ماضی
رابیل ولاء میں آج عرش کی مہندی تھی۔۔ پورا گھر بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔ فنکشن کی ارینجمنٹ باہر لان میں ہی رکھی گئی تھی۔۔۔
“عرش میری جان پلیز چلو باہر ماما پریشان ہو رہی ہیں”۔۔ وہ کافی دیر سے دلہن بنی عرش کو باہر لے جانے کی کوشش کر رہی تھی جو مسلسل رو کر اپنا اور اسکا دونوں کا موڈ خراب کر رہی تھی۔۔
“تم چلی جاؤ نا رابی پلیز سب مجھے دیکھینگے وہاں مجھے رونا آئےگا “۔۔
اسنے سوں سوں کرتے رابیل سے کہا تھا۔۔
“شادی تمہاری ہے میں جا کے کیا کرونگی وہاں اور یہ تم نے خوب کہی سب دلہن کو نہیں دیکھینگے تو اور کس کو دیکھینگے عرش۔۔”
اسنے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کئے۔۔
“رابی پلیز مجھے شادی نہیں کرنی ” وہ پھر اپنی پرانی ضد پے آئ تھی۔۔
رابیل کا دل کیا اپنا سر دیوار پے مار لے۔۔
“عرش دو منٹ میں تم نہیں اٹھی نا تو میں باہر جا کر عنصر بھیا کو باہر بھیج دونگی” اسنے غصے میں کہتے ہوے اپنے قدم دروازے کی جانب بڑھائے۔۔
اسکی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی۔۔ وہ دوبارہ آنسوں بہاتی اسکے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔
“تم اچھی نہیں ہو۔۔ اور اور تم میری بہن بھی نہیں ہو”۔۔ عرش روندھے لہجے میں کہتی دونوں ہاتھوں سے اپنا لہنگا اٹھاتی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔
رابیل نے اسکی کلائی تھامتے ہوے روکا تھا۔۔
“مگر میری عرش تو بہت اچھی ہے”۔۔ اسنے اسکا رخ اپنی جانب موڑتے ہوئے کہا۔۔
“اگلے ہی لمحے وہ عرش کو اپنے ساتھ لگائے بری طرح رو رہی تھی”۔۔
عرش کے نکاح کے وقت وہ اتنا نہیں روئ تھی مگر آج اسے لگ رہا تھا کے آج ہی اسکی عرش کسی اور کے نام ہو گئی ہے۔۔
“اب مجھے اپنی بہن نہیں کہوگی “۔۔
اسنے عرش کے آنسوں صاف کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔
“تم میری جان ہو”۔۔۔
عرش مسلسل نفی میں گردن ہلاتی روتے ہوئے کہ رہی تھی۔۔
“رابی بیٹا جلدی آجاؤ عرش کو لے کر دیر ہو رہی ہے۔۔ کب سے آئ ہوئی ہو میرا بچہ”۔۔ فاطمہ بیگم کہتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھیں۔۔
“بس ماما آجائیں آپ بھی ۔۔ یہ جانے نہیں مانگ رہی تھی باہر”
رابیل نے جلدی سے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوے کہا۔۔
“ماشاءالله !! میری عرش تو پری لگ رہی ہے ” انہوں نے یلو اور پنک کنٹراس کا لہنگا ساتھ میں پھولوں کی جیولری پہنی عرش کو دیکھ کر کہا وہ واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
“عنصر ناشتہ کرو بیٹا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔ یہ تم کیا ہر وقت سوچتے رہتے ہو بیٹا۔۔” فاطمہ بیگم نے عنصر کو ایسے ہی بیٹھے دیکھ کر ٹوکا تھا۔۔
رابیل نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ کل کا منظر ایک جھماکے سے اسکے سامنے لہرایا۔۔ کیسے اسکی گود سے چھین کر لے گیا تھا وہ فرشتے کو۔۔
“بس ماما کھا لیا ہے میں نے آپ فکر نا کریں۔۔ اچھا مجھے دیر ہو رہی ہے میں نکلتا ہوں”۔۔
اسنے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے مسکراتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی گاڑی کی چابی اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔
کتنا کرب تھا اسکی مسکراہٹ میں وہ آگے سے کچھ نہیں سکیں تھیں۔۔
“تم کہاں چل دی رابی تم تو ماں کے ساتھ سکون سے ناشتہ کرو۔۔ یا تمہیں بھی دیر ہو رہی ہے”۔۔
انہوں رابیل کو اٹھتا دیکھ کر اسکے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
وہ خاموشی سے دوبارہ بیٹھ گئی تھی۔۔
“ماما رابی کو زیادہ کھلائیں ہمیشہ مجھے موٹی کہتی ہے۔۔”
ایک پرانا منظر اسکی آنکھوں کے آگے لہرایا تھا۔۔ نوالہ اسکی حلق میں پھنسنے لگا تھا۔۔
“ماما جانی بس پلیز”۔۔ وہ آنسوں پیتی وہاں سے اٹھی۔۔ اس سے زیادہ ضبط نہیں تھا اس میں۔۔
_______________________________
وہ ظہر کی نماز کے بعد فرشتے کو گود میں لئے نیچے آئ تو فاطمہ بیگم ہاتھوں میں تسبیح لئےلاؤنچ میں ہی صوفے پر بیٹھی نظر آئیں۔۔ وہ بھی شاید ابھی ہی نماز سے فارغ ہوئییں تھیں۔۔
وہ خاموشی سے انکے قریب آئ تھی۔۔ سر انکی گود میں رکھتی وہ نیچے ہی کارپیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔۔
“دعا نہیں کرتیں کیا آپ اپنی رابی کے لئے ماما۔۔ لگتا ہے دعائوں سے بلکل فارغ کر دیا ہے آپ نے مجھے”۔۔ اسنے اپنا چہرہ انکی گود میں چھپاتے ہوئے کہا۔۔
“میری جان ایسے کیوں کہ رہی ہو میری طرف دیکھو کوئی بات ہے مجھے بتاؤ میرا بچہ”۔۔ انہوں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر کہا۔۔
“اللہ سے دعا کریں کے وہ آپ کی رابی کو سکون دے دے ماما”۔۔ اسنے محبت سے انکے ہاتھ چومے تھے۔۔
“ساری دعائیں اپنے بچوں کے لئے تو کرتی ہوں میری جان۔۔ اور تم تو میری سب سے بہادر بچی ہو نا”۔۔ انہوں نے پیار سے اسکی پیشانی چومی۔۔
“دیکھو ذرا بالوں کا کیا حشر کر لیا ہے رابی گھونسلا بنا دیا سر کو بلکل”۔۔
انہوں نے اسکے بکھرے بالوں کو دیکھتے ہوئے ڈپٹا۔۔
“فرشتے سو گئی ہے اسے کاٹ میں لیٹا کر آؤ اور آتے وقت تیل لیتے ہوئے آنا حالت درست کروں میں تمہاری”۔۔ انہوں نے فرشتے کی جانب اشارہ کیا جو رابیل کی گود میں بےخبر سو رہی تھی۔۔
“جی ماما”۔۔ اس نے فرشتے کو پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
وہ نیند میں کسمسائ تھی جیسے یہ پیار اسے کچھ خاص پسند نا آیا ہو۔۔
“فرشتے کو میں اپنے کمرے میں ْسلا لوں رابیل تھوڑی دیر کے لئے “۔۔ وہ اپنے ہی دھن میں فرشتے کو لئے کمرے میں آئ تھی۔۔ عنصر کی آواز سن کر چونکی۔۔
“عنصر بھیا آپ جلدی آ گئے ” اسنے حیرت سے عنصر کو دیکھا۔۔ جو اجازت طلب نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
“جی لے لیں عنصر بھیا۔۔ اٹھ جائے تو نیچے دے جائیگا۔۔ اسنے خوشدلی سے فرشتے کو اسکی گود میں دیا۔۔
“اٹھ جاۓگی تو دینا ہی پڑیگا میری تو شکل دیکھتے ہی رونے لگتی ہے”۔۔ اسنے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔
رابیل نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“بلکل اپنی ماما کی طرح۔۔ تمہیں یاد ہے شادی سے پہلے عرش میرا نام سن کر بھی رونے لگتی تھیں”۔۔
وہ فرشتے کو دیکھتے دھیمے لہجے میں کہ رہا تھا۔۔
“جی مم مجھے یاد ہے عنصر بھیا۔۔ ایسی ہی تو تھی وہ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر رونے لگتی تھی اور اس سے بھی چھوٹی باتوں پر خوش بھی ہو جاتی تھی”۔۔ وہ اداسی سے مسکرائ۔۔
“ہاں انھیں منانا بہت آسان تھا رابیل وہ فوراً مان جاتی تھیں۔۔ اب پتہ نہیں کیسے روٹھی ہیں مانتی ہی نہیں۔۔”
اسکی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔وہ فرشتے کو گود میں لئے اسکے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
رابیل گہری سانس لے کر اسکی پشت دیکھتی رہ گئی ۔۔ اسے وہ آج بھی وہی عنصر لگا تھا جو آئ۔سی۔یو کے دروازے سے سر ٹیکائے کھڑا تھا۔۔ چھ مہینے گزر جانے پر بھی وہ وہیں کھڑا تھا اتنا ہی ٹوٹا بکھرا ہوا۔۔
عرش کے انتقال کے بعد یہ انکی پہلی طویل گفتگو تھی۔۔ ان دونوں کا غم ایک تھا۔۔ دونوں نے ہی اپنی زندگی کے سب سے عزیز رشتے کو کھویا تھا۔۔ وہ دونوں ہی نہیں سمبھل پا رہے تھے۔۔
وہ گہری سانس بھر کر بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں لیٹی تھی۔۔ آنسوں تواتر سے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے جنہیں اسنے بہ جانے دیا تھا۔۔ روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔
“اتنی بھی کیا جلدی تھی تمہیں ہم سب کو چھوڑ کر جانے کی عرش۔۔۔ کتنا تنہا کر دیا ہے تم نے ہمیں “۔۔ کمرے میں اسکی سسکی گونجی۔۔ وہ ایک بار پھر تڑپ کر روتے ہوئے یہ بھی بھول گئی تھی کے فاطمہ بیگم نے کچھ دیر پہلے اسے بلایا تھا۔۔
۔
ماضی۔۔
“او میرے بھائی ہوش میں آجا۔۔ آجاۓ گی باہر بھی ہماری بھابی”۔۔ اشر نے عنصر کو مسلسل گیٹ کی جانب تکتا دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔
“تو اس میں غلط کیا ہے۔۔ اپنی بیوی کا ہی انتظار کر رہا ہوں نا۔۔ تو نہیں دیکھتا ہے کیا ثمر کو وہ بھی چھپ چھپ کے”۔۔
وہ بھی عنصر تھا جس نے شرمندہ ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔۔
“کیا ثمر کو ۔۔ مطلب سیریسلی اشر تو ثمر کو دیکھتا ہے”۔۔ جلابیب کو تو جیسے سو واٹ کا کرنٹ لگا تھا۔۔
“جی بھائی آپ کے یہ دوست نا صرف دیکھتے ہیں بلکہ میری شادی کے لئے بھی ماما کو اسی نے اتنا فورس کیا ہے تاکہ موصوف کا رشتہ لیکر جایا جائے محترمہ کے گھر”۔۔
عنصر نے پوری تفصیل جلابیب کے گوشِ گزار کی۔۔
“واہ میرے بھائی ٹھیک جا رہا ہے تو مطلب جناب رشتہ بھی بھیجنے والے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں۔۔
جلابیب نے خفگی سے اشر کی جانب دیکھا۔۔
“ناراض نہیں ہو میری جان میں نے سوچا پہلے تیرا مقدمہ لڑ لوں پھر اپنا کیس بھی تجھے بتا ہی دینگے”۔۔
اشر نے شرارت سے جلابیب کی جانب دیکھا۔۔
“وہ مقدمہ تو تجھے جیتنا ہی ہے میرے بھائی”۔۔
اسنے مسکرا کر اشر کی جانب دیکھا مگر اگلے ہی لمحے اسکی نظروں نے پلٹنے سے انکار کر دیا تھا۔۔
ایک ہاتھ سے اپنا ڈوپٹہ اور دوسرے ہاتھ سے عرش کا لہنگا سمبھالتی دھیرے دھیرے لان میں داخل ہوتی وہ رابیل ہی تو تھی۔۔
نیوی بلیو شرٹ کے ساتھ گولڈن غرارہ پہنے ساتھ ہی گولڈن کلر کا حجاب چہرے کے گرد خوبصورتی سے لپیٹے وہ کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔۔ کتنی پیاری مسکراہٹ تھی اسکی۔۔ اسکے دل نے اعتراف کیا تھا۔۔
“چل میرے بھائی ایک وہ مجنوں تھا اور یہاں اب میرا دوسرا بھائی بھی اسی صفت میں شامل ہو گیا ہے۔۔ میرے سامنے میری بہنوں کو دیکھ رہی ہو تم دونوں “۔۔ اشر نے شرارت سے کہتے عرش کے ساتھ بیٹھے عنصر کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔
“آج بھی رو کر آئیں ہیں مسز”۔۔ عنصر نے اسکے روئے روئے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
“ہاں عنصر بھیا میں نے عرش سے کہا بھی تھا کے عنصر بھیا تمہیں کھا تھوڑی جاینگے “۔۔ رابیل عرش کی دوسری جانب بیٹھتے ہوئے شرارت سے کہا۔۔
“بھئ رابی کھا بھی سکتا ہوں میں انہیں ویسے بھی تو ڈریکولا کہ ہی دیا ہے انہوں نے۔۔
وہ اسکی حالت انجوئے کر رہا تھا جو دلہن بنی اپنے آنسوں ضبط کرتی بامشکل ہی وہاں بیٹھی تھی۔۔
“آج تو آپ بھاگ بھی نہیں سکتی مسز “۔۔
عنصر واقعی اسکا ضبط آزما رہا تھا۔۔
“بھائی آج میری گڑیا کو تنگ نہیں کرو “۔۔
عرش کو رونے کے لئے تیار دیکھ اشر فورا” وہاں آیا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...