عَروض:
وہ علم ہے جس سے نظم یعنی کلامِ موزوں اور نثر یعنی کلامِ غیر موزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے یہ علم خلیل بن احمد بصری (پیدایش ۱۰۰ ہجری ، وفات ۱۷۰ ہجری ؛ بقول علّامہ سیّد غلام حسنین قدرؔ بلگرامی ، مؤلف ’ قواعد العروض ‘ )نے فنِّ موسیقی کی بنیاد پر استخراج کیا تھا۔ جس طرح طبلے پر ضرب اور خالی سے مختلف ماترائیں اور ان ماتراؤں سے مختلف تال پیدا ہوتے ہیں اسی طرح علمِ عَروض میں حرکت(ضرب )اور سکون (خالی )کے موافق خلیلؔ نے مختلف اوزانِ عروضی تراش لیے۔ اہلِ موسیقی کا مدار ’ ت ‘ اور ’ ن ‘ یعنی تن تن پر ہے تو اہلِ عروض کا اعتبار ’ ف اور ’ع ‘ اور ’ ل ‘ او ر ’ ن ‘ یعنی فَعِلُن پر ہے۔ مختصر یہ کہ علمِ عروض کا موضوع وزنِ شعر ہے۔
وزن:
شاعری کی مقررہ بحروں میں سے کسی بحر کی میزان پر کسی کلام کو ناپنے تولنے کا نام ’ وزن ‘ ہے اہلِ عَروض کی اصطلاح میں اس ناپ تول یعنی دو کلموں کی حرکت اور سکون کے برابر ہونے کو تقطیع کہتے ہیں (تقطیع کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا) وزنِ شعر میں صرف انھیں حروف کا اعتبار ہے جو ملفوظ ہوں۔ اِس لحاظ سے ’ خواب ‘ کا ’ و ‘ وزنِ شعر کے شمار (یا تقطیع )میں نہیں آئے گا ، اسی طرح ’ کیا ‘ اور ’ کیوں ‘ کی ’ ی ‘ بھی تقطیع میں نہیں آئے گی۔ گویا کہ یہ ’ و ‘ اور ’ ی ‘ حروف نہیں ہیں۔
اجزا:
جمع ہے جُز کی۔ تقطیعی اجزا کے باہم ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے اصطلاحِ عروض میں ’ جز ‘ کہتے ہیں۔ علمِ عروض میں اجزاتین ہیں : (۱ ) سبب (۲) وتد اور (۳ ) فاصلہ۔(ان کی تفصیل علّامہ طباطبائی کے مقالے میں ملاحظہ ہو جو اس تعارف کے بعد آتا ہے۔ کچھ اور متعلقہ معلوما ت یہاں دی جاتی ہیں۔)
(۱)سبب: دو حرفی کلمہ کو سبب کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں :۔
(الف)سببِ خفیف: وہ دو حرفی لفظ جس کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو ، جیسے : دِلْ ، چَلْ ، گُلْ۔
(ب )سببِ ثقیل: وہ دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں ، جیسے : دِلِ ، غَمِ ،شَبِ (تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت)
(عروض کی بعض کتابوں میں ، اور خود علّا مہ نظم طَباطَبائی نے، سبب کی ایک اور قسم سببِ متوسط بھی بتائی ہے۔ لیکن اکثر علما کو اس سے اختلاف ہے۔)
(۲) وتد: سہ حرفی کلمہ کو وتد کہتے ہیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔
(الف ) وتدِ مجموع یا مقرون: وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا اور دوسرا حرف متحرک ہو اور تیسرا ساکن ، جیسے : خُدَاْ، وَطَنْ ، جِگَرْ۔
(ب ) وتدِ مفروق: وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا حرف متحرک ، دوسرا ساکن اور تیسرا متحرک ہو، جیسے: دَرْدِ ،مُرْغِ ، صِدْقِ (تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت)
(سبب کی طرح وتد کی بھی ایک قسم وتدِ کثرت ہے۔ یہ چہار حرفی کلمہ ہے جس کے پہلے دو حروف متحرک اور بعد کے دو حرف ساکن ہوں ، جیسے: زَبَاْنْ ، نَظِیْرْ ، شُمَاْرْ۔)
(۳) فاصلہ: چہار حرفی کلمہ ہوتا ہے۔اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔
(الف ) فاصلۂ صغریٰ: جس میں پہلے تین حروف متحرک ہوں اور چوتھا ساکن۔ گویا یہ اجتماع ہوتا ہے ایک سببِ ثقیل اور ایک سببِ خفیف کا۔ جیسے : صَنَمَاْ، بَخُدَ اْ۔۔۔
(ب ) فاصلۂ کُبریٰ: پنج حرفی کلمہ ہوتا ہے جس کے پہلے چار حروف متحرک ہوں اور پانچواں ساکن۔ یہ اجتماع ہوتا ہے وتدِ مجموع اور سببِ خفیف کا۔ جیسے:شِکَنَمَشْ
(نوٹ: اردو میں سببِ ثقیل ، وتدِ مفروق اور فاصلہ کی مثالیں نہیں ہیں ، اس لیے فارسی کی مثالیں دی گئی ہیں۔)
ُرکن:
کم سے کم دو اجزا اور زیادہ سے زیادہ تین کے ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے ُرکن کہتے ہیں۔ رُکن کی جمع ارکان ہے۔ (ان کو افاعیل یا امثال بھی کہتے ہیں )انھیں تین اجزا (سبب ، وتد اور فاصلہ )کو مختلف طور پر ترتیب دے کر از روئے اصل آٹھ ارکان ، اور از روئے اعتبار دس ارکان قائم کیے گئے ہیں۔ اور انھیں ارکان سے مختلف بحریں بنائی گئی ہیں جن کی مجموعی تعداد اُنّیس ہے۔ ان میں سے چار بحریں عربی کے لیے مخصوص ہیں اور تین فارسی کے لیے۔ باقی بارہ بحریں ، فارسی اور عربی میں مشترک ہیں۔بارہ مشترک بحروں کے نام اور اوزان یہ ہیں :
(۱) بحرِ متقارَ ب: فَعُوْ لُنْ ، فَعُوْ لُنْ، فَعُوْلُنْ ، فَعُوْلُنْ۔ (اِسی طرح دوسرا مصرع۔ کُل آٹھ بار)
( ۲) بحرِ متدارک: فَاْعِلُنْ ، فَاْعِلُنْ، فَاْعِلُنْ، فَاْعِلُنْ(ایضا ً)
(۳) بحرِ ہزج : مَفَاْعِیْلُن ، مَفَاْعِیْلُن ، مَفَاْعِیْلُن ،مَفَاْعِیْلُن(ایضاً)
(۴) بحرِ رجز: مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن ، مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن۔ (ایضاً)
(۵) بحرکامل: مُتَفَا عِلُن، مُتَفَا عِلُن ، مُتَفَا عِلُن ، مُتَفَا عِلُن۔ (ایضاً)
(۶) بحرِ رمل: فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ ، فَاْعِلَاْتُنْ۔ (ایضاً)
(۷) بحرِ منسرح: مُسْتَفْعِلُن مَفْعُوْلَاْتُ ، مُسْتَفْعِلُنْ مَفْعُوْلَاْتُ۔(ایضاً)
( ۸) بحرِ سریع: سْتَفْعَلُنْ مُسْتَفْعَلُنْ مَفْعُوْلَاتُ۔ (اسی طرح دوسرا مصرع کُل چھ بار)
( ۹) بحرِ خفیف : فَاْعِلَاْتُنْ ، مُسْ تَفْع لُن، فَاْعِلَاْتُن (ا یضاً۔۔۔ کُل چھ بار)
(۱۰) بحرِ مضارع : مَفَاْعِیْلُنْ، فَاْعِ لَاْتُنْ، مَفَاْعِیْلُنْ فَاْعِ لَاْتُنْ (ایضاً۔۔۔ کُل آٹھ بار)
(۱۱) بحرِ مقتضب : مَفْعُوْلَاْتُ مُسْتَفْعِلُن، مَفْعُوْلَاْتُ، مُسْتَفْعِلُنْ (۔۔ایضاً۔۔ ایضاً)
(۱۲) بحرِ مُجتَث: مُس ْتَفْعِ لُنْ، فَاْعِلَاْتُن، مُس ْتَفْعِ لُن، فَاْعِلَاْتُنْ (ایضاً۔۔ایضاً)
بحرِ طویل : یہ خاص عربی کی بحر ہے۔فعولن، مفاعیلن ، فعولن، مفاعیلن (کُل آٹھ بار )۔ فارسی میں بہ تکلف کچھ شاعروں نے اس بحر میں بھی شعر کہے ہیں۔اردو کے مذاق میں یہ بحر بے کیف ہے اس لیے اس میں ہمارے یہاں کلام نہیں ملتا۔
تقطیع:
یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ اصطلاحِ عروض میں شعر کے الفاظ کو اتنے ٹکڑوں یعنی ارکان میں تقسیم کرنا جتنے اس بحر کے ارکان ہیں جس میں وہ شعرکہا گیا ہے۔شعر کے حروف ارکان کے حروف سے اس طرح مطابق ہونے چاہییں کہ متحرک کے مقابل متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن رہے۔تقطیع میں حرکات یعنی زیر ، زبر ، پیش کا فرق نہیں مانا جاتا چنانچہ بُلبُل ، دَلدَل ، جھِل مِل یہ تینوں ایک ہی وزن ’ فِعْلُن ‘پر ہیں۔ مثلاً اس مصرع کی تقطیع : کروں حمدِ پروردگارِ قدیم۔۔۔ یوں ہوگی:۔ کرو حم : فعولن ! دِپرور: فعولن ! دِگارے:فعولن ! قدیم:فعول ۔۔۔یہ بحرِ متقارب کے ارکان ہیں اور آخری رکن میں زحاف کے نام کو ملا کر اس بحر کا پورا نام معلوم ہو سکتا ہے جو یہ ہے : بحرِ متقارب ہشت رُکنی (یا مُثَمَّن )مقصور۔
زحاف:
سبب کے حرفِ دوم کو ، جو کہ ساکن ہوا کرتا ہے ، کسی رکن سے ساقط کر دیں تو اسے اصطلاح میں زحاف کہتے ہیں۔ گویا ارکانِ شعر میں سبب کے حرفِ دوم کو ساقط کر دینے سے جو تغیّرات ہوتے ہیں انھیں کا نام زحاف ہے۔ زحافات کے ناموں کی رعایت سے بحروں کے بھی وہی نام ہوتے ہیں۔ مثلاً جس بحر میں خُبْن کا زحاف آئے گا وہ مَخبون کہلائے گی۔ زحافات یعنی تغیّرات کی تین صورتیں ہیں :
(۱ِ) رکن میں سے کسی حرف کو کم کر دینا ؛ (۲ )کوئی حرف زیادہ کر دینا ؛ (۳ )کسی حرفِ متحرک کو ساکن کر دینا۔
رباعی کے اوزان:
رباعی کا وزن، مَفْعُوْلَ مَفَاْعِلُنْ مَفَاْعِیْل ُ فَعُوْل،بحرِ ہزج کے ساتھ مخصوص ہے اور اصل میں فارسی والوں کا نکالا ہوا ایک وزن ہے ۔اس میں نو (۹ )زحاف آتے ہیں ،جن کی وجہ سے چوبیس وزن ہو جاتے ہیں۔جو چار مصرعے ان چوبیس اوزان میں سے کسی وزن پر ہوں گے وہ رباعی ہے ورنہ ہر ایسے دو شعر جن کا پہلا، دوسرا ، چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو رباعی نہیں ہے، اسے قطعہ کہیں گے۔