوکھلا کر تھوڑا پیچھے ہوا۔
” دیکھو میں تیار ہوں ۔بس چلتے ہیں ۔” وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولی۔
” سمندر پہ نیکسٹ ویک چلیں گے۔ماہم کے پاس کپڑے نہیں ہیں ۔آج وہ لینے چلتے ہیں۔ “اس نے کہا۔
” کپڑے تو کل رات میں بھی لے سکتے ہیں ۔ابھی سمندر پہ ہی چلیں گے۔” وہ عنایہ کو منہ بسورتے دیکھ کر بولی۔
” ٹھیک ہے۔”وہ بھی عنایہ کے تاثرات دیکھ کر مان گیا۔
ساحل سمندر پہ کچھ جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے تھے۔کچھ فیملیز پکنک منا رہی تھیں، کوئی اونٹ پہ سوار تھا، تو کوئی سمندر میں جارہا تھا۔
وہ اور ارسلان عنایہ کا ہاتھ پکڑے ریت پہ ننگے پیر چل رہے تھے۔
” پاپا اب تو ماہم میری مما ہے ۔اب تو آپ نہیں بدلیں گے نا۔” عنایہ نے چلتے چلتے پوچھا۔
ارسلان سخت شرمندہ ہوا تھا۔کیسا باپ تھا وہ جو اپنی اولاد سے اتنے سال غافل رہا۔
” میں نے آپ کو بولا تھا نا اب ایسا نہیں ہوگا۔دیکھو آج آپ کی فرمائش پہ ہم پکنک منانے بھی آگئے۔”وہ ارسلان کے چہرے پہ شرمندگی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
ارسلان یہ سن کر مسکرایا ۔
” اب ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔میں ہر رشتے کو نبھانے کا گُر سیکھ چکا ہوں ۔” اس نے عنایہ کو یقین دلایا۔
” ہم گھومنے کب جائیں گے؟ “عنایہ نے پوچھا۔
” گھومنے ہی تو آئے ہیں ۔” ماہم نے کہا۔
” مطلب کسی دور جگہ جہاں ہم سٹے بھی کریں۔” عنایہ نے وضاحت دی۔
” ابھی تو آپ کا سکول اور ماہم کی ٹیوشن شروع ہوچکی ہے تو جب پیپرز ہوجائیں گے تو اس کے بعد۔” ارسلان نے جواب دیا۔
” مجھے بھی گھر بنانا ہے۔” عنایہ نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جہاں ایک فیملی مٹی سے گھروندا بنا رہی تھی۔
” سچی مجھے بھی بہت شوق ہے۔بچپن میں جب کبھی ابا کے ساتھ ساحل پہ آتی تو لازمی گھر بناتی تھی۔”وہ بھی پرجوش ہوئی۔
” چلیں پھر بنا لیتے ہیں ۔” نفیس مزاج ارسلان کا بالکل بھی مٹی سے کھیلنے کا ارادہ نہیں تھا۔پر فیملی کے لیے اسے کرنا پڑا۔
ماہم اور عنایہ مل کر گھر بنا رہی تھیں اور وہ ان کی تصویریں ۔وہ اس وقت ایک مکمل فیملی لگ رہے تھے۔
پاس سے گرزتے ایک جوڑے نے ان تینوں کو دیکھ کر ماشاءاللہ کہا۔وہ جواباً مسکرا دیا۔کبھی کبھی تو اسے ایسا لگتا عنایہ کی سگی ماں زری نہیں بلکہ ماہم ہے۔
” آپ نہیں بنائیں گے۔” ماہم نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
” نہیں مجھے یہ سب نہیں پسند ۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔وہ تو زمین پہ بیٹھا بھی پنجوں کے بل تھا۔
” توبہ ہے آپ کتنے پرانے زمانے کے ہیں ۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
” اس میں پرانے زمانے والی کیا بات ہے۔”وہ عنایہ کے بالوں کو سمیٹتے ہوئے حیرت سے بولا۔
” آپ کو کسی چیز کا شوق نہیں ہے۔تو آپ پرانے زمانے کے ہی ہوئے نا۔” وہ دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہوئی۔
” ایک چیز کا مجھے کافی شوق ہے۔”وہ معنی خیر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” کس چیز کا۔”اس نے مصروف انداز میں پوچھا۔
” تم سے محبت کا۔” وہ اس کی طرف جھک کر آہستہ آواز میں بولا۔
ماہم کا چہرہ ہمیشہ کی طرح شرم سے لال ہوا۔
” بالکل ٹماٹر لگ رہی ہو۔” وہ ہنس کر بولا۔
ماہم نے اسے گھورتے ہوئے مٹی والا ہاتھ اس کے منہ پہ رکھا۔
” یہ کیا کر رہی ہو۔” وہ بوکھلا کر پیچھے ہوا۔
“پاپا آپ بڑے کیوٹ لگ رہے ہیں ۔” عنایہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
” گھر چل کے تم دونوں کو بتاتا ہوں ۔” ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتے ہوئے اس نے دھمکی دی۔ابھی کچھ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوچکے تھے اسلیے وہ رک گیا۔
یہ سن کر ماہم اور عنایہ کھکھلا کر ہنس پڑیں ۔وہ بھی مسکرا دیا۔
” میں گئی تو ملازم نے بتایا کہ گھومنے گئے ہیں ۔ہائے اماں کہیں ارسلان کا دل تو اس پاگل پہ نہیں آگیا۔” ناعمہ نے خوفزدہ لہجے میں ماں سے کہا۔
” ہوسکتا بھی سکتا ہے۔آخر کو اتنی حسین ہے اور تم میں کیا رکھا ہے۔” آئمہ ناخن پالش لگاتے ہوئے اترا کر بولی۔جب سے اس کا رشتہ طے ہوا تھا وہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔
” تم سے ہزار گنا بہتر ہوں۔اور جس رشتے پہ تم اتنا اترا رہی ہو وہ میری ہی مرہونِ منت ہے۔میں نہ انکار کرتی تو تم ایسے ہی رہتی۔”دو منٹ میں ناعمہ نے بہن کو اس کی اوقات یاد دلائی۔
” یہ سب تو نصیب کی بات ہے۔” آئمہ نے فوراً سے جواب دیا۔
” تم اندر جاؤ۔مجھے ناعمہ سے ضروری بات کرنی ہے۔”رفعت بیگم نے مداخلت کی۔
آئمہ پیر پٹختی اندر بڑھ گئی۔
” بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔ماہم کی شادی کے اخرجات کی لیے میں نے ایک لاکھ بیگم سراج سے لیے تھے اور مہینے کا پچاس ہزار بھی ایڈوانس لے لیا تھا۔اب مہینہ تو گزر گیا۔اور تم کہہ رہی ہو کہ بیگم سراج تو بیٹی کے پاس چلی گئیں۔منگنی سر پہ کھڑی ہے ۔اب پیسے کون دے گا۔” رفعت بیگم کا پریشانی لاحق ہوئی ۔
” کل پھر انوائیٹ کرنے جاؤں گی تو باتوں باتوں میں بیگم سراج کا نمبر بھی لے لوں گی۔اور پھر ماہم کو بھی احساس دلاؤں گی کہ بہن کی منگنی ہے کچھ پیسے دے۔”ناعمہ نے کہا۔
” بیگم سراج فون کرنے پہ پیسے بھیج دیں گی۔یہ نہ ہو منع کردے۔” وہ فکرمندی سے بولیں ۔
“آپ کہنا کہ اگر پیسے نہ بھیجے تو ارسلان کو سچ بتا دیں گے۔”ناعمہ نے مشورہ دیا۔
” تم کتنی ذہین ہو۔بس تمہاری شادی جلدی سے ارسلان نے ہوجائے۔پھر ہم سب سکون سے رہیں گے۔” وہ ناعمہ کی بلائیں لے کر بولیں ۔
ناعمہ اس بات پہ خوش ہوگئی۔
وہ پن منہ میں دبائے حساب کے سوال حل کر رہی تھی۔وہ میٹرک کی تیاری کر رہی تھی۔عنایہ سکول گئی تھی اور ارسلان آفس۔
کمرے کا دروازہ کھلا تو اس نے رجسٹر سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ارسلان کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
” آپ اس وقت۔”
” کیوں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔” وہ دروازہ بند کرتے ہوئے بولا۔
” میں نے ایسا تو نہیں کہا۔آپ دن میں بس عنایہ کو گیٹ پہ چھوڑ کر چلے جاتے تھے تو اس لیے پوچھ لیا۔” اس نے شرمندگی سے وضاحت دی۔
” میری معصوم سی بیوی کیوں ہر بات دل پہ لے لیتی ہے۔”وہ اس کے سامنے گرنے والے انداز میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
” پتا نہیں ۔” وہ کندھے اچکا کر بولی۔
” کیا کر رہی تھی۔”وہ ایک نظر رجسٹر پہ ڈالتے ہوئے بولا۔
” ایک دفعہ میرا میٹرک ہوجائے پھر تو میں نے حساب کو منہ نہیں لگانا۔”وہ میتھ کی بک کو گھورتے ہوئے بولی۔
” تم تو بچاری کتاب کو ایسے دیکھ رہی ہو جیسے اسے کچا چبا جاؤں گی۔”وہ اس کے انداز پہ ہنس کر بولا۔
” سچ میں مجھے حساب بچپن سے ہی پسند نہیں ہے۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
” اتنا بچارہ معصوم سا سبجیکٹ ہے اور تم اس کے پیچھے پڑ گئی۔ادھر دکھاؤ میں سمجھاتا ہوں ۔” وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور کتاب پکڑی۔
پھر ارسلان نے واقعی ہی اسے بہت اچھے سے سمجھایا۔
” آپ کتنا اچھا پڑھاتے ہیں آپ کو تو ٹیچر ہونا چاہیے تھا۔” سوال سمجھ آئے تو اس کا موڈ بھی خوشگوار ہوگیا۔
” چلو اب اگلا سوال تم حل کرو۔”وہ کہنی پہ بل لیٹے ہوئے بولا۔
ماہم سر ہلا کر سوال حل کرنے لگی اور وہ فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس نے بہت حسن دیکھا تھا پر حسن کے ساتھ معصومیت اس نے بہت کم دیکھی تھی۔یہ ہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے وہ ماہم کی طرف جلد مائل ہوگیا۔
کچھ آوارہ لٹیں اسے بار بار تنگ کر رہی تھیں ۔اس نے جھلاتے ہوئے بالوں کو دوبارہ ٹھیک سے باندھنے کے لیے کیچر سے آزاد کیا۔
” کھلا رہنے دو۔” وہ فوراً سے بولا۔
” مجھے پہلے ہی یہ بال اتنا تنگ کر رہے ہیں ۔” وہ منہ پھلا کر بولی ۔
” میں ہوں نا سنبھالنے کے لیے۔” اس نے فوراً سے اپنی خدمات پیش کیں ۔
” آپ تو رہنے ہی دیں ۔” وہ خفا ہوئی۔
” اب مجھ معصوم سے کون سی خطا سرزد ہوگئی۔”وہ اس کے خفا ہونے پہ حیران ہوا۔
” آپ کیوں مجھے گھورتے ہیں۔ “اس نے معصومیت سے پوچھا۔
” میری بیوی میری مرضی۔ “وہ کندھے اچکا کر بولا۔
” جب آپ مجھے اسے گھورتے ہیں تو مجھے شرم آجاتی ہے ۔اگر میں نے آپ کو اس طرح گھورا تو آپ کو پتا چلے گا۔”وہ آنکھیں گھما کر بولی۔
” چلو گھورو۔میں بھی تو دیکھو کے کیسا محسوس ہوتا ہے۔” وہ مسکرا کر بولا۔
ماہم سب کچھ چھور کر اسے دیکھنے لگی۔اسے لگا وہ ارسلان کو کنفیوز کر دے گی پر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ارسلان نے اپنی لو دیتی نظروں سے اسے نظریں جھکانے پی مجبور کر دیا۔
” آپ تو ہیں ہی بےشرم۔” وہ ایکدم سے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔یہ معاملہ تو الٹ ہوگیا تھا۔
ارسلان کا بےساختہ قہقہہ گھونجا تھا۔
” بتانے کا شکریہ۔” وہ اس کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے ہٹاتے ہوئے بولا۔
” اب مجھے پڑھنے دیں ۔اور آپ کو عنایہ کو لینے بھی جانا ہے۔” اس نے ہاتھ واپس کھنیچتے ہوئے کہا لیکن ارسلان نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔
” عنایہ کو لانے میں ابھی ٹائم ہے۔ابھی تو عنایہ کی مما کے ساتھ ٹائم گزار لوں۔” وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” کیا زری واپس آگئی ہے۔”وہ پریشان ہوئی۔
” میں تمہاری بات کر رہا تھا۔” وہ ہاتھ چھوڑتے ہوئے سنجیدہ ہوا۔
” سوری ۔” ماہم شرمندگی سے بولی۔
” اٹس اوکے۔”وہ مسکرا کر بولا۔
تب ہی ملازمہ نے دروازہ کھٹکھٹا کر ناعمہ کی آنے کی اطلاع دی۔ماہم پریشان ہوگئی۔
” کیسی ہیں آپ؟ “احسن نے ان سے سنجیدہ لہجے میں خیریت پوچھی۔
” میں ٹھیک ہوں ۔تم کیسے ہو؟” بیگم سراج بھی سنجیدہ تھیں ۔
“الحمداللہ ۔” وہ جواب دے کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔
” رکو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔” وہ پیچھے سے بولیں ۔
” بولیں ۔” وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔پہلے آتے ساتھ زری شروع ہوجاتی تھی اور آج اس کی ماں۔
” تمہیں کس نے حق دیا ہے میری بیٹی کو ذلیل کرنے کا۔تمہارے ساتھ شادی کے پانچ ماہ میں میری پھول سی بیٹی مرجھا گئی ہے اور ارسلان نے چھ سال تک اسے پھولوں کی طرح رکھا۔” وہ سخت لہجے میں بولیں ۔
” تو رہتی نا اسی ارسلان کے پاس۔میں نے منتیں نہیں کیں تھی۔” وہ بھڑک کر بولا۔یہ طعنہ اسے نیزے کی طرح چھبا تھا۔
” ضرور رہتی اگر تم اس کو نہ بہکاتے۔تمہارے پیچھے اس نے اپنا ہسنتا بستا گھر برباد کر دیا۔”وہ غصے سے بولیں ۔
” تو اب آباد کر لے میں نے کونسا منع کیا ہے۔”وہ اشتعال انگیز لہجے میں بولا۔بیٹی سیر تھی تو ماں سوا سیر۔
” کر لے گی اگر تم اس کی جان چھوڑ دو۔” وہ فوراً سے اپنے مقصد پہ آئیں ۔
” مما یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔”دروازے کے پاس کھڑی زری حیرت اور دکھ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولی۔
بیگم سراج کا رنگ اڑ گیا۔انہیں نہیں معلوم تھا کہ زری ان کی باتیں سن رہی ہے۔
ناعمہ نے ارسلان اور ماہم کو ایک ساتھ کمرے سے نکلتے دیکھا تو جل گئی۔ماہم خاصی گرمجوشی سے اسے ملی تھی۔اسے ماہم مختلف لگیاور وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے حلیے میں تھی۔
ارسلان سنجیدگی سے سلام کا جواب دے کر اوپر والے پورشن میں چلا گیا۔ماہم کی یہ بہن اسے ٹھیک نہیں لگی تھی۔جس طرح وہ اس دن اس کا جائزہ لے رہی تھی اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔
” گھر میں سب ٹھیک ہیں؟” وہ ناعمہ کے ساتھ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولی۔
” تم نے نئے کپڑے لیے ہیں ۔” ناعمہ اسے کڑھائی والے کالا سوٹ میں دیکھ کر بولی۔کالے سوٹ پہ ماہم کی گوری رنگت دمک رہی تھی۔
” ہاں ارسلان نے لے کر دیئے ہیں ۔” وہ شرما کر بولی۔
” اچھا۔اور سوٹ دکھاؤ کیسے ہیں ۔”وہ اس کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
” وہ ہمارے ڈریسنگ روم کا تالا خراب ہوگیا ہے تو دروازہ ہی نہیں کھل رہا۔” اس نے انگلیاں مڑوڑتے ہوئے جھوٹ بولا۔
” یہ انگھوٹی کہاں سے لی؟ “ناعمہ اس کا ہاتھ پکر کر انگوٹھی کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
” ارسلان نے دی ہے۔” وہ سرخ ہوتے ہوئے بولی۔
” لگتا ہے تمہارے ارسلان کے ساتھ کافی خوشگوار تعلقات ہوگئے ہیں ۔”ناعمہ نے حسد سے اسے دیکھ کر کہا۔
“انہوں نے کہا ہے وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔”اس نے خوش ہو کر بتایا۔
” جھوٹ بول رہا ہے۔وہ تو اپنی پہلی بیوی سے پیار کرتا ہے۔تمہارا بس دل بہلا رہا ہے۔” ناعمہ نے اپنی جلن نکالی۔اس کا تو یہ سوچ سوچ کر برا حال تھا کہ اس سے پہلے یہ پاگل معرکہ مار چکی ہے۔
” نہیں انہوں نے…. اس نے بولنا چاہا۔
” تمہاری ساس گئی ہے نا کیا نام ہے اسکا؟ ہاں زری کے پاس ۔تم دیکھنا اسے لے کر آئیں گی۔پھر ارسلان تمہیں گھر سے باہر نکال دے۔”ناعمہ نے ماہم کو ڈرایا۔
ماہم سخت خوفزدہ ہوگئی۔کیا واقعی ہی ارسلان ایسا کریں گے۔اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟