عفان کہاں جا رہے ہیں۔۔ وہ کمرے میں آئی تو عفان کہی جانے کی تیاری کر رہا تھا۔۔
ہاں ۔۔ گائوں جا رہا ہوں۔۔ خود پر پرفیوم کا سپرے کرتے اس نے ایک نظر اسے دیکھتے جواب دیا۔۔
کیوں خیریت۔۔ اچانک کیا پروگرام بن گیا آپ کا۔۔ بیڈ پہ پڑا اس کا کوٹ اٹھا کر وہ اس کے قریب آئی۔۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی عفان کو کہی نھی جانا ہو آسیہ ہی اسے کوٹ پہناتی تھی۔۔
ہاں یار۔۔ اماں کا فون آیا ہے۔۔ کوئی ضروری بات کرنی ہے انہیں۔۔ تم بس اپنا اور میری آنے والی نور چشم کا خیال رکھنا۔۔ اسے کمر سے پکڑ کر اس نے اسکے ماتھے پہ اپنے پیار کی مہر ثبت کی۔۔
میں تو رکھوں گی خیال۔۔ آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔۔ اور کوشش کیجیے گا جلدی واپس آ جائیں۔۔
کہو تو جاتا ہی نہیں ۔۔
آہاں اتنے فرمانبردار ہے آپ میرے۔۔ آسیہ نے ابرو اچکایا۔۔
تمہیں شک ہے۔۔ جوابا اس نے بھی اسے ویسے ہی جواب دیا۔۔
نہیں مجھے آپ کی ن مریدی پہ کوئی شک نہیں ہے۔۔ اپنی مسکراہٹ روکتے اس نے عفان کو دیکھا جو مصنوعی غصے سے دیکھ رہا تھا۔۔
باز آ جائو تم لڑکی ۔۔
سوچ لیں۔۔ باز آ گئی تو یہ نہیں کہنا کہ پھر ویسی ہی بن جائو۔۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ اسے جیسے کچھ جتا رہی تھی۔۔
نہیں کہوں گا۔۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تم بدلو۔۔ تم میری محبت ہو۔۔ تم سے میں نے تب محبت کہ تھی تم مجھ سے لڑتی جھگڑتی تھی اب تو عشق ہو گیا ہے۔۔ اب کیسے کہہ دوں کہ بدل جائو۔۔ بس وعدہ کرو ہمیشہ ایسے ہی رہو گی۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتا وہ جزب سے کہہ رہا تھا۔۔ کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں۔۔ محبت سے کہیں بڑھ کر احترام تھا۔۔
وعدہ کرتی ہوں۔۔ آسیہ کیسے نہ ایمان کاتی اس کی باتوں پہ۔۔ جب اس کا عشق کرنا فرض تھا تو اس کا آمین کہنا بھی تو واجب تھا۔۔
جلدی آئوں گا اپنا خیال رکھنا۔۔ اس کے ماتھے پہ پیار کرتا وہ باہر دروازے کی جانب بڑھا۔۔ جبکہ آسیہ اسے دور تک دیکھتی رہی تھی۔۔
***
یونی میں ایم اے کلاس کا آج اس کا پہلا دن تھا وہ خوش و سرشار سے نیلم کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔ اس کے چہرے پہ بچوں سی خوشی دیکھ کر نیلم مسکرائی۔۔
تم تو ایسے خوش ہو رہی ہو جیسے ہفت قلیم کی دولت مل گئی ہو۔۔
تمہیں کیا پتہ یہ میرے لیے ہفت قلیم کی دولت سے بھی بڑھ کر ہے۔۔ اس یونییں پڑھنا میرا خواب تھا۔
افف آئم سو ہیپی۔۔ اپنی خوشی میں آنکھیں بند کیے وہ سرشار سی چل رہی تھی جب وہ بری طرح کسی سے ٹکرائی۔۔
اففف انسان ہو یا آئرن مین۔۔ اتنے چوڑے سینے سے ٹکرانے کے بعد اس کے حقیقتاً چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔
اوہ بی بی۔۔ مجھ پر چلانے کی بجائے اپنی آنکھیں ٹھیک کرو۔۔ یوں اندھا دھند چلو گی تو کسی نا کسی سے ٹکرا ہی جاؤ گی۔۔ سرائیکی لہجے میں وہ بولتا وہ روشم پہ ہی چڑھ دوڑا تھا۔۔
اوہ مسٹر بی بی کس کو بول رہے ہیں۔۔ آپ کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔۔ اور اگر میں اندھا دھند چل رہی تھی تو آپ کو تو ٹھیک نظر آتا ہے نا۔۔ آپ ہی پیچھے ہو جاتا مسٹر آنکھوں والے۔۔ نیلم کے بار بار منع کرنے پہ بھی اس نے خوب دل کی بھڑاس نکالی تھی۔۔
اس کے اس طرح غصے سے بولنے پہ عرش میر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تھا۔۔ آس پاس ہجوم کا کافی رش لگ چکا تھا۔۔ سب ہی اس لڑکی کو دیکھنے کو بے تاب تھے جو عرش میر خان سے پنگا لے رہی تھی۔۔
بہت بول رہی ہے تو چھوکری۔۔ ہماری جاگیر میں مالک سے اتنا بولنے والے کی گنج کروا دی جاتی ہے۔۔ وہ مونچھوں کو تاؤ دیتا جیسے اسے وارن کر رہا تھا۔۔
اور ہمارے گاؤں میں جو عورتوں سے بدتمیزی کرتا ہے اس کو گنج کروانے کے ساتھ ساتھ اس کو گدھے پہ بٹھا کر اس کا منہ کالا کروا کر اسے پورے گاؤں کا چکر بھی لگوایا جاتا ہے۔۔
اس کے جواب پہ جہاں کچھ دبے دبے قہقہے نکلے تھے وہی عرش میر کے ماتھے سلوٹوں کا جال بن گیا تھا۔۔
نخوت سے اس نے اس پانچ فٹ چار انچ کی لڑکی کو دیکھا جو اب اس کی مردانگی کو نا چاہتے ہوئے بھی چیلنج کر چکی تھی۔۔
اپنی شامت کو تم نے خود دعوت دی ہے لڑکی۔۔ اب دیکھتی جائو تمہارے ساتھ ہوتا کیا ہے۔۔ اسے لال انگارہ آنکھوں سے وہ وارن کر رہا تھا۔۔ لوگوں کی ہنسی اس کے منہ پہ تمانچے کی طرح بج رہی تھی۔۔ وہ جو کسی کو اپنے آگے بولنے نہ دیتی یہ چھٹانک بھر سی لڑکی کیسے اس کی بے عزتی سب کے سامنے کر گئی تھی۔۔
اس سے پہلے کہ روشم کوئی جواب دیتی نیلم اسے کھینچ کھانچ کر ہجوم سے باہر لے آئی۔۔
کہاں لے کر جا رہی ہو مجھے۔۔ اسے جواب دینے دو مجھے۔۔ بڑا آیا۔۔ روشم کا پارہ ابھی بھی ہائی تھی ۔۔
اففف لڑکی۔۔ میں نے تمہیں فن لینڈ بنانے کو کہا تھا بیٹل لینڈ نہیں۔۔ تم جانتی بھی ہو جس سے تم ابھی ابھی پنگا لے کر آئی ہو وہ کون ہے۔۔ کمر پہ ہاتھ باندھتے وہ اسے سمجھا رہی تھی۔۔
کوئی بھی ہو۔۔ مگر اس یونی میں وہ ایک سٹوڈنٹ ہے اور ہر سٹوڈنٹ بدتمیزی پہ ایسا ہی بی ہیویر ڈیزرو کرتا ہے۔۔ اس کی بات پہ نیلم کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔۔
وہ عام بندہ نہیں ہے۔۔ سندھ کے سب سے وڈیرے اور ایم این اے ہاشم علی خان کا بیٹا عرش میر خان ہے۔۔ سب اس سے ڈرتے وہ تو کسی کو منہ نہیں لگاتا سوائے اپنے دوستوں کے۔۔ اور تم اس سے الجھ پڑی ہو۔۔
نیلم کی بات پہ وہ ایکدم سہمی تھی جانتی تو تھی اس نام کو۔ سنا تھا ان کے جبر کے بارے میں اس نے۔۔ لیکن خود کو با ہمت ظاہر کرتے بولی۔۔
واٹ ایور۔۔ اب کیا تم مجھے یہاں لیکچر ہی دو گی یا کلاس میں بھی جائو گی۔۔ ناک پر سے مکھی اڑاتی وہ کلاس کی جانب بڑھی جبکہ نیلم اس سر پھری لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کے ظاہر سے واقعی لگ رہا تھا کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔
***
اماں یہ کیا کہہ رہی ہے آپ۔۔ عفان اس وقت اماں کے سامنے بیٹھا تھا اور ان کی بات سن کر اسے حقیقتا شاکڈ لگا تھا وہ جو آج فیصلہ کر کے آیا تھا کہ اماں سے آسیہ کے بارے میں بات کرے گا۔۔ لیکن اماں کی بات سن کر وہ حیران رہ گیا تھا۔۔
باہر سے گزرتا ہاشم اندر سے آتی آوازوں پہ وہی رک گیا۔۔
ہاں تو ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ تمہارے باپ کے بعد میں نے گدی سنبھالی ہے۔۔ اب تم ہی بڑے ہو۔۔ آگے تمہیں ہی سنبھالنی ہے۔۔ آخر میں بھی اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔۔ اماں کی بات باہر کھڑے ہاشم کے کان کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی غصے کہ لہر اس میں دوڑ گئئ تھی۔
تو اماں آپ ہاشم کو کہہ دیں نا۔۔ میری تو ویسے بھی شہر میں نوکری ہے اور میرا تو اس سب میں رجحان بھی نہیں ہے۔۔ میں نہیں کر سکتا۔۔
کیا نہیں کر سکتے ہاں۔۔ پہلے بھی تم نے شادی کی بات پہ بھی یہی بات کی تھی کہ ہاشم کی کروا دیں ابھی میں پڑھنا چاہتا ہوں۔۔ تب میں نے تمہارےی مان لی۔۔ اب اس کے بھی دو بچے ہو گئے ہیں لیکن تم ہو کہ نہ تم شادی والی بات پہ راضی ہوتے ہو اور اب اس بات پہ بھی تمہیں اختلاف ہے۔۔
انہوں نے تو اس کی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی تھی۔۔۔ جبکہ باہر کھڑا ہاشم غصے سے وہاں سے چل دیا۔۔ باقی کی بات اس نے سننا بھی گوارا نہ کی تھی۔۔
اماں میری پیاری اماں۔۔ اعفان نے لاڈ سے ان کے گلے کے گرد اپنے بازووں کا ہار ڈال دیا۔۔ اسے جب بھی کوئی بات منوانی ہوتی تھی وہ ایسا ہی کرتا تھا اور حیرت انگیز طور پہ اماں کا اس کی طرف سے دل بھی نرم تھا۔۔اسی لیے تو وہ اس کی ہر بات مان لیتی تھی۔۔
اماں میں نہیں سنبھال سکتا آپ سمجھے نا۔۔ میں اس سب کے قابل نہیں ہوں۔۔ ہاشم بلکل ٹھیک ہے وہ آپ کے ساتھ رہا ہے اسے ذیادہ اندازہ ہے۔۔ پکیز مان جائیے نا۔۔
اس وقت انہیں وہ بہت پیارا لگا تھا۔۔
اور شادی۔۔ اب اگلا سوال آیا تھا یعنی اس معاملے میں نیم رضامندی تھی۔۔
وہ۔۔ اماں۔۔ اب کے وہ سر کھجاتا الگ ہوا۔۔ بات کرنے کو الفاظ نہ مل رہے تھے۔۔
وہ کیا۔۔ سمجھ تو وہ گئی تھی مگر اس کے منہ سے سننا چاہتی تھئ۔۔
میں کسی کو پسند کرتا ہوں۔۔۔ اس وقت اگر آسیہ اسے دیکھتی تو ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتی کیونکہ وہ شرماتا بلکل سرخ ہو چکا تھا۔۔
سب جانتی ہوں تمہیں میں نالائق۔۔ یہ بات ماں کو پہلے نہیں بتا سکتا تھا۔۔ انہوں نے مصنوعی غصے سے اس کا کان مروڑا۔۔
اللہ اماں۔۔ ابھی بتا رہا ہوں تو یہ کر رہی ہے۔۔ پہلے بتاتا تو کیا کرتی۔۔ وہ چیخا۔۔
تب بھی یہی کرتی نالائق۔۔ اس بار ہنس کر کہتے انہوں نے اس کا کان چھوڑ دیا جبکہ وہ بھی ہنستا ہوا ان کی گود میں سر رکھ گیا۔۔
باقی تفصیلات اس نے ابھی نہ بتائی تھی۔۔ اس کا خیال تھا کہ اگلی بار آسیہ کو ساتھ لے کر آ کر اپنا اور آسیہ کا رشتہ بتائئے گا۔۔ وہ اپنے آنے والے بچے کو اپنے گھر میں لانا چاہتا تھا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔۔
اب اگر اماں مان گیئی تھی تو وہ کچھ نہ کہتی۔۔ بس ایک وہلیمہ ہوتا اور پھر سب ہنسی خوشی رہتے۔۔ پر جیسا انسان سوچتا ہے ویسا ہوا ہی کب ہے۔۔
***
ندرت جب کمرے میں آئی تو عرشمان ٹی وہی دیکھ رہا تھا۔۔ ایک نظر اسے دیکھ ر پھر ٹی وہ پہ دیخھا جہاں کوئی ٹاک شو لگا تھا ۔۔ پھر خاموشی سے اس کے پاس چائے لا کر رکھ دی۔۔
سنو۔۔ وہ مڑنے لگی تھی جب عرشمان نے اسے پکارا۔۔
جی۔۔ سرگوشی سے اونچی آواز نہ تھی اس کی۔۔
یہ رموٹ پکڑائو مجھے۔۔ قریب ٹیبل پہ اشارہ کیا گیا جو اس سے چند ہاتھوں ے فاصلے پہ تھا۔۔
ندرت نے ایک نظر اسے دیکھااور ڈرتی ڈرتی آگے بڑھی۔۔ اسے عرشمان سے ڈر لگتا تھا اس کی موجودگی میں اس کا دل کرتا تھا وہ کہیں غائب ہو جائے۔۔ کیونکہ وہ جب بھی اس کی موجودگی میں اس کا کوئی کام کرتی تھی۔۔
تو ڈر کی وجہ سے وہ کام ہمیشہ خراب ہوتا تھا اور پھر عرشمان کا جلالی روپ پھر سے عود آتا تھا ۔۔
ابھی بھی وہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھی لیکن ہائے رے قسمت۔۔ قریب جاتے صوفے سے اس کے پائوں کو ٹھوکر لگی اور پاس پڑی چائے کے ساتھ ساتھ وہ بھی پوری کی پوری عرشمان کے اوپر جا گری۔۔
یا وحشت۔۔ وہ غصے سے چلایا۔۔ اور اسے دور کر کے زوردار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا۔۔
ندرت کو پہلے ہی کچھ سمجھ نہ آ رہا ےھا رہی سہی کسر اس کے تھپڑ نے پوری کر دی تھی۔۔
جاہل عورت۔۔ یہ کیا کیا ہے۔۔ چائے کے محض چند چھینٹے ہی اس پہ گرے تھے۔۔ باقی کچھ چائے تو صوفے اور قالین پہ گری تھی لیکن عرشمان کا جلاد عود آیا تھا۔۔
وہ۔ وہ۔۔ عرشمان۔۔ ندرت سے تو بولا ہی نا جا رہا تھا۔۔ اپنے ساتھ متوقع سلوک کا سوچ کر ہی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔
کیا وہ وہ۔۔ اس کے بال پکڑ کر اس نے اس کا سر اوپر کیا۔۔
سرکار معاف کر۔۔ اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی۔۔ جب ایک اور زوردار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا تھا۔۔
خاموش۔۔ عرشمان اتنی زور سے چلایا کہ ندرت کی روح تک کانپ گئی۔۔ جسم تو پہلے ہی کانپ رہا تھا۔۔
تم جیسی عورت کو عرشمان کی بیوی بننے کا حق ہی نہیں تھا۔۔ تم نے میری زندگی میں آ کر میری زندگی بھی برباد کر دی ہے۔۔ جانتی ہو تم کیا ہو۔۔ تم ایک ایسی گھٹیا ہڈی ہو جسے نہ میں نگل سکتا ہوں نہ اگل سکتا ہوں۔۔
اسے بالوں سے پکڑے وہ اتنی حقارت سے بوک رہا تھا کہ اس کے لہجے کی کڑواہٹ ندرت کو اپنے اندر گھلتی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔
اب سامنے مت آنا میرے۔۔ اسے زور سے ٹیبل پہ پھینکتا وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا باہر کی طرف چل دیا۔۔
جبکہ پیچھے ندرت کا سر ٹیبل کی نوک لگنے سے پھٹ چکا تھا اور اس سے خون رس رہا تھا۔۔ ہونٹ کا بھی یہی حال تھا۔۔ جو تھپڑ لگنے سے پھٹا تھا۔۔
یا اللہ رحم کر مجھ پہ۔۔ تو تو کہتا ہے میں اتنا ہی ازماتا ہوں جتنا کوئی آزمائش پہ پورا اتر سکتا ہے۔۔ پھر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں۔۔ کیوں میری سزا اتنی بڑی ہے۔۔ اب بس کر دے۔۔ اور نہیں سہا جاتا مجھ سے۔۔ بس کر دے میری سزا۔۔
وہ زمین پہ بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی کہ اس وقت اس کے مالک کے علاوہ اس کی سننے والا کوئی نہ تھا۔۔ اور وہ تو بہترین سامع ہے۔۔
وہ جانتا ہے کہ کس کو کتنی آزمائش کے بعد کتنی نعمت سے نوازنا ہے۔۔ کچھ رونے سے اور کچھ چخون کے بہنے سے وہ کب اپنے ہوش سے بیگانہ ہوئی اسے خود خبر نہ تھی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...