انیکسی کی فضا نے اپنے ابرو نچا کر، شانے اچکا کر، لالہ رُخ کے انکشاف پر ردعمل دیا تھا۔ جہاں انیکسی کا یہ حال تھا وہاں بھلا اسکے مکین کا اس سے بدتر حال کیوں نہ ہوتا۔ وہ چند پل تو اپنی جگہ ہی مجسمہ بنا رہا اور پھر جونہی اسکی نگاہوں کی ساکت پتلیوں میں حیرت کی جنبش نے تلاطم برپا کیا۔۔ وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھ آیا۔
“مَازغَا خو سَم دے کَنا اِستا۔۔؟”
(دماغ تو ٹھیک ہے ناں تمہارا۔۔؟)
اسکی دھاڑ پر بھی وہ نہیں سہمی تھی۔ بلکہ اپنی جگہ سے کچھ اور آگے بڑھ آئ تھی۔
“یہ دیکھیں۔۔ دیکھیں۔۔ آپ نے میری بات کی نفی کرنے کے بجاۓ۔۔ مجھ پر اپنا غصہ اتاردیا۔۔ مطلب۔۔ آپ نے میرے شک پر مہر ثبت کردی۔۔!”
نظر اتاری جانی چاہیۓ تھے لالہ رُخ کی اس وقت۔ اسفند کی نگاہیں اب کہ سرد ہوگئ تھیں۔ رُخ نے ایک لمحے کے لیۓ اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس کی تھی۔ وہ اسفند تھا۔۔ وہ ارسل نہیں تھا کہ وہ اسے دیوار سے لگا کر اپنی بات منوالیتی۔
“ہمارے گھرانوں میں یہ بات جانتی ہو کس انداز میں سمجھی جاتی ہے۔۔؟”
اور وہ بلاشبہ جواب مانگنے کے لیۓ سوال نہیں کررہا تھا۔ اس نے اگلے ہی پل اپنی مغرور سے ٹھوڑی کچھ اوپر کو اٹھائ تھی۔۔ پھر اسفند کی آنکھوں میں بے خوفی سے جھانکی۔
“آج کی بات تو مورخ کو ضرور قلمبند کرنی چاہیۓ لالہ۔ اسے ان مبارک ساعتوں کو سنہری صفحات کی نذر کرکے ، آپکی تاریخی شخصیت کو صدیوں تک کے لیۓ محفوظ کرلینا چاہیۓ۔۔ اسفند یار خان۔۔ یہ اسفند۔۔ جو روایات سے ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔۔یہ وہ ہی اسفندیار ہے جس نے تن تنہا بے رحم اور ظالم لوگوں کے حلق میں ہاتھ ڈال کر، اپنے قتل ہوۓ دوست کا قصاص لیا تھا۔۔ وہی اسفندیار۔۔ جو گولیوں کی بوچھاڑ کے درمیان بھی اپنے علاقے میں پلتی پسماندہ اور غریب بچیوں کی پڑھائ کا ذمہ لیتے ہوۓ ذرا نہیں گھبرایا تھا۔۔ وہی اسفندیار۔۔ جس نے کئ کمزور لوگوں کو اٹھا کر چلنا سکھایا تھا۔۔ وہی اسفندیار۔۔ جو اچھے لوگوں کے لیۓ ریشم اور ظالموں کے لیۓ ان سے کہیں زیادہ بے رحم اور کاٹ دار ہے۔۔ ہاں۔۔ یہ وہی اسفندیار ہے۔۔ جو اپنی محبت سے پیچھے ہٹ گیا۔۔ جو پیچھے ہٹ رہا ہے۔۔ کسی بزدل کی طرح۔۔!”
اسکی آواز بلند نہیں تھی لیکن ان جملوں کی حدت سے انیکسی کے در و دیوار سنسنا سے اٹھے تھے۔ تاریخی کتب گواہ ہیں کہ کبھی کسی پٹھان کو بزدلی اور غیرت کا طعنہ دے کر بات شروع نہ کرنا۔ یہ اسے بھرے مجمعے میں برہنہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔۔ اسفند کا چہرہ بھی اگلے ہی لمحے تمتما اٹھا تھا۔ یوں گویا۔۔ ساعتوں ہی میں ابل گیا ہو۔۔
“لالہ رُخ۔۔ تم جاسکتی ہو۔۔”
“مجھے پتہ ہے آپ ڈر نہیں رہے۔۔ میں آپکو جانتی ہوں لالہ۔ آپ کسی سے نہیں ڈرتے۔۔ پھر کیا بات روکے ہوۓ ہے آپکو۔۔؟”
اس نے بڑی آسانی کے ساتھ اسکے غصے کو مزید ہوا دیی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ وہ غصے میں کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیا کرتا۔
“کیا محبت نہیں کرتے آپ رامین سے۔۔؟”
“کرتا ہوں۔۔”
ٹھک سے آۓ جواب پر وہ لمحے بھر کو گڑبڑا سی گئ تھی۔
“پھر بھی اسے کسی ایسے کے ہاتھ میں سونپ رہے ہیں جو اسکی قدردانی کبھی نہیں کرسکے گا۔۔ کیا اتنا ظالم بننا ضروری ہے لالہ۔۔؟”
“اچھا۔۔ پھر تمہیں لگتا ہے کہ مجھے سب کے سامنے جا کر یہ اعلان کردینا چاہیۓ کہ میں رامین سے۔۔”
اسکی تیزی سے چلتی زبان یکدم ہی خاموش ہوئ تھی۔ پھر وہ گہرا سانس لے کر بولا۔
چھوڑو اس بات کو لالے اور جاؤ۔۔ مجھے اس مسئلے سے خود نپٹنے دو۔۔”
وہ اگلے ہی پل بیزار سا ہو کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو وہ اسکے پیچھے بھاگتی آئ۔
“آپکو کسی بھی طرح اسکی شادی رکوانی ہے لالہ۔ وہ لوگ رامین کے لائق نہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کتنی معصوم اور حساس ہے۔ کوئ ایک سے زائد بات کرلے تو وہ سہہ نہیں پاتی کجا یہ کہ وہ اپنے سسرالیوں کے اس قدر ظالم رویوں کو برداشت کرپاۓ۔۔ وہ مرجاۓ گی لالہ۔۔”
اسکے ہاتھ لمحے بھر کو تھم سے گۓ تھے۔ یوں لگتا تھا گویا کسی نے سانس تک روک دیا ہو۔
“کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارے یہاں عورتوں کو قتل کردینا کس قدر عام سی بات ہے۔ آپ اسے ایسے کسی کے حوالے نہیں کرسکتے لالہ۔”
“تم میری بات نہیں سمجھ رہی ہو لالہ رُخ۔ میں ماموں کے سامنے ایسی کوئ بات نہیں رکھ سکتا کہ جس کے بعد میں انکے سامنے نظر اٹھانے کے بھی قابل نہ رہوں۔ وہ انکی بیٹی ہے۔۔ وہ جو چاہیں فیصلہ کرسکتے ہیں۔۔ میرا کوئ بھی انکشاف اس لڑکی کو توڑ دیگا۔۔ لالہ کہتی ہے وہ مجھے۔۔ جانتی بھی ہو اس بات کا مطلب تم۔۔! اسفند مر تو سکتا ہے لیکن کبھی کوئ بے غیرتی کا قدم نہیں اٹھاسکتا۔۔”
اسکی بات سن کر تو لالہ رُخ جو آگ ہی لگ گئ تھی۔ وہ گھوم کر اسکے سامنے آئ تھی۔ پھر ہاتھ سینے پر باندھے۔۔ اسے گلابی آنکھوں سے گھورا۔۔
“آپکو اپنی غیرت کی پڑی ہے۔۔!”
اسکی بات بلاشبہ بہت کڑوی تھی۔۔ کڑوی اور تمانچے کی سی۔۔ منہ پر لگنے والی۔
“مجھے اس لڑکی کی عزت کی پڑی ہے لالہ رُخ! اور اب تم میرے سامنے نہ آنا۔۔ کیونکہ اسی میں خیر ہوگی تمہاری۔۔”
“اگر اسے کچھ ہوا تو کبھی کیا آپ خود کو معاف کرپائیں گے لالہ۔۔؟”
وہ اسکے پیچھے سے چلائ تھی۔ لیکن وہ پلٹا اور اگلے ہی پل کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند کرتا آگے بڑھ گیا۔ اس نے آنکھیں زور سے میچی تھیں۔ پھر پریشانی سے پیشانی مسلی۔ اسکا دل یکدم ہی بہت بری طرح گھبرارہا تھا۔۔ پتہ نہیں کیا ہونے والا تھا۔۔
***
وہ آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ نگاہوں کے سامنے کھولے، کھٹاکھٹ کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔ یکایک اسکے آفس کا دروازہ کھلا اور زرتاج اندر داخل ہوئ۔ کوئ بہت تیز پرفیوم کی مہک اسے اپنے نتھنوں سے ٹکراتی محسوس ہوئ تھی۔ پھر اس نے اگلے ہی پل حیران ہو کر چہرہ اٹھایا۔ اور اپنی جگہ ہی ساکت رہ گیا۔ وہ اب بہت اعتماد سے اسکے مقابل رکھی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔
“آپ۔۔ یہاں کیا کررہی ہیں۔۔؟”
اس نے سنجیدگی سے بس یہی پوچھا۔ زرتاج نے بے نیازی سے ہاتھ جھلایا تھا۔ پھر تازہ اسٹریٹ کیۓ بال پیچھے کو جھٹکے۔ سرخ لباس میں ملبوس ، گہرا میک کیۓ وہ ارسل کو خواہ مخواہ ہی بری لگی تھی۔
“میں آپ سے ملنے آئ ہوں۔۔”
“میں مصروف ہوں ابھی۔۔”
اس نے نگاہیں ایک بار پھر سے لیپ ٹاپ کی جگمگاتی اسکرین پر جمادی تھیں۔ یہ ایک طرح کا عندیہ تھا کہ میں ابھی بات کرنے کے موڈ میں ہرگز بھی نہیں ہوں۔
“کیا آپ اپنے مہمانوں کے ساتھ اسی قدر کرختگی سے پیش آتے ہیں یا پھر میں پہلی ہوں۔۔؟”
“آپ پہلی ہیں۔۔”
کیا کبھی تم نے ارسل کو سنجیدہ ہوتے دیکھا ہے۔۔؟ وہ سنجیدہ ہو کر میمنہ ہرگز بھی نہیں لگتا تھا۔
“لگتا ہے آپکی بیگم کی زبان کا اثر آتا جارہا ہے آپکی ٹھنڈی میٹھی سی شخصیت پر۔۔”
لیپ ٹاپ پر مہارت سے چلتی اسکی انگلیاں اگلے ہی پل ٹھہر گئ تھیں۔ پھر اس نے سنجیدگی کے رنگ میں ڈھلیں بھوری آنکھیں اٹھا کر سامنے بیٹھی زرتاج کو تکا۔
“زرتاج۔۔ مجھے آپکی کسی بھی فضول بات میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں پہلے بھی۔۔ اور اب بھی آپکو وارن کررہا ہوں کہ آپ۔۔ اپنے رویے سے باز آجائیں۔ ہمارے گھرانوں میں اس طرح کا رویہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ آئندہ مجھے ایسی بات کرنے کی دوبارہ ضرورت نہ پڑے۔۔”
اسکی آنکھوں میں لہراتی واضح وارننگ پر وہ لمحے بھر کو گڑبڑا سی گئ تھی۔ پھر معصوم سا چہرہ بنا کر آگے ہو کر بیٹھی۔
“میں نے کبھی کوئ ایسا ویسا مطالبہ نہیں کیا آپ سے۔ میں تو محض آپکی دوست بننا چاہتی ہوں۔ میں آپکے ساتھ ایک کپ کافی پینا چاہتی ہوں۔۔ آپکے ساتھ کھانا کھانا چاہتی ہوں۔۔”
اسکی عجیب و غریب سی بات پر اب کہ اسے شدید کوفت نے گھیرا تھا۔ عجیب لڑکی تھی۔۔ عزت نفس نام کی کوئ چیز ہی نہیں تھی اس میں۔۔
“میں ایک شادی شدہ مرد ہوں زرتاج۔ اسکا مطلب جانتی ہیں آپ۔۔؟”
“جانتی ہوں میں۔۔ اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپکو اپنی بیوی میں کوئ دلچسپی نہیں ہے۔”
اسکی اگلی بات اتنے لاپرواہی سے کہنے پر وہ جہاں کا تہاں رہ گیا تھا۔ پھر لب بھینچ کر سرد نگاہوں سے زرتاج کو دیکھا۔
“میری ذاتی زندگی کے دائرہ کار میں داخل ہونے کی اجازت میں نے کسی کو بھی نہیں دی ہے۔ اور آپ۔۔ آپ بھی جتنا ممکن ہوں دور رہیں مجھ سے اور میری بیوی سے بھی۔۔”
“مجھے پتہ ہے کہ وہ نہیں پسند آپکو۔۔! ایسی منہ پھٹ لڑکی کسی کو بھی پسند نہیں آسکتی۔۔”
“رئیلی۔۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ غلط بات کسی کی بھی برداشت نہیں کرتی۔ زبان بھی بہت کڑوی ہے اسکی۔۔ لیکن کیا آپ جانتی ہیں زرتاج کہ وہ اپنی کتنی عزت کرتی ہے۔ نہ صرف خود کی عزت کرتی ہے بلکہ اوروں سے کروانا بھی جانتی ہے۔ آپ اسکے سامنے منہ کھول کر کچھ بھی نہیں بول سکتے۔ وہ پاورفل ہے۔۔ اس کی شخصیت کو کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔ اور مجھے وہ اس سب کے ساتھ ہی پسند ہے۔ اب آپ بہت عزت کے ساتھ یہاں سے جاسکتی ہیں۔۔ کیونکہ میرے پاس برباد کرنے کے لیۓ وقت ہرگز بھی نہیں۔۔”
اسکی اتنی کاٹ دار باتوں پر وہ چند پل تو اسے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے تکتی رہی اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئ۔ اسکے جاتے ہی اس نے بے دلی سے لیپ ٹاپ کو پرے ہٹایا تھا۔ پھر پیشانی مسلتا پیچھے ہو بیٹھا۔۔ یہ سب باتیں کرنے کے بعد اسکے اپنے دل کی حالت بھی عجیب ہورہی تھی۔
وہ آمنہ کو پسند کرتا تھا۔۔ وہ آمنہ ہی کے ساتھ اپنی زندگی کے خواب سجاتا آیا تھا۔۔ لیکن کچھ تھا۔۔ کچھ تھا جو اسکے دل پر بہت خاموشی سے دستک دینے لگا تھا۔۔ اور وہ جو بھی تھا۔۔ یقیناً اسے بے حد شدت سے اس سمے اپنے دل کے گرد محسوس ہوا تھا۔
***
رامین کے سسرالیوں نے اسکے پچھلے رویے کا غصہ رامین پر آکر اتارا تھا۔ اور بھرے پنڈال میں اسکی سانولی رنگت اور معمولی سے نقوش پر ایسی ایسی باتیں کی تھیں کہ حساس سی رامین کا تو دل ہی زخمی ہوچلا تھا۔ ایک تو ماں کی جدائ۔۔ دوسرا ارمغان کو خود کے لیۓ دن رات گھلتے دیکھ کر وہ لمحہ بہ لمحہ اندر سے مررہی تھی۔ باپ کی پریشانی اور جھکی گردن نے اسے بھی کہیں بہت جھکا دیا تھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار اپنے سانولے رنگ اور قابلِ قبول سی شکل پر غصہ آیا تھا۔ دل۔۔ دل تو کوئ نہیں دیکھتا تھا اس دنیا میں۔۔ یہاں سب۔۔ شکل دیکھتے تھے۔۔ نگاہوں کو خیرہ کردینے والی خوبصورتی کے پیچھے پاگل تھی یہ دنیا۔۔ یہ خوبصورت اور حسین لوگوں کی دنیا تھی۔۔ اس دنیا میں اسکی کوئ جگہ نہیں تھی۔ اسکے نرم اور معصوم دل کی اس گندی اور خود غرض دنیا میں کوئ جگہ نہیں تھی۔
لالہ رُخ کے گلے لگ کر وہ بہت روئ تھی۔ اتنا کہ اسکی آواز تک بیٹھ چکی تھی۔ پہلے ہی اسکا کہیں رشتہ نہیں ہورہا تھا اور جو طے ہوا تھا۔۔ وہ بھی ٹوٹ جانے کے قریب تھا۔ اسکا دل ہر آن ڈرنے لگا تھا۔۔ اگر یہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا تو وہ بابا کے سامنے کیسے جا پاۓ گی۔۔؟ وہ انکا سامنہ کیسے کرپاۓ گی۔۔؟
“کیا حالت کرلی ہے تم نے اپنی رامین۔۔ یہ کیا کرلیا ہے تم نے خود کے ساتھ۔۔؟”
وہ اس سے الگ ہوئ تو رُخ اسکی اجڑی حالت کو دیکھ کر کہے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے لرزتی انگلیوں سے آنکھیں رگڑی تھیں۔
“میں اس بار بابا کو نہیں کھونا چاہتی رُخ۔ میں بہت ڈر گئ ہوں۔۔ مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے۔۔ یوں لگتا ہے گویا سب مجھ پر ہنس رہے ہوں۔۔ سب میرے اس چہرے کا مزاق اڑارہے ہوں۔۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی سر اٹھا کر نہیں چل سکونگی۔ میں ٹوٹ رہی ہوں رُخ۔۔”
اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ لالہ رُخ کی آنکھیں بھی بھیگنے لگی تھیں۔
“میں تھک گئ ہوں لوگوں کے سامنے جا جا کر۔ ہر رشتے والی کا انکار سن کر کان پک گۓ ہیں میرے۔ بابا کی مایوسی اور دن رات کا عذاب جیسے مجھے کھا رہا ہے۔ وہ میری وجہ سے ٹھیک سے کھاتے نہیں ہیں۔ انکی راتوں کی نیندیں تک اڑ گئ ہیں رُخ۔۔ اور جانتی ہو۔۔ سب سے زیادہ اذیت مجھے کب ہوتی ہے۔۔ تب۔۔ تب جب بابا اکیلے میں چھپ چھپ کر ماں کو یاد کرتے ہوۓ روتے ہیں۔ وہ میری وجہ سے اس بڑھاپے میں بھی چین سے نہیں جی سکتے رُخ۔۔ میں کہاں جاؤں۔۔ میں کیا کروں۔۔”
وہ ایک بار پھر سے رونے لگی تھی۔ اسے تسلی دینا بیکار تھا۔۔ اس سے بات کرنا بیکار تھا۔۔ وہ دکھی تھی۔۔ دنیا نے اسکا دل بہت دکھایا تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اسکا موازنہ گل اور رُخ کی خوبصورتی کے ساتھ کیا جاتا رہا تھا۔ اسے ان دونوں کے سامنے یہ احساس دلایا گیا تھا کہ تم ان سے کم تر ہو۔۔ تم انکے برابر کبھی نہیں آسکتیں۔۔ یہ تو اسکا دل اچھا تھا کہ وہ کبھی ان دونوں سے نفرت نہیں کرپائ تھی۔ نہیں تو وہ ہر روز کس طرح مر کر جیتی آئ تھی یہ تو اسکا دل جانتا تھا یا پھر اللہ۔۔!
رُخ نے ایک بار پھر سے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا۔ اس سے مزید اسکی تکلیف نہیں دیکھی جارہی تھی۔ وہ اسے زبردستی کچھ کھلا کر دوائ دیتی کمرے سے باہر نکلی تو اپنی جگہ ہی ٹھہر گئ۔ دروازے سے کچھ فاصلے پر اسفند کھڑا تھا اور یقیناً وہ ان دونوں کی باتیں سن چکا تھا۔ رُخ نے کڑوے تاثرات کے ساتھ اسکا چہرہ دیکھا اور پھر اسکے ساتھ سے نکل گئ۔ وہ اپنی جگہ ہی کھڑا رہ گیا۔۔ پھر ایک نگاہ اٹھا کر اسکے کمرے کے بند دروازے پر ڈالی۔۔ جانے کیوں ایک ساتھ بہت سی گرہیں اسکے حلق میں پھندا ڈالنے لگی تھیں۔
***
رامش اور جنید کے ساتھ بہت وقت تک باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئ تھی۔ پھر سرد پڑتی بالکنی میں آکھڑی ہوئ۔ اسکا دل آج بہت اداس ہورہا تھا۔ رامین کی تکلیف نے اسے بھی تکلیف میں مبتلا کردیا تھا۔ دن ڈھلا اور رات سر پر آکھڑی ہوئ۔ گھر کی زرد بتیاں روشن کردی گئیں۔ کچن سے اشتہا انگیز کھانوں کی مہک اٹھ اٹھ کر سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ اسی اثناء میں ارسل بھی چلا آیا تھا۔ رُخ کا فی الحال یہاں رکنے کا کوئ ارادہ نہیں تھا۔ رامین کی شادی پر وہ یقیناً رکنے ہی والی تھی اسی لیۓ ابھی وہ رکنا نہیں چاہتی تھی۔
ارسل، فرقان اور افغان کے ساتھ لاؤنج ہی میں بیٹھا آفس سے متعلق باتیں کررہا تھا۔ رات کا کھانا آج افغان کے یہاں تھا۔ وہ کچن میں گل اور فاطمہ کے ساتھ مل کر کھانا لگارہی تھی۔ ساتھ ساتھ ایک نگاہ کچن کے دروازے پر بھی ڈال لیتی لیکن رامین نہیں آئ۔
“اماں رامین۔۔”
“بیٹے اسے آرام کرنے دو۔ پہلے ہی طبیعت ٹھیک نہیں اسکی۔ اچھا ہے زیادہ سے زیادہ آرام کرے وہ۔”
“لیکن پھر آپ یاد سے کھانا کھلا دیجیۓ گا اسے۔۔”
اس نے تاکید سے کہا تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلایا۔ اسی وقت ساتھ والے پورشن سے ارمغان بھی چلے آۓ تو یکدم ہی لاؤنج میں مسکراہٹیں بکھر گئیں۔ وہ اب ارسل سے رُخ کے متعلق کوئ بات بہت مسکرا کر کررہے تھے۔ یقیناً یہی کہ وہ میری بیٹی ہے اور تم نے اسکا بہت خیال رکھنا ہے۔ ارسل دوسری جانب گلابی سا چہرہ لیۓ ہنس کر انہیں یقین دہانی کروا رہا تھا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ اس نے مسکرا کر کچن سے جھانکا اور پھر سب کو کھانے کے لیۓ بلانے چلی گئ۔
کھانے کی ٹیبل پر ماحول انتہائ خوشگوار ہورہا تھا۔ سواۓ رامین اور اسفند کے وہاں سب موجود تھے۔
“یہ اسفند کہاں ہے۔۔؟”
سب سے پہلے ارمغان ہی کو خیال آیا تھا۔
“بھائ صاحب وہ کہہ کر گیا تھا کہ دیر سے آئیگا۔”
افغان نے کہا تو وہ سر ہلا کر کھانے کی جانب متوجہ ہوۓ۔ کھانا انتہائ اچھے ماحول میں کھایا گیا۔ پھر چاۓ کا دور چلا۔ اور سب ایک بار پھر لاؤنج میں سمٹ آۓ تھے۔
“ارسل کسی بھی طرح کی مدد درکار ہو آفس ورک یا پھر کہیں بھی۔۔ بلا جھجھک مجھ سے بات کرنا ٹھیک ہے۔۔؟”
فرقان لالہ نے بالکل بڑے بھائیوں کی طرح اسے گلے لگا کر کہا تھا۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔ اس کے پاس کوئ بڑا بھائ نہیں تھا۔۔ اسے انکا ایسا انداز بہت بھلا لگا تھا۔ پھر انہوں نے رُخ کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بس ابھی نکلنے ہی لگے تھے۔ رُخ فرقان کے پاس چلی آئ تو انہوں نے آگے بڑھ کر اسے خود سے لگایا۔ پھر مسکراہٹ دبا کر ارسل کی جانب دیکھا۔
“ویسے تو یہ بات کہنے کی کوئ ضرورت نہیں لیکن چلو پھر بھی کہہ دیتا ہوں۔۔ خیال رکھنا اسکا۔۔ جان ہے اس میں ہماری۔۔ ٹیڑھے لوگوں کو یہ آرام سے خود ہی دیکھ لیتی ہے بس تم کبھی اسکے ساتھ ٹیڑھے مت ہونا۔ نہیں تو پھر بعد کی گارنٹی نہیں میرے پاس۔۔”
سب یک دم ہی ہنس پڑے تھے۔ وہ خفگی سے “لالہ” بولی تھی۔
“کیا لالہ۔۔ اس بیچارے کو یہ تو بتادوں کہ کیا مخلوق ہو تم۔۔”
انہوں نے مسکرا کر اسے مزید چھیڑا تھا۔ وہ خفا ہو کر دور جانے ہی لگی تھی کہ انہوں نے ہنس کر اسے قریب کرلیا۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرا۔
“بہت خیال رکھنا اسکا سمجھے۔۔ اور کھلی چھٹی دے رہا ہوں تمہیں۔۔ اسکی الٹی سیدھی حرکتوں پر ڈانٹ بھی دینا اسے۔ اس جیسی ضدی لڑکی کو ڈانٹ کی ضرورت اکثر پڑتی رہتی ہے۔۔ اور ہاں۔۔ اگر یہ تمہاری ڈانٹ کا اثر نہ لے تو مجھے ایک فون کردینا بس۔۔ لالہ پھر لالے کو خود ہی دیکھ لے گا۔”
اسفند اور فرقان۔۔ دونوں پیار سے اسے “لالے” بلاتے تھے۔ وہ مسکراتی ہوئ ان سے الگ ہوگئ تھی۔ پھر دروازے تک وہ سب ان دونوں کے ساتھ بڑھ آۓ۔ وہ جب گاڑی نکال لے گۓ تو وہ سب بھی دروازے سے ہٹ آۓ تھے۔ سارا گھر یکدم ہی اداسی کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ افغان نے بے ساختہ ہی آنکھوں میں ابھرتی نمی رگڑی تو فرقان نے انہیں اپنے ساتھ لگایا۔
“سچ بتارہا ہوں ماموں۔۔ مجھے بھی نہیں پتہ تھا کہ میں اس پاگل کو اتنا یاد کرونگا۔۔ پتہ نہیں یہ بہن بیٹیاں دوسرے گھر جا کر وہیں کی کیوں ہو رہتی ہیں۔۔ کاش کہ میں انہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ سکتا۔۔”
انکی بات پر سب کی ہی آنکھیں بے ساختہ نم سی ہوگئ تھیں۔۔
***
وہ جاۓ نماز پر بیٹھی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کررہی تھی۔ گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔ اگلے ہی پل دروازے پر دی جانے والی دستک سے وہ بری طرح چونکی تھی۔ پھر دروازہ کھول کر دیکھنے پر اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل سی گئیں۔ وہ صبح والے سیاہ قمیص شلوار میں ملبوس اسکے سامنے کھڑا تھا۔
“لالہ۔۔ کیا ہوا۔۔؟ خیریت تو ہے ناں۔۔ بابا کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔۔ ؟”
“سب کی طبیعت ٹھیک ہے۔ تم نے کھانا کھایا۔۔؟”
“نہیں۔۔”
اسکا سر خود بخود نفی میں ہل گیا تھا۔ پھر اس نے نگاہیں اٹھا کر اسفند کو دیکھا۔
“میں نے بھی نہیں کھایا۔ کھانا لگادوگی پلیز تم میرے لیۓ۔۔”
اور اس نے اثبات میں سر ہلایا، چہرے کے گرد بندھا دوپٹہ کھولا اور کمرے سے باہر چلی آئ۔ اسکا اسفند کے ساتھ تعلق کبھی بھی بے تکلف نہیں رہا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس سے ایک فاصلے پر رہی تھی۔ وہ خاموشی سے کچن کے ٹیبل پر بیٹھا اسکی پشت کو تک رہا تھا۔
کاؤنٹر پر رکھے برتنوں کو وہ ایک جانب رکھ رہی تھی جب ایک تیز دھار چھری، لاپرواہی سے پکڑنے پر اسکی ہتھیلی کو گہرا سا زخم دے گئ تھی۔ اس نے بلبلا کر برتن ایک جانب رکھے تھے۔۔ ٹپ ٹپ خون کی بوندیں یخ ٹائلز پر گرنے لگیں۔ وہ تیزی سے اٹھ کر اسکے پاس آیا تھا۔ پھر جلدی سے اسکا زخمی ہاتھ دبا کر نلکے کی بہتی دھار کے نیچے رکھا۔
“کیا کررہی ہو تم۔۔؟ دماغ کہاں ہے تمہارا ہاں۔۔! ہمیشہ کیا لاپرواہیاں کرنا ضروری ہے۔۔!”
اسکی ڈانٹ پر وہ آنکھیں اٹھاۓ حیرت سے اسے تکنے لگی تھی۔ اس نے پہلے کبھی اسے اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔
“اب بول کیوں نہیں رہی ہو کچھ۔۔”
اور اس نے اپنا چہرہ اسکی جانب پھیرا لیکن پھر وہ اپنی نگاہوں کو اسکے ارتکاز کے ساتھ الجھنے سے بچا نہیں سکا۔ یخ پانی کی بہتی دھار تلے اسکا زخم دباۓ۔۔ وہ اپنی جگہ ساکت ہوا تھا۔ وہ کسمسا کر یکدم ہی اس سے دور ہٹی تھی۔ کچن میں پھیلی خاموشی کے درمیان بہت کچھ ان کہا تحلیل ہورہا تھا۔
“م۔۔ میں ٹھیک ہوں لالہ۔۔ ا۔۔ اتنا گہرا نہیں زخم۔۔”
“ٹھہرو یہیں۔۔”
وہ جلدی سے پلٹ کر باہر نکلنے لگی تھی کہ اسکی آواز پر رک گئ۔
“یہاں بیٹھو میں فرسٹ ایڈ باکس لاتا ہوں۔ زخموں کو اگر وقت پر ٹریٹ نہ کیا جاۓ تو ان سے خون رسنا کبھی بھی بند نہیں ہوتا۔ تکلیف ساتھ رہتی ہے اور زخم کا نشان ہمیشہ زخم کی یاد دلاتا رہتا ہے۔۔ بیٹھو تم۔۔ میں آتا ہوں ابھی۔۔”
اور وہ ناسمجھی سے اپنی جگہ ہی جم کر بیٹھی رہ گئ تھی۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔ اسفند کا رعب اس قدر تھا کہ وہ اٹھ کر جا بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ باکس لایا اور پھر اس کے عین سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے بے اختیار ہی پیر سمیٹے تھے۔
“دھیان کہاں تھا تمہارا؟”
اب کہ اسکی آواز میں نرمی تھی۔ وہ خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔ دوپٹے کے اطراف سے نکلتی لٹیں ہوا سے اڑنے لگی تھیں۔ اسفند نے اسکی ہتھیلی کے گرد پٹی لپیٹتے ہوۓ۔۔ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
“کیوں رورہی تھیں تم۔۔؟”
اس نے اسکی گلابی روئ روئ سی آنکھوں کی جانب دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا تھا۔ رامین نے خشک لبوں پر زبان پھیری تھی۔ پھر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ سرمئ ارتکاز میں ہلکورے لیتی نرمی نے اسے لمحے بھر کے لیۓ خوفزدہ کیا تھا۔ وہ کیوں خوفزدہ ہورہی تھی۔۔ شاید خود بھی نہیں جانتی تھی۔
“ویسے ہی۔۔”
“ماموں کی وجہ سے پریشان ہو۔۔؟”
اس نے اسکا ہاتھ احتیاط سے اسکی گود میں رکھا اور پھر پنجوں کے بل بیٹھا یونہی اس سے پوچھنے لگا۔
“جی۔۔”
چند پل کے لیۓ کوئ کچھ نہ بولا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور رامین سر جھکاۓ اپنی پٹی بندھے ہاتھ کو۔ پھر اسکی بہت مدھم سی آواز ابھری۔۔ کچن کی سرد فضا میں گھلتی۔۔ بے حد نرم آواز۔۔
“شادی کروگی مجھ سے۔۔؟”
رامین نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔ اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو “دماغ تو نہیں چل گیا آپ کا۔۔!” وہ نہ تو اسکے انداز سے پریشان ہوا اور نہ ہی گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھا۔ وہ شاید فیصلہ کرکے آیا تھا۔
“دماغ درست ہے آپکا۔۔ کیا کہہ رہے ہیں یہ آپ۔۔؟”
رامین اتنی بے یقین تھی کہ آواز بھی بلند نہ کرسکی۔ انتہائ خاموشی سے گلابی آنکھوں کے ساتھ اس نے پوچھا تھا۔۔
“دماغ درست ہے۔۔ دل درست نہیں۔۔”
“مجھ پر ترس کھارہے ہیں آپ۔۔!”
اسے ایک دم ہی بہت گہری سی تکلیف نے گھیر لیا تھا۔ اسفند نے اسکی آنکھوں میں جمع ہوتی اذیت کو دیکھا۔
“میری آنکھوں میں دیکھو اور بتاؤ۔۔ کیا لگتا ہے کہ میں ترس کھا رہا ہوں تم پر۔۔؟”
لیکن وہ ان آنکھوں میں نہیں دیکھ پارہی تھی۔ اتنی بولتی نگاہوں کا سامنہ وہ معصوم سی لڑکی بھلا کیسے کرسکتی تھی۔۔
“مجھے جانے دیں۔۔”
اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے ہٹا کر کھڑی ہوسکتی۔ اسی لیۓ بہت سے آنسو پلکوں پر ہی روک کر کہا تھا اس نے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اس نے تڑپ کر نگاہیں اٹھائ تھیں۔
“کیا کررہے ہیں یہ آپ۔؟ میرا رشتہ ہوچکا ہے۔ میری شادی ہونے والی ہے چند دنوں میں۔ جانتے بھی ہیں کہ آپکا کوئ بھی لاپرواہ قدم میری زندگی میں کس قدر تباہی لے آۓ گا۔۔! کیا تباہ کرنا چاہتے ہیں آپ مجھے۔۔؟ اور یہ اچانک آپکو ہو کیا گیا ہے۔۔ کیوں اس طرح کی باتیں کرکے آپ مجھے میری ہی نظروں میں گرارہے ہیں اسفند لالہ۔۔”
“محبت کرتا ہوں میں تم سے رامین۔”
اور وہ تو جہاں تھی وہیں رہ گئ۔ بھیگی آنکھیں بے یقینی سے پھیلا کر اسفند کو دیکھا اور پھر یکدم ہی اٹھ کھڑی ہوئ۔ اسکے قدموں میں جیسے کسی نے بجلی سی بھردی تھی۔ اسفند بھی اسکے ساتھ ہی اٹھا۔ وہ پلٹ کر باہر کی جانب بڑھ رہی تھی لیکن وہ گھوم کر اسکے سامنے آیا۔
“رامین میری بات سنو۔۔”
“مجھے آپکی کوئ بات نہیں سننی ہے اسفند۔۔ میرے راستے سے ہٹیں۔۔”
“میری بات سنو رامین۔۔! وہ جاوید قابل نہیں ہے تمہارے۔ میں تمہیں ایسے ہی کسی کے ہاتھ میں نہیں سونپ سکتا۔۔”
“مجھے آپکی کوئ پرواہ نہیں ہے۔ یہ میری زندگی ہے اور جاوید کو میں قبول کرچکی ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپکو ہو کیا گیا ہے لیکن پلیز۔۔ آئندہ مجھ سے ایسی کوئ بات مت کیجیۓ گا۔”
“ٹھیک ہے پھر ماموں سے خود ہی بات کرلونگا میں۔۔”
جب وہ نہ رکی تو اسفند نے آخری راہ اپنائ۔۔ اسکے بڑھتے قدم یکدم ہی زنجیر ہوۓ تھے۔ پھر وہ بے یقینی سے پلٹی تھی۔
“کیا کہیں گے آپ بابا سے۔۔؟”
اسفند نے گہرا سانس لیا تھا۔ پھر اسے دیکھا۔۔
“کہہ دونگا کہ مجھے رامین سے شادی کرنی ہے۔۔”
اگلے ہی پل وہ آگے بڑھ آئ تھی۔ پھر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔ اسفند کو پتہ تھا کہ وہ ایسا ہی کچھ ردعمل دے گی۔ اسی لیۓ بنا کسی جنبش کے کھڑا رہا۔
“تمہاری زندگی برباد ہونے سے بچانے کے لیۓ میں کچھ بھی کرسکتا ہوں رامین۔ کچھ بھی۔۔”
اس نے اتنا کہا اور پھر اگلے ہی لمحے کچن کا دروازہ عبور کرتا باہر کی جانب بڑھ آیا۔ پیچھے وہ کرسی کا سہارا لیتی بمشکل کھڑی رہی تھی۔ اسے لگا کوئ دھیرے دھیرے اسکے قدموں تلے زمین کھینچ رہا ہے۔ باہر کی سرد ہوا میں اسفند نے اپنا فون نگاہوں کے سامنے کیا اور پھر چند نمبر ڈائل کرکے فون کان سے لگایا۔
“سانول۔۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ لوگوں سے انکار کیسے اگلواتے ہیں۔۔؟”
اسکی بات سن کر دوسری جانب شاید سانول مسکرایا تھا۔ پھر آہستہ سے بولا۔۔
“مجھے بخوبی علم ہے اسفندیار۔”
اور اس نے اگلے ہی موبائل کان سے ہٹایا اور پھر آگے بڑھ آیا۔ اب اسکے چہرے پر صرف پہاڑوں کی سی سختی تھی۔۔ سرد رات کی سرگوشی میں دو نفوس کی زندگی کا فیصلہ آسمانِ دنیا پر کیا جانے لگا تھا۔۔ اور رشتے۔۔ جو کبھی زمینی فیصلوں پر طے نہیں پایا کرتے۔۔ رشتے۔۔ جن کا فیصلہ ہمیشہ اوپر سے اتارا جاتا تھا۔۔ رشتے۔۔ جو عرش سے فرش تک تنزلی کا سفر طے کر کے زمینی زندگی کو دوام بخشا کرتے تھے۔۔ وہ رشتے۔۔ خدا کے طے کردہ تھے۔۔ اور ان میں انسانی داخلہ ممنوع تھا۔۔!
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...