ایتھنز سے دو سو میل شمال کی جانب مقام اسٹاگیرا (Stagira) ارسطو کی جنم بھومی ہے۔ ارسطو کا باپ نکوماشش (Nicomachus) شعبہ طب سے وابستہ ایک متمول شخص تھا اور مقدونیہ کے بادشاہ ’ایمن ٹاس (Amyntas III of Macedon) کا ذاتی معالج تھا۔ سال 2020 میں ارسطو کی پیدائش کو دو ہزار چار سو چار سال بیت گئے مگر آج بھی قدیم یونانی فکر و فلسفہ کے اس انتہائی معتبر اور موقر نمائندے کے عالمی ادبیات اور فلسفے پر اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
ارسطو نے طب کی ابتدائی تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی۔ جب ارسطو کی عمر محض تیرہ سال تھی ارسطو کی والدہ اور والد کا انتقال ہو گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ارسطو ایتھنز پہنچا اور افلاطون اکیڈمی میں افلاطون کا شاگرد بن گیا۔ پیہم بیس برس تک ارسطو نے افلاطون سے فلسفے کے شعبے میں اکتساب فیض کیا۔ ایتھنز کی معاشرتی زندگی کے اسرار و رموز ارسطو کی دلچسپی کا محور تھے۔ افلاطون نے اپنے ہونہار شاگرد ارسطو کی صلاحیتوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُسے ’ذہانت مجسم‘ اور اس کے مکان کو ’پڑھنے والے کا گھر‘ قرار دیا۔ اپنے یتیم شاگرد ارسطو کی تعلیم و تربیت میں افلاطون نے گہری دلچسپی لی۔ مقدونیہ کے بادشاہ فلپ (Philip II of Macedon) نے اپنے بیٹے سکندر (Alexander III of Macedon) کی تعلیم و تربیت کے لیے ارسطو کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔ سولہ سال کی عمر تک سکندر مسلسل ارسطو کی نگرانی میں تعلیمی مدارج طے کرتا رہا۔ اپنے باپ فلپ کے قتل کے بعد BC 336 میں سکندر نے عنان اقتدار سنبھالی تو اس نے نہایت فیاضی سے کام لیتے ہوئے ارسطو کی قدر افزائی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ارسطو نے اس پر سکون ماحول میں اپنا علمی و ادبی کام جاری رکھا قدیم یونانی فلسفی سقراط (Socrates B. 470 BC, D. 399 BC) کے شاگرد اور ایتھنز کے ممتاز فلسفی اور مفکر افلاطون (Plato: B. 429 BC, D. 348 BC) نے تخلیق فن کے لمحوں میں نقالی، تخلیق ادب کے مقاصد اور اس کی نوعیت اور ادب پاروں کی ہمہ گیر نوعیت کی وسعت اور جامعیت پر خیال افروز مباحث کا آغاز کیا۔ افلاطون کی وفات کے بعد ارسطو نے افلاطون اکیڈمی کو خیر باد کہہ دیا۔ ترپن سال کی عمر میں ارسطو نے لائی سم (Lyceum) کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی جہاں نیچرل سائنس، فلسفہ، علم و ادب، حیاتیات اور علوم و فنون پر تحقیقی کام ہوتا تھا۔ ارسطو (Aristotle BC 384322 – ) کو اس بنا پر تنقید کا بنیاد گزار قرار دیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی وقیع تصانیف ’بوطیقا‘ (Poetics) اور ’رطوریقا‘ (Rhetoric) یعنی فن خطابت میں اپنے استاد افلاطون کے فن کے بارے میں پیش کردہ مباحث جن میں فن کو ’نقل‘ کہنا شامل ہے سے اختلاف کرتے ہوئے اُسے ایک منضبط اور مربوط فکری نظام کے قالب میں ڈھالا۔ ارسطو نے تاریخ ادب میں سب سے پہلے فلسفہ کو جن مختلف شاخوں میں تقسیم کیا ان میں منطق، ما بعد الطبیعات، فطری فلسفہ، اذہان کا فلسفہ، سیاسیات، علم بیان اور اخلاقیات شامل ہیں۔ شاعری کے فن اور نوعیت کے بارے میں اپنی تصنیف ’بوطیقا‘ میں ارسطو نے ان مقاصد کا ذکر کیا ہے جنھیں ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں پیشِ نظر رکھتا ہے۔ دیارِ مغرب میں پروان چڑھنے والی شعری و ادبی روایت کے سوتے ارسطو کی تصنیف ’بوطیقا‘ ،ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ عربی اور فارسی شعر و ادب کی روایت کو بلند آہنگ عطا کرنے میں خطابت، فصاحت اور بلاغت کے اہم موضوع پر ارسطو کی تصنیف ’رطوریقا‘ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تخیل کا انسلاک اُن مشاہدات سے ہے جو سرحدِ حسیات سے آگے نکل کر مظاہر کے باطن میں پنہاں تعلق کے بارے میں آگہی سے متمتع کرنے کا وسیلہ ہیں۔ تنقید میں تخیل کی اہمیت مسلمہ ہے ان خیالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کار فصاحتِ کلام کے اعجاز سے قارئین ادب کے فکر و خیال کو اس طرح مہمیز کرتا ہے کہ وہ تخلیق کار کے اشہبِ قلم کی جولانیوں اور ادب پارے میں پنہاں گنجینۂ معانی کے طلسم کے تمام حقائق کو جان لیتا ہے۔ فصاحت کے معجز نما اثر سے تخلیق کار اور قاری کے مابین ایک معتبر ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار بلاغت کے اعجاز سے کم سے کم الفاظ میں زیادہ وسیع موضوعات، مفاہیم اور مطالب کو پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے۔ بلاغت کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ کلام اقتضائے حال سے مطابقت رکھتا ہے اور اختصار اور جامعیت اس کے امتیازی اوصاف ہیں۔ کلام میں نہ اس قدر اختصار ہو کہ مدعا ہی عنقا ہو جائے اور نہ شیطان کی آنت جیسی طوالت کہ بیزار کن اکتاہٹ بلائے جان بن جائے۔ بلاغت کے فن میں تخیل و استدلال کی احسن ترتیب یعنی منطق اور درست الفاظ کے بر محل استعمال یعنی صرف و نحو کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
افلاطون نے مطالعۂ فن اور مطالعۂ اخلاق کو ایک ہی چیز قرار دیا جب کہ ارسطو نے اپنی تصنیف ’بوطیقا‘ میں اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے مدلل جواب میں ان کی جداگانہ حیثیت کو اُجاگر کیا۔ ارسطو نے ادب میں جمالیات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جمالیاتی اصول وضع کیے جن کے اعجاز سے تخلیقی عمل کو منضبط کرنے میں مدد ملی۔ ارسطو نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ جب کسی بھی تخلیقی فن پارے کے محاسن کا معاملہ ہو تو ان کا تعلق جمالیات سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
اپنے حقیقی مفہوم کے مطابق یہاں استعمال ہونے والے الفاظ خوب، اور خوب تر اخلاقیات کے بجائے جمالیات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
ادبی اور نظری تنقید پر اپنی نوعیت کی دنیاکی سب سے پہلی کتاب کی حیثیت سے ارسطو کی تصنیف ’بوطیقا‘ کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے مغرب میں ارسطاطلیسی مکتبۂ فکر (Aristotelian thought) کو رو بہ عمل لانے والے اسے فلسفہ میں ارسطو کی روایت کے حوالے سے ’Aristotelianism‘ کہتے ہیں۔ ارسطو نے ادب اورفنون لطیفہ سے متعلق علوم جن تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اُن میں تخلیقی علوم، نظری علوم اور عملی علوم شامل ہیں۔ ارسطو نے تخلیقی علوم میں شاعری اور خطابت، نظری علوم میں طبیعات، مابعد الطبیعات اور ریاضی جب کہ عملی علوم میں اخلاقیات اورسیاسیات کو شامل کیا ہے۔ ارسطو کی تصنیف ’بوطیقا‘ کا پہلا حصہ چھبیس ابواب پر مشتمل ہے جن میں المیہ کا بیان غالب ہے۔ ’بوطیقا‘ کا دوسرے حصے کا موضوع طربیہ تھا مگر یہ حصہ ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب چکا ہے اور اب اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ اپنی تصنیف ’بوطیقا‘ میں ارسطو نے جن اہم ترین بنیادی اصطلاحات پر توجہ مرکوز رکھی ہے ان میں نقل، پلاٹ، سقم، تزکیہ نفس اور آفاقیت نمایاں ہیں۔ ارسطو کی تصنیف ’بوطیقا‘ کے مختلف ابو اب میں شامل موضوعات کی تفصیل درج ذیل ہے:
باب نمبر ایک تا باب نمبر پانچ: شاعری کی اصناف اور تخلیقِ فن کے مدارج، انتقاد ادب کے اصول اور ان کے پس پردہ کار فرما عوامل کا نفسیاتی پس منظر، المیہ اور طربیہ کے مسائل
باب نمبر چھے تا باب نمبر اُنیس: المیہ کی تعریف، المیہ کے عناصر اور المیہ کے اہم موضوعات
باب نمبر بیس تا باب نمبر بائیس: شاعری کے لسانی حوالے
باب نمبر تئیس تا باب نمبر چھبیس: تخلیقِ شعر اور نقد و نظر کے مسائل
ارسطو کے بحر علم کی غواصی کرتے وقت بوطیقا کا مطالعہ کرتے وقت قاری کچھ تشنگی سی محسوس کرتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ غنائیہ شاعری کو ارسطو نے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔
۲۔ ارسطو نے بوطیقا میں رزمیہ اور طربیہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے وقت اختصار سے کام لیا ہے۔ اس جہان معانی سے اس کا سرسری انداز میں گزر جانا حیران کن ہے۔
۳۔ بوطیقا میں اقلیم شعر کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی گئی بل کہ صرف المیہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
۴۔ اپنے عہد کے تعصبات کی اسیری نے ارسطو کے اسلوب کو متاثر کیا۔
۵۔ المیہ کے موضوع پر ارسطو نے جس طرح سیرحاصل بحث کی ہے اس کے نتیجے میں تخلیق فن کے متعدد محرکات نظر انداز ہو گئے۔ ادبی تاریخ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس پید ہونے لگا کہ یہ انداز فکر اقتضائے وقت کے مطابق نہ تھا۔
۶۔ لیسنگ (Lessing) نے کہا تھا کہ قارئین کو چاہیے کہ وہ ارسطو کو سمجھنے کے لیے ارسطو کے حوالے ہی کو معتبر سمھیں۔
۷۔ بوطیقا میں اصطلاح ’تقلید‘ کو ارسطو نے کئی مقامات پر استعمال کیا ہے۔ ہر بار اس اصطلاح کا موقع و محل اور مفاہیم و مطالب کا متغیر ہو جانا قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
ارسطو کا طریقِ کار
۱۔ ارسطو نے تخلیقِ شعر کے بارے میں پایا جانے والا الہامی اور وجدانی تصور لائقِ استرداد ٹھہرایا۔
۲۔ ارسطو نے اس بات پر زور دیا کہ ادب میں استقرائی، تجزیاتی اور سائنسی طریق کار کورو بہ عمل لانے کی مساعی پر توجہ دی جائے۔
۳۔ فارم کے اعتبار سے تخلیقِ شعر کو ارسطو نے انسانی فطرت کے اہم تقاضے سے تعبیر کیا۔
۴۔ ارسطو نے اس بات سے اتفاق کیا کہ فطری طور پر انسان میں نقالی یا تقلید کا مادہ موجود ہوتا ہے۔
۵۔ ارسطو کا خیال ہے کہ فلسفہ کے مانند شاعری بھی انسانی حیرت اور استعجاب کو تحریک دینے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے۔
۶۔ اپنے منطقی مزاج کی بنا پر ارسطو نے یہ واضح کیا کہ اس عالمِ آب و گِل کے مظاہر اور مختلف اشیا کی اصلیت اور جوہر کی تفہیم کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ ان سب کی ارتقائی کڑیوں کابہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے۔
۷۔ ادبی مسائل کا تاریخی اور حیاتیاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کرنے کے سلسلے میں ارسطو کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے۔
جہاں تک ارسطو کی فکری اساس کا تعلق ہے اس کے بارے میں اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ تقلید کی اصطلاح جسے ارسطو نے معنوی وسعت عطا کی یہ قدیم یونانی مفکرین کے ہاں مستعمل رہی ہے۔ افلاطون نے بھی تقلید کے بارے میں خیال افروز مباحث کا سلسلہ جاری رکھا۔ ارسطو نے تقلید کی اصلاح اسی فکری منہاج پر استوار کی جو ماضی کی روایت کا حصہ رہیں۔
۲۔ ارسطو کا خیال تھا کہ تخلیقی علوم کے قواعد و ضوابط کو آفاقی صداقتوں کی اساس پر استوار کرنا بعید از قیاس ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ارسطو نے شاعری کے لیے آفاقی نوعیت کے قوانین کی تشکیل کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔
۳۔ ارسطو نے اپنی تصنیف ’بوطیقا‘ میں جن ہمہ گیر اصولوں کا ذکر کیا ہے اُن کے سوتے فطرت کی عکاسی کرنے والے ادب سے پھُوٹتے ہیں۔ ان اصولوں کی ہمہ گیر افادیت ہر عہد میں مسلمہ رہی ہے۔
شاعری کی ماہیت کے بارے میں ارسطو نے درج ذیل امور کی صراحت کی ہے:
۱۔ ارسطو نے تخلیق فن کے لمحوں میں عمل تقلید کی بات کی ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ عمل تقلید انی نوعیت کے اعتبار سے تخلیقِ نو سے مماثلت رکھتا ہے۔
۲۔ شاعرانہ عمل ایک تخلیق کار کی وسعت نظر اور تخلیقی بصیرت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے شاعری کو محض مظاہر کائنات سے وابستہ حقائق اور واقعات کی نقالی قرار نہیں دیاجا سکتا۔
۳۔ ارسطو نے شاعری کو وسیع تر معانی عطا کیے۔ وہ شاعری کو نہ تو محض تقلید اور نقالی سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے فریب نظر، وہم و گماں اورسراب قرار دیتا ہے۔
تاریخ کے مسلسل عمل اور شاعری کے حوالے سے ارسطو نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ درج ذیل ہیں: ۔
۱۔ ہر عہد کی بڑی شاعری اپنی ہمہ گیری، آفاقیت اور آفاقی صداقتوں کی ترجمانی کی بنا پر روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے۔
۲۔ اپنی تاثیر کے اعتبار سے بڑی شاعری اس عالم آب و گِل کے تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ ایسی شاعری کو زمان و مکان کے حصار میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔
۳۔ فلسفہ اور شاعری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کا مطمح نظر ایک ہے اس لیے ان میں تضاد کا کوئی تصور نہیں۔ فلسفہ اور شاعری کی منزل مقصود ایک ہے۔ دونوں کائناتی اور آفاقی صداقتوں کی جستجو کے لیے انہماک کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
ارسطو کے نزدیک ادب ور فنون لطیفہ کے لیے جمالیاتی عنصر کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ بڑی شاعری کے لیے جمالیاتی عنصر کی موجودگی ناگزیر ہے۔ بڑی شاعری میں جہاں تک اخلاقی عنصر کا تعلق ہے یہ اضافی اور ثانوی نوعیت رکھتا ہے۔ عمل تقلید اور فطرت کے موضوع پر ارسطو نے واضح کیا ہے کہ فن ہمیشہ فطرت کی تقلید کو شعار بناتا ہے۔ اس انگارۂ خاکی نے سدا تقلید کے معروض میں عمل پیرا ہوتے ہوئے تخلیق فن کو مطمح نظر بنایا ہے۔ مشابہت اور نقالی کی اشیا میں سدا فعال انسان ہی شامل رہے ہیں۔ بہار اور خزاں کے سیکڑوں مناظر میں اخلاق اور کردار کے اعتبار سے انسان کے متعدد رُوپ ہیں جن میں بلند، پست، ہمدرد اور بے درد شامل ہیں۔ ارسطو کا خیال ہے کہ انسانوں کا طرزِ عمل ہی ان کے امتیازی اوصاف کا تعین کرتا ہے۔
اِس بے ثبات عالمِ آب و گِل میں انسان کی حیات مستعار معروض تقلید (Object Of Imitation) کے سوا کیا ہے۔ معمولی سی آب جُو کو بحرِبے کراں، قطرے کوآبِ رواں ذرے کو آب وتاب عطا کر کے خورشید جہاں تاب کی تمازت عطا کرنے والی اشہبِ قلم کی جولانی اور فکر و خیال کو مہمیز کرنے والی تحریک تخلیق (Inspiration) ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے۔ اسی کے اعجاز سے گل دستۂ معانی کو نیا ڈھنگ اور ایک گلِ تر کا مضمون سورنگ سے باندھنے کا قرینہ نصیب ہوتا ہے۔ ارسطو نے شاعری کو تقلید (Imitation) ایک صورت قرار دیتے ہوئے اس کی جو چار صورتیں پیش کی ہیں ان میں رزمیہ، المیہ، طربیہ اور غنائیہ شامل ہیں۔ ارسطو نے ’بوطیقا‘ ا میں شاعری کی ماہیت اور تزکیہ نفس کے موضوع پر خیال افروز مباحث کا آغاز کیا۔ ارسطو کی مساعی سے شعر و ادب کی تحسین کے متعدد در وا ہوتے چلے گئے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ حساس تخلیق کار کی تخلیقی فعالیت سے اشعار سے نمو پانے والے جذباتی تاثرات ان خوابیدہ جذبات کو ایسی تمازت سے متمتع کرتے ہیں جواظہار کی نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اپنی روانی کے لیے راہ نہ پانے کی صورت میں ندی نالے جب چڑھنے لگتے ہیں تو سب رکاوٹوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ اسی طرح بڑھتے ہوئے جذبات بھی اپنے اخراج کے لیے موزوں صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ جذبات کے اس انداز میں اخراج کے عمل کو ارسطو نے تزکیۂ نفس (Catharsis) سے تعبیر کیا ہے۔ حبس کے ماحول میں انسان شدید گھٹن اور اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب متاعِ لوح و قلم چھین لی جائے اور لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے جائیں تو قیامت کے اس دکھ میں ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر جذبات کا اظہار نہ ہو سکے تو ہر طرف مرگِ ناگہانی کا آسیب منڈلانے لگتا ہے۔ تزکیہ نفس کا تعلق اخلاقیات سے زیادہ نفسیات سے ہے۔ شاعر تخلیق فن کے لمحوں میں تزکیہ نفس کرتا ہے جب کہ قاری اس کی شاعری پڑھ کر اپنے جذبات کی تسکین اور تزکیہ نفس کی ممکنہ صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ پر جوش شاعری ہو یا برائے نام قافیہ پیمائی ہر صورت میں اظہار و ابلاغ کے لیے آہنگ و صوت کے موزوں معائر ناگزیر ہیں۔ اس قسم کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے احمدفراز نے کہا تھا:
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ارسطو نے اپنی کتاب ’بوطیقا‘ میں المیہ کے موضوع پر مدلل گفتگو کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ المیہ ایک ایسی فعالیت کی نقالی کا نام ہے جس میں جذبات کو پوری صداقت اور سنجیدگی کے ساتھ، ایک خاص حجم، مناسب آہنگ اور خلوص کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کیا جائے۔ ایک تخلیقی فن کار اپنے ذہن و ذکاوت کو رو بہ عمل لا کر المیہ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ایسے عمل کی تقلید کی سعی کرتا ہے جو اس کے دل پر اُترنے والے سب موسموں کے احوال سے مزین ہو۔ المیہ کا آغاز، وسط اور اختتام گہری معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ایک مرصع سازکی حیثیت سے المیہ نگار بیانیہ کے بجائے ایسا موثر ڈرامائی انداز اپناتا ہے جس میں ترحم اور اضطراب کی کیفیات سے جذبات کے تزکیہ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ ارسطو نے المیہ کے بارے میں لکھا ہے:
“Tragedy, then, is an imitation of an action that is serious, complete and of a certain magnitude; in language embellished with each kind of artistic ornament, the several kinds being found in separate parts of the play in the form of action, not of narrative; through pity and fear effective the proper purgation of these emotions.” (1)
المیہ افراد کی نہیں بل کہ زندگی کے افعال کی ایسی نقالی سے عبارت ہے جس کا انحصار کام کی وضع پر ہے نہ کہ کام کے معیار پر۔ خیال و کردار در اصل قدرتی اسباب ہیں جن سے افعال کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ان افعال کی کامیابی یا ناکامی پلاٹ کے ارتقا ئی مدارج میں شامل ہے۔ ارسطو نے المیہ کے چھے عناصر بیان کیے ہیں جن پر افعال کے معیار کا انحصار ہے۔
۱۔ پلاٹ (Plot)،
۲۔ کردار ((Character،
۳۔ خیال (Thought)،
۴۔ زبان (Diction)،
۵۔ نظارہ (Spectacle)، گیت سنگیت (Song)
ارسطو کے نزدیک المیہ کا اہم ترین اصول پلاٹ ہے اور یہی المیہ کی روح بھی ہے۔ پلاٹ کی ترتیب میں خارجی عوامل کے بجائے داخلی وحدت کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔ ارسطو نے پلاٹ کی سادہ اور پیچیدہ دو قسمیں بتائی ہیں۔ ایک ایسا کام جو واحد اور پیہم رواں ہو وہ سادہ کہلاتا ہے۔ ایسے پلاٹ میں مقدر کا بدلنا دنوں کے اُلٹ پھیرکی شناخت کی احتیاج نہیں رکھتا۔ پیچیدہ پلاٹ میں گردشِ ایام کے نتیجے میں تقدیروں کے بدلنے کا انسلاک تدبیروں اور نیّتوں کے اُلٹنے اور شناخت سے ہوتا ہے۔ شناخت کے بارے میں ارسطو نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ لاعلمی سے علم کی طرف لے جانے کا وسیلہ ہے۔ ابن الوقت، موقع پرست، مفاد پرست اور محسن کش سفہا کے مکر کی چالوں سے جب محبت میں ہوس اور حرص کی اسیری بڑھ جائے تو محبت بھی نفرت میں بدل جاتی ہے۔ ایسی محبت کے الم ناک انجام پر دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ المیہ کی شناخت میں انسانیت شناسی کلیدی کردار کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ ارسطو نے کام کے پیہم رواں دواں رہنے پر اصرار کیا ہے۔ ترکِ تعلقات بلا شبہ ایک المیہ ہے۔ اس کا احساس وقت گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔ آنسو روتا ہے اس میں انسانیت شناسی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پلاٹ کے آغاز، وسط اور اختتام میں توازن ناگزیر ہے۔ پلاٹ در اصل افعال کی نقالی کا نام ہے زندگی کے مختلف واقعات کو اس میں ترتیب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جس طرح کسی تصویر کے رنگ اسے خاص معنویت سے متمتع کرتے ہیں اسی طرح المیہ کے کردار ہیں جو المیہ کو مختلف رنگ عطا کرتے ہیں۔ ماہر مرصع ساز کی طرح المیہ نگار درپیش حالات کی مناسب انداز میں مرقع نگاری کر تے ہوئے ایسے کردار متعارف کراتا جو معاشرتی زندگی کے بارے میں تکلم کے سلسلوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کردار افعال کے ترک و انتخاب کے ذریعے ان اخلاقی مقاصد کی جانب متوجہ کرتے ہیں جو معاشرتی زندگی کو راحت اور مسرت سے معمور کر دیتے ہیں۔ المیہ نگار کا خیال سے معاملہ بہت اہم ہے۔ وادیِ خیال کا احوال اور مطالب کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے میں الفاظ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ حسین و دل کش مظاہر فطرت اور مناظر کے مشاہدے کی اپنی ایک خاص نوعیت کی جذبات کشش ہے جس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔
المیہ میں مختلف افعال کے تابع کرداروں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ نرغۂ اعد امیں کرداروں پر جو صدمے گزرتے ہیں وہ ان سے اس قدر پریشان اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کی اُمید مرگِ ناگہاں پر منحصر رہتی ہے۔ کرداروں کی یہی قابل رحم حالت ان کی المیہ کیفیت کو سامنے لاتی ہے۔ ارسطو کاخیال ہے کہ کردار صرف اُسی صورت میں متاثر کرتے ہیں جب وہ کسی اچھے مقصد کے لیے سر گرم عمل ہوں۔ کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں شجاعت میراث میں ملتی ہے۔ اگر کردار زندگی کی حقیقی ترجمانی کریں تو المیہ کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ المیہ میں افراد کی نہیں بل کہ زندگی کے مختلف افعال کی نقالی کی جاتی ہے۔ زندگی افعال سے عبارت ہے اور اس کا اختتام بھی ایک فعل ہی ہے۔ یہ کردار ہی ہیں جو دار پر لٹک کر ہر وارسہتے ہیں اور المیہ کے بہاؤ میں ہمہ وقت بہتے ہیں۔ جس طرح مصور مختلف رنگوں کی آمیزش سے اپنی پسندیدہ تصویر کو جاذبِ نظر بناتا ہے اسی طرح المیہ نگار اپنے خاص کرداروں کو متعارف کر انے کے بعد اپنے اسلوب کو اثر آفرینی عطا کرتا ہے۔ اگر رنگ پر کشش نہ ہوں تو تصویر بالکل متاثر نہیں کرتی اسی طرح اگر کردار بے جان ہوں تو المیہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا بعید از قیاس ہے۔ المیہ میں رنگ، خوشبو، حسن و جمال، عروج و زوال اور جذباتی کیفیات کے سبھی استعارے کرداروں کے دم سے ہیں۔ المیہ نگار اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے قاری کو فکر و خیال کی ایسی وادی میں پہنچا دیتا ہے جہاں اِک گونہ بے خودی اُس کی منتظر ہوتی ہے نرغۂ اعدا میں انسان اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔ انتہائی خوف کے باعث اس کی زندگی قابلِ رحم ہو جاتی ہے۔ المیہ کی تفہیم کے حوالے سے یونانی دیومالا سے ماخوذ ایک واقعہ پیش ہے:
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
خبر مِلی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جِس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا (راحت اندوری)
یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے (Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea) کے بادشاہ پوئیاس (Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس (Philoctetes) کی بہادری، مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی۔ جادو کی کمان رکھنے والا وہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا۔ اس نے ہیری کلز (Heracles) کی آخری آرام گاہ کا راز فاش کر دیا اور اس کی بد دعا سے ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسازخم لگا جو مندمل نہ ہو سکا۔ اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے۔ شہر کے لوگوں کی نفرتوں، حقارتوں اور عداوتوں سے عاجز آ کر وہ روپوش ہو گیا۔ کینہ پرور اور حاسد اس لیے اس مہم جو کے خون کے پیاسے تھے کہ وہ جنگ تورجان (Torjan War) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیر حاصل کرنا چاہتے تھے جو فیلو ککٹس کو ہیری کلز نے دی تھی۔ اُس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈ نکالا۔ سگمنڈ فرائڈ اور کارل مارکس پر کام کرنے والے اپنے عہد کے ممتاز امریکی ادیب، نقاد اور دانش ور ایڈ منڈولسن (Edmund Wilson: 1895-1972) نے اپنی کتاب زخم اور کمان(The wound and the bow) میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من (: 1875-1955 Thomas Mann ) کے اسلوب میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتا ہے۔
ایک تخلیق کار اپنے تخیل کو متعدد نئی جہات سے آشنا کرتا ہے، یہ خیال ہی ہے جو کسی چیز کے وجود یا عدم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ المیہ میں وہ ممکنہ حد تک یہ دیکھتا ہے کہ حالات و واقعات کی مناسبت سے اظہار و ابلاغ کی صورت تلاش کی جائے۔ گفتگو اور تکلم کے سلسلوں کا تعلق بھی خیال سے ہے۔ طے شدہ معائر اور مسلمہ اصولوں کا برملا اعلان خیال کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ مفاہیم، مطالب اور مدعا کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں کسی بھی زبان کے الفاظ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ المیہ نگار کے اسلوب میں یہی وہ جوہر ہے جو نظم و نثر کی تخلیقات کو روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے ثروت مند بنانے کا وسیلہ ہے۔ اسلوب کی زیب و زینت میں موسیقیت و ترنم کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ نالے کو پابند نے کرنا ہی تخلیق کار کا کمال ہے۔ نظارے کی اپنی ہی بات ہے جس کی جذباتی کشش پتھروں سے اپنی تاثیر کا لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لفظی مرقع نگاری سے ایسا نظارہ منصۂ شہود پر آتا ہے کہ قاری چشمِ تصورسے المیہ سے وابستہ واقعات اور مقامات دیکھ لیتا ہے۔ یہ تصنع سے بَری ہے اور اس کا احساس سے گہرا تعلق ہے۔
المیہ میں جب تدبیریں اُلٹی ہو جاتی ہیں، قسمت کی لکیریں بدل جاتی ہیں، تقدیریں بگڑ جاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے تواس میں قارئین کاتجسس بڑھنے لگتا ہے۔ نو آبادیاتی دور میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ (1797-1869) نے اپنے ان اشعار میں پریشاں نظری کی مظہر شبیہ سازی اور مشاہدے کے بارے میں حقیقت پسندانہ انداز میں کہا ہے:
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کِس حساب میں
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
حکیم مومن خان مومن (1800-1851) نے کہا تھا:
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
ارسطو نے واضح کیا ہے کہ المیہ ہمیشہ اچھے حالات کے بعد خراب حالات پیدا ہونے کا نام ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد جب روزمرہ زندگی کے معمولات درہم برہم ہو جائیں اور یاس و ہراس کے ہجوم میں سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جائے تو اسے ایک المیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ المیہ کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ اس میں انسان کی اُس زبوں حالی، درماندگی اور بر گشتہ طالعی کا احوال مذکور ہوتا ہے جو پیمان شکنوں کی سادیت پسندی، محسن کش برادرانِ یوسف کی کینہ پروری، عادی دروغ گو سفہاکی انسان دشمنی یاخلوص کے بندوں کی اپنی ہی کسی انتہائی مہلک غلطی یاخطا کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ (1778-1848) نے انسانی زندگی کے اس المیے کے بارے میں کہا تھا:
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے
نہ پُوچھ عالمِ بر گشتہ طالعی آتشؔ
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
المیہ میں تاثیر، رنگ، خوبی اور حسن کے استعارے گیت، سنگیت اور موسیقیت کے مرہونِ منت ہیں۔ ذیل میں اردو کے ممتاز شاعر ندا فاضلی (1938-2016) کی ایک نظم سے اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جس میں المیہ کے سب عناصر پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ندا فاضلی کی اِس المیہ نظم میں حوالہ جاتی عنصر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ نظم کے حوالہ جاتی (Referential) پہلو کو پیشِ نظر رکھے بغیر قاری کے لیے اِس المیہ نظم کا حقیقی استحسان کرنا ممکن ہی نہیں۔ پس نو آبادیاتی دور میں قیام پاکستان کے وقت ندا فاضلی کا پورا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا لیکن ندا فاضلی نے تنہا ممبئی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ جب ان کے والد کا کراچی میں انتقال ہوا تو بر صغیر کے ان دونوں ہمسایہ ملکوں میں سرحدی کشیدگی کے باعث والد کے جنازے میں شامل ہونا بہت مشکل تھا۔ اس دنیا میں جب عزیز دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو تخلیق کار حرمتِ غم کے بارے میں اپنے جذبات کو پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں۔ اس سانحہ کو انھوں نے اپنی نظم ’’والد کی وفات پر‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
والد کی وفات پر (نظم)
تمھاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جھُوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہِل کے ٹُوٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ۔۔ ۔۔ وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں، ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جھُوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
ندا فاضلی اپنے احباب سے رشتۂ دِل استوار کر کے زندگی بھر محبتوں کے گل ہائے رنگ رنگ کھلاتے رہے لیکن ہوائے دشت فنا کے مسموم بگولے سب پھولوں کو اُڑا لے گئے۔ یہ المیہ زندگی کے حقائق کا مظہر ہے اور اس میں کوئی بات خلاف عقل نہیں ہے۔ تخلیق کار نے مستقل مزاجی کو شعار بناتے ہوئے اپنے جذبات کو اس المیے میں سمیٹا ہے۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے اسی لیے تو دما دم صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی ہے۔ ادب اور شاعری کی اقلیم میں رونما ہونے والے واقعات متعدد نئے امکانات سامنے لاتے ہیں۔ آفاقی صداقتوں کے مظہر بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کا وقوع پذیر ہونا منطقی اور امکانی اعتبار سے درست معلوم ہو۔ سانسوں کی صلیبوں پر لٹکتی ہوئی لاشیں دیکھ کر اس عہد کے انسان کی بے حسی اور بے بسی واضح ہو جاتی ہے۔ ارسطو نے اپنے نظریۂ امکانات میں سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے بارے میں لکھا ہے:
“According to the law of probability or necessity, will admit of a change from bad fortune to good, or from good fortune to bad.” (2)
المیہ نہ صرف کسی مکمل فعل کی نقالی پر مبنی ہوتا ہے بل کہ اس میں متعدد لرزہ خیز، خوفناک، اعصاب شکن اور قابلِ رحم حالات کی مرقع نگاری کی جاتی ہے۔ ان واقعات میں تجسس اور حیرت کی کیفیت المیہ کو مقاصد کی رفعت کے اعتبارسے ہم دوشِ ثریا کر دیتی ہے۔ جب زمین بھی دل کے مانند دھڑکنے لگے تو جان لینا چاہیے کہ یہ کسی حادثے کا انتباہ ہے۔ تغیر حالات اور زمانے کے اتفاقات کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات کو سامنے لانے والا المیہ پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔ انسان کی حباب اور سراب کی سی ہستی کا اقرار یا انکار کیسے ممکن ہے سچ تو یہ ہے کہ اس عالمِ نا پائیدار میں حیاتِ مستعار خواب میں گفتار کے مانند ہے۔ زندگی کا ساز بھی انوکھا ساز ہے جو ہمہ وقت بج رہا ہے مگر کوئی اس کی آواز پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔ عہد نا پرساں میں ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا ہے کسی کو حساس تخلیق کار کی چشمِ نم کی جانب دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ ممتاز پاکستانی شاعر جون ایلیا (1931-2002) نے حیات بے ثبات کے المیہ کے بارے میں سچ کہا تھا:
میرا سانس اُکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
مطالعۂ ادب کے شائقین یہ بات اکثر سنتے چلے آ رہے ہیں کہ تخلیق کار کو معاشرے کے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہی طرز عمل اپنا نا چاہیے جو اِقتضائے وقت کے عین مطابق ہو۔ یہ انداز فکر بہ جائے خود محلِ نظر ہے اس طرح تو تخلیقی عمل کو حدود و قیود میں محصور کر دیا جائے گا اور تخلیق کار کے افکار کی آزادانہ روانی کے سامنے بے جا قدغنوں کی سد سکندری حائل ہو جائے گی۔ متاعِ لوح و قلم چھیننے والے اس طرح حریت فکر کا علم تھام کر آگے بڑھنے والے ادیبوں کا گلا گھونٹ کر من مانے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ادب کو مفاد پرست استحصالی عناصر نے اپنا آلۂ کار بنا لیا تو مقاصد کے اعتبار سے ادب کو ہم دوش ثریا کرنے کی مساعی کبھی ثمر بار نہیں ہو سکتیں۔ ارسطو نے المیہ کے فعال کرداروں کی شناخت کے جو چار طریقے بتائے ان میں اشارات، اپنی مرضی کی شناخت، حافظہ اور مناظرہ شامل ہیں۔ ارسطو کے خیال میں شناخت وہی معتبر ہے جو واقعات سے نمو پائے۔ ارسطو نے لکھا ہے:
“But, of all the recognitions, the best is that which arises from the incidents themselves, where the starting discovery is made by natural means.” (3)
ارسطو نے بوطیقا میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ صرف وہی قابل قدر کردار قارئین کے ذوق سلیم کی تسکین کرتے ہیں جنھیں ارفع مقاصد کے حصول کی خاطر تخلیق کیا جاتا ہے۔ کلاسیک یونانی فلسفی سقراط (Socrates: B. 470 BC, D. 399 BC) سے بھی قدیم یونانی فلسفی پروٹاگورس (B: 486 BC, D: 411 BC، Protagoras) نے نویں یا آٹھویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے قدیم یونانی شاعر ہومر (Homer) کے الیڈ اور اوڈیسی (Iliad and the Odyssey) میں اسلوب پر جو اعتراضات کیے ارسطو نے وہ سب کے سب مسترد کر دئیے۔ ارسطو نیپروٹاگورس کی ہومر پر تنقید کو لفظوں کے اُلٹ پھیر کی مظہر ایسی حیلہ سازی قرار دیا جو حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ارسطو نے یونانی فلسفی سوفسٹ (Sophist) کے ان خیالات سے اتفاق کیا کہ شاعری کی جانچ پرکھ کے لیے ایسے ذوقِ سلیم کی احتیاج ہے جو تخلیق ادب کی اختصاصی مہارت اور فنی معائر پر کامل دسترس سے متمتع ہو۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ارسطو نے بتایا ہے کہ اگر شاعری میں خرد کی گتھیاں سلجھانے اور انسانیت کی فلاح کا عنصر شامل ہو تو یہ فطرت کا مسرور کن عطیہ ہے ورنہ یہ محض مجذوب کی بڑ بن کر رہ جاتی ہے۔ المیہ دردناک، قابل رحم یا اخلاقی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس کا وہی پیچیدہ روپ فکر و خیال کو مہمیز کرتا ہے جس میں حالات کی کایا پلٹ جانے کا احوال مذکور ہو۔ رحم، خوف، اشتعال اور پسند ایسے روّیے ہیں جو المیہ میں اپنا الگ رنگ دکھاتے ہیں۔ استعاراتی طوالت کے بارے میں تخلیق کار کو محتاط رہنا چاہیے۔ المیہ کے وقوع پذیر ہونے میں ہوشیار و عیار بد معاش، شاطر و مہم جُو حاسد، سفلہ سادیت پسند اور آستین کے سانپ نہایت تکلیف دہ روپ اپنا لیتے ہیں۔ ان کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنا انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح شاعری میں حقیقت نگاری بہت اہم ہے اسی طرح تنقید میں بھی حرفِ صداقت کا کلیدی کردار ہے۔ ارسطو نے واضح کیا کہ حساس نوعیت کی جسمانی کیفیات، ذہنی تشکیلات اور جذباتی مد و جزر فکر و خیال کواس طرح تحریک دیتا ہے کہ قافلۂ شوق نقد و نظر کے جہانِ تازہ کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ ارسطو نے تنقید کو تخلیق سے کم نہیں سمجھا اس کا خیال ہے کہ افراد کے لیے راحتوں، مسرتوں اور کامرانیوں کی جستجو میں تنقید اور تخلیق دونوں نے ہمیشہ جس انہماک کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کے ربط باہم کی دلیل ہے۔ تخلیق ادب کو کسی صورت میں بھی سرسری نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک تخلیق کار اپنے خون جگر سے گلشنِ ادب کو سیراب کرتا ہے تب کہیں نخلِ شعر پر برگ و بار کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ ایک ادب پارہ خواہ وہ محض معلوماتی نوعیت کے مواد پر منحصر ہو اس کی تخلیق کوئی سہل کام نہیں۔ اس کی تخلیق میں جو سخت مقام آتے ہیں اُن کا ادراک ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تنقید میں ذاتی پسند و ناپسند اور سیاسی مداخلت اسے اپنی منزل سے دُور لے جاتی ہے۔ اس قسم کا مسموم ماحول ستائش باہمی کو پروان چڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں تخلیقِ ادب کے صحت مند روّیوں کوشدید ضعف پہنچتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ ادبی تنقید کو شعاربنانے والوں کو اپنے طرزِ عمل پر ازسر نو غور کرنا چاہیے تا کہ وہ حقائق کو سرابوں سے نکالنے کی کوئی صورت پیدا کر سکیں۔
٭٭
مآخذ
1. Aristotle: The Poetics, Translated by S.H. Butcher, Macmillan and CO., London, 1902, Page 23
2. Aristotle: The Poetics, Translated by S.H. Butcher, Page 33
3. Aristotle: The Poetics, Translated by S.H. Butcher, Page 61
٭٭٭