(Last Updated On: )
آج وہ معجزاتی طور پر یونی ٹائم پر پہنچ گئ تھی جس کے سبب کلاس کے سب سٹوڈنٹ اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے وہ پونی ٹیل کستی ہوئ عائشہ تک آئ اور بیگ اسکے ڈیسک پر رکھ دیا۔عائشہ نے حیرانی سے اسے دیکھا “خیریت آج چاند اتنی صبح صبح کیسے نکل آیا عائشہ نے اسے چھیرتے ہوئے کہا”اچھا اب جلدی سے ریجسٹر نکالو کل کا لیکچر ریوائس کرلیتے ہیں ۔ابھی وہ بیگ سے نکال ہی رہی تھی کہ ایک تصویر اسکے ہاتھ میں آگئ ۔ تصویر کسی فنکشن کی تھی جس میں عائشہ اور حنا کی بیک میں ایک شخش موبائل یوز کر رہا تھا اسکی بھی پکچر ساتھ آگئ تھی”عائشہ یہ تصویر کس کی ہے؟” اسنے شرارت سے کہا۔
حور یہ پکچر ادھر دو مجھے” عائشہ نے اس سے لینی چاہی “دال مین کچھ تو کالا ہے کتنی گھنی ہو تم نے تو خبر تک نہ ہونے دی۔۔۔۔
“عائشہ بتاو بھی کون ہے یہ؟” حور نے اسے اکسایا “ہے کوئ” عائشہ نے مختصر طور پر بتایا اور موقع ملتے ہی اسکے ہاتھ سے تصویر چھین لی۔”کون ہے یہ کوئ” حور نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا “بتا دوں گی یار کونسی کوئ تمہاری ٹرین نکلی جا رہی ہے”عائشہ نے ٹالتے ہوئے کہا۔”خیر پتا تو میں بھی لگا ہی لوں گی” حور نے اتراتےہوئے کہا جوابن عائشہ مسکرانے لگی۔”تو تم نے رات کے پلین پر ورک اوٹ کر لیا”عائشہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا “سب ریڈی ہے بس تمہارے کزن کا برا وقت شروع ہونے والا ہے میرے ہاتھوں” اس نے مسکراتے ہوئے کہا “رحم کھاو میرے مان بھائ پر” عائشہ نے اس سے کہا “خیر اتنی آسانی سے تو بخشنے نہیں والی میں اسے تم اپنی ہمدردی سنبھال کر رکھوں” کہتے ہوئے وہ دونوں مسکرانے لگیں۔
اب وہ دونوں کوریڈور سے گزرتی ہوئیں باہر آ رہی تھی “اور ہاں ممی نے تمہارے لیے میسج دیا تھا کہ نیکسٹ ویک سے تم ہماری طرف شفٹ ہو رہی ہو اور شادی تک تم ہماریے ساتھ ہی رہو گی وہ تمہارا کوئ ایکسکیوز نہیں سنیں گی اور ہاں ماہین بھی اسلامآباد سے لاہور واپس آ رہی ہے اسکے ایگزامز تھے اس لیے وہ لیٹ ہوگئ ورنہ سب کے ساتھ ہی آتی” عائشہ اسے عرشمان اور ریحان کی سسٹر کے بارے میں بتا رہی تھی “اب آنٹی کی بات تو ٹال نہیں سکتی میں کے وہ ناراض ہو جائیں گی فائن میں نیکسٹ ویک آجاوں گی “گڈ ہم بہت انجوائے کریں گے سمن کو اگر نیکسٹ ویک کراچی نہ جانا ہوتا تو سب ساتھ انجوائے کرتے” عائشہ نے کہا “ہاں یہ تو ہے”وہ دونوں چلتے ہوئے کینٹٹین کی طرف بڑھ گئیں
*********************
انکرا میں رات کی سیاہی اک عجب سوگواریت پھیلا رہی تھی۔جیسے کچھ بہت غلط اور ہولکناک قسم کا واقع ہونے والا تھا۔ درختوں پر پتوں کی سرسراہٹ دور کسی جانور کے بولنے کی خوفناک آوازیں سنائ دے رہی تھی۔ عمارت کے تیسرے فلور پر موجود سنسنان کیبن میں دو شخص موجود تھے۔ باہر کی ہوا اب گزرتی رات کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ایک شخص نے سیل کان سے لگا رکھا تھا۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی۔
دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئ تھی اسی لیے وہ شخص خوشگوار لہجے میں بولا “سو تم جانتے ہو نا کہ تمہیں کیا کرنا ہے” اس شخص نے کہا”off course I know”
دوسری جانب سے کہا گیا “گڈ تمہیں یہ کام اتنی صفائ سے کرنا ہے کہ سب کچھ ایک سانحہ لگے نہ کے سازش مجھے کوئ پروبلم نہیں چاہئے روز بر روز ہم پر پریشر بڑھتا ہی جا رہا ہے جلد سے جلد اس کام کو نمٹاو تاکہ سب کچھ ہمارے انڈر ہو”اس شخص نے کہا “آپ کو میری قابلیت پر کوئ شک ہے کیا”اس نے فاتخانہ مسکراہٹ سے کہا “not at all” بس پھر ریلیکس کریں اور میری کال کا ویٹ کیجیے گا یو نو اس سے آگے آپکو کیا کرنا ہے۔”دوسری جانب سے کہا گیا “yes we know”وہ اس دوسرے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے جو کسی کھڑکی کے قریب کھڑا کسی سوچ میں ڈوبا تھا۔اس آدمی نے سیل آف کیا اور چلتے ہوئے اس شخص کے پاس آیا “کیا سوچ رہے ہو ” اس آدمی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا”یہی کہ بہت جلد انکرا ہمارے قدموں تلے ہوگا کوئ ہماری طاقت توڑ نہیں پائیں گا ہم ترکی کے معافیہ کے حکمران ہوں گے”کہتے ہوئے دونوں نے کہکا لگایا۔
وہ اپنے عزائم تک پہنچ چکے تھے اور اب اس کے حصول کے لیے صرف چند گھنٹے باقی تھے۔مگر یہ تو خدا ہی جانتا تھا کہ کس کے حصے میں کیا آنے والا تھا۔ اور اس سے بہترین نوازنے والا اور کون ہے بھلا۔
**************
آج سارا دن یونیورسٹی میں اتنا مصروف گزرا تھا کہ اپارٹمنٹ واپس آکر اس کے دماغ سے بلکل نکل چکا تھا کہ انہیں آج لیٹ نائٹ آئسکریم کھانے جانا ہے سو وہ شام کو کافی پینے کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کو لیٹ گئ اور اب رات پونے ایک بجے جب وہ گہری نیند میں تھی تو موبائل کی گھنٹی اسکی نیند میں مخل ہو رہی تھی۔ناچار اس نے بنا
دیکھے کال ریسیو کی۔”ہم پچھلے پندرہ منٹ سے نیچے ہارن دے رہے ہیں آخر تھی کہاں تم” عائشہ نے اسکے کال ریسیو کرتے ہوئے اسکی خبر لی”مگر تم رات کے ایک بجے مجھے کہاں لے جانے آئ ہو” کار میں موبائل کا سپیکر آن تھا سو سب ہی اس کی غائب دماغی پر مسکرا دیے جبکہ عرشمان جو اتنی دیر سے ضبط کیے بیٹھا تھا سیل عائشہ کے ہاتھ سے لیا اور بولا”مخترمہ آپکو بی-آر-بی نہر لے جانا تھا اگر آپ کی یاد داشت کام کر رہی ہو تو آپ ہی کے پلین کے تحت ہم آئسکریم کھانے نکلے تھے” اس نے سخت لہجے میں کہا
“اوگوڈ میرے تو ذہن میں ہی نہیں رہا کل چلیں جائیں گے مجھے شدید نیند آرہی ہے”حور نے جواز پیش کیا۔”لسن مس حور جہانگیر !اول یہ کہ میں آپکا ڈرائیور نہیں دوم یہ کہ یہاں سب اپنی نیند خراب کرکے میرے ساتھ آئیں ہیں اور کوئ بھی آئسکریم کھائے بغیر واپس نہیں جائے گا لحاظہ تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں ریڈی ہو کر نیچے آو ورنہ تم سب کا بل پے کرو گی اسنے کہتے ہوئے کال ڈس کونیکٹ کر دی۔ “صرف پانچ منٹ”وہ چلائ مگر دوسری جانب سننے والا کوئ نہ تھا۔
“من بھائ آپکا تو برا وقت چل رہا ہے” عائشہ اور سمن نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے کہا وہ نہ سمجھی سے انہیں دیکھنے لگا “کیا مطلب” عرشمان نے ان سے پوچھا “وہ اس طرح کے جس طرح فیزکس نیوٹن کے بنا ادھوری ہے کیمسٹری ری ایکشنز کے بنا ادھوری ہے اسی طرح حور اپنی مکمل تیاری کے بنا نامکمل ہے” دونوں نے ایک ساتھ اپنا پسندیدہ ڈائلوگ بولا اور ہنسنے لگیں اور ہوا بھی یونہی وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ پورے دس منٹ بعد نیچے تشریف لائیں۔کار میں بیٹھتے ہوئے اسے پہلا طنز جھیلنا پرا”کافی جلدی نہیں تشریف لے آئیں ” اسنے جتلاتے ہوئے کہا “مجھے بھہی یہی لگ رہا ہے بس پانچ منٹ ہی دیے گئے وقت سے اوپر ہوئے ہیں” شرمندہ ہونا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا خاص تور پر اپنی غلطی پر۔
۔بیک ویو مرر سے اسنے اک نگاہ اس پر ڈالی آف وائٹ سوٹ پر پنک لپگلوس لگائے پاوں میں گرین سٹریپ ہیلز پہنے وہ بہت حسین لگ رہی تھی کہ کچھ دیر پہلے کی ناراضگی خود با خود دور ہوگئ۔بیک ویو مرر میں دیکھتےہوئے اسکے ساتھ بیٹھی عائشہ اور سمن کی جتلاتی نگاہیوں نے انہیں دیکھا جن کا صاف یہ مہفوم تھا کہ دیکھا ہم نے کہا تھا نا وہ سر جھٹک کر ونڈسکرین کے پار دیکھنے لگا جبکہ وہ دونوں مسکرا دی اور حور کو ان کے مسکرانے کی وجہ بلکل سمجھ نہ
باہر کی ٹھنڈی ہوا نے ہر طرف اک سکون سا برپا کر رکھا تھا۔حور نے اپنی سائیڈ ونڈو کھول لی ہوا اب اس کے ریشمی زلفوں سے اٹکیلیاں کرنے لگی۔وہ جلد ہی آئسکریم پارلر پہنچ چکے تھے۔باہر مڈ نائم لوگوں کی الگ رونق تھی یوں محسوس ہورہا تھا جیسے رات ہوئ ہی نا ہو لوگ شاپنگ اور آوٹنگ کے لیے اب بھی باہر موجود تھے۔کار پارک کرکے ان دونوں نے بیک سیٹ پر موجود ان تینوں کو دیکھا “ایسا کرو تم تینوں اندر آئسکریم کا اورڈر دے آو ہم یہیں تم لوگوں کا انتظار کرتے ہیں تب تک” تینوں نے بیک وقت کہا”تو تم لوگ اندر نہیں چلو گی”عرشمان نے حیرت سے پوچھا “نہیں ٹائم کافی ہو چکا ہے ہم بس آئسکریم کھا کر یہاں سے نکلیں گے “
اس بار حور نے کہا اور وہ دونوں کندھے اچکاتے ہوئے باہر نکل گئے۔
جب وہ دونوں اندر چلے گئے تو حور اور سمن کے کہنے پر عائشہ نے انہیں میسج کیا”کتنا ٹائم لگے گا تم دونوں کو”جواب بھی جلد وسول ہوگیا”تقریبن پندرہ منٹ لگیں گے کیوں “عرشمان نے تعجب سے پوچھا” تمہاری کار کو لانگ ڈرائیو پر لے جانا ہے اس لیے” اس بار حور نے رپلائے کیا۔ عرشمان کو خطرے کا سائرن بجتا محسوس ہوا وہ کچھ کچھ ان کے ارادے بھانپ چکا تھا۔”حور۔۔۔میں تم لوگ کیا کرنے والے ہو ویٹ میں آرہا ہوں”لیکن کوئ جواب موصول نہ ہوا۔وہ پارکنگ کی طرف بھاگا مگر نہ اب وہاں کار تھی نہ ہی وہ تینوں۔اتنے میں میسج وسول ہوا “اپنی کار کو گڈ بائے تو کہہ دو۔۔۔۔اب یہ اس حالت میں واپس نہیں آنے والی “وہ سر تھام کر رہ گیا”کیا ہوا”حسن نے اس سے پوچھا “میرا کباڑا ہونے والا ہے”۔وہ بڑبڑایا
وہ تیز رفتار میں کار سڑک پر دوڑانے لگی۔آئسکریم کا تو بہانہ تھا وہ تو عرشمان کو سبق سکھانا چاہتی تھی ۔اس نے حور جہانگیر کو انڈرایسٹیمیٹ کیا تھا سزا تو ملنی ہی تھی۔وہ حور ہی کیا جو صرف آئسکریم کھلانے پر معاف کر دے وہ تو پوری پلیننگ سے آئ تھی۔اور یہ عرشمان کا بدقسمت دن ہی تھا۔ اس نے بیگ سے مارکر نکالا اور کار کے بیک سکرین پر بڑاے حروف سے لکھنے لگی”ایوری ون جسٹ ہیو انجوائمنٹ اس کار پر جو چاہیں گرائیں اٹس آ dare اونر بلکل برا نہیں منائیں گے” ہور مسکراتے ہوئے لکھنے کے بعد کار میں بیٹھ گئ”عرشمان بھائ بہت ناراض ہوں گے”عائشہ نے فکرمندی سے کہا”ڈونٹ وری تمہارے بھائ سے میں نمٹ لوں گی ابھی تو انجوائے کرو”اسنے کہتے ہوئے کار سٹارٹ کی اور اسے پر رونق سڑکوں پر گھمانے لگی۔
موسٹلی نوجوان لڑکوں اود لڑکیوں نے اسے بہت انجوائے کیا اور سطر پڑھتے ہوئے کسی نے سلش،کسی نے جوس،کوفی، مسٹرڈ نیز صرف ٹماٹر اور انڈوں کی ہی کثر رہ گئ تھی ورنہ جو کار کا حال ہوچکا تھا اسے فوری تور پر سروس کی ضرورت تھی۔ کار آئسکریم پارلر کی طرف لے جاتے ہوئے تینوں کا مسلسل ہنس ہنس کر برا حال ہو چکا تھا۔ادھر عرشمان کو پریشانی ہو رہی تھی کہ اسکی کار پر کیا بیت رہی ہوگی لیکن جب کار اسکے سامنے رکی تو اسنے گمان بھی نہیں کیا تھا کہ یہ حشر ہوگا۔وہ تینوں کار سے باہر نکلی تو عرشمان کو سکتے میں پاکر جو ہنسی کا دورا بامشکل رکا تھا ۔اسکی مسکینوں والی صورت دیکھ کر دوبارا جاری ہوگیا۔وہ بامشکل ضبط کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
***********************
پانی کے قطرے ٹپ ٹپ کرتے اسکے بالوں اور چہرے سے لڑکھ کر دوبارہ پانی کی سطح سے جا ملے۔پلکوں میں موجود اب بھی کچھ بوندیں تھی۔وہ کہاں تھی اسے کچھ معلوم نہ تھا۔سیاہی اب بھی اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئ تھی۔اس نے اپنی انگلیویاں ہلائ جو پھر سے پانی کی سطح سے ٹکرائیں۔ اسنے اردگرد نگاہ دوڑائ مگر سیاہی سے چھٹکارا نہ پا سکی۔جسم کا لباس تک تر تھا۔یوں جیسے وہ گھٹنوں کے بل اس مایا میں ڈوبتی جارہی تھی۔اسکے ہاتھ کسی زنجیر سے بندھے تھے۔
نہ وہ یہاں سے اٹھ سکتی تھی نہ چل سکتی تھی۔وہ پھر سے ہواس بہال کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔خون سے لتھرا وجود ۔۔۔۔۔اسکی معصوم سسکیاں۔۔۔۔۔۔اسے بے رحمی سے کھینچا جا رہا تھا۔ اچانک کسی کے قدموں کی چاپ اسے محسوس ہوئ تو اس پر سکوت طاری ہوگیا۔کسی نے اسکی زنجیریں کھولی اور وہ اس بے رنگ مایا سے نکل کر باہر آئ اور کچھ فاصلی پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئ جانتی تھی کہ اگر وہ باہر نہ آتی تو اگلا ردعمل کیا ہوتا۔فرش پر بیٹھتے ہوئے کوئ نوکیلی شہ کی چبن اسنے اپنے بازو پر محسوس کی۔کتنی مدت بیت چکی تھی یہ وہ نہیں جانتی تھی۔البتہ تاریکی میں کچھ قدم چلنا اسے آگیا تھا
۔ آخری مرتبہ اسنے روشنی کب دیکھی تھی اسے یاد نہ تھا۔ البتہ اتنہ ضرور جانتی تھی کہ جب دوبارہ اسکے حواس بہال ہونگے تو وہ پھر اس بے رنگ مایا میں موجود ہوگی۔نگاہوں کے سامنے چھائ تاریکی دھیرے دھیرے ذہن کے پردوں پر قابض آگئ۔وہ نیم مدہوش سی ہونے لگی۔ مایا پھر سے کچھ راز خود میں سمونے لگی۔قدموں کی آواز اب دور ہوتی چلی گئ۔
*********************
“ویسے اب واپسی کا کیا ارادہ ہے؟”حسن نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے پہلے ان تینوں کو دیکھا اور پھر عرشمان کی طرف دیکھا جو اب تک خاموش کھڑا تھا۔”ابھی کہاں واپسی ہماری آئسکریم کہاں ہے؟”حور نے مسکراتے ہوئے پوچھا “ابھی آتی ہی ہوگی لو آبھی گئ “حسن نے ویٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ٹرے اٹھائے انہی کی طرف آرہا تھا۔سب نے اپنا اپنا سکووپ پکر لیا۔
عرشمان نے خفا ہوتے ہوئے رخ دوسری جانب موڑ لیا۔اسکا موڈ واقع خراب ہوچکا تھا۔اسے امید تھی کہ شائد حور اس سے معزرت کر لے گی یا کم از کم اسے منانے کی کوشش کرے گی مگر حیرت تو اسے تب ہوئ جب حور نے اسکا سکووپ بھی ٹرے سے اٹھا لیا “کوئ کافر ہی ہوگا جو آئسکریم سے منہ موڑے کم از کم میں تو یہ خطا نہیں کر سکتی۔ اب وہ باری باری ہر سکووپ سے بائٹ لینے لگی۔
عرشمان اسے حیرت سے اسے دیکھنے لگا اور پھر سے موڈ خراب ہوچکا تھا ۔”چلو بےبی بےبی اوپن یور ماوتھ”حسن نے اپنی ائسکریم سے ایک بائٹ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو سب ہنسنے لگے جب کہ عرشمان نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسکے ہاتھ سے آئسکریم کھا لی۔
“اب واپس کس پر جانا ہے” سمن نے پوچھا”ظاہر ہے اپکی فرینڈ نے تو میری کار کو اس قابل چھوڑا نہیں” عرشمان نے خفا ہوتے ہوئے کہا “پھر اب کیا کرنا ہے” عائشہ نے پوچھا”پھر یہ کہ چائنہ کی بائک پر چلتے ہیں واپس آئے مین دیسی پاکستانی ٹرانسپورٹ” عرشمان کے کہنے پر وہ سب ہنسنے لگے “نہیں رہنے دیں اس سے بہتر تو آپکی سرکس کی کار ہے”
سب کو ڈراپ کرنے کے بعد جب وہ تھک کربیڈ پر گرا تو اسے حور کا میسج وسول ہوا”اب آئیندہ مجھ سے مس بیہیو کرنے سے پہلے دس بار سوچ لی جئیے گا۔۔۔گڈ نائٹ” میسج پڑھ کر وہ مسکرانے لگا۔”گڈ نائٹ” میسج سینڈ کرنے کے بعد وہ سونے کے لیے لیٹ گیا۔
جیسے جیسے سیشن اپنے اختتام یونیورسٹی کی مختلف تنظیموں میں تصادم ابھر رہا تھا۔کونسلز اسکی روک تھام کے لیے کوشش تو کر ہی رہیں تھی مگر کچھ غیر جانبدار عناصر اپنے اثرورسوخ کی بنا پر غلط ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے جس سے یونیورسٹی کا نظم وضبط کافی اثرانداز ہو رہا تھا۔وہ اپنی پرسکون نیند لے کر یونی پہنچی تو وہاں اک عجب سا ماحول تھا۔ زیادہ تر سٹوڈنڈس نوٹس بورڈ کے قریب موجود تھے۔ وہ انہیں نظرانداز کرتی کلاس میں پہنچی تو معلوم ہوا کہ آج کوئ لیکچر ہی نہ تھا۔وہ متلاشی نگاہوں سے عائشہ اور سمن کو ڈھونڈنے لگی۔
چلتے ہوئے وہ کیفیٹیریا تک آئ وہاں سمن کو موجود پاکر اس نے اپنی سانس بحال کی۔”تم یہاں ہو اور میں پوری یونی کا چکر لگا چکی ہوں”اس نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔ “یہ عائشہ کہاں ہے”اسنے پوچھا”اب تک تو آئ نہیں شاید آج نہ آنے کا پلین ہو”سمن نے سوچتے ہوئے کہا۔”یہ سب نوٹس بورڈ پر شہد کی مکھیوں کی طرح کیوں منڈلا رہے ہیں؟”اسنے سمن سے پوچھا”تمہیں معلوم تو ہے لاسٹ ویک یونین کی دہ پارٹیز میں سے ایک ڈومننٹ پارٹی سلیکٹ ہوئ تھی جو اگلے ایک سال تک یونی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کے اہم امور سر انجام دے گی۔اسی کی خوشی میں ان کے چیف سیونتھ سمیسٹر کے دانیال نے پارٹی ارینج کی ہے جس کے لیے نوٹس جاری کیا گیا ہے لیکن سننے میں آیا ہے کہ مخالف کچھ فس کر سکتے ہیں خاص کر عدنان اور اسکے گروپ ممبرز ویسے بھی انکی repute زیادہ اچھی بھی نہیں لٹس سی کیا ہوتا ہے۔
اسی لمحے اسے عائشہ سامنے سے آتی دکھائ دی۔ “کیا چل رہا ہے”اسنے مسکراتے ہوئے پوچھا”فلحال تو کچھ نہیں چل رہا لیکن کل دانیال کی طرف سے سیلیبریشن پارٹی ضرور چلے گی” سمن نے اسے بھی انفارم کیا”اچھا گریٹ”۔حور نے ارد گرد نگاہ دوڑائ جو عائشہ کی نظر میں بھی آگئ”کسے تلاش رہی ہو حووری”عائشہ کے یوں کہنے پر وہ نروس سی ہوگئ”کسی کو نہیں”۔عائشہ اور سمن اسے چرانے لگی “ویسے جنہیں تلاش کیا جارہا ہے وہ نہ آج آنے والے ہیں نہ کل” حور نے فکرمندی سے پوچھا”کیوں” عائشہ نے محظوظ ہوتے ہوئے بتایا “وہ اسلیے کہ رات ہی سب کزنز آل ریڈی پلین کرچکے تھے نوردرن ایریاز کے لیے نکلنے پراور مان بھائ کے لاکھ انکار پر بھی وہ انہیں اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے گئے”
اک اداسی سی اسکے چہرے پر طاری ہو گئ۔
کلاسز چونکہ نہیں ہوئ سو وہ تینوں پارٹی کے انتظامات میں دانیال کی ہیلپ کو چلی گئیں واپس آکر تھکاوٹ اتنی طاری تھی کہ وہ جب لیٹی تو نیند کب اس تاری ہوئ اسے معلوم تک نہ ہوا۔اگلا دن بھی بےشمار مصروفیات کے لیے وقف تھا۔یونی سے واپسی پر ان تینوں نے رات شاپنگ کا پلین بنایا۔ گزرے دو دنوں میں عرشمان نے اسے ایک بار بھی کال نہ کی تھی نہ ہی جاتے ہوئے اسے بتایا۔اسے عرشمان کی یہ حرکت کافی بری لگی تھی۔
رات شاپنگ کے لیے وہ تینوں فورٹرس کل گئیں بلو جینز پر سرخ آدھی آستینوں والا گھٹنوں سے اوپر ٹاپ پہنے سنہرری بالوں کو ایک سائیڈ سے آگے کی طرف سیٹ کیے وہ ان دونوں کے ساتھ آگے کو بڑھ رہی تھی۔اسکی ڈریسنگ اکثر ایسی ہی ہوتی یونی کے پہلے دن سے اب تک اسمے کبھی فرق نہ آیا تھا۔ کبھی کبھار سمن اسے ٹوک بھی دیتی مگر اسے پرواہ کہاں تھی۔اب بھی اسے جو گاون اپنے لیے پسند آیا تھا وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا سکائے بلو کلر کا ریشمی گاون جسکی شیفون کی آستینییں تھی ساتھ اسنے سفید ٹائٹس اور میچنگ جیولری لی تھی ۔ سمن کو اعتراض تھا مگر وہ جانتی تھی اس پر کوئ اثر نہ ہوگا۔
تینوں کی شاپنگ مکمل ہوتے کافی وقت بیت چکا تھا۔وہ پارکنگ تک آ ہی رہیں تھیں کہ کسی نے انکا راستہ روکا”ابھی کہاں چلی اپنے یونی فیلوز سے تو ملتی جائیں”۔وہ اور کوئ نہیں بلکہ عدنان اور اس کے گروپ فیلوز تھے جس کے لہجے سے ہی خباثت جھلک رہی تھی۔”سنئیے مسٹر راستہ چھوڑیے ہمارا یہ پبلک ایریا ہے اپنی لمٹس میں رہیں”اسنے شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے انہیں وارن کیا۔عدنان بائیک سے اتر کر چلتا ہوا اسکی طرف آیا۔”ہائے یہ انداز قاتلانہ آپ حکم کریں تو کسی پرائیویٹ ایرایا میں بھی بات ہوسکتی ہے”وہ کہتے ہوا مزید قریب آیا اور اسکے ہاتھ کو چھونے ہی لگا تھا کہ اسے اپنے چہرے پر انگلیوں کے نشان ثبت ہوتے محسوس ہوئے۔ حور چلتے ہوئے اسکے پاس سے گزری”آئندہ ایسی کوئ حرکت کرنے کا سوچا بھی تو منھ کی جگہ ہاتھ پہلے توڑوں گی۔
وہ دونوں بھی اسکے ساتھ چلتی ہوئیں کار میں بیٹھی اس میں اتنی ہمت باقی نہ رہی تھی کہ وہ کار ڈرائیو کر سکے اسنے کیز سمن کو تھمائ اور خود پیچھے بیٹھ گئ عائشہ بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئ۔”تم ٹھیک ہو؟”عائشہ نے فکرمندی سے پوچھا”ہمم۔۔” اسنے صرف اتنا ہی کہا”یہ اس طرح کے ہتھکنڈوں پر اتر آئے گا ہارنے کے بعد آئے ڈونٹ بلیو” سمن نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا”بٹ آئے رئیلی ڈو طاقت کا حصول انسان کو اندھا کر دیتا ہے” اسنے بند آنکھوں پر کہنی رکھتے ہوئے کہا”میں عرشمان بھائ سے بات کروں گی اس بارے میں یونہی سرے راہ تو کوئ کسی کو ہراس نہیں کر سکتا نہ”عائشہ نے کہا”نہیں تم اس سے بلکل کچھ نہیں کہو گی اسے پتہ بھی نہیں چلنا چاہیے میں بتا رہی ہوں عائشہ”
“اوکے کالم ڈاون نہیں کہتی کچھ ان سے “اسنے تسلی دیتے ہوئے کہا۔سمن نے اسے ڈراپ کرکے عائشہ کو ڈروپ کیا اور ڈرائیور سے کہہ کر کار واپس بھجوا دی۔
کب تک زندگی یونہی مجھے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنائے رکھے گی۔اتنی ارزاں تو نہیں ہوں میں کہ کوئ بھی مجھے توڑ کر چلا جائے اسکی سوچوں میں مخل ہونے والا موبائل فون تھا جو کب سے بج رہا تھا۔عائشہ کی کال تھی وہ اب تک اسلے لیے پریشان ہورہی ہوگی مگر اسے کسی کے دلاسے کی ضرورت نہ تھی۔اسنے کال مسترد کردی۔ کچھ دیر بعد رنگ ٹون پھر بجنے لگی عائشہ اسے مسلسل کال کر رہی تھی ۔اسنے سیل سائلنٹ پر لگا دیا۔
دس منٹ بعد پھر کال آنے لگی آخر تنگ آکر اسنے کال پک کر ہی لی”عائشہ مسئلہ کیا ہے تمہارا۔ میں کچھ دیر تنہائ چاہتی ہوں۔مجھے میرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتی تم۔جسٹ لیو می آلون”۔آنسووں سے بھیگی آواز میں اسنے اپنی بات مکمل کی اور کال کاٹ دی۔دوسری جانب سے بھی کوئ احتجاج کوئ استفسار نہ کیا گیا۔۔۔ان تمام خیالوں میں وہ کھوئ وہ کب نیند کی آغوش میں گئ اسے معلوم نہ ہوا۔
**********************