علی میں کیا تیرا دوست نہی تھا۔نہی میں کیوں دوست لگا اگر دوست ہوتا تو بتاتا ہاں میں ہی پاگل تھا جو سمجھتا رہا کہ تو اپنی ہر بات مجھے بتاتا ہے۔ مگر نہی ۔حاذق بول رہا تھا۔
آج دوپہر مومنہ ایمن سے ارین کی شادی کے حوالے سے بات کرہی تھیں تو اسے معلوم ہوا۔
تو کس کی بات کرہا ہے؟؟جب وہ چپ ہوا تو وہ بولا۔
ہاں اب بن جا تو انجان ارین کی شادی کی بات کرہا ہوں۔اس نے غصے میں بولا۔
مجھے تو بتانا بھی کسی نے گوارا نہ کیا۔وہ دوبارہ بولا۔
آپ گھر پر رہیں تو معلوم ہو۔ہما نے اندر جھانکتے ہوۓ کہا۔
میں آجاؤں۔اس نے پوچھا۔
نہیں
ہاں
دونوں بیک وقت بولے۔
آجاؤ گڑیا۔علی بولا۔
شکریہ بھائ۔اس نے علی کو کہا۔
حاذق بھائ آپ کو اس لیے نہی پتا کیونکہ آپ گھر پر نہی تھے جب آۓ تب بھی بتایا تھا مگر آپکو موبائل سے فرصت ملے تو۔ہما نے اسے کہا جو اس کے اندر آتے ہی منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔
ابھی تک ناراض ہیں اچھااا نہ سوری۔ہما نے کان پکڑ کر کہا۔
کیا ہوا ہے؟یہ بندر ایسے منہ بنا کر کیوں بیھٹا ہے ؟علی نے پوچھا۔
اس کے پوچھنے پر ہما نے دوپہر کی ساری بات بتادی جس جو سن کر علی کا قہقہ بلند ہوا۔
ہما دفع ہو ادھرسے۔حاذق غصے میں بولا۔
ہما سہم کر کمرے سے نکل گئی۔
تیرا دماغ خراب ہے ابھی چھوٹی ہے اور تو نے اسے کس طرح بات کی۔
علی نے اسے بولا۔
تیرا غصہ تھا اس پر نکل گیا۔وہ بولا۔
کیا جاننا چاہتا ہے تو۔آخر اس نے ہار مانتے ہوۓ کہا۔
یہی کہ کل ارین کی شادی ہے اور تو اتنا مطمئن ہے۔
ارین میری محبت ہے یہ میں بھی جانتا ہوں اسے میں نے اسی رب سے مانگا ہے جس رب سے یعقوبؑ نے یوسفؑ کومانگا تھا اگر ارین میرے نصیب میں ہوری تو وہ مجھے مل جاتی وہ میرے نصیب میں تھی ہی نہی۔ہاں میں ناامید نہی ہوں مجھے میرے رب پر بھروسہ ہے کہ وہ مجھے بہترین عطا کرے گا۔اس نے کہا۔
حاذق اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
ﷲ تمہارے حق میں بہتر کرے۔وہ بولا
********************_،*،**********
کیا ہوا سوئ نہی ابھی تک۔حیا نے کمرے می جھانکتے ہوۓ کہا۔
نہی آج نیند نہیں آرہی۔ارین نے کہا۔
مجھے معلوم ہے۔جب آپ کی محبت آپ کو نہ ملے تو یونہی نیند نہی آیا کرتی۔اس نے کہا۔
اس کی بات سن کر وہ ایک منٹ کے لیے ٹھٹکی۔پھر بولی۔
کس حوالے سے بات کرہی ہو۔
مجھ سے چھپائیں مت میں جانتی ہوں آپ محبت کرتی ہیں علی بھائ سے۔حیا دوبارہ بولی۔
اس بات پر ی خاموش رہی۔
ارین اگر تم نے انکار کیوں نہی کیا ۔تم کرسکتی تھی۔
اس کی بات پر وہ مسکرائی۔
جانتی ہو جب بابا آۓ تھے نہ مجھ ست پوچھنے کے مجھے کوئ اعتراض تو نہی تو میرا دل چاہا کہ میں بابا کو بولو مجھے اعتراض ہے میں نہی کرنا چاہتی شادی نہی ۔مگر میں نے ایسا نہی کیا کیونکہ بابا کی آنکھوں میں وہ چمک تھی۔امید تھی کہ ان کی بیٹی انکا فیصلہ رد نہیں کرے گی۔جانتی ہو جب میں نے ہاں کی تو میرے بابا کا سینہ اور چوڑا ہوگیا۔ان کا سر فخر سے اور بلند ہوگیا۔شاید ان کو معلوم تھا کہ میں ان کا سر جھکنے نہی دونگی۔جانتی ہو والدین بیٹے کو محبت دیتے ہیں مگر بیٹی کو وہ احساس بھی دیتے۔تب میں نے سوچا میں انکار کرتی بھی کس کے لیے جس کو معلوم بھی نہ ہو کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔اسنے جواب دیا۔
ﷲ تمہارا نصیب اچھا کرے۔آمین۔حیا نے سچے دل سے کہا۔
***********************************
اگلے دن کا سورج نکل پڑا تھا آج ارین ہاشم نے ارین ارتضی ہوجانا۔۔
کیا واقعی ایسا ہونا تھا۔یہ تو صرف آنے والے وقت کو معلوم تھا۔
ہر طرف گہما گہمی تھی۔ہر کوئ مصروف تھا۔ناجانے اس کا دل کیوں گھبرارہا تھا کچھ غلط ہونے کا احساس دلارہا تھا۔ایسے میں نازش بیگم کمرے میں داخل ہوئیں ۔
ان جو دیکھ کر ارین کھڑی ہوگئی
ماں آپ آئیں۔اس نے اخترام سےکہا۔
بیٹا میں تماری سگی ماں تو نہی مگر میں نے کبھی تم میں اور علیزے میں فرق نہی کیا۔تین ہفتے کی تھی جب میری گود میں آئ تھی۔تب سے لے کر اب تک میں نے ہمیشہ تمہیں ماں کا پیار دیا لیکن اگر پھر بھی کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف کرنا۔
ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ ماں۔آپ نے تو سگی سے بھی بڑھ کر پیار کیا چاہا ہے اب ایسا کر کہ یہ تو محسوس نہ کرواۓ کہ میں سوتیلی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ ان کے گلے لگ گئی۔
میرا بچہ۔انھوں نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔
*************،،،،،،،*********””””””””*****'”
وہ ابھی ابھی روبائشہ کو گھر چھوڑ کر نکلا تھااب سے کچھ گھنٹوں بعد اس کا نکاح تھا۔اس نے highway کی جگہ شارٹ کٹ لیا تھا۔یہ ایک سنسان سڑک تھی یہاں دوردور تک کسی انسان کا وجود نہی تھا۔
وہ گنگناتے ہوۓ گاڑی چلا رہا تھا۔کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے کوئ ہے مگر وہم تھا مگر دوبارہ محسوس ہوا اس بار وہم نہی تھا اس نے جیسے ہی پیچھے دیکھا تو ایک خوبصورت دوشیزہ تھی۔وہ ڈر گیا۔اس آواز نہی نکل رہی تھی وہ اس کودیکھ کر مسکرائی اور بولی۔
“پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں”
اور قہقہ لگانے لگی۔
وہ خوفزدہ تھا۔ اس لڑکی نے آنکھوں سے آگے دیکھنے کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی اس نے آگے دیکھا تو سامنے ایک درخت تھا۔اس نے بریک لگانی چاہی مگر بریک فیل تھی۔اس نے پیچھے دیکھا تو کوئ بھی نہ تھا۔
کرو فون اب تک کیوں نہی آۓ وہ لوگ۔ابشام شاہ بولے۔
جی ابو کررہا ہوں مگر کوئ فون نہی اٹھا رہا۔ہاشم بولا۔
نکاح کا وقت سات بجے کا تھا اب نو بج گئے تھے مگر مراد اور اس کے گھر والوں کا کچھ اتا پتا نہی تھا۔
دوبارہ کرو ایک بار پھر۔انھوں نے کہا۔
جی ابو بیل جارہی ہے۔
کہا تھا نالائق کو آجانا اب فون بھی نہی اٹھارہا ہے۔مراد صاحب پریشانی سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔
بار بار ان کو ہاشم شاہ کا فون آررہا تھا۔
ڈیڈ آپ انکا فون اٹھا کر کہہ دیں کہ بھائ میٹنگ کے سلسلے میں باہر گئے ہوۓ ہیں۔رجا نے کہا۔
اس سے پہلے وہ کوئ جواب دیتے دوبارہ فون بجا۔
“ہاشم کالنگ” دیکھ کر انھوں نے فون پک کیا اور جو رجا نے کہا وہی بولا۔
اگر میٹنگ تھی تو دوپہر میں ہی بتادیتے اب کیوں بتارہے ہو سارے مہمان آچکے ہیں۔نہ تم فون اٹھا رہے تھے نہ ہی وہ۔ہاشم غصے میں بولے
میں بہت معزرت خواہ ہوں۔مگر میٹنگ ضروری تھی۔
ایسی بھی کیا ضروری میٹنگ تھی کہ نکاح والے دن بھی فرصت نہ ملی۔وہ دوبارہ بولے۔
وہ۔ان سے کوئ بات نہ بنی۔
دیکھو اگر تمارا بیٹا راضی نہ تھا تو نہ کرتے شادی ۔وہ غصے میں بولے اور اھلی بات سننے سے پہلے ہی فون کاٹ دیا۔
اور ساری بات ابشام شاہ کو بتادی۔
اب کیا کریں گے۔ حیدر بولے۔
ابشام شاہ نے لوگوں کی طرف دیکھا جو چہ مگوئیوں میں مصروف تھے۔
ﷲ مدد فرما۔
میرے اس حل ہے۔حاذق بولا۔جو کچھ پوچھنے کے لیے ان کے پاس آررہا تھا اور ان کی بات سن لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیار ہوجائیں قاضی صاحب آررہے ہیں۔ملازمہ نے جیسے ہی خبر دی اندر بیٹھی ارین کو سکون آیا کہ شکر ہے لڑکے والے آگۓ۔حیا نے اسے روایت کے مطابق دوپٹہ اوڑھایا۔قاضی صاحب آۓ اور نکاح پڑھانا شروع کیا۔
“سیدہ ارین شاہ ولد سید ہاشم شاہ آپ کا نکاح بعوض حق مہر تیس ہزار روپے سید علی شاہ ولد محسن شاہ سے کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے”
یہ کلمات سن کر ایک منٹ کے لیے وہ ساکت ہوگئی۔
کیا واقعی جو اس نے سنا وہ حقیقت تھی۔کیا اس کی دعائیں عرش معلٰی پرسن لی گئی تھیں۔
قاضی صاب نے دوبارہ نے دہراۓ تو وہ ہوش کی دنیا میں آئ۔
قبو۔قبول ہے۔اس کی زبان میں لڑکھڑاہٹ تھی۔وہاں کھڑے صرف دو لوگ ہی اس کی کیفیت سے آگاہ تھے۔
ایک حیا اور دوسرے ہاشم شاہ ۔
کل رات وہ کمرے میں جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ ارین اور حیا ابھی تک جاگ رہی ہیں وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھے۔ وہاں دروازے پر انھوں نے ان دونوو کی گفتگو سنی۔ارین کی باتیں سن کر ان کو خود پر فخر ہونے لگا۔مگر وہ مجبور تھے۔
******************************”**********
مبارک ہو بھائ اب ٹریٹ تیار رکھیو ۔حاذق گلے ملتے ہوۓ گیا۔
اببھی وہ لوگ نکاح سے فارغ ہوۓ تھے۔تبھی وہ آ ٹھپکا۔
ولیمے کا انتظار کر۔وہ بے نیازی سے بولا۔
کنجوس۔وہ منہ بناکر بولا
ویسے ارتضی کو ایسا نہی کرنا چاہیے تھا۔
ارے نکمے تجھے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس کی بدولت تجھے تیری محبت مل گئی اور تووو بیوقوف رہے گا۔اس نے ماتم کرتے ہوۓ کہا۔
ہمممممم۔وہ بس یہی کرسکا۔
ارین کا کیا ردعمل ہوگا۔اس نے دل میں سوچا۔
وہ کھڑکی پر کھڑی اس پار چاند کو دیکھ رہی تھی
اس کے ذہن میں ابھی تک دوپہر کا منظر تازہ تھا۔
قاضی صاحب ابھی ابھی نکاح پڑھواکر نکلے تھے کمرا بلکل خالی تھا۔وہ خالی ذہن بیٹھی تھی کہ اسے ہاشم شاہ کی آواز آئ۔
کیا گم ہو؟؟؟؟
کہیں نہی۔اس نے سنبھل کر جواب دیا۔
یہی سوچ رہی ہوں نہ کہ یہ سب کیسے ہوا بیٹا اگر میں حقیقت نہ جانرا ہوتا تو دوسروں کی طرح میرے لیے بھی بہت حیران کن بات ہوتی کہ وہ لوگ کیوں نہی آۓ مگر میں حقیقت سے واقف تھا۔ہاشم شاہ بولے ۔
کیسی حقیقت۔اس نے ناسمجھی سے کہا۔
بیٹا کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو وقتی طور پر آتیں ہیں وہ ہمارے لیے آزمائش ہوتی ہے ﷲ ہمیں آزماتا ہے۔ایک چاہ اس کی ہوتی ہے ایک چاہ بندے کی ہوتی ہے دونوں الگ ہوتیں ہیں وہ کہتا ہے اپنی مرضی میری مرضی میں ڈھال لو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔اس طرح ارتضی وقتی طور پر تماری زندگی میں آیا تھا لیکن تم ﷲ کی رضا میں راضی تھی اور ماں باپ کی خوشی میں بھی راضی تھی۔تماری یہ ادا رب جو اتنی پسند آگئی کہ اس نے تمہیں تماری محبت سے نوازدیا۔کل رات جب میں نے تماری اور حیا کی باتیں سنی تو مجھے پچھتاوا ہوا کہ میں باپ ہوکر بیٹی کو نہ سمجھ سکا لیکن تماری باتوں سے مجھے فخر ہوا اور میرے دل سے دعا نکلی کہ ﷲتمہیں ساری خوشیاں دے ۔ﷲ نے میری دعا قبول کرلی۔انھوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور چلے گئے۔
کیا سوچا جارہا ہے جناب۔حیا نے اسے پیچھے سے گلے لگایا اور کہا۔
کچھ نہی بس ایسے ہی سوچ دہی تھی کہ رب کتنا رحمن ہوتا ہے نہ اپنی بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازتا ہے اور ہمیں تب دیتا ہے جب ہمیں بلکل ناامید ہوچکے ہوتے ہیں۔
ہممممم۔اسی لیے کہتے ہیں کہ ناامید نہی ہونا چاہیے۔چلو آؤ آئسکریم کھاتے ہیں۔اس نے کہا۔
اس ٹائم۔ارین حیرت سے بولی۔
جی اس ٹائم۔وہ مزے سے بولی۔
*******””****************
فہام تم کیوں پریشان ہورہے ہو ڈیڈ آجکل بس بھائ کی وجہ سے پریشان ہیں وہ کل سے لاپتہ ہیں جیسے ہی سب نارمل ہوگا میں خود بات کرونگی۔
ہاں بابا اچھا اب یہ سب باتیں چھوڑو اور بتاؤ تم نے وہ کیا جو میں نے کہا۔
مقابل کی بات سن کر اس نے کہا۔
واووو یہ تو بہت اچھا ہوگا میں تم سے ہفتے کو ملونگی۔
اوکے باۓ باۓ۔
*******************************
آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتے ہوۓ اس نے اپنے آپ کو ہسپتال کے صاف ستھرے کمرے میں پایا۔
میں یہ کہاں ہوں۔ااس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
مارننگ سر ناؤ ہاؤ آر یو۔برس نے مسکراتے ہوۓ سوال کیا۔
یس بٹ میں ییاں کیسے اس نے اس سے سوال کیا۔
سر آپکا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا اتفاق سے ڈاکٹر صاب وہاں سے گزر رہے تھے تو وہی لاۓ آپ کو یہاں سے۔
کیسے ہو ینگ مین ۔۔ایک اڈھیر عمر ڈاکٹر مسکراتے ہوۓ داخل ہوا۔
فائن ۔اس نے اتنا ہی جواب دیا۔
ڈاکٹر نے اس سے اس کے گھر کا نمبر لیا اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد کے بعد اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کی ٹانگوں میں حرکت نہ ہوئی۔
اس نے حیران کن نظروں سے نرس کو دیکھا جو اس کو دیکھ کر نظریں ادھر ادھر کر رہی تھی۔
یہ کیا ہے؟؟؟اس نے ہوچھا سوری سر بٹ اب آپ کی ٹانگوں کی ہڈیاں بہت بری کنڈیشن میں تھیں۔لیکن آپ کے چلنے کی امید ہے۔سو آپ بھی ناامید نہ ہوں۔
یہ کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔
کچھ ہی دیر میں مراد وہاں پر موجود تھا ساتھ ہی اس کے ماموں زمیل حمدانی بھی تھے۔
جب مراد کو پتا چلا کہ اب اس کا بیٹا کبھی کھڑا نہی ہوسکے گا تو ایک منٹ کے لیے وہ سکتے میں چلے گئے۔
تم فکر مت کرو اگر اس کے لیے مجھے تمہیں دوسرے ملک بھی لے کر جانا پڑا تو جاونگا۔بہترین ڈاکٹرز سے علاج کرواو گا۔وہ اس کو تسلیاں دے رہے تھے۔
مگر وہ خاموش تھا اسے اس باتوں سے کوئ فرق نہی پر رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں یہ خبر سید ولا میں بھی پہنچ گئے۔گھر کے مرد آۓ تھے عیادت کے لیے آۓ تھے۔
ارین اور علی کے نکاح کا بھی بتایا جس پر مراد نے مبارک باد دی کیونکہ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
**********************************
ابھی وہ بستر پر لیٹا ہی تھا کہ اسے اس کی ٹانگ کے اوپر کچھ چلتا کوا محسوس ہوا جیسے ہی اس نے دیکھا تو وہ اچھل پڑا کیونکہ وہاں پر ایک چھپکلی تھی۔چھکلی اس کی کمزوری تھی جسے دیکھتے ہی وہ دنیا سے بیگانہ ہوگیا اور زور زور سے چلانے لگا اس کی آواز دن کر حاذق اندر آیا اس کی حالت دیکھ کر اس کی ہنسی آئ مگر وہ بروقت اپنی ہنسی کو دباگیا اور چھپکلی کو بستف سے اٹھا کر باہر پھنکنے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اچھل کود میں اس کا موبائل گر کر بند ہوگیا ہے اور اس کی سکرین پوری طرح سے خراب۔
او شٹ۔!!!!اس نے کہا۔
کیا ہوگیا اب ۔حاذق نے پوچھا۔
کچھ نہی یار موبائل خراب ہوگیا ہے کل ریپر ہونے کے لیے دونگا۔
چل ٹھیک ہے تب تک۔میرا فون یوز کرلینا۔حاذق بولا۔
اوکے ڈن۔اس نے کہا۔
*******”***””*********************
وہ کب سے فون کررہا تھا مگر نمبر بند جارہا تھا۔
علی فون اٹھالے۔
سر یہ ڈائری پیشنٹ کے سامان میں سے ملی ہے۔
ارحم نےڈائری کھولی اور اس میں سے جو نمبر سب سے پہلے تھا اس پر فون کیا جو کہ ایک غیر ملکی نمبر تھا۔
اور اطلاح دی۔
جس کو سن کر وہاں کے لوگوں پر قیامت ٹوٹ گئی۔
اور اس نے ڈائری پر موجود ایڈریس بھی ان جو بھیج دیا۔
*******************
ہزیل یہ کیا کہہ رہے ہو تم تمہیں معلوم۔بھی ہے کہ یہ سچ ہے کیا پتہ کسی نے تم سے مذاق کیا ہو۔
بہنا یہ سچ ہے کیوں کوئ ایسا مذاق کرے گا میں نےٹکٹس بک کروادی ہیں ہم۔کل وہاں جارہے ہیں۔
ہزیل نے اپنی روتی ہوئی بین کو ھلی لگا کر چپ کروایا غم گو اس کی بھی تھا مگر وک مرد تھا اسے رونا نہی تھا۔
*************************#**********
اچانک آدھی رات کو ان کی آنکھ کھل گئی۔پیاس کی شدت محسوس ہوئ تو سائیڈ ٹیبل سے جگ پکڑا تو دیکھا پانی نہی تھا پانی پینے کی غرص سے کچن میں گئیں تو دیکھا وہاں ایمن پہلگ سھ موجود تھی۔
کیا ہوا ؟؟؟ابھی تک سوئ نہی۔
نہی آنکھ کھل گئی تھی۔اس نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہا۔
کیا ہوا پریشان ہو۔مومنہ نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوۓ کہا۔
میں نے خواب میں دادی اور بھائ کو دیکھا مومنہ ہ دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹے تھے۔مومنہ کیوں مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ بہت برا ہوا ہےمیرا دل گھبرارہا ہے۔ایمن نے بتایا۔
کچھ نہی ہوگا۔ﷲ سب بہتر کرے گا۔مومنہ نے تسلی دی۔
مومنہ میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں جہاں میں بھائ اور دادی رہتے تھے۔اس نے کہا
ہاں کل دوپہر میں چلیں گے۔مومنہ نے کہا۔
*********************
ہزیل رانیہ اور عون پاکستان پہنچے اور مطلوبہ گھر میں پہنچے تو وہاں ارحم پہلے سے ہی موجود تھا۔
رانیہ تو میت سے لپٹ گئی۔
نہی نہی وہ نہی جاسکتے ان کو روکو ان جو بولو آنکھیں کھولیں کھولیں آنکھیں پلیز۔
رانیہ جان صبر کرو وہ ﷲ کی امانت تھے ﷲ نے ان کو لے لیا۔
تمارے آنسو ان کے لیے باعث تکلیف ہیں ان کے لیے دعا کرو کہ ان کا آخری سفر آسان ہو۔عون نے اسے پکڑ کر گلے سے لگایا۔
کیسے صبر کروں بھائ وہ اس کے گلے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔
آنکھیں تو ان دونوں کی بھی گیلی تھی آخر باپ بن کر پالا تھا ماجد خان نے ان تینوں کو۔
وہ ابھی ابھی آفس آیا تھا پیون نے اسے بتایا کہ لینڈ لائن پر ارحم صاحب کا فون آیا۔
اس نے اسے بتایا تو وہ بھی وہاں سے نکل پڑا۔
ورکرز کوکام بتاکر وہ بھی وہاں پہنچ گیا۔
آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔
مومنہ چلیں ۔ایمن نے مومنہ سے کہا۔
ابھی رک جاؤ شام میں چلیں گے۔مومنہ بولی۔
نہی مجھے ابھی جانا ہے تم۔ساتھ چل رہی ہو کہ نہی میں اکیلی بھی چلی جاؤ گی۔ایمن ضدی لہجے میں بولی۔
اچھا رکس پانچ منٹ میں آتی ہوں۔
کہاں جا رہی ہیں ۔ہما نے پوچھا۔
میرے گھر۔ایمن بولی۔
واوو ہم نے بھی جانا ہے۔وہ بولی۔
ٹھیک ہے حاذق کو بولے گاڑی نکالے تم بھی آجاؤ مومنہ بولی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...