“مجھے تمہاری ان فضول باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔اور تم مجھے سمجھاؤ گی اب کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔۔مجھے تم سے ہرگز یہ امید نہیں تھی۔۔کہ تم یوں اس طرح میرے ارمانوں کا خون کروگی۔۔میری محبت کا یہ صلہ دو گی۔۔۔کس دین کی بات کررہی ہوں تم وہ لوگ خود غلط راہ پر ہیں اور ہمیں غلط کہتے ہیں۔۔۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے واپس آجاؤ ان گمراہیوں سے نکل کر یہ تمہارا جینا حرام کردیں گیں۔۔۔بھگوان تمہیں معاف نہیں کریں گے۔۔۔نور جب بول چکی تو ویشال صاحب نے ایک بار پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔وہ اپنی بیٹی کو کھونے سے ڈر رہے تھے۔۔۔”
“ڈیڈ گمراہیوں میں تو میں پہلے جی رہی تھی۔۔آپ نے سچ کا کہا گمراہیوں میں جینا حرام ہے۔۔۔آپ جانتے ہیں ان بائیس سالوں میں کل کی رات میں سکون سے سو سکی ہوں ان بائیس سالوں میں میں نے اتنا سکون کبھی محسوس نہیں کیا جتنا کل کیا ہے کیونکہ کل رات میں نے اس کا انتخاب کیا جو اس دنیا کا نظام چلا رہا ہے۔۔اور اور رہی بھگوان کی بات تو وہ محض ایک پھتر ہے اس کے علاوہ کچھ نہی۔۔
“نور ہے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔ویشال صاحب نے ایک زور دار تھپٹر اس کے چہرے ہی زینت بنا دیا۔۔۔”
“ایک لفظ نہیں۔۔۔بہت سن لی تمہاری یہ بکواس اور نہیں۔۔۔اگر یہی تمہارا آخری فیصلہ تو پھر چلی جاؤ یہاں سے اور کبھی اپنی شکل نے دیکھانا مجھے۔۔جن سے سیکھ کر آئی ہو سب ان کے پاس جا کر رہو۔۔۔بہت جلد تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا لیکن جب وقت تمہارے ہاتھوں سے نکل چکا ہوگا۔۔۔چلی جاؤ یہاں سے نینا آئی سیڈ گیٹ آؤٹ۔۔۔
“نور بےیقینی کے عالم میں ویشال صاحب کو دیکھ رہی تھی۔۔جن کا بس نہیں چل رہا تھا وہ نور کا قتل کردیں۔۔۔”
“ڈیڈ آپ میری بات سمجھ۔۔
“مجھے ڈیڈ کہنے کا حق اب تم کھو چکی ہو۔۔۔وہ نور کی بات کاٹتے ہوئے درشتی سے بولے۔۔۔”
“آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔۔۔”
“اس گھر کی کسی چیز پر بھی اب تمہارا حق نہیں رہا۔۔۔”
“نور آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے اپنا سامان لینے جارہی تھی۔۔۔جب ویشال صاحب کی پیچھے سے گرج دار آواز آئی۔۔۔”
“نور نے مڑ کر شکوہ کن نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر آنسو پیتی ہوئی تیزی سے گھر سے نکل گئی۔۔۔”
“ویشال صاحب سر ہاتھوں میں گرا کر صوفے پر بیٹھ گئے۔۔۔انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں اپنی زندگی میں کبھی کوئی ایسا دن دیکھنا پڑے گا۔۔۔”
“انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں انہوں ڈیڈ کہنے کا حق کھو چکی ہوں۔۔انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اپنی بیٹی پر جس سے وہ سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔۔۔میں نے ہمیشہ ان کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت پیار عزت دیکھی ہے لیکن آج ان کی آنکھوں میں بس نفرت تھی۔۔ان کی نفرت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔۔میں کیسے سمجھاؤ ان کو یہ وہ غلط راہ پر ہیں۔۔۔وہ نہیں سمجھ رہے ہیں میری بات کو انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا اور کہاں کبھی شکل نے دیکھانا کیا انہیں ان کا جھوٹا دین مجھ سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔؟
“نور کی ہچکیاں بندھ گئی۔۔۔”
“نور میری بات یاد ہے۔۔میں نے کہا تھا اللہ اپنے پیارے بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔۔اور وہ ہر ایک کو ہدایت نہیں دیتا بسں وہ کچھ خاص ہوتے ہیں جن کو وہ چنتا ہے اپنی عبادت کے لیے۔۔۔اور تم ہو وہ خاص۔۔۔اسحاق صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔”
“تو کیا پھر اللہ میرے موم اینڈ ڈیڈ کو جہنم میں ڈال دیں گے۔۔۔کیونکہ وہ تو ان کو نہیں مانتے۔۔۔نور نے سر اٹھایا اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔”
“یہ تو اللہ کے کام ہیں اور وہی بہتر جانتا ہے یہ بھی تو ہوسکتا ہے۔۔اللہ پاک کو تمہارے ماں باپ کی کوئی بات پسند آجائے اور وہ انہیں بھی ایمان سے نواز دے۔۔۔اسحاق صاحب ہولے سے مسکرائے۔۔۔”
“اگر ڈیڈ کی کوئی بات اللہ کو پسند نہیں آئی تو میں کہاں جاؤں گی۔۔میرے پاس تو کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔۔۔نور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔”
“فکر مت کرو کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اسے تسلی دی۔۔۔۔”
“نور کی اس بات پر وہ تھوڑے فکرمند ہوگئے تھے وہ نور کا یہاں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ اس کو اپنے گھر بھی نہیں رکھے سکتے تھے۔۔کیونکہ ان کے گھر میں کوئی عورت نہیں تھی۔۔اور انہیں ایسے رکھنا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔روز کچھ دیر کے لیے آنے میں اور مستقل رہنے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔وہ اسی پریشانی میں مبتلا تھے جب نین نے انہیں مخاطب کیا۔۔۔”
“ماموں میری بات سنئیے گا زرا۔۔۔
“چلو میں آرہا ہوں۔۔اسحاق صاحب نے کہا تو نین سر ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔”
“پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔انہوں نے نور کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔۔اور وہاں سے چلے گئے۔۔۔”
“نور دل ہی دل میں اللہ سے مدد مانگنے لگی۔۔۔”
“نکاح۔۔۔کیا تم واقع سنجیدہ ہو۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نین کی بات پر حیران ہوئے۔۔۔”
“جی میں سنجیدہ ہوں۔۔اور یہ میں کسی ہمدردی کی وجہ سے نہیں کررہا۔۔۔
“نین نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔۔۔”
“پھر۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے پوچھا۔۔۔”
“میں محبت کرنے لگا ہوں اس سے اور بس ایک جائز طریقے سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں اسے۔۔۔نین نے صاف گوئی سے کہا۔۔۔”
“کیا وہ واقف ہے اس بات سے۔۔۔؟
“اسحاق صاحب سنجیدگی سے بولے۔۔۔”
“نہیں۔۔۔نین نے جواب دیا۔۔۔”
“تم واقع سنجیدہ ہو۔۔؟
“انہوں نے دل کی تسلی کے لیے پوچھا۔۔۔”
“جی۔۔۔نین نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔”
“ٹھیک ہے میں بات کرونگا اس سے اگر وہ مان گئی تو ٹھیک ہے ورنہ میں زبردستی نہیں کرسکتا۔۔۔اسحاق صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔نین مسکرانے لگا۔۔۔”
“مجھے انکل نے بتایا آپ کی پیشکش کے بارے میں۔۔۔اسحاق صاحب نے نور سے نکاح کے بارے میں بات کی تو اس نے پہلے خود نین سے بات کرنا مناسب سمجھا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ نکاح وہ اس پر ترس کھا کر کرے۔۔۔”
“پھر آپ نے کیا سوچا۔۔۔؟
“نین نے ایک نظر اسے دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔۔۔”
“مجھے آپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کہیں یہ سب مجھ پر ترس کھا کر تو۔۔۔نہیں کررہے کیونکہ میں نہیں چاہتی آپ میری وجہ سے اپنی زندگی برباد کریں۔۔۔نور بنا کسی تمہید کے بولی۔۔”
“نہیں میں کوئی ترس کھا کر یا ہمدردی کرکے آپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتا جو بات ہے میں وہ ماموں کو بتا چکا ہوں اگر آپ چاہے تو میں آپ کو بھی بتا سکتا ہوں۔۔۔نین نے آخری جملہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”
“نہیں ابھی اس کی ضرورت نہیں۔۔۔نور تیزی سے بولی۔۔”
“نین مسکرانے لگا۔۔۔”
“پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا۔۔؟
“میری ممانی جان کہتی تھی کہ مشرقی لڑکیوں کی خاموشی کا مطلب ہاں ہوتا ہے۔۔۔کیا میں آپ کی خاموشی کو ہاں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد نین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”
“نور ہنس دی۔۔۔”
“مبارک ہو۔۔۔نکاح کے بعد نین کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔۔۔”
“آپ کو بھی۔۔۔نور نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔”
“نور میں ایک سیدھا سادہ سا انسان ہوں۔۔۔اور تم سے پہلے میری زندگی میں کوئی نہیں آیا۔۔کیونکہ میں سوچتا تھا کہ مجھ پر صرف اس کا حق ہوگا جس کو اللہ نے میرے لیے چن رکھا ہوگا۔۔اور اللہ کا انتخاب تم ہو اور آج سے صرف تمہارا ہی حق ہے مجھ پر۔۔نور رشتے نازک ڈور کی مانند ہوتے ہیں زرا سی غلط فہمی پر ٹوٹ جاتے ہیں۔۔انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔۔۔کبھی بھی کوئی بھی بات ہو کوئی بھی تم سے کہے تو ایک بار مجھ سے اس بات کی تصدیق کرلینا کیونکہ اکثر وہ سب سچ نہیں ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں یا ان رہے ہوتے ہیں۔۔مجھے امید ہے تم اس ڈور کو ٹوٹنے نہیں دو گی۔۔۔نین نے اس کا ہاتھ تھام کر قدرے نرم لہجے میں کہا۔۔۔”
“نور نے سر اثبات میں ہلادیا۔۔”
“میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے۔۔۔نین کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔۔۔”
“نور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اب کمرے میں موجود الماری کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔”
“یہ تمہارے لیے۔۔۔۔ایک بیگ اس کی جانب بڑھایا۔۔”
“اس میں کیا ہے۔۔؟۔۔۔۔نور نے پوچھا۔۔”
“خود دیکھ لو۔۔۔نین مسکرایا۔۔”
“نور نے وہ بیگ کھولا تو اس میں ایک سیاہ رنگ کا عبایا تھا اور ایک مہرون کلر کے غلاف میں خوبصورت سا قرآن پاک لپیٹا ہوا رکھا تھا۔۔۔”
“نین یہ بہت پیارا ہے۔۔۔نور خوشی سے بولی۔۔۔”
“مجھے اس سے بہتر تحفہ نہیں ملا تمہارے لیے۔۔۔نین محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔”
“شکریہ۔۔۔واقع یہ بہت خوبصورت ہے۔۔۔نور اب قرآن پاک کھول کر دیکھ رہی تھی۔۔۔”
“شکریہ کہ ضرورت نہیں۔۔نین بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔”
“مگر مجھے یہ پڑھنا نہیں آتا۔۔۔نور اداس ہوئی۔۔۔”
“میں ہوں نا۔۔۔تو فکر کیسی۔۔۔نین نے مسکرا کر کہا۔۔۔”
“نور دل میں اللہ کا شکر ادا کررہی تھی کہ اللہ نے اسے ایک بہترین ساتھی سے نوازا بے شک جب وہ کچھ لیتا ہے تو اس سے بہتر چیز سے نوازتا ہے۔۔۔”
“نینا۔۔۔
“نینا نہیں نور العین۔۔۔نور نے پوجا کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے کہا۔۔۔”
“تم کرنا کیا چاہتی ہو یار تم جانتی بھی ہو انکل آنٹی تمہیں لے کر کتنے پریشان ہیں۔۔میں نے انکل کو کل سے زیادہ پریشان کبھی نہیں دیکھا پلیز سمجھو تم ایک ایسی چیز کے پیچھے جارہی ہو جسں کو وجود ہی نہیں ہے۔۔۔پوجا تیز لہجے میں بولی۔۔۔”
“اس کا وجود ہے بس تمہارے پاس وہ آنکھ نہیں ہے وہ دل نہیں ہے جس سے تم اسے دیکھ سکو اور محسوس کرسکو۔۔۔۔نور ترکی بہ ترکی بولی۔۔۔”
“تم خود کو برباد کررہی ہو۔۔پوجا کی آواز بلند تھی۔۔۔”
“میں خود کو برباد نہیں آباد کررہی ہوں۔۔۔نور نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔”
“نکل آؤ اس سب سے وہاں گھٹن ہے بہت تم نہیں رہ سکوں گی۔۔۔پوجا نے پھر سے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔”
“گھٹن نہیں ہے وہاں اللہ ہے۔۔۔نور کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔”
“کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔اچھا یار آنٹی سے بات کرلو وہ پریشان ہیں بہت۔۔۔پوجا جنھجھلا کر کہا۔۔۔”
“یہ لو۔۔کال اٹینڈ کرلی ہے انہوں نے۔۔۔پوجا نے فون اس کی جانب بڑھایا۔۔۔”
“پوجا میں کیا سن رہی ہوں۔۔۔سندھیا بیگم تیز لہجے میں بولیں۔۔۔”
“جو سنا ہے آپ نے سب سچ ہے۔۔۔نور اطمینان سے بولی۔۔”
“تمہارا دماغ ٹھیک ہے پاگل ہوگئی ہو۔۔۔وہ چلائیں۔۔۔”
“نہیں میرا دماغ بلکل ٹھیک ہے ماما آپ لوگ میری بات کو سمجھے آپ جس راہ پر ہیں وہ غلط ہے۔۔۔نور انہیں سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔”
“اب تم ہمیں سمجھاؤ گی کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔۔۔خود کو برباد مت کرو۔۔۔اگر یونہی چلتا رہا تو تم خود کو برباد کرلو گی۔۔کچھ نہیں رہے گا تمہارے پاس یہ دنیا بہت ظالم ہے اکیلی لڑکی کا جینا مشکل ہے یہاں سنبھل جاؤ۔۔۔۔ورنہ تمہارے ڈیڈی تمہیں جائیداد سے عاق کردیں گے۔انہوں نے اسے ڈرانا چاہا۔۔۔”
“میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گی۔۔۔کردیں جو کرنا ہے مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔اور میں اکیلی نہیں ہوں۔۔۔نور مستحکم لہجے میں بولی۔۔۔”
“کیا مطلب اکیلی نہیں ہو۔۔؟۔۔سندھیا بیگم ناسمجھی سے بولیں۔۔۔”
“مطلب کہ میں نے نکاح کرلیا ہے اور سب سے بڑھ کر میرا اللہ میرے ساتھ ہے دعا ہے وہ آپ کو بھی ہدایت دے اور نیک راہ پر چلائے۔۔۔نور نے اطمینان سے کہا۔۔۔”
“ٹھیک ہے پھر مر چکی ہو تم آج سے ہمارے لیے اور ہم تمہارے لئے آئندہ رابطے کی کوشش نے کرنا جو ہمارے مذہب کا نہیں وہ ہمارا نہیں۔۔۔سندھیا بیگم نے غصے سے فون بند کردیا۔۔”
“نور کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔۔۔۔”
“تمہیں زرا بھی افسوس نہیں ہے جو تم کررہی ہو یا جو کرچکی ہو اور کس سے نکاح کرلیا تم نے اتنی جلدی۔۔۔تم مزاق کررہی ہو۔۔؟
“پوجا حیران ہوئی۔۔۔”
“نہیں ہے افسوس اور میں کوئی مزاق نہیں کررہی۔۔۔نور نے آنکھوں کی نمی کو چھپاتے ہوئے جواب دیا۔۔”
“کس سے نکاح کیا تم نے۔۔۔؟
“پوجا حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔”
“ذالقرنین سے۔۔۔نور نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔”
“ایلا کا کز۔۔۔
“ہاں۔۔۔پوجا کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے جواب دے دیا۔۔۔اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔”
“پوجا حیرت سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔۔۔”
“نکاح۔۔نین۔کے ساتھ۔۔۔ایلا وہاں سے گزر رہی تھی جب اس کے کانوں سے نور کی آواز ٹکرائی۔۔۔اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکے گی۔۔۔”
“ایلا۔۔تم کیا ہوا ایسے کیوں کھڑی ہو۔۔۔کچھ ہوا ہے۔۔؟
“پوجا نے ایلا کو دیکھا تو بےاختیار پوچھ بیٹھی۔۔۔”
“ٹھیک ہوں۔۔میں۔۔۔ایلا چونک کر بولی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔”
“نجانے کیا ہوگیا ہے سب کو۔۔؟۔۔۔پوجا نے شانے اچکائے اور کلاس میں چلی گئی۔۔۔”