ارسل یہ تمہاری دوسری ہار ہے
تمیں کیا لگتا ہے ہماری ایک معمولی سے غلام پکڑ کر ہمیں سزا دلوا دو گے
نہیں نہیں ۔۔۔وه ہمارے کسی کام کی نہیں رہی اب
یہ تمیں وارن کرنے کے لئے ٹکڑے
بیھج رہے ہیں
تا کہ تمارے پاس بچا کچہ جو رشتہ ہے وه باقی رہے
اور تم نے ہمارے بارے میں جتنے ثبوت اکھٹے کئے ہیں وه ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے
ویسے منّت ہے بہت پیاری ۔۔۔۔
خط پکڑ کر ارسل نے غصے سے پھاڑ دیے
جو بھی تھا اسکا اگلا ٹارگٹ خط میں لکھ چکا تھا
نیلم زین کے پاس کھڑی ہوئی
تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا
اور ایک ساتھ صفا کو سلوٹ کیا
منّت یہ دیکھ کر حیران ہوئی
زین پوجا کو چھوڑنا ہوگا
ارسل نے حکم دیا
اوکے میں جا کر اسے آزاد کر دیتا ہوں
کیا پوجا تم لوگوں کے پاس ہے
کیا ہورہا ہے یہ سب
کون کر رہا ہے یہ
پہلے گھر والے اب صفا
اور پوجا تم لوگوں کے پاس
کیا ہے یہ سب ؟؟؟
منّت غصے میں چیخ چیخ کر پوچھ رہی تھی
ارسل منّت کے قریب آیا
بتاتا ہوں تمیں صبر رکھو
ارسل کہہ کر دوبارہ زین کی طرف گیا
زین پوجا کو میں رہا کر دوگا
تم نیلم کو لے کر کورٹ جاؤ
میں چاچو کو کال کر دوگا
ارسل مسٹر گیلانی کی طرف اب آیا
انکل ہمیں زین اور نیلم کا نکاح کرنا ہوگا
نیلم کی ذمداری اب ہماری ہے
اور آپ دونوں کو یہاں سے ایک محفوظ جگہ پر شفٹ کرنا ہوگا
ٹھیک ہے ارسل
مجھے تم پر ہمیشہ یقین رہا ہے
مسٹر گیلانی نے ارسل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
اوکے شکریہ انکل
ارسل نے زین کو جانے کا کہا
ارسل نے کال کی حسن نے حامی بھر لی
زین نیلم اور اسکے ماں باپ کے ساتھ نکلا
اپنی ٹیم کے کچھ لوگوں کو بھلایا تاکہ عزت کے ساتھ صفا کی تدفین کی جائے اور ساتھ میں سلامی پیش کی جائے
منّت کو دیکھا جو ایک کونے میں چپ چاپ گم سم بیٹھی تھی
ارسل پاس جا کر بیٹھا
منّت میں ایک آفیسر ہوں
ایک سیکرٹ میشن پر ہوں
تماری یونیورسٹی میں صرف اس لئے آیا کیوں پوجا وہاں سے کچھ لڑکیوں کو غائب کر رہی تھی
شک کی بینا پر ہم نے اٹھایا اسے
پر اب اس خط سے مجھے یقین ہوگیا ہے
پوجا کسی ایسے انسان کے لئے کام کرتی ہے جو بہت ہی خطرناک ہے
منّت حیرت سے ارسل کو دیکھ رہی تھی
اسکا مطلب ارسل تماری وجہ سے تماری اس جاب کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے ہمارے ساتھ
منّت نے ناراض نظروں سے پوچھا
ارسل نے چند منٹ کی خاموشی کے بعد منّت کا ہاتھ پکڑا
منّت بہت سارے لوگوں کی جان گئی ہے اس ملک کو پاک کرنے کے چکر میں
بہت ساری ۔۔۔ارسل نے منّت کا ہاتھ دبا کر ایک نئی ہمّت دینا چاہی
اور اگر تمیں کچھ ہوگیا تو ؟؟؟
منّت نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا
ارسل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی
تو تمارے لئے وه خوش نصیبی کی بات ہو گی منّت
کہ
تم ایک شہید کی بیوی کہلاو گی
اب کی بار ارسل کی آنکھوں میں ایک چمک تھی
جو ہر نوجوان جانباز سپاہی کی آنکھوں میں ہوتی ہے
منّت نے اپنا ہاتھ کینچآ
تو ارسل نے دوبارہ ہاتھ پکڑا
اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ تم مجھے چھوڑ دو گی
تو میں تمیں اسی تابود میں بند کر کے تہ خانے میں ڈال دو گا
منّت نے غصے سے ارسل کو دیکھا
تم انتہائی بد تمیز ہو ارسل
صفا کی تدفین ہو چکی تھی
ارسل نے اپنی ٹیم کا ایک مضبوط سہارا کھو دیا تھا
اب منّت کے ساتھ ساتھ زین اور نیلم کی جان بھی بچانی تھی
زین نیلم سے نکاح کر کے گھر لے آیا تھا
ارسل منّت کو ڈراپ کر کے پوجا کے پاس آیا
سیکرٹ روم کا دروازہ کھولا
جاؤ پوجا تم آزاد ہو
پوجا حیرت سے ارسل کو تکنے لگی
تمھے سنائی نہیں دیا جاؤ یہاں سے ۔۔دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے میں دھاڑا
پوجا نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر دھڑ لیے اور ایک مکاری ہنسی ہنس دی
سن لیا سن لیا آفیسر ۔
ذرا آ ئستہ سے
پر اچانک ہوا کیا ؟؟؟
اوکے میں بتاتی ہوں
پوجا دو قدم چل کر ارسل کی طرف آئی
پہلی بات یا تو یہ ہو سکتا ہے
کہ تم پہلے مجھے چھوڑ دو پھر میری جاسوسی کرو گے
پوجا نے زخمی ہونٹ سے مسکرائی زخم کچھ ہلکے ہو چکے تھے پر کہی کہی خون اب بھی جم چکا تھا
ہممم
دوسری بات یہ ہو سکتی ہے
پوجا نے سوچنے کے انداز سے ارسل کو دیکھا
کہ تمیں مجھ سے عشق ہو چکا ہے
ارسل نے سن کر ایک زور دار قہقہ لگایا
جاسوسی تماری کیا کرنی
تم خود میرے پاس چل کر اؤ گی سارے راز بتانے
اور رہا عشق ۔۔۔توتم میری نفرت کے بھی قابل نہیں ہو
سو گیٹ لوسٹ ۔۔
ارسل کہہ کر چلا گیا
پوجا کے اندر کچھ تو ضرور ٹوٹا تھا
ارسل اسے کبھی نہیں ملنا تھا
اور ارسل اب اسکی کمزوری بھی بن چکا تھا
ارسل کار زن سے بھگا کر لے گیا
اور پوجا باہر نکلی تو دھوپ سے اسکے زخموں کو چبن ہوئی
اندھیری رات تھی ۔۔
چاند نظر نہیں آرہا تھا
جس کی وجہ سے اندھیرا کافی چھایا ہوا تھا
اپنے آپ کو ایک بڑی سی چادر میں چھپایا ہوا تھا تاکہ کوئی دیکھ نا سکے
ہر اٹھتا ہوا قدم خوف بڑھا رہا تھا
ایک کھنڈر جیسی جگہ تھی
جگہ جگہ بہت بڑے پھتر تھے وه سمبھل سمبھل کر قدم رکھ رہا تھا
کھنڈر سے ہوتے ہوئے ایک کوفہ میں پہنچا
جہاں سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دی رہی تھی
مشعل سے روشنی پھیل رہی تھی جس کی وجہ سے منظر صاف دیکھائی دینے لگا
آنے والا وجود غصے میں تھا
چادر سے اپنے چہرہ باہر نکالا
آپ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہے ؟؟
آپ نے میری ماں اور بہن کا قتل کیا ہے
آپ کی ہمّت کیسے ہوئی ؟؟؟
غصے میں چیخنے کے باوجود بھی کسی پر رتی برابر اثر نہیں پڑا
وہاں کھڑے لوگ اپنے اپنے کام میں اسی طرح مگن رہے
ٹھیک سامنے کوئی آرتی میں مصروف تھا
اپنا کام ختم کر کے
اطمینان کے ساتھ پلٹا ۔۔
ایک مکاری مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا
انکی موت ہونی تھی ہو گئی کل بھی تو مرنا ہے آج مر گے
تو طوفان کیوں کھڑا کر رہے ہو
اؤ بیٹھو ۔۔۔۔
جانتے ہو ایک بڑی ڈھیل ہوئی ہے
مال دو دن کے بعد اندورنی جگہوں سے لے کر تم نے جانا ہے یاد ہے نا تمیں
ماتھے پر ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا تلک لگایا
آنکھوں میں وحشت تھی
جیسے دیکھ کر ڈر سا لگنے لگتا ہے
آنے والے وجود کا سارا غصہ غارت ہوا
اور نرم پڑا
جی مجھے یاد ہے گرو دیو
اپکا کام ہوجاے گا
پر گرو دیو ۔۔میں نے صرف ارسل کو مارنے کے لئے کہا تھا
کیوں کہ میں منّت سے پیار کرتا ہوں
منّت میرا جنوں ہے
میرا عشق ہے
میری زندگی ہے
میری خواہش ہے
میری ضرورت ہے
کہنے میں ہی اتنا جنون ہے تو عشق میں کتنا جنون ہوگا تمارے ۔۔۔
ضیاء ۔۔۔
آواز پیچھے سے آئی تھی سب نے پلٹ کر دیکھا تو پوجا تھی
پوجا پھینکا سا مسکرائی
ٹھیک کہا نہ میں نے ضیاء
پوجا نے سوالیہ نظروں سے ضیاء کو دیکھا
پر افسوس تمارا عشق نہیں وه ضد ہے جو قاتل بھی بن گئی
پوجا ۔۔۔اؤ میری شیرنی ۔۔
گرو دیو کی آواز پوجا کے کانوں پر پڑی ۔۔
گرو دیو کیا بات ہے
مجھے تو آپ اپنا دایاں بازو کہتے ہیں پھر مجھے کیوں نہیں ڈھونڈا
پوجا نے شکایت کی
پوجا کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ تمیں ارسل خود چھوڑ دے گا
اور دیکھو
پر جتنے بھی حادثے ہوے تمارے لئے ہی تو کئے
دیکھو وه ڈر گیا ہے آفیسر۔۔
گرو دیو کہتے ہوے پوجا کی جانب بڑھے
تمارے ان زخموں کا بھی اسے حساب دینا ہوگا ۔۔
گرو دیو نے پوجا کے چہرے کو چھوا ۔۔
تو پوجا پیچھے ہوئی
گرو دیو کو حیرت ہوئی
جاؤ آرام کرو پوجا ۔۔۔
پوجا اندر داخل ہوئی جہاں ایک تہہ خانہ موجود تھا ۔۔۔
یہ بہت غلط کیا ارسل نے پوجا کو دو دن بعد چھوڑنا چاہئے تھا گرو دیو نے ضیاء کو دیکھتے ہوئے کہا
آپ فکر نہ کرے گرو دیو پوجا کو ہم سمبھال لے گے ۔۔
ضیاء نے کچھ سوچتے ہوے فیصلہ کیا ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...