(Last Updated On: )
“امی اسے روکیں پلیز!”
“اسے اسطرح نہیں جانا چاہئے۔”
“امی! مجهے معافی مانگنی نہیں آتی”
“اسے کہیں نا کہ مجهے معاف کردے۔”
“اسے کہیں نا کہ مجهے چهوڑ کر نہ جائے۔”ان کے بهی آنسو رواں دواں تهے۔ ان سے بهی اس کی یہ حالت دیکهی نہیں جاتی تهی۔
“اسے روکیں نا امی!”
“امی۔۔ امی ۔۔ ام۔۔ام۔۔ی”
اچانک سے گرنے کی آواز آئی سب اس کی طرف دوڑ پڑے۔
♡ ♡ “کوئی اس کو اٹهائے۔ یہ تو بے ہوش پڑا ہے۔”اس کے اردگرد مجمع جمع ہو چکا تها۔ مجمع سے ہی آواز آئی تهی۔
“پیچهے ہٹو سب!” ایک رعبدار آواز گونجی۔ وہ اس کی طرف ہی آرہی تهی۔
“کسی کے پاس پانی ہے؟”سوال کیا گیا۔
“جی میرے پاس ہے۔” جواب کے ساتھ ہی پانی پکڑا بهی دیا گیا۔
اس نے یہ پانی بے ہوش پڑے ارمغان پر انڈیل دیا۔
” ار۔۔ار۔۔ارے ۔۔ یہ کیا کر رہی ہو؟”وہ ہکلانے لگا۔
“شاباش! اب اٹهو سر جنید کا لیکچر شروع ہونے والا ہے اٹھ کر لو۔”وہ رعبدار انداز سے بولی۔
“ایک تو سر جنید اور یہ ان کی چمچی۔ دونوں آرام سے سونے نہیں دیتے۔”وہ بےزار سے انداز میں گویا ہوا۔
“آرام ہی نہیں بلکہ سو بهی سکتا ہے مگر گهر جا کر یہاں نہیں یہ یونیورسٹی ہے گهر نہیں۔”وہ پهر سے بولی۔
“اٹهتا ہوں اب بس بهی کرو اپنا لیکچر ابهی سر جنید کو بهی سننا ہے۔” وہ مزید بے زاری دکهانے لگا۔
اٹهو! نہیں تو اور پانی لا کر تمہیں یہیں نہلا دوں گی۔”اس نے گویا دهمکی دی۔
“اچها! اچها! چلتا ہوں تم کہاں سکون کرنے دو گی۔” اس نے اٹهنے میں ہی عافیت جانی۔ کیونکہ اس سے کچھ بعید نہ تها کہ جو کہہ رہی تهی وہ کر بهی گزرتی۔
آہستہ اہستہ رش کم ہونے لگا۔ مگر وہ وہیں تهی۔ وہ اسکو دیکھ کر مسکرائی۔وہ بهی مسکرا دیا تو وہ چلدی۔
♡ ♡
ارمغان!کہاں ہو؟ ارمنہ کی آوازآئی۔
یہیں ہوں ٹی وی لائونج میں آجائو۔”ارمغان نے وہیں سے آواز لگائی۔
“تم نے میرے نوٹس لئے تهے کہاں ہیں ابهی تک واپس نہیں کئے۔ تم نے ۔”اس نے آتے ہی اس کی خبر لی۔
“کونسے نوٹس؟” اس نے ڈرامائی انداز اپنایا۔
“ارمغان! میرے سر شاہد والے نوٹس جو تم نے مجھ سے پرسوں لئے تهے اب واپس کرو۔”اس نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
“ارمنہ ڈئیر تمہیں پتہ ہے نہ میری یادداشت تهوڑی کمزور ہے اسے تقویت بخشنے کے لئے تمہیں کچھ کرنا پڑے گا۔” اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔
“بتائو کیا خدمت کر سکتی ہوں میں تمہاری؟”وہ بے بسی کی تصویر بنی اس کو دیکھ رہی تهی کہ اب کونسا نیا حکم نامہ جاری ہوتا ہے۔
“ہممم اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ چلو جلدی سے کل کی اسائنمنٹ تیار کر کے دو مجهے۔”وہ مزے سے بولا۔
“کیا تم نے پهر اسائنمنٹ نہیں بنائی۔ یا خدا کب عقل آئے گی اس کو۔”وہ اب پچهتا رہی تهی اس وقت کو جب اس نے اس کو اپنے نوٹس دئے۔
“اچها بنا دوں گی اب اسطرح کی عجیب و غریب شکلیں بنا کر مجهے نہ دیکهو۔کبهی پہلے نهی بتا دیا کرو مجهے۔”وہ اسکو سمجهانے لگی۔
“مجهے پتا ہے کہ تم نے مجهے عین وقت پر بهی بنا دینی ہے تو پہلے کیا بتانا۔”اس نے گویا ناک سے مکهی اڑائی۔
اچها کل یونیورسٹی جانے سے پہلے مجھ سے لے لینا۔”وہ بولی۔
“اچها جناب جو حکم آپ کا۔”وہ سر کو خم دے کر بولا تو وہ ہنس دی۔
♡ ♡
ارمغان احمد اپنے والدین کی پہلی اولاد تها۔ اسکے والد شعبہ ہائے تدریس سے منسلک رہے اور اب ریٹائرڈ ہو چکے تهے۔اسکی ماں کا نام امبر تها جوکہایک گهریلوخاتون تهیں۔وہ بہت نفیس اور اچهی خاتون تهیں۔ ان کی تربیت کا ہی نتیجہ تها کہ ارمغان احمد اپنی تمام تر شرارتوں کے باوجودہرکسی کی عزت کرتاتها۔یہی وجہ تهی کہ وہ ہر دل عزیع بهی تها۔
ارمغان احمد میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تها۔جبکہ اس سے چهوٹے بہن بهائیوں میں اسکے بعد آئمہ تهی۔جوکہ انجینئیرنگ کے دوسرے سال میں تهی۔اس سے چهوٹاعاشرتها۔جوکہ ایف ایس سی پری میڈیکل کا طالبعلم تهااور آگے چل کر ارمغان کی طرح ڈاکٹرہی بننا چاہتا تها۔سب سے چهوٹی نائمہ تہی جو سب کی لای بهی تهی۔جو کہ 9th کلاس کی طالبعلم تهی۔
مغیث احمد کے چهوٹے بهائی اشعر احمد صاحب تهے۔ جو کہ ایک کامیاب بزنس مین تهے۔ ان کی زوجہ سائرہ بیگم تهیں جو کہ امبر کیطرح گهریلو خاتون تهیں اور انکی دیورانی ہونے کےساتھ ساتھ بہترین دوست بهی تهیں۔دونوں کی شادی بهی اکٹهے ہی ہوئی۔
اشعر اور سائرہ کی سب سے پہلی اولاد ارمنہ تهی جو کہ ارمغان کے ساتھ میڈیکل کی طالبہ تهی۔
ارمنہ کے بعد ان کی ایک بیٹی تهی جو کہ بی ایس آنرز کر رہی تهی۔ میتهیمیٹکس میں۔اس سے چهوٹا زیغم تها جوکہ ایف ایس سی پری انجینئیرنگ کر رہا تها اور پڑهائی میں آئمہ کی مدد لیتا تها۔
زیغم سے چهوٹی حیات تهی جو کہ سب سے زیادہ شرارتی تهی۔ ارمنہ اکثر اسے کہتی کہ تم تو ارمغان کا پر تو ہو۔
♡ ♡
سائرہ بیگم بہت جلد اشعر صاحب کو داغ مفارقت دے گئیں جبکہ ابهی ارمنہ محض 13 برس کی تهی۔انکی بیماری کے باعث ارمنہ اور ارمغان کا نکاح محض 11 برس کی عمر میں ہی کر دیا گیا۔
ارمنہ اس سے محض 3 ماہ بڑی تهی جسکا رعب ہمیشہ وہ اس پر رکهتی تهی۔
ارمغان بهی پهر اپنے نام کا ایک تها۔سارے بدلے اس سے نوٹس بنوا کر یا اسائنمنٹ بنوا کر پورے کر لیتا تها۔مگر وہ یہ نہیں جانتا تها کہ وہ اس کے کہنے سے پہلے اپنی اسائنمنٹ که ساتھ اسکی بهی ہمیشہ تیار کردیتی تهی۔مگر اسکو خبر نہیں ہونے دیتی تهی۔
جب اسکو ضرورت ہوتی تهوڑے نخروں کے بعد اس کو دے دیتی۔ ارمنہ کے دل میں جانے انجانے میں اس کے لئے محبت بڑهتی جا رہی تهی۔ارمغان جیسا لاابالی شخص اسکی محبت کو نہ سمجه سکا تها۔اب وہ دونوں میڈیکل کے آخری سال میں تهے۔ پڑهائی کے بعد ارمنہ کی رخصتی عمل میں لائی جانی تهی
“یار !اسکا نمبر چاہئے۔”وہ اپنے ہی دهیان میں تها۔
“یار مشکل کام ہے جلدی ہاتھ نہیں آتی۔” وہ بولا۔
“تو بس نمبر لا کے دے باقی کام میں دیکھ لوں گا۔”وہ اب بهی اسی کو سوچے جا رہا تها۔
‘تم صرف میرخ ہو صرف میری۔۔۔’اس نے اپنے خیالوں میں اسکو مخاطب کر کے کہا۔
“چل اب آٹھ چل کر لیکچر لیں نہیں تو ڈانٹ پکی ہے۔”دونوں قہقہہ لگا کہ ہنس پڑے۔
♡ ♡
“”ارمنہ بیٹا!”سائرہ بیگم نے اسکو آواز دی۔
“جی امی جان!”وہ دوڑی چلی آئی۔کمرے میں موجود نفوس کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی۔
اسکی امی کے کمرے میں اسکے امی ابو کے علاوہ تایا تائی اور پهپهو بهی موجود تهیں۔ وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوئی۔
سائرہ بیگم پیار سے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئےگویاہوئیں۔
“میری بیٹی سکول سے آکر تهک گئی ہو گی؟” انہوں نے استفسار کیا۔
“جی امی آج بہت تهک گئی ہوں۔کهانا کهالیاآپ نے بیٹا؟” انہوں نے پهر پوچها۔
“جی امی!”وہ بولی۔
“میری بیٹی بہت سمجهدارہے ناں!”
“جی امی! بہت۔”
“تو امی کی جان امی کی بات بهی مانے گی نہ؟” انہوں نے بہت مان سے اس سے سوال۔کیا۔
“جی امی آپ حکم تو کریں۔”وہ بهی پیار بهرے اندازمیں انکا مان بڑهانے لگی۔
“آپکو پتہ ہے نا کہ آپکی امی جان بہت بیمار رہتی ہیں۔”اب کہ اس کے بڑے ابو بولے۔
جی بڑے ابو!”
“تو اپنی بیمارماں کی ایک خواہش پوری کرو گی۔”وہ بولے۔
کیسی خواہش بڑے ابو؟”اس نے استفسار کیا۔
“ہم سب چاہتے ہیں کہ تمہارااورارمغان کا نکاح کر دیا جائے۔آپکی امی کی خواہش ہے کہ وہ آپکو ایک بار اپنی زندگی میں دلہن بنے دیکهنا چاہتی ہیں۔”وہ دکهی لہجے میں بولے۔
“وہ تو ٹهیک ہے بڑے ابو مگر میری امی کو کچھ نہیں ہو گا۔”وہ دکهی لہجے میں بولی۔
سب کی آنکهوں سے آنسو نکل پڑے۔
اسی شام وہ ارمنہ ااشعر سے ارمنہ ارمغان بن گئی۔
آگے قدرت خو کیا منظور تها کوئی نہیں جانتا تها۔
♡ ♡