(Last Updated On: )
آج زوجاجہ اور علی کا نکاح تھا۔۔۔۔
زوجاجہ وائٹ غرارے میں دلہن بنی چاند لگ رہی تھی اجالا ثوبیہ اور فاطمہ تینوں نے بھی غرارے پہنے تھے لیکن کلر الگ الگ تھے۔۔۔
اجالا پنگ کرتی ہے نیچے لائٹ گرین غرارہ پہنے ہائ ہیل اور بالوں کو کمر پہ بکھیرے غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔
علی وائٹ شلوار قمیص کے اوپر کوفی کلر کی واسکٹ پہنے شہزادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔ارمان نے بھی وائٹ شلوار قمیص زیب تن کی تھی لیکن واسکٹ کا کلر بلیک تھا باقی راحم ارحم کیریم کلر کی شلوار قمیص پہنے تھے ۔۔۔۔۔۔
ارمان کب سے اجالا کی تلاش میں تھا جو صبح سے نظر نہیں آرہی تھی۔۔آخر تنگ آکے زوجاجہ کے کمرے میں چلا گیا اتفاق سے دروازہ کھلا ہوا تھا تو ارمان سیدھا اندر چلا گیا ارمان اجالا کو دیکھ کے مدہوش ہو گیا۔۔۔
ارمان تمہیں کچھ چائ تھا ۔۔۔فاطمہ نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے بھائ سب پوچھا جو کب سے اجالا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
کاش وہ پوچھے کیا چاہیے آپ کو؟
⚘میں ہاتھ تھام کر بولوں زندگی بھر تیرا ساتھ⚘
بھائ۔۔۔فاطمہ ارمان کا کندھاہلا کے پوچھا۔۔۔
ہاں نہیں مجھے تو کچھ نہیں چائ۔۔۔
تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔اب کہ بار اجالا نے پوچھا۔۔۔
نہ آیا ہوں نہ لایا گیا ہوں۔ ۔۔۔
میں حرف کن ہوں فرمایا گیا ہوں۔۔
ہاں تو چلو نکلو پھر یہاں سے۔۔۔اجاکا نے ارمان کا ہاتھ پکڑ کے باہر نکال دیا
تيرى آنکھ ساقى , تيرى بات خوشبو
تيرى زلف بادل , تيرے لب قيامت۔۔۔
************♡***********
زوجاجہ کا نکاح ہو چکا تھا ۔۔۔۔ اجالا زوجاجہ کو علی کے برابر بٹھا کے نیچے اتر رہی تھی کہ پیر پھسل گیا تھوڑے پاس کھڑے ارمان نے اجالا کو سمبھال لیا۔۔۔اجالا کا ایک ہاتھ ارمان کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا کندھے پہ تھا۔۔
ایک بار جو تھام لیا ہاتھ تمہارا…*
نہ خود جدا ہونگے نہ تمھے ہونے دینگے…*
ارمان شعر بعد میں پڑھ لینا ابھی مجھے چھوڑو سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔اجالا نے ارمان کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔ارمان نے اجالا کو چھوڑ دیا اجالا سیدھا فاطمہ کے پاس چلی گئ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد اجالا ثوبیہ کے ساتھ اسٹیج میں آئ ۔۔
زوجاجہ اور علی آو ایک سیلفی لیتے ہیں۔۔۔اجالا اپنا موبائل والا ہاتھ اوپر کر کے بولی۔ارے ارے ایک منٹ لڑکی میرے بغیر لے رہی ہو سیلفی ۔۔۔ارمان علی کے برابر بیٹھ کے بولا۔۔۔۔سیلفی لینے کے بعد چاروں باتیں کرنے لگ گئے۔۔۔
ارمان وہ تیرا شعر کون سا تھا وہ چاند والا۔۔۔ہاں۔
تجھے چاند کہوں یا چاند کو تجھ سا کہوں
تو خیال ہے حسین ساکیوں نہ تجھے جان کہوں۔۔۔
علی نے شعر پڑھا تو زوجاجہ نے گردن جھکا لی۔۔۔
او ہوئے کیا بات ہے بھئ ارمان کا جادو چل گیا علی پہ وہ علی جو شعر و شاعری سے چڑتا تھا آج شعر فرما رہے ہیں واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔
واہ ارمان آج تو تیری شاعری کو داد دیتے ہیں۔۔۔
ہماری شاعری پر تو لوگ واہ واہ کرتے ہیں
تو سوچو وہ کیسا ہوگا
جس کی خاطر ہم شاعری کرتے ہیں۔۔۔
واہ واہ بھئ ۔۔
اچھا میرا بھی ایک شعر سن کو کسی خاص کے لیے ہے۔۔۔اجالا نے کہا تو سب آنکھیں پھاڑے اجالا کی طرف دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو وہ شعر راحم کے لیے ہے۔۔
واہ آج پہلی مرتبہ ایک لڑکی میرے لیے کوئ شعر سنائے گئ ۔۔۔۔چلو سناو۔۔راحم اجالا کے قدموں کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
“خود ہی کو کر تیار اتنا کے ہر فنکشن سے پہلے،
کے لڑکی تجھ سے خود آ کر پوچھے بتا تیرا نمبر کیا ہے”
ہہاہاہااہاہہا بہت ہی کوئ سستا جوک مارا ہے۔۔۔کوئ اچھا رومینٹک شعر ہی سنا دیتی ایوی مجھے خوش کر دیا۔۔۔۔
ہاہاہاہ اتنا اچھا تو شعر سنایا ہے۔۔۔
***********♡***********
نکاح کے فنکشن کے بعد سب بچے اوپر چھپ پہ محفل جمائے بیٹھے تھے
زوجاجہ علی کے برابر نظریں نیچے جھکائے بیٹھی تھی اپنے ہاتھوں کی چوڑی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔۔
بھائ اب بتا بھی دو کے گیم کیا ہے کب سے بیٹھایا ہوا ہے۔۔۔۔
بے صبری لڑکی دو منٹ رکھ جاو ارمان کو تو آنے دو۔۔وہ دیکھ ارمان آگیا۔۔۔۔
ارمان سیدھا جنید کے برابر بیٹھ گیا۔۔۔
ہاں تو گیم شروع کریں۔۔۔۔
لگتا ہے آج تو خوب مزا آنے والا ہے حسین لڑکیاں ہے موسم بھی سہانا ہے اور سب سے بڑی بات ہمارا ارمان بھی ہے یہاں شعر و شاعری والے بابا۔۔۔۔۔ارحم نے ارمان کو آنکھ مار کے کہا۔۔۔۔
خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے _____ ہم دونوں
“قاتلانہ ادائیں تیری ________عاشقانہ مزاج میرا
بس بس ابھی نہ شروع ہو ۔۔۔۔۔
ہاں تو گیم شروع کریں۔۔۔ٹرتھ اور ڈیئر کھیلیں گے۔۔۔
راحم نے بوتل بیچ میں رکھ کے گھومائ۔۔۔۔
بوتل فاطمہ پہ جاکے رکھی۔۔۔
ٹرتھ یا ڈیئر ۔۔۔۔
ڈیئر۔۔۔۔۔۔
اوکے فاطمہ تم نہ سب کے لیے چائے بنا کے لاو۔۔۔
ہیں بھئ کوئ اور ڈیئر دو میں نہیں بنا رہی چائے۔۔
فاطمہ منہ بسور کے بولی۔۔
بھئ یہ چیٹنگ ہے اب ڈیئر لیا ہے تو پورا کرو۔۔۔
اوکے جا رہی ہوں۔۔۔فاطمہ غصے سے اٹھ کے چلی گئ۔۔۔
اوکے دوبارہ شروع کرتے ہیں۔۔۔
اب کہ بار بوتل علی کے پاس آکے رکھی۔۔۔
او شہزادی تو نہ ٹرتھ لے گا نہ ہی ڈیئر تو بس زوجاجہ بھابھی کے لیے ایک شعر سنادے ۔۔۔۔
اوکے شکر ورنہ میں تو سمجھا پتا نہیں کیا کرواو گے کو ابھی شعر سنا دیتا ہوں۔۔۔
علی نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔
میں نے کہا میرے دل میں تمھارے لیئے کوئی جگہ نہیں
اس نے کہا دماغ میں رکھ لو وہ بھی تو خالی ہے۔۔۔
بھائ یار یہ کونسا شعر ہے ذرا تمیز والا شعر سناو ۔۔۔
اچھا اچھا میں رومینٹک شعر سناتا ہوں۔۔
علی زوجاجہ کے دونوں ہاتھ پکڑ کے شعر پڑھا۔
کہیں مہندی سے مہکے ہو کہیں کنگن سے کھنکے ہو
میرے جیون کے رنگوں کے سبھی عنوان تم سے ہیں۔۔۔
اوئے ہوئے ۔۔۔۔۔۔علی یار تم نے تو شعر و شاعری میں ارمان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔۔ چلو گیم کنٹینیو کریں۔۔۔
گیم ایک بار پھر کھیلی گئ اس بار بوتل راحم کے پاس رکھی اتنے میں فاطمہ بھی چائے کی ٹرے لے آئ تھی۔۔۔بھئ دو کپ چائے کم پڑ گئ ہے تو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔۔۔فاطمہ ٹرے نیچے رکھ کے بولی ۔۔۔
چائے میں بھی کامپرومائز افففف ۔۔۔۔
بھئ علی اور زوجاجہ تم دونوں آدھی آدھی پہ لینا چائے اب باقی تم میں سے کوئ ایک چائے نہ پیے ۔۔۔
فاطمہ علی کو چائے کا کپ پکڑوا کے بولی۔۔۔
بھئ میں تو چائے ضرور پیونگا سوری۔۔۔
سب نے چائے کے کپ اٹھا لیے تھے۔۔
لو چائے تو سب کو پوری آئ ہے تم ایسی خامہ خہ۔۔۔
اجالا کہاں ہے۔۔
وہ وہاں ریپر پھینکے گی ہے آتی ہوگی ۔۔۔
اتنے میں اجالا بھی آگئ ۔۔۔
میری چائے کہاں ہے۔۔۔۔اجالا نے خالی ٹرے دیکھ کے کہا ۔۔۔۔
وہ اجالا یار چائے کم پڑ گئ اور کوئ دے بھی نہیں رہا تم رہنے دو۔۔۔۔
اجالا منہ بنا کے بیٹھ گئ۔۔۔
اجالا یہ چائے تم پی لو ویسے بھی میرا دل نہیں کر رہا چائے پہنے کا۔۔۔ارمان اجالا کا پھولا منہ دیکھ کے اپنی چائے اجالا کو دے دی ۔۔۔۔
ہاں تو گیم شروع کریں کہاں تھے ہم۔۔۔۔
راحم پہ آیا تھا۔۔۔
بھئ میں ٹرتھ لونگا مجھے پتا ہے اگر ڈیئر لیا تو تم سب مجھ سے کام کرواو گے۔۔۔
میرا شودا بھائ ۔۔۔ارمان راحم کی معصومیت دیکھ کے بولا ۔۔۔۔۔
چل راحم یہ بتا ہماری کلاس میں جو وردہ نام کی لڑکی پڑتی ہے اس سے تو نے تھپڑ کھایا تھا کہ نہیں۔۔۔
دیکھ سچ سچ بتانا۔۔۔
نہیں نہیں میں بھلا ایک لڑکی سے تھپڑ کھا جاو ناممکن۔۔۔راحم کالر جھڑکا کے بولا۔۔۔
اچھا رکھ میں ابھی اسکو کال کرتا ہوں اور پوچھ لیتا ہوں تو سچ نہیں بتا رہا۔۔۔
ارحم جیب سے موبائل نکال کے بولا۔۔۔
اے اے اے ایک منٹ رکھ اس سے مٹ پوچھ ورنہ کل ایک اور تھپڑ مار دےگی ۔۔۔ہاں اس نے تھپڑ مارا تھا لیکن ہلکا سا مارا تھا۔۔۔
اوئےےےے راحم تو ایک لڑکی سے پٹ گیاہاہاہاہاہاہاہ۔۔۔۔۔
اچھا بس ذیادہ مذاق نہ اڑاو ورنہ اس کا غصہ تم سب پہ اتر جائے گا۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے گیم شروع کرتے ہیں۔۔۔
بوتل اب جنید کے سامنے رکی تھی۔۔۔
اوور جنید کی باری۔۔۔چلو جنید چوس کرو ٹرتھ یا ڈیئر۔۔۔
ٹرتھ ۔۔۔۔
اوکے جنید تو ارمان کا بیٹا فرینڈ ہے اسکے سارے راز تجھے پتا ہے تو ایک کوئ ایسا ایک راز بتا جو ہم میں سے کسی کو نہیں پتا ۔۔۔سچ سچ بتانا۔۔
جنید اجالا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔اجلا پتہ نہیں کیوں گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔۔جنید اجالا کی گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔
چلو چینج کرلو ٹرتھ کے بدلے ڈیئر ۔۔۔۔۔
اووو ارمان تو آج پھر بچ گیا۔۔۔ارحم دکھی انداز میں بولا ۔۔۔
اچھا جنید تو ایک شعر سنادے آج ارمان کو بھی پیچھے چھوڑ دے شعر سناکے ۔۔۔۔
غزل سناتا ہوں۔۔۔۔
جنید نے اجالا کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا
عروج پر ھے تمھارا موسم
خزاں میں تم کو خرید لیں گے
بنو گے ھم سے رحم کے طالب
نہ تم کو مھلت مزید دیں گے
۔
ادا کے قصے ھوئے پرانے
جفا کا موسم ختم ھی سمجھو
کریں گے تم سے حساب جاناں
نہ تم کو مھلت مزید دیں گے
جنید اجالا کی طرف دیکھ کے غزل سنا رہا تھا۔۔۔اجالا کو اپنا خون کھولتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
جنید کے لہجے میں بھی زہر کی کاٹ تھی ۔۔جو اجالا اچھے سے محسوس کر رہی تھی
وفا کے لالچ میں ھم نے
خون اپنا سکھا دیا
فریب مستی کے بدلے تم کو
سزا بھی سن لو شدید دیں گے
۔
عروج پر ھے تمھارا موسم
خزاں میں تم کو خرید لیں گے
واہ بھئ واہ اب جلدی سے بتا دے یہ شعر کس کے لیے تھا۔۔
نہیں بس کل کہیں یہ غزل سنی تھی تو بس ذہن میں آگئ۔۔۔۔۔
اوکے اب دوبارہ کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔
اس بار بوتل ارمان کے پاس رکھی تھی۔۔
ٹرتھ یا ڈیئر ۔۔۔۔
ڈیئر ہے اور ڈیئر مے میں شعر سناونگا۔۔۔
ہاں ہمیں پتا ہے تو شعر ہی سنائے گا۔۔۔
“اجازت ہو تو معصوم سی خطا کرلوں۔
تیرے ملنے کی رب سے دعا کرلوں۔
عرصہ ہوا کوئی غزل نہیں لکھی میں نے۔
تھوڑا مسکراؤ تو اپنی غزل کی ابتداء کر لوں”
یار بھائ یہ کون سا شعر سنایا مزہ نہی آیا۔۔۔ارحم منہ بنا کے بولا۔۔۔
یہ شعر نہیں ہے یہ اجازت طلب کی ہے کسی سے۔۔
بھائ یہاں تم کس سے اجازت لے رہے ہو۔۔۔سب ہی تمہارے شعر کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔اب سناو۔۔۔۔
ارمان نے آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیا
اگر میں تم سے کچھ مانگوں؟
اگر میں تم سے یوں بولوں؟
اگر میری تمنا ہو؟
میرے دل کی یہ خواہش ہو؟
کہ؟۔۔۔
زندگی میں جب کبھی تم کو پکاروں میں؟
تمہارا ساتھ چاہوں میں؟
تمہارے پیار کی تھوڑی سی جو خیرات مانگوں میں؟
تو؟۔
وصل کے ان خوابیدہ لمحوں میں
تم۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بانٹ لو گے ناں؟
ہمارا ساتھ دو گے ناں؟۔۔۔۔
اوئےےےے محفل لوٹ لی ارمان تم نے کیا غزل سنائ ہے۔۔۔۔واہ واہ واہ بھئ واہ۔۔۔
راحم جوشیلے انداز میں بولا۔۔۔
“ہماری شاعری پر تو لوگ واہ واہ کرتے ہیں
تو سوچو وہ کیسا ہوگا
جس کی خاطر ہم شاعری کرتے ہیں”
اس کا بھی دل مچل رہا ہوگا بھائ۔۔۔
اب نیکسٹ۔۔۔
اب کے بار بوتل زوجاجہ پہ رکھی تھی۔۔۔
زوجی اب تمہاری باری
ٹرتھ یا ڈیئر ۔۔۔۔۔۔۔ٹرتھ۔۔۔۔
اوکےتو آپ یہ بتائیں کہ آپ علی سے کتنی محبت کرتی ہیں۔۔۔۔
کاش تم سمجھ پاتے
کتنا چاہا ہےتم کو
کس قدر محبت ہے
کس قدر ضرورت ہے
کاش تم سمجھ پاتے
جان یہ تمہاری ہے
ہر خوشی تمہاری ہے
دل لگی تمھی سے ہے
“کاش تم سمجھ پاتے۔۔۔۔!!!”
روح کی ضرورت ہو
میری تم محبت ہو۔۔۔!!
اوئےےےے بھابھی یہ علی کے لیے تھا نہ ۔۔۔
یار ویسے آج سب شعر سنا رہے ہیں بھئ سب کو ارمان کی لت تو نہیں لگ گئ۔۔۔۔آج سب ایک دوسرے کی محبت کا جواب اپنی شاعری سے دے رہے ہیں۔۔۔۔
ارحم علی کو دیکھ کے بولا۔۔۔
اچھا آگے شروع کرتے ہیں ۔۔۔
اب کہ بار بوتل اجالا کے پاس رکھی۔۔۔۔
ٹرتھ یا ڈیئر ۔۔۔۔۔۔
۔ڈیئر۔۔۔۔۔۔
اجالا نے آنکھیں بند کر کے ارمان کو اپنے تصور میں لیا۔۔۔
تم نے اقرار مانگا ہے۔۔۔۔
تو سنو۔۔۔۔۔۔!!
دل کے سچے جذبے۔۔۔
اظہار کے محتاج نہیں ہوتے۔۔۔
یہ تو وہ جذبے ہیں۔۔۔
جو جگنو بن کر۔۔۔
آنکهوں میں چمکتے ہیں۔۔۔
ہونٹوں کے نرم گوشوں میں رہ کر۔۔
دل میں بستے ہیں۔۔۔۔
اجالا آنکھیں بند کیے غزل سنا رہی تھی ارمان پلک جھپکائے اجالا کی غزل کے ایک ایک حرف کو سن رہا تھا۔۔۔۔
تم مجھ میں اس طرح سمائے ہو۔۔۔
کہ جیسے۔۔۔
تاروں میں چمک۔۔۔
تتلی میں رنگ۔۔۔
میرا تمہارا رشتہ اٹوٹ ہے۔۔۔۔
جو جڑا رہے تو زندگی۔۔۔۔۔
ٹوٹ جائے تو موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اجالااااااااااا۔۔۔اجالا کی غزل ختم ہونے کی دیر تھی پاس بیٹھی ثوبیہ چلائ۔۔۔۔یہ یہ غزل کس کے لیے تھی سچ سچ بتانا ورانہ مجھ سے پٹو گی۔۔
اجالا ثوبیہ کے چلانے سے گھبرا گئ تھی۔۔۔
کیا ہو گیا بس ایسے ہی کہیں سنی تھی تو سنا دی۔۔۔تم بھی بلاوجہ شک کر رہی ہو۔۔۔۔
اُف یہ حَسین موسم اوپر سے تیرا اندازِ عشق۔،
آج تو لگتا ہے پیار کی بارش ہونے والی ہے۔!
ارمان نے ہلکی آواز میں شعر پڑھا جسے پاس بیٹھے جنید نے سن لیا تھا
اوئےےےےے بھاگو دادی جاگ گئ ہیں میں ابھی ابھی دادی کو دیکھ کے آرہا ہوں ۔۔۔۔
ارحم چلا کے اوپر آیا۔۔۔
سب دادی کے ڈر سے نیچے بھاگ گئے جبکہ ارمان یونہی سر جھکائے بیٹھا ابھی تک اجالا کی غزل میں گم تھا۔۔۔۔
ابے اسکے سحر سے نکل نیچے چل دادی اٹھ گئی ہیں۔۔۔ارحم ارمان کو ہلا رہا تھا لیکن ارمان ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔۔
میں اس کے سحر سے نکلو گا تو مٹ جاو گا —
اس نے تعویز عشق نگاهوں سے پلائی ہے مجھے —
یا اللہ یہ خود بھی مرے گا مجھے بھی مروائے گا کی تو بھاگوں نیچے۔۔۔۔۔
ارحم ارمان کو وہیں چھوڑ کے نیچے بھاگ گیا۔۔
ارمان اٹھ جا یار دیر ہو رہی ہے آج کتنا سوئے گا۔۔۔۔
علی ارمان کو اٹھا رہا تھا جو ٹس سے مس بھی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
اٹھ اٹھ تیری تو۔۔۔علی جاں بوجھ کے ارمان کے اوپر گرا۔۔۔
ہاں یار اٹھ گیا ۔۔ارمان اٹھ کے بیٹھ گیا پتا تھا جب تک ارمان نہ اٹھ جائے سب اسے یوں ہی اٹھاتے رہیں گے۔۔۔
بھائ جا فریش ہو کے آ جس کسی کے بھی خیال میں ہے نا نکل آ نیچے ابو انتظار کر رہے ہیں انہوں نے بھی آج ہمارے ساتھ آفس جانا ہے۔۔۔۔۔
خیالِ یار میں مجھ کو____ یونہی مدہوش رہنے دو
* نہ پوچھو رات کا قصہ___ ، مجھے خاموش رہنے دو۔۔
جا ارحم تو واشروم چلا جا یہ اسی طرح مردہ پڑا رے گا تو بلاوجہ ٹائم ضائع نہ کر۔۔۔۔
اور تو اگر اپنی خوابوں کی محبوبہ کے خیال سے نکل آئے نہ تو آفس آجانا ہم وہیں تیرا انتظار کر لیں گے۔۔۔خدا حافظ ۔۔علی اتنا کہہ کے نیچے چلا گیا۔۔۔۔
************♡**********