سعد جلدی سے دروازہ کھول کر اندر آیا رانیہ اور نمرہ باتوں میں مصروف تھیں اور اس کے اس طرح آنے سے حیران ہوگئی۔
“یہ کیا تھا سعد” رانیہ نے پوچھا۔
“یار سوال بعد میں کرنا پہلے نمرہ کو چھپاؤ” سعد نے کہا۔
“ہائے کیوں میں نے کیا کیا” نمرہ نے کہا۔
“دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کر دیا ہے اور ایک تمہیں لینے آ رہا ہے” سعد نے کہا۔
“کیا” نمرہ نے کہا۔
“کچھ نہیں تم چھپو نہیں پہلے مجھے دوپٹہ دو” سعد نے کہا۔
“کیا” رانیہ نے کہا۔
“ہاں یار دو نہ، بڑا دینا” سعد نے کہا۔
رانیہ نے اسے دوپٹہ دیا۔
“اسے مجھے اڑاؤ” سعد نے کہا۔
“سعد دماغ ٹھیک ہے” نمرہ نے کہا۔
“سعد تم نے یہ کام بھی شروع کر دیے کہو تو دوبارہ میک اپ بھی لگا دوں” رانیہ نے کہا۔
“ہو گیا اب جو بولا ہے وہ کرو اور نمرہ تم چھپو رانیہ اسے لے کر جاؤ” سعد نے کہا۔
“پہلے تم پوری بات بتاؤ”رانیہ نے کہا۔
“اچھا” سعد نے اسے کان میں پورا پلین بتایا اور رانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
“چلو نمرہ” رانیہ نے اسے کہا۔
“مجھے تو کچھ بتاؤ” نمرہ نے کہا۔
“پہلے تم چلو”
وہ دونوں پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔
اتنی دیر میں عرش کمرے میں آیا اور گھونگھٹ والی کو دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
“نمرہ تم، میں کب سے ملنے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم اتنا بڑا گھونگھٹ نکال کر بیٹھی ہو ہٹاؤ اسے” عرش نے کہا۔
سعد نے نفی میں سر ہلایا۔
“اچھا مت ہٹاؤ کچھ بولو تو سہی” عرش نے کہا
لیکن گھونگھٹ سے کوئی آواز نہیں آئی۔
“یہ کیا مزاق ہے میں تم سے ملنے کے لئے بے قرار تھا تمہاری آواز سنا چاہتا تھا” عرش نے کہا۔
“اور میں تمہارے لئے گفٹ بھی لایا ہوں ” عرش نے کیا۔
عرش نے ایک باکس نکالا جس پر آئی لو یو لکھا تھا۔
“نمرہ یو آر مائے لائف” عرش نے کہا اور سامنے بیٹھے وجود کا ہاتھ پکڑ لیا۔
“یہ تمہارے ہاتھ کیسے ہو رہے ہیں ” عرش نے کہا
لیکن کوئی جواب نہ آیا عرش نے نمرہ کی طرف جھک کر اس کے ہاتھ سے اندر بیٹھے وجود کے گال سہلائے
“یہ تمہاری شیو کیسے۔۔” اب اسے تھورا شک ہوا اور تھورا اور جھک کر گھونگھٹ ہلکے سے اٹھایا لیکن سعد کو گھونگھٹ کے اندر بیٹھا دیکھ زور دار چیخ مار کر پیچھے ہوا جبکہ سعد کی ہنسی ہی بند نہیں ہو رہی تھی نمرہ اور رانیہ بھی پردے کے پیچھے سے نکلی ان ک بھی بتیسی عرش کو زہر لگ رہی تھی۔
“یو آر مائی لائف” سعد نے ہنستے ہنستے کہا۔
“اور یہ گفٹ” سعد نے بیڈ سے گفٹ اٹھا کر کہا۔
“یار قسم سے۔۔واہ عرش کیا انداز تھا رومینس کا” سعد نے کہا۔
عرش کو اب غصہ آیا اس نے سعد کو بیڈ پر گرایا اور اس پر چڑھ کر اسے مارنے لگا۔
“گدھے، بے غیرت، بے شرم تیرا تو آج میں قتل کر دوں گا” عرش نے اس کو مارتے ہوئے کہا۔
“یو آر مائی لائف، ٹو مائے ڈیئر ہسبینڈ” سعد نے ہنسی دباتے ہوئے کہا جس پر اس نے دو اور مکے کھائے۔
“یار اب بس کر شرم نہیں آتی اپنی بیوی کو مارتے ہوئے” سعد نے کہا۔
“قسم سے تیرا کچھ نہیں ہو سکتا” عرش نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“چلو رانیہ اب ان دونوں کو اکیلے بات کرنے دو” سعد نے کمر سہلاتے ہوئے کہا۔
“ورنہ یہ اور مار کر جان ہی لے لے گا” سعد نے کہا
“پردے کے پیچھے کیا ہے پردے کے پیچھے” اس نے یہ گانا گایا اور رانیہ کو لے کر باہر چلا گیا جبکہ عرش نمرہ کو خفا نظروں سے دیکھتا گیا۔
_________
آج رات سب نے فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔
“چلو یہ لگ گئی فلم” فارس نے کہا اور بیڈ پر عرش، سعد اور شایان کو دھکا دے کر بیٹھ گیا اچانک حملے سے سعد تو نیچے گر گیا۔
“یہ کیا فارس کے بچے” سعد نے اٹھتے ہوئے کہا.
“ہاں تو میں کیا بیٹھتا نہیں” فارس نے کہا
“کہیں اور جا کے بیٹھ” سعد نے دوبارہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا
اتنے میں انوشے اندر آئی۔
“فارس تمہیں مامو بلا رہے ہیں” انوشے نے کہا.
“کیوں” فارس نے کہا
” مجھے نہیں پتہ” انوشے بھی صوفے پر بیٹھ گئی۔
“جتنا مجھے یاد ہے میں نے تو کوئی حرکت نہیں کی” فارس نے سوچتے ہوئے کہا۔
“جاؤ فارس تمہاری کلاس لگی ہے” سعد نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہاں جا رہا ہوں” فارس اٹھتے ہوئے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کمرے میں ادب سے آیا۔
“آؤ بیٹھو فارس میرے پاس” ارشد صاحب نے کہا۔
فارس ان کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
“جانتے ہو فارس میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ تمہیں اپنے بیٹے کی طرح مانا ہے” ارشد صاحب نے بات کا آغاز کیا جبکہ فارس نے ان کے چہرے کو دیکھا جہاں اسے ہمیشہ شفقت اور محبت نظر آئی ان کے چاچو نے ہمیشہ باپ بن کر ان کا ساتھ دیا وہ بچپن سے ہی ان سے بہت اٹیچ تھا لیکن پاپا کے انتقال کے بعد ان کے چہرے میں ہمیشہ اپنے پاپا کو دیکھا۔
“اس لیے اب ہم سب چاہتے ہیں کہ تم زندگی میں اپنے بارے میں سوچو تم نے آگے کا کیا سوچا ہے” ارشد صاحب نے پوچھا۔
“میں اس کمپنی کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں جس طرح آپ نے اور پاپا نے کیا” فارس نے کہا۔
“بیٹا کام تو زندگی بھر کا ہے میرا مطلب ہے شادی کے بارے میں کیا خیال ہے”
“ابھی میں اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا” فارس نے کہا آخر وہ اور کیا کہتا۔
“بیٹا تمہاری عمر میں میری تو شادی بھی ہوگئی تھی آخر میں نے تمہاری چاچی کو یونی میں ہی پسند کیا تھا” ارشد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ تم اب شادی کے بارے میں سوچو اگر تمہاری کوئی پسند ہے تو اپنا دوست سمجھ کر بتاؤ”
فارس خاموش رہا کیونکہ وہ پہلے فضاء سے بات کرنا چاہتا تھا۔
“ہم سب نے تمہارے لئے ایک لڑکی پسند کی ہے تم دیکھ لو” ارشد صاحب نے کہا۔
“لیکن میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا” فارس نے کہا۔
“ابھی صرف منگنی ہوگی شادی جب تم چاہو گے تب ہی ہوگی تم اس لڑکی کے بارے میں وقت لے کر سوچ لو یا پھر اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو اس کے بارے میں ہمیں بتا دو تمہاری مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا” اس بار فارس چپ رہا کیونکہ وہ باپ جیسے چاچا کو کسی بات کا منع نہیں کر سکتا تھا۔
“ہم تمہیں لڑکی کی کوئی تصویر تو نہیں دے سکتے کیونکہ تم اسے جانتے ہو” ارشد صاحب کی بات پر فارس حیران رہ گیا۔
“ہاں میں اپنے دوست حیدر صاحب کی بیٹی فضاء کی بات کر رہا ہوں” فارس کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے آخر ارشد صاحب نے فضاء کو ہی اس کے لئے پسند کیا تھا۔
“تم سوچ کر جواب دینا بہت پیاری بچی ہے” آخر یہ بات فارس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
فارس کا دل کر رہا تھا کہ اٹھ کے ارشد صاحب کے گلے لگ جائے ان کے ساتھ ناچنا شروع ہو جائے لیکن وہ خاموش رہا۔
“اب تم سوچ کر جواب دینا” ارشد صاحب نے کہا اور تھوری دیر کچھ اور باتوں کے بعد فارس کمرے سے نکل آیا بس باہر آتے ہی اس میں مائیکل جیکسن کی روح آگئی اور زور زور سے ناچنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس نے زور سے دروازہ کھولا ور سب جو ڈراؤنی فلم دیکھتے ہوئے بہت ڈر رہے تھے دروازے اچانک کھلنے پر چیخ پرے اندھیرے میں فارس کے سائے کو دیکھ کر سب کو نانی دادی یاد آئی لیکن سکھ کا سانس لیا جب فارس نے لائٹ کھولیں اور وہ بیڈ پر چڑھ کر ناچنے لگا۔
“ہمیں لگ رہا ہے فارس” سعد نے کہا لیکن فارس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
“لگ رہا ہے چاچو کی ڈانٹ نے اس کے ذہن پر اثر کیا ہے” نمرہ نے کہا۔
“کیا بولا پاپا نے” رانیہ نے کہا لیکن فارس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
“اوہ مائیکل جیکسن کے دور کے رشتیدار چپ چاپ بیٹھ” سعد نے اسے پکڑ کر بٹھایا۔
“اب بول کیا ہوا” عرش نے کہا۔
“کچھ نہیں” فارس نے کہا کیونکہ ارشد صاحب نے ابھی کسی سے بات کرنے کو منع کیا تھا۔
“تو تیرے اندر بھوت کیسے آگیا” شایان نے کہا۔
“نہیں کچھ نہیں ہوا تم لوگ سب بیٹھ جاؤ اور مجھے فلم دیکھنے دو” فارس نے عرش سے پاپ کورن لیتے ہوئے کہا “اور سعد تم لائٹ بند کرو” فارس نے مزید کہا اور بیٹھ گیا۔
سب کے چہرے پر ڈر نمایاں تھا جبکہ فارس مسکرا رہا تھا۔
“یہاں پر بھوتنی اب تک چار لوگوں کو مار چکی ہے، ہمارا ڈر کے مارے برا حال ہو رہا ہے اور تو مسکرا رہا ہے دماغ تو ٹھیک ہے” سعد نے فارس کو چماٹ لگاتے ہوئے کہا۔
“یار فلم دیکھنے دے” فارس نے کہا۔
“تمہیں ڈر نہیں لگ رہا فارس” نمرہ نے کہا۔
“آخر اپنی محبت سے کوئی ڈرتا ہے” شایان نے کہا۔
“خبردار جو میری محبت کے خلاف کہا وہ بھوتنی نہیں بلکہ پری ہے اور سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ تم لوگوں کی محبت ہو گی بھوتنی وہ بہت پیاری ہے اور اس جیسا حسین کوئی نہیں۔ اس کا اور اس بھوتنی کا کیا مقابلہ” فارس نے غصے سے کہا اور سب حیرانی سے دیکھنے لگے۔
“تیری محبت کیا وہ کوئی لڑکی ہے” عرش نے کہا۔
فارس کو جب احساس ہوا تو اس نے بات بدلی” اوہ اوہ میں تو مذاق کر رہا ہوں تم لوگ تو سیریس ہو گئے”
“ہم بھی کس سے محبت کی بات کر رہے ہیں جس کے محبت بھوتنی کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتی” رانیہ نے کہا اور فارس کو غصہ تو بہت آیا لیکن ضبط کیا۔
“کیا بدتمیزی ہے تم لوگ دیکھو یہ بورنگ فلم میں تو جا رہا ہوں” فارس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“یہ ڈراؤنی فلم ہے کوئی رومینٹک یا ایکشن والی نہیں ہے” شایان نے کہا۔
“ہاں تو رومینٹک تو ہونی چاہئیے تھی” فارس نے کہا۔
“ہائے اللہ یہاں بھوتنی لوگوں کو مار رہی ہے اور تمہیں رومینس چاہئیے سچ مچ اب تمہارا دماغی توازن ٹھیک نہیں لگ رہا” رانیہ نے کہا۔
“ویری فنی” کہتا فارس کمرے سے چلا گیا جبکہ عرش، سعد اور نمرہ کو شک میں مبتلا کر گیا کیونکہ وہ لوگ خود اس مرحلے سے گزر رہے تھے ان کو یقین تو تب ہوا جب اگلے دن بڑوں سے پتہ چلا کہ دو دن بعد وہ لوگ فارس کا رشتہ لے کر فضاء کے گھر جارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ کو بہت غصہ آ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا پہنے ابھی وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر مختلف کپرے اپنے اوپر رکھ کر دیکھ رہی تھی کہ پیچھے سے سعد آیا اور دروازے سے ٹیک لگا کر رانیہ کو دیکھنے لگا رانیہ نے سعد کی شبیہ آئینے میں دیکھی اور وہ سر ہلا رہا تھا رانیہ نے دوسرا ڈریس خود پر رکھا تو وہ اس میں بھی منع کر رہا تھا رانیہ نے تین اور ڈریس رکھ کر دیکھے لیکن سب میں سعد کا یہی ردعمل تھا لیکن اب کی بار اس نے جو ڈریس رکھا سعد نے انگوٹھا دکھایا اور اشاروں میں اس سے کہا “خوبصورت” رانیہ کہ چہرے پر مسکراہٹ آ گئی جبکہ سعد وہاں سے چلا گیا۔ رانیہ نے وہی ڈریس پہنا چہرے پر اب بھی مسکراہٹ تھی اس کو سعد کا یہ انداز نہایت بھایا وہ بھی نہیں جانتی کہ ان کچھ دنوں میں سعد نے کس طرح اس کے دل میں گھر کر لیا اور وہ حقیقت سے نظرے چڑاتی رہی لیکن اب اس نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کا رشتہ پکا ہوگیا جس پر وہ بہت خوش تھا اور سب بڑوں کی مرضی سے طے ہوا کہ فارس اور فضاء کی منگنی عرش اور نمرہ کی شادی کے دن ہوگی۔ کوئی فارس سے پوچھتا کہ اسے اس دن کا دو سال سے کس طرح انتظار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اور ثمر ابھی اپنے بچپن کی قصے رانیہ، نمرہ اور انوشے کو سنا رہے تھے کیونکہ باقی سب باہر گئے تھے کہ ثمر نے رانیہ سے ایلبم منگوایا جس میں ان کی بچپن کی تصویریں تھی، نور اور ثمر کا بچپن نیویارک میں ہی گزرا تھا۔ رانیہ سعد کہ کمرے میں ایلبم لینے گئی کیونکہ ثمر نے وہ ایلبم سعد کی الماری میں رکھا تھا۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد رانیہ کے ہاتھ وہ ایلبم لگ ہی گیا کہ اسے ایک لفافہ بھی ملا ایلبم بیڈ پر رکھ کر اس نے لفافہ کھولا تو اندر سے پندرہ بیس تصویریں نکلی حیرت تو تب ہوئی جب وہ سب تصویریں اسی کی تھیں۔ لیکن ذہن میں دھماکا ہوا جب اس نے ان تصویروں کے پیچھے لکھیں نظمیں پڑھیں جو سب رانیہ کے نام پر لکھی ہوئی تھی اور زیادہ دیر نہ لگی اس لکھنے والے کو پہچاننے میں کیونکہ وہ سعد کی لکھائی سے اچھی طرح واقف تھی اور کچھ نظموں کے نیچے سعد کا ہی نام تھا۔ ابھی وہ نظمیں مسکراہٹ کے ساتھ پڑھ ہی رہی تھی کہ سعد کمرے میں آیا اور وہ تصویریں رانیہ کے ہاتھ میں دیکھ ہل سا گیا۔ رانیہ نے چہرا اٹھایا تو سعد نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی جو بہت حسین تھی اور نظریں ہٹانا بھول سا گیا۔ سعد کہ اس طرح دیکھنے سے رانیہ کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی اور تصویریں سعد کو تھما کر وہ بغیر اس کو دیکھے بھاگ گئی۔ سعد جو یہ سوچ رہا تھا کہ آج وہ رانیہ کے ہاتھ سے قتل ہو گا اس کے اس انداز پر حیران رہ گیا لیکن اب کچھ کچھ بات اس کے سمجھ میں آنے لگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...